Tag: اورنگزیب عالمگیر

  • ’’اورنگزیب کی قبر ہٹاؤ ورنہ‘‘ انتہا پسند تنظیموں نے حکومت کو وارننگ دے دی

    ’’اورنگزیب کی قبر ہٹاؤ ورنہ‘‘ انتہا پسند تنظیموں نے حکومت کو وارننگ دے دی

    اورنگ آباد: بھارتی ریاست مہاراشٹر میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا تاریخی مقبرہ بالی ووڈ فلم چھایا کی ریلیز کے بعد خطرے میں پڑ گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیموں نے حکومت کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اورنگزیب کی قبر ہٹاؤ ورنہ اسے کار سیوک ہٹا دیں گے۔‘‘

    بالی ووڈ فلم چھایا کی ریلیز کے بعد ریاست مہاراشٹر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کو لے کر انتہا پسند ہندوؤں نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی ہے، اور وہ ان کا مقبرہ ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

    حالیہ دھمکی میں شدت پسند ہندو تنظیم نے وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قبر کو جلد ہٹایا جائے نہیں تو ایودھیا کی طرح اسے بھی کار سیوک ہٹا دیں گے، خیال رہے کہ مقبرے کو ہٹانے کے لیے وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے آج مہم شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔


    بھارت میں انتہا پسندی، مغل شہنشاہ اورنگزیب کے مقبرے پر فوج تعینات کر دی گئی


    بجرنگ دل کے سمبھا جی نگر کے رہنما نتن مہاجن نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ’’اورنگ زیب نے لاکھوں قتل کیے، کاشی اور متھرا کے مندر سمیت ہزاروں مندر توڑے، لاکھوں گایوں کا قتل کیا، ظالم حکمراں کی تعریف و توصیف کرنے کا کام برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘ انھوں نے دھمکی دی کہ اگر قبر نہیں ہٹائی گئی تو وہ بابری مسجد کی طرز پر خود اسے ہٹا دیں گے۔

    انتہا پسند ہندو تنظیموں کے احتجاج کی وجہ سے خلد آباد میں اورنگزیب کی قبر کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، پولیس کی نفری کے ساتھ ساتھ فوج بھی تعینات کی گئی ہے، اور آنے جانے والوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

  • اورنگزیب کے معتوب کوکلتاش کا تذکرہ

    اورنگزیب کے معتوب کوکلتاش کا تذکرہ

    خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہوسکی ہیں، لیکن محققین کے مطابق وہ مغلیہ دور میں شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ کوکلتاش بادشاہ عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور بدترین حالات میں اس کی موت ہوگئی۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ منصب سے معزولی کے بعد اور قید کے دوران خانِ لاہور میں 23 نومبر 1697ء کو کوکلتاش کا انتقال ہوگیا تھا۔ شاہی عہد میں اس کا مقام و رتبہ کیا تھا اور مغل دربار کے لیے اس نے کیا خدمات انجام دیں، اس بارے میں بھی کچھ خاص معلوم نہیں‌ ہوسکا۔ البتہ مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی ایک تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا مختصر خاکہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں‌ کہ عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا تھا۔

    یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی سطح کے اختلافات زور پکڑ گئے تو بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اس سے نمٹنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو صوبہ دار مقرر کردیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز ہوئے۔ لیکن 1691ء میں یہ عہدہ خانِ جہاں کو سونپ دیا گیا۔ وہ لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت کرتا رہا۔ لیکن 1693ء میں کسی بات پر بادشاہ اس سے ناراض ہوگیا۔ عالمگیر نے نہ صرف کوکلتاش کی معزولی کا فرمان جاری کیا بلکہ اسے زیرِ عتاب بھی رکھا۔ مؤرخین کے مطابق یہ سلسلہ چار سال بعد اُس وقت ختم ہوا جب کوکلتاش اپنی جان سے گیا۔

    تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ خانِ جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغلیہ دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا اور ہر بار شاہی دربار سے اپنی وفاداری کو ثابت کیا۔

    مشہور ہے کہ کوکلتاش کی تدفین مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر کی گئی اور بعد میں اس پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ آج کوکلتاش کا یہ مقبرہ نہایت خستہ حالت میں ہے، لیکن اسے دیکھ کر مغل طرزِ تعمیر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری چند برسوں میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ محققین کے مطابق یہ مغل دور کے لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

