Tag: اورنگزیب عالمگیر

  • مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    اکوڑہ خٹک نامی گاؤں کو سولہویں صدی عیسوی میں ملک اکوڑہ خان خٹک نے آباد کیا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے انھیں اس علاقے کی جاگیر داری اور اٹک کے گھاٹ سے دریائے سندھ عبور کرنے والوں سے راہداری (ٹول ٹیکس) وصول کرنے کا اختیار نامہ دیا تھا جس کے بعد ملک اکوڑہ خٹک نے اسی جگہ مستقل سکونت اختیار کی اور یہ علاقہ انہی سے منسوب ہوگیا۔

    ملک اکوڑہ خٹک پشتو زبان کے مشہور شاعر اور مجاہد خوش حال خان خٹک کے پڑ دادا تھے۔ اب اسے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک تاریخی قصبہ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جو ضلع نوشہرہ میں واقع ہے۔

    اس قصبے کے ایک نام وَر اور پشتو کے ممتاز شاعر و ادیب خوش حال خان خٹک کو صاحبِ سیف و قلم بھی کہا جاتا ہے۔ پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک مجاہد کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور پشتو زبان میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔

    وہ 1613 میں اکوڑہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اوائل عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے تو مغل حکم راں شاہ جہاں نے انھیں قبول کرلیا، مگر بعد میں کسی وجہ سے اورنگزیب نے ان کی سرداری قبول کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، لیکن گرفتار ہوئے اور انھیں‌ رن تھمبور کے قلعے میں قید کردیا گیا۔ بعد میں‌ وفادار اور مطیع رہنے کے وعدے پر انھیں آزاد کیا گیا، مگر انھوں‌ نے شاہی افواج کے خلاف کارروائیاں‌ جاری رکھیں اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اورنگزیب خود ان کے خلاف میدان میں نکل آیا۔ خوش حال خان خٹک اور ان کے ساتھیوں کو اس میں شکست ہوئی اور پشتو ادب کا یہ نام ور اور حریت پسند 1689 میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    خوش حال خان خٹک کی زندگی، شخصیت اور فن پر کئی کتب لکھی جاچکی ہیں‌۔ انھیں‌ کثیر الجہت اور نابغہ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جن کے تذکرے کے بغیر پشتو ادب کی تاریخ ادھوری ہے‌۔

  • کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    کس کے اشارے پر "سدھاکر” اورنگزیب عالمگیر کی طرف بڑھا تھا؟

    اورنگزیب عالمگیر کو مؤرخین نے برصغیر کا عظیم شہنشاہ لکھا ہے۔ مغلیہ سلطنت کا یہ چھٹا تاج وَر تین نومبر 1618 کو پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر پر ان کے دادا جہانگیر کا راج تھا اور کروڑوں انسانوں کی قسمت اُن کے جنبشِ ابرو سے بنتی اور بگڑتی تھی۔

    اورنگزیب کا نام محی الدین محمد رکھا گیا۔ وہ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کی تیسری اولاد تھے۔

    اورنگزیب نے اس زمانے کے دستور کے مطابق جہاں ضروری اسلامی علوم اور طرزِ حیات سیکھا، وہیں شاہ زادے کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور دیگر فنونِ سپاہ گری کی بھی تعلیم دی گئی۔ اورنگزیب نے ادب اور خطاطی میں دل چسپی لی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔ مشہور ہے کہ وہ ٹوپیاں سیتے اور قرآن کی کتابت کرتے جس کی آمدن ذاتی گزر بسر پر خرچ ہوتی تھی۔

    محی الدین محمد نے مغل تخت سنبھالا تو اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین عالمگیر کا لقب اختیار کیا۔ مؤرخین کے مطابق 3 مارچ 1707 کو جب وہ نوّے برس کے ہوئے تو بیمار پڑے اور دارِ فانی سے کوچ کیا۔ انھیں وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    شاہجہاں کے چاروں بیٹوں کی شروع ہی سے تاج و تخت پر نظر تھی۔ اورنگزیب خود کو اس کا اصل حق دار سمجھتے تھے۔

    تخت اور اختیار کی خواہش میں بغاوت اور طرح طرح کی سازشوں کے ساتھ خونی رشتوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جس کی مغل تاریخ گواہ ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ شاہ جہاں کے درباری شاعر اور ایک شاہی مؤرخ نے بھی بیان کیا تھا۔

    یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

    اپنے بیٹے دارا شکوہ کی شادی کے بعد ایک روز تفریح کی غرض سے شاہ جہاں نے دو ہاتھی سدھاکر اور صورت سندر کے درمیان مقابلہ کی خواہش ظاہر کی۔

    مقابلہ شروع ہوا تو حاضرین نے دیکھا کہ اچانک سدھاکر، گھوڑے پر بیٹھے اورنگزیب کی طرف غصے سے بڑھا، اورنگزیب نے پُھرتی سے اس کی پیشانی پر نیزے سے وار کیا جس نے اسے مزید مشتعل کر دیا۔

    اس نے گھوڑے کو اتنے زور سے ٹکر ماری کہ اورنگزیب زمین پر آ گرا۔ قریب موجود اورنگزیب کے بھائی شجاع اور راجا جے سنگھ نے شاہ زادے کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اسی دوران دوسرے ہاتھی شیام سندر نے سدھاکر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔

    بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مقابلے کے دوران دارا شکوہ پیچھے ہی موجود تھے، لیکن انھوں نے اورنگزیب کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

    شاہی خاندان اور بھائیوں میں اختلافات، اقتدار کی خاطر پروپیگنڈا، بغاوت اور مسلح‌ لڑائیوں‌ کے باوجود تخت اورنگزیب کا مقدر بنا اور انھوں نے 49 سال تک کروڑوں انسانوں پر راج کیا۔ مؤرخین کے مطابق ان کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت وسیع ہوئی اور تقریباً پورا برصغیر مغلوں کے تابع رہا۔

  • موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    موت کی سزا منسوخ کر دی گئی!

    منشی محمد دین فوق کی تصنیف وجدانی نشتر میں اورنگ زیب عالم گیر کا ایک واقعہ ملتا ہے جو مغل دور کے حالات کی ایک جھلک ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ خاندانِ مغلیہ کے نام ور حکم راں اورنگ زیب عالم گیر نے ایک مرتبہ حکم جاری کیا کہ تمام رقاص اور گانے بجانے والی عورتیں فلاں تاریخ تک نکاح کرلیں ورنہ انھیں کشتی میں بھر کر دریا بُرد کردیا جائے گا۔ بادشاہ کا حکم جاری ہوا اور منادی کی گئی تو اس زمانے کی بہت سی مغنیہ اور اس پیشے سے جڑی عورتوں نے نکاح کر لیے، مگر کئی رہ گئیں۔ یہاں تک کہ حکم کے مطابق وہ تاریخ سَر پر آگئی جب سپاہی آتے اور ایسی عورتوں کو دریا میں پھینک آتے۔

    اس زمانے کے ایک بزرگ شیخ کلیم اللہ دہلوی تھے۔ ایک طوائف پابندی سے ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ آپ وظائف سے فارغ ہوتے تو وہ بزرگ کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی اور توجہ پاکر سلام کرتی اور فوراً ہی چلی جاتی۔ حکم پر عمل کرنے کی مقررہ تاریخ میں ایک روز باقی تھا۔ وہ اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کرنے کے بعد عرض کی کہ خادمہ کا آخری سلام قبول کیجیے۔ اس پر شیخ نے حقیقتِ حال دریافت فرمائی۔ طوائف نے بزرگ کو متوجہ پایا تو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ نے ہدایت دی کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو۔
    در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ دادند
    گر تو نمی پسندی تغیر کن قضارا
    (ترجمہ: نیک نامی کے کوچے میں ہمیں نہیں جانے دیا گیا، اگر تُو یہ پسند نہیں کرتا تو قضا کو بدل دے)

    بزرگ نے اس کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ مقررہ دن دریا کی طرف جاتے ہوئے سب مل کر بلند آواز سے یہ شعر پڑھنا۔ کہتے ہیں اگلے روز جب ایسی عورتوں کو دریا کی طرف لے جایا جانے لگا تو انھوں نے یہ شعر سوز و رقت سے باآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک سماں سا بندھ گیا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور راستوں پر جمع ہوگئے۔ حکم کی تعمیل کا دن تھا اور اس حوالے سے بادشاہ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کے ایک درباری نے یہ بات انھیں بتا دی۔

    بادشاہ اس سے متاثر ہوا اور وہی شعر پڑھتے ہوئے ان عورتوں کے دریا بُرد کیے جانے کا حکم منسوخ کردیا۔