Tag: اودھ

  • اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب اور ثقافت کے اُس عہد کے لیے تاریخ میں محفوظ ہے جس نے اجڑتی ہوئی دلّی کے کئی نادرِ روزگار اور علم و فن میں ممتاز ہستیوں کو اپنایا۔ آصف الدّولہ کے عہد ہی میں اردو شاعری نے اُس اسلوب کو اپنایا جو دبستانِ لکھنؤ کہلاتا ہے۔

    ریاست اودھ کے آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بدحالی کا شکار تھی۔ ان حالات میں اہلِ علم نے میں لکھنؤ پہنچ کر نواب کے دربار میں جگہ پائی اور یہی نہیں بلکہ نواب صاحب نے ذاتی خرچ پر اکثر کو لکھنؤ بلایا اور بڑی تکریم کی۔

    نیاز فتح پوری لکھتے ہیں، نواب آصفُ الدّولہ، فرماں روایانِ اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے، لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوقِ سخن تھا۔

    اس والیٔ اودھ کی فیاضی اور سخاوت بھی ضربُ المثل بنی اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ جس کو نہ دے مولا اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ یعنی مجازاً کہا جانے لگا تھاکہ جسے سرکار سے کچھ نہ مل سکے، آصف الدّولہ سے مل جاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے؛ جس کو دے مولا، اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ مطلب یہ کہ والیٔ اودھ اُسی کو دلواتا ہے جسے خدا دیتا ہے۔

    معروف تذکرہ نگار علی لطف بیان کرتے ہیں، آصف الدّولہ ہر روز ایک نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے تھے۔ اسی سبب لکھنؤ کے امراء اور اہلِ شہر کو بھی عمارتوں کا شوق پیدا ہوا اور لکھنؤ عالی شان عمارتوں کا شہر بن گیا۔

    اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ والیٔ اودھ کی فنِ معماری میں دل چسپی اور تعمیرات کا شوق کس قدر تھا۔ اسی کے دور میں ریاست کے دارُالحکومت لکھنؤ میں ایرانی طرز کے باغ بنوائے گئے اور شان دار عمارتوں کے ساتھ حوض، فوّارے، خوب صورت کیاریاں اور درختوں کی قطاریں بھی ان کے حسن و دل کشی کا سبب تھیں۔

    آصفُ الدّولہ کو ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں کے علاوہ فنونِ لطیفہ کے سرپرست اور شاعری کا دلدادہ کہا جاتا ہے جنھوں نے ہندستان میں گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار کے طور پر بھی شہرت پائی۔

    آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔

    جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔

    آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔

    علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں‌ جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔

    آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔

    وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔

    مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔

    نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں آج ہی کے روز وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

  • نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    نواب شیدا بیگم کے نام جانِ‌ عالم کا رقعہ

    ہندوستان میں‌ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ مختلف مطیع اور خودمختار ریاستوں میں انگریزوں‌ کا بڑھتا ہوا عمل دخل اور نوابوں کی بے توقیری تک تاریخ کے اوراق بہت کچھ لکھتے ہیں جن میں بیگماتِ اودھ کے خطوط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ آخری تاج دارِ اودھ واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ نامے ہیں‌ جو جلاوطنی کے عالم میں‌ واجد علی شاہ تک پہنچے اور ان کی جانب سے ارسال کیے گئے۔

    یہاں ہم ایک ایسا ہی خط نقل کر رہے ہیں جو واجد علی شاہ کی طرف سے شیدا بیگم کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے القاب لائقِ توجہ ہیں۔ قدیم اردو میں‌ اس خط کا طرزِ تحریر رواں اور لطف انگیز ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سطور ایک نواب کا اپنے حالات پر نوحہ بھی ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے۔

    بہ نام
    نواب شیدا بیگم صاحبہ

    مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو
    بے کلی سی نہیں ہے کل مجھ کو

    مہرِ سپہر بے وفائی، ماہ سمائے دل ربائی، گوہرِ تاج آشنائی، جوہرِ شمشیرِ یکتائی! ہمیشہ خوش رہو!

    معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے
    ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

    معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہو گی۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھلتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریزی فوج موج در موج ٹڈی دل چاروں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سیکرٹری اومنٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے، میرے ساتھ چلیے۔ میں نے کہا، آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے، گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، میری طرف سے شبہ بے کار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔

    انھوں نے کہا، مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، اچھا اگر انتظام کرنا ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو۔ انھوں نے کہا، مجھ کو جیسا حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ چلنے پر تیّار ہوا۔ میرے رفقا بھی چلنے پر تیّار ہو گئے۔ سیکرٹری نے کہا، صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھا مجاہد الدّولہ، ذہانت الدّولہ، سیکرٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لیے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذوالفقار الدّولہ، فتح الدّولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے، زبردستی قید خانہ میں آ گئے۔

    راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، محمدی خانم مغلانی، طبیب الدّولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا: خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کیے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔

    یہ خط کربلائے آب خاصہ بردار کے بھائی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔

    ؎
    ہوا ہے اب تو یہ نقشہ ترے بیمارِ ہجراں کا
    کہ جس نے کھول کر منہ اس کا دیکھا بس وہیں ڈھانکا

    جانِ عالم اختر

  • ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    برصغیر کی تاریخ کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکر و فریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا تھا۔ انھیں ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    اس دور اندیش، بہادر اور غیّور خاتون نے انگریز کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر ہر مذہب کے پیروکاروں کو متحد ہونے کی تلقین کی اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