    تاہم آج محققین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون شخصیت ابدی نیند سورہی ہے۔ جب کہ سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں مؤرخین یہی لکھتے آئے کہ اس جگہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش مدفون ہے۔

  • قصّے کہانیاں اور مغل بادشاہ اورنگزیب

    قصّے کہانیاں اور مغل بادشاہ اورنگزیب

    مشاہیر کی زندگی اور تاریخی واقعات کا ایک راز یہ ہے کہ ان سے منسوب جو قصّے اور باتیں مشہور ہو جاتی ہیں، ان کی صحت بھی بہت حد تک مشتبہ ہو جاتی ہے۔ آج مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا یومِ وفات ہے جن کی ذاتی زندگی اور عہدِ حکومت سے متعلق کئی واقعات اور قصّے مشہور ہیں۔

    صدیوں‌ پہلے تاریخ کی مستند کتابوں‌ میں‌ جس ہندوستان کا ذکر ملتا ہے وہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اس عہد کے مؤرخین نے اس ملک کی معاشرت اور حکم رانی کا آنکھوں دیکھا حال رقم کیا اور مغل خاندان، شاہی دربار کے فیصلے اور اشرافیہ کے حالات بھی کتاب میں‌ محفوظ کر لیے۔ لیکن عوام اورنگزیب عالمگیر سے ایسے قصّے بھی منسوب ہیں‌ جن کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔

    ہندوستان میں تختِ شاہی پر محی الدّین اورنگزیب کے لقب سے متمکن ہوئے تھے جن کے والد شاہجہان نے انھیں عالمگیر کا خطاب دیا تھا۔ اورنگزیب 3 نومبر 1618ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔

    اورنگزیب عالمگیر نے قرآن حفظ کیا اور اسلامی علوم کے علاوہ ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ انھوں نے خطاطی بھی سیکھی اور اس فن میں‌ ماہر ہوئے۔ اس دور کے رواج کے مطابق گھڑ سواری، تیراندازی اور فنونِ سپہ گری میں بھی عالمگیر کو کمال حاصل تھا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوئے۔ اس دوران کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔

    شاہجہان کی بیماری کے بعد افراتفری اور سلطنت کے علاقوں میں انفرادی حکومت قائم ہوجانے کے بعد عالمگیر نے ان سے اور اپنے بھائی سے جنگ کر کے تاج اور تخت حاصل کیا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ اپنے دور میں‌ بادشاہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں‌ رائج کئی فضول رسموں کا خاتمہ کیا اور نشہ آور اشیاء پر پابندی عائد کی۔ اسی طرح‌ کھانے پینے کی مختلف اجناس کو محصول سے آزاد کیا۔

    اورنگزیب نے 49 سال تک 15 کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار تقریباً پورا برصغیر اس سلطنت کا حصّہ بنا۔

    بادشاہ عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوئے تھے اور 3 مارچ 1707ء کو جب ان کی عمر نوّے برس تھی، دارِ بقا کو لوٹ گئے۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ اکثر مؤرخین نے بادشاہ کو پرہیز گار، مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم لکھا ہے۔ ان کے بارے میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ قرآن مجید لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتے تھے۔ وہ فارسی کے اچھے مضمون نویس تھے جن کے خطوط رقعاتِ عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس مغل بادشاہ کی کتاب فتاویٰ عالمگیری کو بھی خاص اہمیت اور شہرت حاصل ہے۔

  • مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی چہیتی بیٹی زیبُ النساء کا تذکرہ

    مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی چہیتی بیٹی زیبُ النساء کا تذکرہ

    ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب نے اپنی پہلی اولاد کا نام زیبُ النساء رکھا تھا جسے مؤرخین نے عالم فاضل اور فارسی زبان کی شاعرہ لکھا ہے۔ آج زیبُ النساء کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ علم و ادب کی دلدادہ اور قدر دان تھی۔

