Tag: اورنگزیب

  • بھارت میں انتہا پسندی، مغل شہنشاہ اورنگزیب کے مقبرے پر فوج تعینات کر دی گئی

    بھارت میں انتہا پسندی، مغل شہنشاہ اورنگزیب کے مقبرے پر فوج تعینات کر دی گئی

    اورنگ آباد: فلم چھاوا کی ریلیز کے بعد بھارتی ریاست مہاراشٹر میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا مقبرہ خطرے میں پڑ گیا ہے، جسے ہندو انتہا پسندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے فوج تعینات کر دی گئی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق انتہا پسند ہندوؤں کی تنظیم بجرنگ دل نے اورنگ زیب کے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے، جس سے مہاراشٹر میں افراتفری پھیل گئی ہے، حکومت کو مقبرے کی سیکیورٹی بڑھانی پڑ گئی ہے۔

    حالات کشیدہ ہونے کے سبب مہاراشٹر حکومت نے حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بعض رہنماؤں پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں، اور خلد آباد میں واقع مقبرے پر ایس آر پی ایف کا ایک دستہ تعینات کر دیا ہے۔ مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والے ملند ایکبوٹے پر 5 اپریل تک چھترپتی سمبھاج نگر ضلع میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

    کانگریس نے مقبرے کو ہٹانے کی مخالفت کرتے ہوئے وش ہندو پریشد اور بجرنگ دل پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اسٹنٹ نہیں کرنا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسند اس شان دار تاریخ کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


    بھارت کی زمین ’’گاندھی‘‘ کی اولاد کیلیے غیر محفوظ ہو گئی، پڑ پوتے پر حملہ


    رپورٹس کے مطابق یہ تنازع فلم ’’چھاوا‘‘ سے شروع ہوا ہے، جو حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے، جس کے بعد مغل شہنشہا اورنگزیب کے بارے میں ایک بحث شروع ہو گئی ہے، یہ فلم مراٹھا سلطنت کے دوسرے حکمران اور چھترپتی شیواجی مہاراج کے بڑے بیٹے سمبھاجی مہاراج کی زندگی پر مبنی تھی۔

    فلم میں وکی کوشل نے سمبھاجی کا کردار ادا کیا ہے جب کہ اکشے کھنہ نے اورنگ زیب کا کردار ادا کیا ہے، فلم میں سنبھاجی کی ہمت اور قربانی جب کہ اورنگ زیب کے مظالم کو دکھایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سنبھاجی کو 1689 میں اورنگزیب نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا، جسے فلم میں جذباتی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

  • چھاوا: ہندو جنگجو پر بنائی گئی وہ فلم جس کے آخری 45 منٹ حیرت انگیز ہیں

    چھاوا: ہندو جنگجو پر بنائی گئی وہ فلم جس کے آخری 45 منٹ حیرت انگیز ہیں

    چھاوا، ہندوستانی فلم بینوں میں بہت مقبول ہورہی ہے اور ریلیز کے بعد ہی ایک ہفتے میں 200 کروڑ سے زائد کا بزنس کرنے والی اس فلم سے پانچ سو کروڑ کا ہندسہ عبور کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

    یہ فلم چھترپتی سمبھاجی مہاراج (Chhatrapati Sambhaji Maharaj) کو ایک دلیر جنگجو اور سرفروش کے طور پر پیش کرتی ہے اور مغل شہنشاہ اورنگزیب کو ظالم اور ہندوؤں سے نفرت کرنے والے حکم راں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ بھارت میں اس فلم نے دھوم مچا دی ہے، لیکن کیا یہ فلم سماج میں نفرت اور تعصب کو بڑھا رہی ہے؟ بعض بھارتی تاریخ داں اور سنجیدہ و باشعور طبقہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کی فلموں سے ہندوستان میں نفرت اور مختلف مذہبی و سماجی طبقات میں غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں۔ البتہ فلم سازوں کا دعویٰ ہے کہ اس تاریخی پس منظر پر مبنی فلم کو تاریخ دانوں اور ماہر محققین نے بھی ریلیز سے قبل دیکھا ہے۔ سینسر کے مراحل میں کئی تبدیلیوں کے ساتھ یہ وضاحت بھی کرنے کو کہا گیا کہ اس فلم کا مقصد کسی کو بدنام کرنا اور حقائق کو مسخ کرنا نہیں ہے۔

    فلمی ناقدین کہتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ کے کئی جنگجو کردار ایسے ہیں جن کی دلیری و جرأت اور سرفروشی کی داستان کو بڑے پردے پر پیش کرنے کے لیے بھارتی فلم ساز تحقیق سے زیادہ مسالے کی ضرورت محسوس کررہا ہے اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو ایک موقع کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس فلم میں بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