    بیگم حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ وہ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    ہندوستان پر قبضہ کرتے ہوئے انگریز اودھ کے دربار پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے، لیکن انھیں یہ معلوم نہیں‌ تھا کہ ایک لڑکی راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو جائے گی۔

    تاریخ نے اس لڑکی کو کئی نام دیے مثلاً محمدی خانم، مہک پری، افتخار النساء، راج ماتا، جنابِ عالیہ، لیکن اس لڑکی کا سب سے مشہور نام بیگم حضرت محل تھا۔

    انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ہندوستانی ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کیا اور وہ کلکتہ چلے گئے تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔

    بیگم حضرت محل نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں انگریزوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم اور باحوصلہ ثابت ہوئیں، کیوں کہ وہ پالیسی سازی اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ایک عورت ہونے کے باوجود میدانِ جنگ میں عزم و ہمّت کی مثال قائم کی۔ وہ دو سال تک لڑائی جاری رکھتے ہوئے اپنی افواج کو منظّم اور ان کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کرتی رہیں۔ ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات بڑھ گئیں، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ انگریزوں نے انھیں وظیفہ و شاہانہ طرزِ زندگی اور دوسری مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محروم ہوجانے کے بعد ان کا آزادی کا خواب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور وہیں ان کا مدفن بنا۔

  • جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    تاریخِ ہند کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکروفریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا۔ بیگم حضرت محل کو ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ ایک دور اندیش، بہادر اور غیّور ہندوستانی تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر مسلمانوں اور ہندوﺅں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دیا۔

    حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    مغل سلطنت کی کم زوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کردیا اور انھیں کلکتہ بھیج دیا تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے انگریزوں کو ہندوستان بھر سے باہر نکالنے کی جدوجہد شروع کی۔

    بیگم حضرت محل نے قابض انگریز افواج کو للکارا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں برطانوی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے اتریں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیگم حضرت محل انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم و باحوصلہ نکلیں، وہ پالیسی ساز اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کی اور اپنے عوام کی امنگوں اور امیدوں کا مرکز بنی رہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے انگریزوں سے دو سال تک لڑائی جاری رکھی اور اپنی افواج کو منظّم رکھنے کے ساتھ طاقت میں اضافہ کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مسلسل متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہیں، لیکن ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات کے باعث فوج اور ریاست کی سطح پر مدد اور حمایت کم ہوتی چلی گئی، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ اس موقع پر جب انگریز حکومت نے انھیں مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محرومی کے سبب وہ اپنی آزادی کے خواب کی تکمیل نہ کرسکیں، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے اور ان کے خلاف مہم جوئی جاری رکھی۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی، لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں نہیں‌ گئیں بلکہ ان کے اسی جذبے اور آزادی کے جنون نے ہندوستانی عورتوں کو بھی ہمّت اور حوصلہ دیا اور ہندوستان آزاد ہوا اور اسی سے متاثر ہوکر مسلمان خواتین مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھی ہوئیں اور تحریکِ پاکستان کو کام یاب بنایا۔

  • اودھ کے آخری حکمران نواب واجد علی شاہ کے پڑپوتے انتقال کر گئے

    اودھ کے آخری حکمران نواب واجد علی شاہ کے پڑپوتے انتقال کر گئے

    کولکتہ: ریاست اودھ کے شاہی خاندان کے آخری چشم و چراغ ڈاکٹر کوکب قدر سجاد علی مرزا گزشتہ شام کلکتہ میں انتقال کر گئے، وہ اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ کے آخری پڑپوتے تھے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ اور بیگم حضرت محل کے آخری پڑپوتے ڈاکٹر کوکب قدر سجاد علی مرزا گزشتہ شام کلکتہ کے پیرس اسپتال میں انتقال کر گئے۔

    ڈاکٹر کوکب 87 برس کے تھے اور تقریباً ایک ہفتہ قبل ان کا کرونا وائرس ٹیسٹ ہوا تھا جو کہ پازیٹو تھا۔

    ان کے پسماندگان میں بیوہ، 2 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں، مرحوم کوکب قدر سجاد سبطین آباد ٹرسٹ مٹیا برج کلکتہ کے سینئر ٹرسٹی بھی تھے، جہاں ان کے پردادا نواب واجد علی شاہ مدفون ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کوکب قدر سجاد علی مرزا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں نواب واجد علی شاہ کی ثقافتی اور ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کی اور وہیں سروس جوائن کرلی، وہاں سے وہ بطور اردو پروفیسر سنہ 1993 میں ریٹائر ہوئے۔

    ڈاکٹر کوکب قدر بلیئرڈ اور اسنوکر کے میدان کے بھی مشہور و معروف کھلاڑی تھے، وہ بلیئرڈ اور اسنوکر آف انڈیا کے فاؤنڈر سیکریٹری تھے۔ وہ پہلی عالمی اسنوکر چمپیئن شپ کے چیف ریفری بھی بنے۔

    کوکب قدر سجاد علی مرزا نے اپنی بیٹی منزلت فاطمہ کو سنہ 1980 میں جونیئر نیشنل اسنوکر چمپیئن شپ میں داخل کروایا جو نیشنل اسنوکر چمپیئن شپ میں داخل ہونے والی پہلی کھلاڑی بنیں۔

    انہوں نے کئی اہم تصانیف بھی قلم بند کیں جن میں واجد علی شاہ پر ان کے تحقیقی مقالے اور اقلیم سخن کے تاجدار کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی۔