    1638 زیبُ النساء کی ولادت کا سنہ ہے جس کی ماں جس کا نام دلرسن بانو بیگم تھا۔ زیبُ النساء نے جس قسم کی تعلیم پائی تھی اور خود اس کا مذاق طبیعت جس قسم کا واقع ہوا تھا، اس کے لحاظ سے وہ سیاست سے بالکل نا آشنا تھی، تاہم عالمگیر کے پُرپیچ عہدِ حکومت میں وہ بھی اس بدنامی سے نہ بچ سکی۔ زیبُ النساء نے شادی نہیں کی۔ عالمگیر زیب النساء کی نہایت عزت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لیے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔ کشمیر کے دشوار سفر میں بھی وہ ساتھ تھی۔

    زیب النساء نے دلّی میں قیام کیا اور وہیں پیوندِ زمین ہوئی۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوا۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکلے اور باوجود انتہا درجہ کے استقلال مزاج کے صبر کی تاب نہ لا سکا۔ سیّد امجد خاں، شیخ عطاء اللہ اور حافظ خان کے نام حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصال ثواب کے لیے زکوٰۃ و خیرات دیں۔ اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔

    تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیب النساء علومِ عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ زیب النساء نے قرآنِ مجید حفظ کیا تھا۔ نستعلیق، نسخ اور شکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوان مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔

    اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔زیب النساء کی تصنیفات و تالیفات سے زیب المنشات کا ذکر البتہ تذکروں میں آیا ہے۔ تذکرہ الغرائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ میں نے اس کو دیکھا ہے، زیب النساء کے خطوط اور رقعات کا مجموعہ ہے۔

    زیبُ النساء نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ زیب النّساء دِیدہ زیب عمارات تعمیر کروانے کی بے حد شوقین تھی۔ شہزادی نے لاہور اور دہلی میں کئی عمارات تعمیر کروائیں۔ مؤرخین کے مطابق لاہور میں واقع چوبرجی باغ اور اپنا مقبرہ اس نے خود تعمیر کروایا تھا۔ مقبرے کی تعمیر میں سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر استعمال کیا گیا، جب کہ اس میں خالص سونے کا کلس بھی نصب تھا۔

    شہزادی کی ایک ذاتی لائبریری بھی تھی، جس میں قدیم زمانے کے عربی مخطوطات بھی موجود تھے، جن کا اس نے فارسی میں ترجمہ کروایا۔

    1702 میں‌‌ آج ہی کے دن شہزادی نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ شہزادی کی آخری آرام گاہ پر مؤرخین میں اختلاف ہے اور چند کا خیال ہے کہ وہ دہلی میں آسودۂ خاک ہیں اور بعض نے لکھا ہے کہ لاہور میں ملتان روڈ پر واقع مقبرہ زیب النّساء کا ہے۔

  • خوشحال خان خٹک کا تذکرہ جس کی سرکوبی کے لیے شہنشاہِ ہند کو خود آنا پڑا

    خوشحال خان خٹک کا تذکرہ جس کی سرکوبی کے لیے شہنشاہِ ہند کو خود آنا پڑا

    اقبال کے مجموعۂ کلام ’’بالِ جبریل‘‘ میں ایک مختصر نظم شامل ہے۔ ’’خوشحال خاں کی وصیت‘‘ کے عنوان سے شامل ہے اور موضوعِ سخن ہیں، خوشحال خان خٹک۔ اس نظم میں اقبال نے خوشحال خاں خٹک کو جاں باز کہہ کر آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

    خوشحال خان خٹک کو صاحبُ السّیف و القلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف پشتو زبان کو اپنی شاعری سے مالا مال کیا بلکہ وہ ایک ایسے حریت پسند تھے جنھوں نے زندگی پر اپنی آزادی کو مقدّم رکھا۔ خوشحال خان خٹک کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ صدیاں بیت چکی ہیں۔ 1689ء میں‌ آج ہی کے دن انھوں نے اجل کی پکار پر لبیک کہا تھا۔

    کہتے ہیں وہ خطّاط بھی تھے۔ سُر اور ساز سے لگاؤ رکھتے تھے، لیکن تلوار کے دستے پر بھی گرفت خوب مضبوط تھی۔