    یہ درست ہے کہ اب سوشل فلموں کا زمانہ نہیں رہا اور آرٹ سنیما سے سرمایہ تو شاید نکالا جا سکے، مگر کمائی ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں کمرشل اور مسالا فلمیں ہی ہیں جو بزنس نہیں بلکہ خوب بزنس کرتی ہیں، مگر فلم جیسے مؤثر میڈیم کو کسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

    برصغیر میں مغلیہ حکم رانوں اور دوسرے مذاہب اور قوم پر مشتمل چھوٹی بڑی ریاستوں کے درمیان جنگ و جدل اور سیاسی کشمکش پر بھی فلمیں بنائی گئی ہیں اور اکثر بہت کام یاب بھی رہی ہیں۔ ‘چھاوا ‘ بھی ایکشن اور تاریخی موضوع پر ایک فلم ہے جس کے ہدایت کار لکشمن اتیکر ہیں۔ فلم ‘میڈ ڈوک فلمز’ کے بینر تلے ریلیز کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی مراٹھا چھترپتی سمبھاجی کے دور کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں بولی وڈ کے وجیہ صورت اداکار وکی کوشل اور ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری کی سپر اسٹار اداکارہ رشمیکا مندانا نے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا ہے۔ فلمی مبصرین کے مطابق فلم کے آخری 45 منٹ حیرت انگیز ہیں جس کے ساتھ فلم کا کلائمکس شائقین کو جذباتی کر دیتا ہے۔ فلم کا ایک اور تاریخی اور مرکزی کردار مغل شہنشاہ اورنگزیب ہیں اور یہ کردار اکشے کھنہ نے نبھایا ہے۔ فلم کی موسیقی اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔

    فلم اور سنیما میں دل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ماضی میں بولی وڈ میں ہند و مسلم اتحاد اور یکجہتی کا درس و پیغام دیتی فلمیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ اس کی یہاں ایک نہایت خوب صورت مثال سن 1959 کی فلم دھول کے پھول کا یہ نغمہ ہے، ‘تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے، انسان بنے گا‘۔ بولی وڈ کی فلمیں کبھی فرقہ پرستی اور نفرت کے ماحول کے خلاف مؤثر پیغام دیا کرتی تھیں۔ آج اس کے برعکس صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ موجودہ دور کے فلم ساز اور ہدایت کاروں کی طرف دیکھیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ فکشن اور فلم کی دنیا میں شخصیات کو اسی طرح نہیں پیش کیا جاسکتا، جیسا وہ تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہیں، لیکن یہ بھی قابل توجہ ہے کہ واقعات کو فلمانے میں حقائق کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔

    چھاوا، وہ فلم ہے جو ہندو حکم راں سمبھاجی کے شیوا جی مہاراج کی موت کے بعد مراٹھا بادشاہت کو سنبھالنے کے بعد اورنگزیب سے جنگ اور پھر موت تک کے واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ ایک قابل جانشین بننے کے لیے سمبھاجی کی کوشش اور مراٹھا عروج کی خواہش اس کا موضوع ہے۔ سمبھاجی کا دور مغلوں، شیدیوں، میسور اور پرتگیزیوں سے لڑائی میں گزرا۔

    ہندو حکم راں سمبھاجی کے بارے میں مراٹھا مؤرخین اور مصنفین نے لکھا ہے کہ وہ کئی درباریوں کے وحشیانہ قتل اور پھانسیوں کے ذمہ دار تھے، انھوں نے اقتدار میں آکر مراٹھا شاہی دربار کے اہم ارکان کو بھی پھانسی دی تھی جس کے بعد انھیں انتظامی کمزوری
    اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی کے بعد سمبھاجی کے خلاف اندرونی صفوں میں ایک بڑی سازش شروع ہوئی۔ مصنفین کے مطابق آخر میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سمبھاجی نے دھوکہ کھایا۔ یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ شیوا جی انھیں اقتدار نہیں دینا چاہتے تھے اور اس کی وجہ بعض غیر ذمہ داریاں اور ان کی جنسی بے راہ روی بھی تھی۔

    چھاوا میں سمبھاجی اپنے سب سے قابلِ اعتماد کمانڈر اور سرپرست شخصیت ہمبیر راؤ موہتے کی موت کے بعد مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کی قید میں اپنی جان کے بدلے سلطنت اور مذہب سے دست برداری کے لیے زور اور تشدد سہتے ہوئے موت کا سامنا کرنے کی وجہ سے انھیں خاص ہندو سماج میں توجہ اور ہمدردی ملی۔ سمبھاجی کی موت نے اس وقت مرہٹوں کو مزید جوش و خروش کے ساتھ اپنی مزاحمت جاری رکھنے کی ترغیب دی، دوسری طرف اورنگ زیب کا مرہٹوں کے خلاف انتقام اور مسلسل جنگ اس کی پوری مغل سلطنت کو کم زور کرنے کا باعث بنا۔ 1689 میں سمبھاجی کی موت کے بعد اورنگ زیب نے دکن کے علاقے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزارا، اور وہاں بھی مراٹھا جنگجوؤں سے الجھے رہے یہاں تک کہ وہ خود بھی لحد میں اتر گئے۔

