Tag: اورنگ آباد

  • گود لی ہوئی 4 سالہ بچی کو سفاک والدین نے کیوں قتل کیا؟

    گود لی ہوئی 4 سالہ بچی کو سفاک والدین نے کیوں قتل کیا؟

    اورنگ آباد: بھارتی ریاست مہاراشٹر میں والدین نے گود لی ہوئی معصوم 4 سالہ بچی کو سفاکی سے قتل کر دیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر میں ضلع اورنگ آباد کے قصبے سلوڈ میں چار سالہ گود لی ہوئی بچی کے قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے۔

    پولیس حکام کا کہنا تھا کہ بچی کی موت مار پیٹ اور سر پر کسی بھاری چیز لگنے سے ہوئی ہے، ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا کہ قتل ہونے والی لڑکی کا نام آیت فہیم شیخ ہے، جس کے قتل کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

    پولیس نے دونوں ملزمان فہیم شیخ ایوب اور فوزیہ شیخ فہیم کو گرفتار کر لیا ہے، جن کے پہلے سے 4 بچے تھے، تاہم لڑکی کی خواہش میں انھوں نے لڑکی گود لینے کا فیصلہ کیا، اور 6 ماہ قبل جالنا کے شیخ نسیم عبدالقیوم سے 4 سالہ بچی آیت شیخ کو گود لیا۔


    شوہر بیوی کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد لاش سے باتیں کرتا رہا


    پولیس کے مطابق بدھ کی رات میاں بیوی نے اس لڑکی کو مارا پیٹا، اور لڑکی کے سر پر کسی سخت چیز سے وار کیا، جس سے اس کی جان چلی گئی، میاں بیوی نے اس کی لاش کو چھپکے سے دفنانے کی کوشش کی لیکن پڑوسیوں نے شک ہونے پر پولیس کو اطلاع کر دی۔

    پولیس نے لڑکی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا ہے، ملزم میاں بیوی نے پولیس کے سامنے انکشاف کیا کہ انھوں نے لڑکی کو جالنا کے شیخ نسیم سے 5000 روپے میں خریدا تھا، بچی کا سودا جعفرآباد کے ایک مڈل مین کے ذریعے ہوا، جس کے دستاویزات بھی موجود ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کو مارنے کی وجہ فی الوقت معلوم نہیں ہو سکی ہے، بچی کو گود لینے کے عمل کی چھان بین کی جائے گی، اگر یہ عمل غیر قانونی پایا گیا تو بچی کے حیاتیاتی والد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے گا۔

    پولیس کے مطابق لڑکی کے حیاتیاتی والدین نازیہ فیروز خان اور شیخ نسیم عبدل کی طلاق ہو چکی ہے، نسیم نشے کا عادی تھا، بیوی نے طلاق لے کر کسی اور سے شادی کر لی، اس کی 5 بیٹیاں تھیں جن میں سے وہ 4 کو اپنے ساتھ لے گئی، جب کہ سب سے چھوٹی آیت اپنے والد کے ساتھ رہتی تھی۔

  • بھارتی شہر میں مسلمان لڑکیوں کی نیلامی کا انکشاف، ایک سال میں 106 بچیاں غائب

    بھارتی شہر میں مسلمان لڑکیوں کی نیلامی کا انکشاف، ایک سال میں 106 بچیاں غائب

    اورنگ آباد: بھارتی ریاست مہاراشٹر کے تاریخی شہر اورنگ آباد میں لڑکیوں کی نیلامی کا ایک بڑا اور شرم ناک اسکینڈل سامنے آیا ہے، شہر کے سابق رکن پارلیمان امتیاز جلیل نے میڈیا میں دعویٰ کیا کہ صرف رواں برس کے دوران اورنگ آباد شہر سے 106 بچیاں غائب ہو چکی ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر میں ایک بہت بڑا گروہ سرگرم ہے جو لڑکیوں کی نیلامی کرواتا ہے، انھوں نے ایک 20 سالہ مغوی لڑکی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ریاستی حکومت اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس گروہ کو پکڑ کر اس کی بیخ کنی کی جائے، انھوں نے ریکٹ سے جڑے ایک شخص کی تصویر بھی پیش کی۔

    ٹائمز آف انڈیا کے مطابق امتیاز جلیل نے بتایا کہ مہاراشٹر میں آئے دن لڑکیوں کے لاپتا ہونے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، صرف 2023 میں اورنگ آباد شہر سے 188 بچیاں غائب ہو چکی ہیں اور ضلع کے مختلف علاقوں سے 111 بچیاں لاپتا ہوئی ہیں۔

    انھوں نے ایک مسلمان لڑکی کی نیلامی کے افسوس ناک واقعے کا تفصیلی ذکر کیا، امتیاز جلیل نے بتایا کہ لڑکی گھر سے ناراض ہو کر نکلی تو ریلوے اسٹیشن پر ایک جوڑے نے اسے نشہ آور مشروب پلا کر ممبئی پہنچا دیا، وہاں ایک گاؤں میں لڑکی کو ڈیڑھ لاکھ روپے میں نیلام کیا گیا۔

    سابق رکن پارلیمان کے مطابق یہ نیلامی ایک گھر میں بیٹھ کر کی گئی، جس کی وہاں موجود لوگوں نے باقاعدہ ویڈیو بھی بنائی، نیلامی کے بعد اس مسلمان بچی کی ہندو سے شادی کرا دی گئی، امتیاز جلیل کے مطابق اطلاع ملنے پر انھوں نے لڑکی کے اہل خانہ اور کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر مدھیہ پردیش پولیس کی مدد سے لڑکی کو بازیاب کروایا۔

    امتیاز جلیل نے مہاراشٹر حکومت کی ’لاڈلی بہن اسکیم‘ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خواتین کو 1500 روپے ماہانہ دینے والی حکومت ’’ایک اسپیشل ٹاسک فورس تیار کرے اور مہاراشٹر بھر کی لاپتا بچیوں کو ریسکیو کرے، کیوں کہ وہ بھی کسی کی لاڈی بہن بیٹی ہیں۔‘‘

  • سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔

    بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

    اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

    یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

    کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔

    ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

    ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔

     

    اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

    ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔

     

    اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

    اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔

    1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

    1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