    بعض نقّادوں کا خیال ہے کہ خودی، شاہین اور مردِ مومن کا تصوّ جو علاّمہ اقبال کی شاعری میں تواتر سے ملتا ہے، اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار خوشحال خان خٹک نے بھی اپنے کلام میں کیا ہے۔ وہ اقبال ہی کی طرح انسان کی عظمت اور کائنات میں اس کے مقام کے قائل تھے اور اسے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنے اور سخت کوشی کا سبق دیتے رہے۔ اقبال کی شاعری کی طرح باز یا شاہین کو انھوں نے بھی اپنی شاعری میں اعلیٰ صفات اور شوکت کا حامل پرندہ قرار دیا ہے۔ حریت اور آزادی کا پیغام بھی خوشحال خان خٹک کے کلام کا نمایاں وصف ہے۔

    مغربی محققین نے خوشحال خاں کو ’’پشتو کا سپاہی شاعر‘‘ کہا ہے۔ وہ مغلوں کی فوج میں منصب دار تھے۔ شاہ جہاں کے دور میں انھوں نے مغلوں کی طرف سے کئی لڑائیوں میں بھی حصّہ لیا تھا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں حاسد سرداروں کی وجہ سے وہ بادشاہ کی نظروں سے اتر گئے تھے۔ بعد میں انھیں پشاور طلب کرکے گرفتار کر لیا گیا اور پھر دہلی میں قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران وہ شاعری بھی کرتے رہے اور پھر ان کی رہائی عمل میں آئی، جس کے کچھ عرصے بعد تک انھوں نے مغلوں کا ساتھ دیا اور بعد میں باغی ہوگئے اور طویل عرصے تک شاہی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔

    انھوں نے پشتون قبائل کو مغلوں کے خلاف متحد کیا اور‌ ان میں جذبۂ حریت ابھارا۔مشہور ہے کہ خوشحال خاں نے وصیت کی تھی کہ موت کے بعد مجھے ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں مغل شہسواروں کے گھوڑوں کے سموں سے اڑنے والی خاک بھی نہ پہنچ سکے۔

    پشتو زبان کے اس شاعر نے 1613ء میں پشاور کے نزدیک ایک گاؤں اکوڑہ میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ بعد میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے۔ مغل دور میں شاہ جہاں نے ان کا حقِ سرداری قبول کیا تھا، مگر بعد میں اورنگ زیب بادشاہ بنا تو خوشحال خان خٹک نے ایک موقع پر اس کے خلاف علمِ حرّیت بلند کیا اور گرفتاری کے بعد وفاداری کے وعدے پر رہا کیے گئے، جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

    مغلوں کے اس باغی کو زیر کرنے کے لیے مغل افواج نے جب بھی حملہ کیا، انھیں جھڑپوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ناکامی نے اورنگ زیب کو سخت مشتعل کر دیا اور ایک وقت آیا جب وہ خود اس سردار اور اس کا ساتھ دینے والے قبائلیوں کی سرکوبی کے لیے آیا اور خوشحال خان خٹک کو شکست دی۔

    خوش حال خان خٹک نے تقریباً چالیس ہزار اشعار یادگار چھوڑے ہیں جن میں تغزّل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ غالب ہے۔ بیش تَر کلام رجزیہ ہیں۔ ان کے اشعار میں جوش و ولولہ، آزادی کا موضوع اور مغلوں کی مخالفت پڑھنے کو ملتی ہے۔ خوشحال خان خٹک پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات نے بہت کچھ لکھا اور ان کی شاعری اور فکر و نظریہ پر تحقیق کے بعد کئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ پشتو کے اس مشہور شاعر کا مدفن اکوڑہ خٹک میں ہے۔

    تلوار جب تیز ہو جاتی ہے تو وار کے لیے
    زلفیں جب پیچ دار ہوتی ہیں تو اپنے عاشق کے لیے (اردو ترجمہ)

    یہ سردار خوشحال خان خٹک کی غزل کا ایک شعر ہے جو انھیں بیک وقت ایک جنگجو اور حُسن پرست ظاہر کرتا ہے۔

  • دلرس بانو بیگم کا تذکرہ جو ہندوستان کے دوسرے تاج محل میں مدفون ہیں

    دلرس بانو بیگم کا تذکرہ جو ہندوستان کے دوسرے تاج محل میں مدفون ہیں

    دلرس بانو بیگم نے مختصر زندگی پائی۔ وہ ہندوستان کے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تین بیویوں میں سے ایک تھیں۔ 1657ء میں آج ہی کے دن دلرس بانو بیگم وفات پاگئی تھیں۔