    پاپولر یا مقبول سنیما کے ذریعے پیسہ ہی کمایا جاتا ہے، لیکن بھارتی فلم سازوں میں چند برسوں کے دوران دانستہ کچھ فارمولے استعمال کرنے اور مسالا لگانے کا رجحان بڑھا ہے جس پر تنقید کی جارہی ہے۔ اس فلم میں اورنگزیب کا کردار منفی اور بری طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے اور شاید فلم ساز کو اپنے مقصد میں کام یابی بھی نصیب ہوئی ہے۔ ماضی کا یہ کردار جسے تاریخ میں سمبھاجی مہاراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، شیوا جی مہاراج کا بیٹا تھا۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب کو شیوا جی نے مشکل سے دوچار کر رکھا تھا۔ شیوا جی نے اپنی آزاد ریاست کی بنیاد اس وقت رکھی تھی جب ہندوستان کے مغربی حصے میں تین اسلامی سلطنتیں تھیں۔ احمد نگر کی نظام شاہی، بیجاپور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تینوں آپس میں لڑتے تھے اور شمال سے مغلیہ حکم راں ان سلاطین کو اپنا تابع فرمان ہونے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے تاکہ جنوبی ہند پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ شیوا جی نے ان حالات میں بیجا پور کے چار پہاڑی قلعوں پر قبضہ کر کے بغاوت کا علم بلند کیا۔ ادھر اورنگزیب ایک طاقت ور فوج کے ساتھ بہت شہرت رکھتے تھے۔

    مشہور مؤرخ رابرٹ اورمن کے مطابق اورنگزیب نے شیوا جی کو کچلنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کی۔ لیکن بھارت میں اورنگزیب کی اس قسم کی فلموں کے ذریعے جو شبیہ پیش کی جارہی ہے، وہ غلط ہے۔ اسے سخت گیر مسلمان اور ہندوؤں کا دشمن بتایا جاتا ہے جس نے کئی منادر گرانے کا حکم دیا اور ہندو عقائد کے مطابق کئی تہواروں یا رسومات پر پابندیاں لگائیں۔ ایک امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اورنگزیب سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگزیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا۔ مصنف لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم مخاصمت کو فروغ دیتے تھے۔ اورنگزیب وہ بادشاہ تھے جس نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت تقریباً پورے برصغیر پر پھیل چکی تھی۔

    ٹرسچکی یہ بھی لکھتی ہیں کہ ’اورنگزیب کے حکم سے براہ راست چند منادر ہی توڑے گئے۔ ان کے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں ہوا جسے ہندوؤں کا قتل عام کہا جا سکے۔ دراصل، اورنگزیب نے اپنی حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر ہندوؤں کو تعینات کیا۔‘

    ادھر ہندو تاریخ داں اور بعض کٹر مذہبی شخصیات نے جہاں شیوا جی کو ایک جرات مند اور باغی حکم راں بتایا ہے، وہیں ان کے تخت سنبھالنے والے سمبھاجی مہاراج کی بھی خوب تعریف کی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں پروفیسر ندیم شاہ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ وہ شیوا جی کا ایک دوسرا پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق آگرہ سے واپس آنے کے بعد بھی مراٹھوں نے مغلوں کی منصب داری قبول کی۔ شیوا جی اور راجہ جے سنگھ کے درمیان اس کے بعد بھی تعلقات رہے۔ شیوا جی کے آبا و اجداد کو شاہجہاں نے منصب دیے تھے۔ شیوا جی کے دادا مغلوں کے منصب دار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ شیوا جی اور مغلوں کے درمیان اتنے بھی معاندانہ تعلقات نہیں تھے جتنے آج کل پیش کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں تاریخ کو دیکھنے کے بھی مختلف نظریات ہیں۔

