Tag: اورنگٹن

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔

  • اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    بدلتے ہوئے موسموں اور شکار کے لیے خطرناک جدید تکنیکوں کے استعمال کے بعد جنگلی حیات کی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہورہی ہے اور بہت سے جانداروں کی معدومی کا خدشہ ہے۔

    تاہم ایک جانور ایسا بھی ہے جو اپنی نسل کا واحد معلوم رکن ہے اور ابھی تک اس نسل کے مزید جانور نہیں دیکھے گئے۔

    بندر سے ملتا جلتا ایک جانور اورنگٹن خود بھی ایک نایاب جانور ہے جو صرف ملائیشیا اور انڈونیشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کی نسل جسے البینو اورنگٹن کہا جاتا ہے، اس کا صرف ایک ہی رکن اب تک دیکھا جاسکا ہے۔

    عام اورنگٹن

    یہ اورنگٹن البانزم نامی بیماری کا شکار ہے۔ یعنی اس کے جسم میں رنگ پیدا کرنے والے پگمنٹس کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ عام اورنگٹن کی طرح بھورا ہونے کے بجائے سفید ہے۔

    البانزم کی یہ بیماری انسانوں اور دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔

    تاہم جانوروں میں یہ بیماری انہیں اپنے ہم نسلوں سے ممتاز اور منفرد بنا دیتی ہے۔

    اس وقت دنیا میں واحد البینو اورنگٹن البا نامی مادہ اورنگٹن ہے۔ اسے ایک شخص کی قید سے رہائی دلائی گئی تھی جس نے اسے پنجرے میں قید کر رکھا تھا۔

    البا کو جنگل میں نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ اپنے سفید بالوں اور انفرادیت کی وجہ سے یہ شکاریوں کا خاص ہدف بن سکتی ہے۔

    اسے ایک جزیرے پر منتقل کیا گیا ہے جس کا ماحول تقریباً اس کی قدرتی رہائش گاہ جیسا ہی ہے۔

    البا اس جزیرے پر دوسرے اورنگٹنز کے ساتھ مزے سے رہ رہی ہے جہاں وہ دل بھر کے اپنے پسندیدہ پھل کھاتی ہے۔


    بحوالہ نیشنل جیوگرافک