    مؤرخین نے دلرس بانو بیگم کا سنِ پیدائش 1622ء لکھا ہے۔ وہ ربیعہ الدّرانی کے نام سے بھی پکاری جاتی تھیں۔ اورنگزیب کی پہلی بیوی ہونے کے ناتے شاہی خاندان میں ان کی بڑی حیثیت اور اہمیت تھی۔

    اورنگزیب عالمگیر کی ماں ممتاز محل تھیں جن کی عظیم الشّان یادگار اور نشانی تاج محل دنیاک کے خوب صورت ترین مقابر اور عجائبِ روزگار عمارات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی شریکِ حیات دلرس بانو بیگم بھی اورنگ آباد میں ایسے ہی مقبرے میں آسودہ خاک ہوئیں جو تاج محل سے مماثلت رکھتا ہے۔ اسے بی بی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔

    مؤرخین نے دلرس بانو کو ایران کے مشہور صفوی خاندان کی شہزادی لکھا ہے۔ ان کی شادی 1637ء میں اورنگزیب سے ہوئی تھی اور ان کی پانچ اولادیں تھیں جن میں شہزادہ محمد اعظم کو اورنگزیب نے ولی عہد مقرر کیا تھا۔

    دلرس بیگم کی وفات اپنی پانچویں اولاد کی پیدائش کے ایک مہینے بعد زچگی کے دوران ہونے والی پیچیدگی کے سبب لاحق ہونے والے بخار کی وجہ سے ہوئی۔

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ کو اپنی پیاری زوجہ کی موت کا شدید دکھ ہوا جب کہ اس کا سب سے بڑا بیٹا محمد اعظم اپنی ماں کی ناگہانی موت کے صدمے کے سبب اعصابی توازن کھو بیٹھا تھا۔

  • روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    مغل شہنشاہ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز محل کی صاحب زادی روشن آرا بیگم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دین دار خاتون تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے رفاہِ عامّہ کے کئی کام کروائے جن کا ذکر اب صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لاڈلی تھیں۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    روشن آرا بیگم 11 ستمبر 1671ء کو وفات پاگئی تھیں۔ 1617ء میں‌ پیدا ہونے والی روشن آرا بیگم کی ماں مغل بادشاہ کی چہیتی بیوی ملکہ ارجمند بانو (ممتاز محل) تھیں۔ روشن آرا کے حقیقی بہن بھائیوں میں دارا شکوہ، اورنگزیب عالم گیر اور جہاں آرا مشہور ہیں۔

    روشن آرا بیگم کی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جیسا کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک شاہزادی کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جملہ علوم و فنون اور تدبیر و سیاست سیکھی، لیکن اس شہزادی کو فنِ کتابت میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مشق نے انھیں کتابت میں ایسا باکمال کیا کہ ان کا خط دیکھنے والے داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے تھے۔

    شہزادی روشن آرا کو سب بھائیوں میں اورنگزیب عالم گیر سے زیادہ محبّت تھی۔ وہ اورنگزیب کی خیرخواہ تھیں۔ جب شہزادی کے بھائیوں دارا شکوہ، مراد، شجاع اور اورنگزیب میں تخت نشینی پر تنازع پیدا ہوا تو روشن آرا نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔

    مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں اورنگزیب کے خلاف ہونے والی باتیں بھائی تک پہنچاتی تھیں اور اسے ہر قسم کی سازشوں سے آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔

    ہندوستان میں تاج و تخت سے جڑے واقعات، محلّاتی سازشوں کے تذکروں اور اس دور کے شاہی مؤرخین کے قلم سے لکھی گئی تاریخ میں مبالغہ آرائی ہی نہیں، من گھڑت اور بے بنیاد قصّے کہانیاں اور جھوٹ کی آمیزش سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاہ و جلال اور اختیار کی خواہش اور ہوسِ زر کے لیے خونی رشتوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ اسی شہزادی کے باپ اور بھائیوں کو قید کے ساتھ دردناک موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس میں اورنگزیب کا ہاتھ تھا۔

    اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ روشن آرا بیگم نے تخت نشینی کے معاملے میں اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خیر خواہی اور بیدار مغزی نے اورنگزیب کو فائدہ پہنچایا اور وہ تخت و تاج حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کام یابی میں اگرچہ اورنگزیب کی تدبیر و سیاست اور عزم و ہمّت کو سب سے زیادہ دخل تھا، لیکن اس کی بہن شہزادی روشن آرا بیگم نے ہر موقع پر اس کی مدد اور راہ نمائی کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنی بہن اور شہزادی روشن آرا بیگم کو بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ ایک بڑی جاگیر کی مالک تھیں جب کہ شاہی وظیفہ بھی پاتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق شہزادی کی دولت کا پیش تر حصّہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد میں صرف ہوتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم رفاہِ عامہ کے سلسلے میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی تھیًں۔ انھوں نے کئی کام کروائے جن سے رعایا کو فائدہ پہنچا، لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں‌ رہا۔

  • یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    یومِ وفات: بدنصیب شہزادہ دارا شکوہ جس کی اصل قبر آج بھی تلاش کی جارہی ہے

    دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا تھا۔

    مؤرخین نے اسے طبعاً صلح جُو، غم گسار، صوفیا کا ارادت مند لکھا ہے۔ وہ فارسی، عربی اور سنسکرت کا عالم اور متعدد کتب کا مصنّف تھا۔

    شہزادہ دارا شکوہ کی نظر میں تمام مذاہب قابلِ احترام تھے۔ وہ جہاں مسلمان علما اور صوفیائے کرام کی مجالس میں شریک رہتا، وہیں ہندو، سکھ اور بدھ مت کے پیروکاروں سے بھی علمی و مذہبی موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں اسے ایک بدنصیب شہزادے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جسے 1659ء میں آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    دارا شکوہ شاہ جہاں کے بعد تخت کا وارث تھا، لیکن شہنشاہ کے چھوٹے بیٹے اورنگزیب نے اسے معزول کرکے قید کر لیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور شہر اجمیر میں 1615ء میں‌ آنکھ کھولنے والا دارا شکوہ شاہ جہاں کا لاڈلا تھا۔ وہ بڑا ہوا تو ایک مفکّر، شاعر اور فنونِ لطیفہ کا شیدائی نکلا، لیکن سلطنت کے انتظام اور خاص طور پر فوجی امور میں اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

    مؤرخین نے دارا شکوہ کی شادی کو مغل دور کی مہنگی ترین تقریب لکھا ہے۔ اس شہزادے کا نکاح نادرہ بانو کے ساتھ ہوا۔ 1633ء میں شاہی خاندان میں ہونے والی شادی کی یہ تقریب کئی روز جاری رہی تھی۔

    محمد صالح کمبوہ لاہوری شاہ جہاں کے دربار سے منسلک ایک مؤرخ تھے۔ انھوں نے ’شاہ جہاں نامہ‘ جیسی کتاب لکھی جو بہت مشہور ہے۔

    وہ دارا شکوہ کی گرفتاری اور قتل کے بارے میں لکھتے ہیں، ’شہزادہ کو جب گرفتار کر کے دلّی لایا گیا تو اس کے جسمِ نازنین پر میلا کچیلا لباس تھا۔ یہاں سے اسے نہایت سرگردانی اور برگشتہ بختی کی حالت میں ہاتھی پر سوار کر کے خضر آباد پہنچایا گیا۔ کچھ عرصے ایک تنگ و تاریک گوشے میں رہا اور تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔‘

    قتل کے بعد اس کی لاش کو کہاں دفنایا گیا، اس بارے میں بتانا کچھ مشکل ہے، کیوں کہ کوشش کی گئی تھی کہ کسی کو اس کی قبر کا علم نہ ہوسکے۔

    دارا شکوہ کی قبر کہاں ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں اس وقت کے ایک مؤرخ محمد کاظم ابن محمد امین منشی نے اپنی مشہور کتاب ’عالمگیر نامہ‘ میں لکھا ہے، ’دارا شکوہ کو ہمایوں کے مقبرے میں اس گنبد کے نیچے دفنا دیا گیا جہاں شہنشاہ اکبر کے بیٹے دانیال اور مراد دفن ہیں۔‘

    کسی شہزادے کا موت کے بعد یوں بے نام و نشان ہو جانا تعجب کی بات نہیں کیوں کہ تاریخ کے اوراق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب شاہی خاندان میں مخالف کو مرنے کے بعد اس طرح ٹھکانے لگایا گیا ہو کہ کوئی اس کی قبر تک نہ پہنچ سکے۔