    بہمنی سلطنت زوال کے بعد پانچوں حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ان میں سے مغلوں نے پہلے نظام شاہی کو ختم کیا، پھر عادل شاہی کو ختم کیا، پھر قطب شاہی کو ختم کر دیا۔ صرف مراٹھا ہی ان کے ماتحت نہیں تھے۔ اب اورنگزیب بھی شیوا جی کو اپنا منصب دار بنانا چاہتے تھے۔ تاریخ کے ایک اور پروفیسر کدم یہ نہیں سمجھتے کہ شیوا جی کے دادا مغلوں کے منصب دار رہے تھے، بلکہ وہ اس بات کو اس طرح کہتے ہیں کہ وہ نظام شاہی اور عادل شاہی کے منصب دار تھے۔ اس نے نظام شاہی کو مغلوں سے بچانے کی بھی بہت کوشش کی۔ اسی وقت سے مغلوں اور شیوا جی کے خاندان میں دشمنی شروع ہوئی۔

    مورخین لکھتے ہیں کہ اورنگزیب نے مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہوئے راجہ جے سنگھ کو فوج کے ساتھ دکن بھیجا۔ راجہ جے سنگھ کو کام یابی ملی اور شیوا جی مغلوں کے ساتھ معاہدے پر راضی ہو گئے۔ اس معاہدے کو پورندر معاہدہ کہا جاتا ہے۔ پورندر پونے کے قریب ایک قلعے کا نام تھا جسے مغلوں نے فتح کر لیا تھا۔ اسی مناسبت سے اس معاہدے کو پورندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    چند سال کے دوران بھارت میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ مہاراشٹر میں حکومت نے ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اسکول کی نصابی کتب سے انڈیا کے بڑے حصے پر حکم رانی کرنے والے مغلوں کی تاریخ پر مبنی مضامین اور معلومات کو نکال دیا۔ وہاں ہندو حکم راں شیوا جی اور ان کی سلطنت کے بارے میں تعلیم اور آگاہی دینے پر توجہ دی جارہی ہے۔ بھارتی دانش وروں اور حکومت کے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں بے شمار یادگاریں مغل دورِ میں بنائی گئی تھیں۔ تین صدیوں سے زائد عرصہ کی تاریخ کو مذہبی بنیاد پر یوں اکھاڑ کر پھینک دینے کی کوشش سب کچھ بگاڑ دے گی۔ مغل حکم رانوں کے دور کا تجزیہ ان کی صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔

    تاریخی واقعات پر مبنی کتابوں میں لکھا ہے کہ سمبھاجی کی عمر نو برس سے زیادہ نہیں تھی جب وہ مغل سلطنت کے سیاسی یرغمال بنے اور اس طرح پورندر معاہدے کی پاس داری کی ضمانت طلب کی گئی۔ تاہم وہ وہاں سے فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور بعد میں اپنے والد کا تخت سنبھالا۔ وہ ایک اسکالر تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے۔ انھوں نے تصنیف کا کام بھی کیا اور اورنگزیب کے ہاتھوں اپنی موت کے بعد ہندوستان میں ہندو حکم رانی کی علامت کے طور پر مقبول ہوئے۔

    سمبھاجی کی پیدائش 1657 میں پورندر قلعہ میں مراٹھا چھترپتی شیوا جی کے گھر ہوئی۔ سمبھاجی دو سال کے تھے جب ان کی والدہ انتقال کر گئیں۔ نو سال کی عمر میں سمبھا جی کو بطور سیاسی یرغمالی امبر کے راجہ کے ساتھ رہنا پڑا جس کا مقصد ہم اوپر بتا چکے ہیں۔ ان کے والد شیوا جی نے 11 جون 1665 کو مغلوں کے ساتھ پورندر معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ مؤرخین کے مطابق وہ اپنے والد شیوا جی کے ساتھ 12 مئی 1666 کو آگرہ میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دربار میں پیش ہوئے تھے اور نظر بندی کے دو ماہ بعد فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے۔

    اس دور میں اورنگ زیب نے ہر طرف سے مراٹھا سلطنت پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ سنبھاجی کے لڑاکا مغل فوج کو اپنی گوریلا حکمت عملی سے الجھائے رہے۔ اورنگ زیب کے جرنیل تین سال تک مراٹھا علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکے تھے۔

    سمبھاجی کو اپنے باپ کی طرف سے ایک نظامِ حکومت وراثت میں ملا تھا اور وہ اپنے والد کی زیادہ تر پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے ریاست کا نظم و نسق ایک کونسل کی مدد سے سنبھالنے میں کام یاب رہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے زرعی شعبے میں ترقی کے ساتھ اپنی رعایا کو انصاف دیا۔ لیکن مراٹھا مصنفین ہی انھیں ایک غیر ذمہ دار اور بے راہ رو شخص کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں جسے یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے کہ ہم تک پہنچنے والے تاریخی واقعات کے ماخذ کم زور اور اکثر واقعات جھوٹے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھیں پروپیگنڈہ کہا جاتا ہے اسی طرح اورنگزیب سے متعلق بھی فرضی قصے اور من گھڑت کہانیاں موجود ہیں جنھیں تحقیق کے بغیر فلموں میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس قبیل کی فلموں کی فہرست کو اگر چند برسوں کے دوران دیکھا جائے تو سمراٹ پرتھوی راج (اجمیر کے راجا پرتھوی راج چوہان) مراٹھا سپہ سالار تانا جی، رانی پدماوت، تاشقند فائلز، غازی، شیر شاہ وغیرہ شامل ہیں۔

  • مغل سلطنت کا بحری جہاز لوٹنے والا ہنری ایوری

    مغل سلطنت کا بحری جہاز لوٹنے والا ہنری ایوری

    اورنگزیب عالمگیر کا نام تو تاریخِ عالم میں مغل بادشاہ اور وسیع سلطنت کے فرماں روا کی حیثیت سے لیا ہی جائے گا، مگر جب ان کی دولت اور شاہی خزانے کی بات ہوگی تو ایک معمولی اور بدنامِ زمانہ شخص ہنری ایوری (Henry Every) کا تذکرہ بھی ہوگاجس نے مغل بادشاہ اورنگزیب کا خزانہ لوٹ لیا تھا.ہنری ایوری ایک لٹیرا اور بحری قزاق تھا۔

    مغل خاندان کے مشہور بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے 49 سال تک ہندوستان کے 15 کروڑ لوگوں‌پر حکمرانی کی. وہ ان مغل بادشاہوں میں سے ایک ہیں جن کے دور میں مغل سلطنت کو وسعت نصیب ہوئی. مؤرخین لکھتے ہیں کہ اورنگزیب پہلے بادشاہ تھے جس نے تقریباً پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔

    ہنری ایوری ایک برطانوی بحری قزاق تھا. وہ 1690 میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند میں لوٹ مار کے لیے مشہور ہوا۔ اس بدمعاش اور لٹیرے کی کئی عرفیت تھیں اور اس کے ساتھی اکثر اسے ہنری برج مین اور لانگ بین کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ وہ اپنے ان برے کاموں اور لوٹ مار میں اس قدر ماہر ہوچکا تھا کہ ہم عصر قزاقوں میں ایوری ہنری کو قزاقوں کا بادشاہ کہا جانے لگا تھا۔

    بادشاہ اورنگزیب 1618 میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہجہاں اور ممتاز محل کے تیسرے بیٹے تھے۔اسلامی علوم کے علاوہ اورنگزیب نے ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی اور خطاطی میں مہارت حاصل کی۔ شاہجہاں کے بعد تخت کے لیے لڑائی اور کئی محاذوں پر جانیں قربان ہونے کے بعد اورنگزیب بادشاہ بنے۔

    دوسری طرف ہنری ایوری کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تو کچھ علم نہیں لیکن اس کی نوجوانی، لوٹ مار کے بارے میں بھی حقائق اور دوسری تفصیلات بہت کم معلوم ہوسکے ہیں.البتہ برطانوی بحری قزاق ہنری ایوری کے بارے میں کئی افسانوی باتیں مشہور ہیں۔ اس کی زندگی کے آخری ایام، اور موت سے متعلق بھی مؤرخین بہت کم جان پائے ہیں. تاہم کئی سو برس بعد مغل دور کے کچھ سکوں کی امریکی ساحلی علاقوں میں دریافت کے بعد محققین نے خیال ظاہر کیا کہ بحری قزاق ہنری ایوری اور اس کے ساتھی امریکہ بھی پہنچے تھے۔ یہ خزانہ یا سکے بحری جہاز ‘گنجِ سوائی’ پر لدے ہوئے تھے جسے ہنری ایوری نے لوٹ لیا تھا۔

    یہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے عہد کا بحری جہاز تھا جس کا نام ‘گنجِ سوائی’تھا اورکہا جاتا ہے کہ اس بحری جہاز کو ہنری ایوری نے لوٹ لیا تھا۔ گنجِ سوائی کو ستمبر 1695 میں لوٹا گیا تھا جس پر اربوں روپے مالیت کا سونا چاندی لدا ہواتھا. برطانوی قزاق کی اس حرکت کے بعد برطانیہ کے بادشاہ ولیم سوم کو بتایا گیا کہ اس واقعے کے بعد ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغل شہنشاہ اورنگزیب کے عتاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سےکمپنی کو بچانے کے لیے ہنری ایوری کے سر کی قیمت رکھی جائے تاکہ بادشاہ کوئی سخت فیصلہ نہ کرے. ولیم سوم نے بحری قزاق ہنری ایوری کو’انسانیت کا دشمن’ قرار دے کر اس کے سر کی قیمت 500 پاؤنڈ رکھ دی اور بعد میں یہ رقم بڑھا کر 1000 پاؤنڈ کر دی گئی تھی۔ یہ اس دور میں ایک بڑی رقم تھی۔ ولیم سوم کے اسی اعلان کی بنیاد پر ہنری ایوری کو تاریخ کا پہلا بین الاقوامی مطلوب شخص بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    ‘انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا’ دیکھیں تو اس برطانوی بحری قزاق ہنری ایوری کا اصل نام جون ایوری لکھا گیا ہے۔ اس کا سنہ پیدائش 1653 ہے اور وہ جنوب مشرقی برطانیہ کی کاؤنٹی ڈیون کے ساحلی شہر پلیمتھ میں پیدا ہوا تھا۔ ہنری ایوری شاہی بحریہ میں شامل ہوا اور یہاں اس نے سمندری راستوں، تجارتی قافلوں اور جہاز رانی کو سمجھا اور پھر وہ کچھ عرصہ مہم جوؤں، یا بحری جہازوں پر حملے کرنے والوں کے ساتھ بھی رہا۔ اسی دور میں اس کے اندر منفی سوچ اور حرص و ہوس پیدا ہوئی۔ کہتے ہیں کہ 1694 میں ہنری ایوری اسپین کے ایک بحری جہاز کے عملے میں شامل ہو گیا اور یہاں اس نے موقع دیکھ کر ہتھیار کے زور پر جہاز کے کپتان اور اس کے عملے کو زیر کرلیااور خود کپتان بن گیا۔ ہنری ایوری نے اس بحری جہاز کا نام ‘فینسی’ رکھ دیا۔ اب وہ لوٹ مار کی جانب متوجہ ہوا اور محققین کے مطابق 1695 میں اس نے افریقہ کے اردگرد کئی بحری قافلوں اور جہازوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ اس نے کمال مہارت سے دوسرے بحری قزاقوں کو بھی اپنےساتھ ملا لیا اور مل کر کارروائیاں کرنے لگے.وہ ان قزاقوں کی وجہ سے سمندر میں خاصا طاقت ور ہوچکا تھا اور پھر وہ وقت آیا جب اس نے بحیرۂ احمر کا رُخ کیا اور بعد میں مکہ سے حاجیوں اور بھاری مقدار میں سونا چاندی اور دیگر قیمتی اشیا لانے والے مغل سلطنت کے جہاز گنجِ سوائی کو لوٹا۔

    محققین کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مقدس شہر سے واپسی پر یہ بحری جہاز ہندوستان کی بندرگاہ ‘سورت’ کے قریب پہنچااور بحرِ ہند میں اسے گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا. جہاز کے مستول کو نشانہ بنانے کے بعد جب اس کی رفتار سست ہو گئی تو ہنری ایوری اور اس کے ساتھی قزاقوں نےہتھیاروں سےکام لیا اور اسی دوران گنجِ سوائی پر موجود ایک توپ پھٹ گئی جس سے اس جہاز اور لوگوں کا بھاری نقصان ہوا۔ اسی موقع کا فائدہ ہنری ایوری نے اٹھایا اور قزاقوں نے جہاز پر قبضہ کرلیا۔ مکہ سے لوٹنے والے اس جہاز پر قزاقوں نے قتل و غارت کی اور اس میں موجود خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    جب مغل سلطنت کے جہاز گنجِ سوائی میں قزاقوں کے ہاتھوں سے بچ جانے والے سورت پہنچے تو اورنگزیب غضب ناک ہوگیا۔ محققین کے مطابق بادشاہ اورنگزیب نے برطانوی کمپنی کے چند ذمہ داروں کو قید میں ڈلوا دیا جس کی اطلاع برطانیہ پہنچی توبادشاہ ولیم سوم نے ہنری ایوری کے سر کی بھاری قیمت مقرر کی. محققین کا خیال ہے کہ اس وقت تک قزاق لوٹا گیا خزانہ آپس میں‌ تقسیم کر کے کیریبیئن اور مختلف امریکی علاقوں میں روپوش ہوچکے تھے۔ ‘انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا’ کے مطابق کچھ عرصہ بعد ہنری ایوری اپنے چند ساتھیوں کو لے کر برطانیہ گیا جہاں اس کے کئی ساتھیوں کو مخبری ہونے پر پکڑلیا گیا. لیکن ہنری ایوری کو نہیں پکڑا جاسکا۔ہنری ایوری کی موت 1696 کے بعد ہوئی لیکن کن حالات میں اور کس مقام پر اس بارے میں زیادہ وثوق دسے کچھ نہیں کہا جاسکتا. البتہ یہ مشہور ہے کہ ہندوستانی بحری جہاز سے لوٹا گیا خزانہ ہنری ایوری سے ایک سوداگر نے بڑی چالاکی سے ہتھیا لیا تھا اور یہ ہنری ایوری کی موت مفلسی اور تنگ دستی کے عالم میں ہوئی۔