    مؤرخین کے مطابق اس بدنصیب شہزادے کا سر قلم کردیا گیا تھا۔ شاہ جہاں کے عہد کے مؤرخین کی تحریر اور بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کا دھڑ دلّی میں ہمایوں کے مقبرے میں کسی جگہ پیوندِ‌ خاک بنا، لیکن اس کا سَر تاج محل کے صحن میں کہیں دفن ہے۔

    رباعیات کے علاوہ دارا شکوہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سفینۃُ الاولیا، سکینۃُ الاولیاء اور حسناتُ العارفین مشہور ہیں۔

  • اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی سے متعلق انگریز مصنّفین کی بے سَر و پا باتیں

    بمبئی کے سفرمیں ایک عزیز دوست نے جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیبُ النسا کی سوانح عمری کے متعلق تھا۔

    مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایۂ معلومات تمام تر بازاری قصّے تھے جس میں سے ایک شرم ناک قصّہ عاقل خان رازی کا بھی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بازاری اہلِ قلم نے زیب النسا کے جو حالات تجارتی غرض سے قلم بند کیے، وہ بالکل بے سروپا ہیں۔

    اس بنا پر خیال ہوا کہ زیبُ النسا کے متعلق صحیح معلومات یکجا کر دیے جائیں، جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ غلط معلومات کی اصلاح ہو جائے گی۔

    زیبُ النسا کی ولادت
    زیبُ النسا اورنگ زیب (مغل بادشاہ) کی سب سے پہلی اولاد تھی۔ زیب النسا شادی کے دوسرے سال شوال ۱۰۴۸ہجری (1638ء) میں پیدا ہوئی۔ حسبِ دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی۔ تمام تاریخیں اور تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ زیب النسا نے عربی اور فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل تھی۔

    زیب النسا نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطینِ تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنّفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دو بیٹیاں زبدۃُ النسا بیگم اور مہرالنسا بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسرِ شہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چناں چہ مآثرِعالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اور مختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

    عالمگیر زیبُ النسا کی نہایت عزّت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لیے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔

    زیب النساء نے ۱۱۱۰ ہجری (1698 یا 1702ء) میں دلّی میں انتقال کیا۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غم زدہ ہوا۔ حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیے زکوٰۃ و خیرات دیں۔ اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔ خانی خان نسخہ مطبوعہ کلکتہ میں زیب النسا کا نام اور اس کے واقعات ۱۱۲۲ ہجری (1710ء) تک آتے ہیں، لیکن یہ صریح غلطی ہے۔ کاتبوں نے غلطی سے زینتُ النسا کو زیبُ النساء سے بدل دیا ہے۔

    کمالاتِ علمی اور عام اخلاق و عادات
    تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیبُ النسا علومِ عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اور شکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوانِ مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔

    علم پروری
    زیبُ النسا نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔

    اخلاق و عادات
    زیب النسا اگرچہ درویشانہ اور منصفانہ مذاق رکھتی تھی، تاہم شاہجہاں کی پوتی تھی۔ اس لیے نفاست پسندی اور امارت کے سامان بھی لازمی تھے۔ عنایت اللہ خاں جو امرائے عالمگیری میں مقربِ خاص تھا، زیب النسا کا میر خانساماں تھا۔ کشمیر میں جا بجا خوشگوار اورخوش منظر چشمے ہیں۔ ان میں سے ایک چشمہ جس کا نام احول تھا، زیب النسا کی جاگیر میں تھا۔ زیب النسا نے اس کے متصل ایک نہایت پُر تکلف باغ اور شاہانہ عمارتیں تیار کرائی تھیں۔

    زیبُ النسا کے متعلق جھوٹے قصّے
    زیبُ النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصّے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دَم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔

    (اردو کے نام وَر سیرت نگار، مؤرخ، عالمِ دین اور نقّاد شبلی نعمانی کے ایک مضمون سے تالیف کردہ پارے)

  • مغل بادشاہ اور بہروپیا

    مغل بادشاہ اور بہروپیا

    اردو کے نام ور ادیب، افسانہ نگار اور ناصح اشفاق احمد نے اپنی مشہور کتاب ’’زاویہ‘‘ میں‌ ایک بہروپیے کا پُرلطف اور سبق آموز قصّہ رقم کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