  • زرعی شعبے پر ٹیکس کب سے لگے گا؟ وزیرخزانہ نے بتا دیا

    زرعی شعبے پر ٹیکس کب سے لگے گا؟ وزیرخزانہ نے بتا دیا

    واشنگٹن : وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ زرعی شعبے پر ٹیکس کا اطلاق آئندہ سال کے وسط میں ہوجائے گا۔

    یہ بات انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی، ان کا کہنا تھا کہ زرعی ٹیکس سے متعلق قانون سازی آئندہ سال جنوری میں کی جائے گی اور زرعی شعبے پر ٹیکس کا اطلاق یکم جولائی سے ہوجائے گا۔

    بجلی کی قیمتوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں 3گنا اضافہ ہوا۔

    انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں بجلی کے بل مکانات کے کرایوں سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں جو لوگوں کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے۔

    محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 7 بلین ڈالر کا نیا قرضہ پروگرام حاصل کرنے کے بعد معاشی استحکام کی جانب قدم بڑھایا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال میں واجب الادا 26 ارب ڈالر کے قرضوں میں سے 16 ارب ڈالر کا قرضہ شراکت داروں سے حاصل کیا ہے، جن میں چین بھی شامل ہے۔

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ چین سے بجلی منصوبوں کے قرضوں کی ری پروفائلنگ پر مثبت بات چیت ہو رہی ہے، توقع ہے کہ قرضوں کی ری پروفائلنگ کے معاہدے ہوجائیں گے۔

    محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق فنڈنگ پر بات چیت ہوئی، پاکستانی معیشت میں ٹیکسوں کاحصہ135فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

    ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے مرکزی بینک نے مسلسل تین میٹنگز میں اپنی سود کی شرح میں 450بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے اسے 22 فیصد سے 17.5 فیصد کر دیا ہے، ماہ نومبر میں اسٹیٹ بینک شرح سود میں مزید کمی کرسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرضے سے متعلق ہونے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں آئی ایم ایف نے صوبوں سے زیادہ ٹیکس آمدن پر اصرار کیا تھا اور زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

    آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زرعی شعبہ اپنے حصے سے کم ٹیکس دیتا ہے، آئی ایم ایف نے تجویز دی کہ صوبائی محصولات بڑھانے کے لیے قومی ٹیکس کونسل کو استعمال کیا جائے، قومی محاصل میں صوبائی ٹیکس کا حصہ ایک فی صد کی کم ترین سطح پر ہے۔

  • کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

    کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

    مغل دور کی تاریخ اور شخصیات پر مبنی تذکروں میں‌ ایک نام خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس کے حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہوسکے ہیں، لیکن محققین نے اسے شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

    شاہی عہد میں اس کے مقام و رتبہ اور مغل حکومت یا دربار کے لیے اس کی خدمات کے بارے میں بھی کچھ خاص معلومات نہیں‌ ہیں۔ اپنے وقت کے مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا جو مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا۔

    یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی اختلافات کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے اسے دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز کیے گئے۔ لیکن 1691ء میں یہ منصب خان جہاں بہادر کا مقدر بنا۔ اس نے لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت سنبھالے رکھی اور 1693ء میں مغل بادشاہ نے کسی بات پر کوکلتاش کو معزول کرنے کا فرمان جاری کردیا، اس کے بعد وہ چار سال تک زیرِ عتاب رہا۔

    محققین کے مطابق خان جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا۔ اس نے مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار اپنی وفاداری ثابت کی۔

    معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر کی زندگی مشکل ہوگئی اور 23 نومبر 1697ء کو اس نے لاہور ہی میں وفات پائی۔ مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر اس کی تدفین کی گئی جہاں بعد میں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

    کوکلتاش کا یہ مقبرہ اب خستہ حالت میں ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر اور مغلوں کے وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر دیکھنے والوں کو متوجہ ضرور کرتا ہے۔

    یہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری سالوں میں تعمیر کیا گیا اور اس عہد میں لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

    یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مؤرخین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون ابدی نیند سورہا ہے اور سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا مدفن ہے جو لاہور کا مقتدر اور مغل دربار کا وفادار تھا۔

  • موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    منشی محمد دین فوق کی تصنیف وجدانی نشتر میں اورنگ زیب عالم گیر کا ایک واقعہ ملتا ہے جو مغل دور کے حالات کی ایک جھلک ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ خاندانِ مغلیہ کے نام ور حکم راں اورنگ زیب عالم گیر نے ایک مرتبہ حکم جاری کیا کہ تمام رقاص اور گانے بجانے والی عورتیں فلاں تاریخ تک نکاح کرلیں ورنہ انھیں کشتی میں بھر کر دریا بُرد کردیا جائے گا۔ بادشاہ کا حکم جاری ہوا اور منادی کی گئی تو اس زمانے کی بہت سی مغنیہ اور اس پیشے سے جڑی عورتوں نے نکاح کر لیے، مگر کئی رہ گئیں۔ یہاں تک کہ حکم کے مطابق وہ تاریخ سَر پر آگئی جب سپاہی آتے اور ایسی عورتوں کو دریا میں پھینک آتے۔

    اس زمانے کے ایک بزرگ شیخ کلیم اللہ دہلوی تھے۔ ایک طوائف پابندی سے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ آپ وظائف سے فارغ ہوتے تو وہ بزرگ کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور توجہ پاکر سلام کرتی اور فوراً ہی چلی جاتی۔ حکم پر عمل کرنے کی مقررہ تاریخ میں ایک روز باقی تھا۔ وہ اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کرنے کے بعد عرض کی کہ خادمہ کا آخری سلام قبول کیجیے۔ اس پر شیخ نے حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ طوائف نے بزرگ کو متوجہ پایا تو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے ہدایت دی کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو۔
    در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
    گر تو نمی پسندی تغیر کن قضارا
    (ترجمہ: نیک نامی کے کوچے میں ہمیں نہیں جانے دیا گیا، اگر تُو یہ پسند نہیں کرتا تو قضا کو بدل دے)

    بزرگ نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ مقررہ دن دریا کی طرف جاتے ہوئے سب مل کر بلند آواز سے یہ شعر پڑھنا۔ کہتے ہیں اگلے روز جب ایسی عورتوں کو دریا کی طرف لے جایا جانے لگا تو انھوں نے یہ شعر سوز و رقت سے باآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور راستوں پر جمع ہوگئے۔ حکم کی تعمیل کا دن تھا اور اس حوالے سے بادشاہ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کے ایک درباری نے یہ بات انھیں بتا دی۔

    بادشاہ اس سے متاثر ہوا اور وہی شعر پڑھتے ہوئے ان عورتوں کے دریا بُرد کیے جانے کا حکم منسوخ کردیا۔

  • گیس کی لوڈ شیڈنگ طلاق کا باعث بن رہی ہے، لیگی ایم این اے

    گیس کی لوڈ شیڈنگ طلاق کا باعث بن رہی ہے، لیگی ایم این اے

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن کی رکنِ‌ قومی اسمبلی طاہرہ اونگزیب نے کہا ہے کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث میاں بیوی کے درمیان جھگڑے معمول بن گئے ہیں اور کئی جوڑوں میں نوبت طلاق تک آن پہنچی ہے۔

    ان کا خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی رکنِ قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    انہوں نے گیس کی مسلسل لوڈشیڈنگ پر کہا کہ مرد گھر آتے ہیں تو گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کھانا تک تیار نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے گھر کا ماحول زیادہ خراب ہوجاتا ہے اور لڑائی جھگڑے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ازدواجی زندگی تناؤ کا شکار ہو گئی ہے بھوک کے ستائے شوہر اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان بیوی کے درمیان معمولی لڑائی بعض اوقات بڑھتے بڑھتے نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔

    گیس کےبحران پر قابو پانے کے لیے پاک ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ کی تعمیر کے بارے میں وزارتِ پیٹرولیم سے سوال پوچھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی نسل کے لیے بحرانوں کے سوا اور کیا دے رہے ہیں؟

    واضح رہے کہ اس بحث کا آغاز جمیعتِ علمائے پاکستان سے تعلق رکھنے والی رکنِ قومی اسمبلی نعیمہ کشور کی جانب سے گیس لوڈ شیڈنگ پر پیش کی جانے والی قرارداد سے ہوا تاہم وفاقی وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی غیر حاضری کے باعث یہ معاملہ موخر کردیا گیا جب کہ ڈپٹی اسپیکر نے وزیر کی عدم دستیابی پر ناراضی کا اظہار کیا۔

    ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ عباسی نے وفاقی وزیر پیٹرولیم کی غیر حاضری پر کہا کہ موصوف وزیر کو معلوم ہونا چاہیے کہ کابینہ اجلاس سے اسمبلی کا سیشن زیادہ اہم ہے اس لیے وفاقی وزیر کو یہاب ہونا چاہیے تھا۔

    واضح رہے رکنِ قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب، وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی والدہ اور متحرک لیگی کارکن ہیں۔