    یہ قصّہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر اور ایک بہروپیے کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے۔ مشہور ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کھیل تماشوں سے دور رہتا تھا اور علما و قابل لوگوں کی محفل و مجلس پسند کرتا تھا۔

    ایک روز ایک شخص اس کے دربار میں حاضر ہوا اور کہا:” شہنشاہِ معظّم ! میرا نام کندن بہروپیا ہے اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں کہ آپ، جنھیں اپنے تبحرِ علمی پہ بڑا ناز ہے، دھوکا دے سکتا ہوں، اور غُچہ دے کر کام یابی سے نکل جانے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔”

    اورنگ زیب نے اس کا دعویٰ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تضیعِ اوقات ہے، میں تو شکار کو بھی کارِ بیکار سمجھتا ہوں۔ اس شخص نے اصرار کیا، شہنشاہِ معظم کی دانش کا جواب نہیں لیکن آزمانے کو سہی، میں موقع دیکھ کر بھیس بدلوں گا اور آپ مجھے نہ پہچان سکے تو پانچ سو روپے عنایت کر دیجیے گا۔ بادشاہ نے اس کا دل رکھنے کو بات مان لی۔ وہ شخص دربار سے چلا گیا۔

    اس بات کو سال ہی گزرا تھا جب اورنگزیب عالمگیر نے مرہٹوں پر حملہ کیا۔ وہ اپنے مضبوط قلعے میں تھے۔ اورنگزیب کے لشکر کو مشکل کا سامنا تھا۔ لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہوں اور دعا کی درخواست کریں تو قلعہ تسخیر کرسکتے ہیں۔

    اورنگزیب نے بزرگ کی خدمت میں‌ حاضری کا فیصلہ کیا۔ اس نے فقیر کو اپنی آمد کا مقصد بتایا اور اپنا مدعا اس کے سامنے رکھا تو فقیر نے کہا کہ اگر اس کا لشکر پرسوں بعد نمازِ ظہر حملہ کرے تو کام یابی نصیب ہوگی۔

    اورنگزیب نے ایسا ہی کیا اور قلعہ فتح ہو گیا۔ فوج کو معلوم تھا کہ وہ بزرگ کی دعا لے کر لوٹا ہے اور انہی کے کہنے پر پوری قوّت سے حملہ کرنے کے لیے یہ دن اور وقت چنا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہ کی فوج جوش و ولولے سے بھری ہوئی تھی اور ان کے ارادے مضبوط تھے۔ فتح کے بعد بادشاہ اس فقیر کے پاس گیا اور بڑی جاگیر اور مراعات اس کے نام کرنا چاہیں۔ فقیر نے انکار کردیا۔

    اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا۔ چند روز بعد وہی فقیر بادشاہ کے دربار میں‌ آیا تو شہنشاہ نے کہا: "حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے، مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔”

    فقیر نے کہا! ” نہیں شہنشاہِ معظّم! آپ نے مجھے پہچانا نہیں‌، میں کندن بہروپیا ہوں، میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں۔” اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

    بادشاہ کو یاد آگیا کہ یہی وہ آدمی ہے جو اس کے دربار میں پہلے بھی آیا تھا۔ اورنگزیب نے کہا:”مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کے نام اتنی زمین اور مراعات دینا چاہیں تو انکار کیوں کیا؟ آپ تو بہت عیش سے رہ سکتے تھے، یہ پانچ سو روپیہ تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔

    کندن بہروپیے نے کہا: ” حضور بات یہ ہے کہ میں نے جن کا روپ دھارا تھا، ان کی عزّت مقصود تھی۔ وہ سچّے لوگ ہیں، ہم جھوٹے۔ یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچّوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی بھی کروں۔

    قصہ مختصر کہ بھلے وقتوں میں لوگ کسی کا سوانگ بھرتے تو اس کے وقار اور ناموس کا بھی خوب لحاظ کرتے، اور کوئی ایسی حرکت نہ کرتے جس سے اس حقیقی کردار کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا اندیشہ ہوتا۔ آج کل سچّے اور کھرے لوگوں کا بھیس بدل کر ہر وہ کام کیا جاتا ہے، جس سے ان کی عزت پر حرف آتا ہے۔