Tag: اولاد

  • اولاد نہ ہونے پر میاں بیوی نے انتہائی اہم قدم اٹھا لیا

    اولاد نہ ہونے پر میاں بیوی نے انتہائی اہم قدم اٹھا لیا

    شادی کے 7 سال کے بعد  اولاد نہ ہونے پر میاں بیوی نے دلبرداشتہ ہوکر انتہائی اہم قدم اٹھا لیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ بھارت کے احمد نگر میں پیش آیا ہے، جہاں محبت کی شادی کے 7 سال گزرنے کے بعد اولاد نہ ہونے پر میاں بیوی نے خودکشی کرلی۔

    رپورٹ کے مطابق لکشمن اور رانی کی 7 سال پہلے محبت کی شادی ہوئی تھی، ان کے یہاں اب تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اور وہ مقروض بھی ہوگئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق اولاد کی کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئے تھے، اسی بے چینی کی حالت میں دونوں نے کیڑے مار دوا پی کر خودکشی کرلی۔

  • اولاد نے بزرگ والدین کو بے سہارا چھوڑ دیا، عدالت کا اہم فیصلہ

    اولاد نے بزرگ والدین کو بے سہارا چھوڑ دیا، عدالت کا اہم فیصلہ

    پشاور: ہائی کورٹ کے جج جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ والدین ایک کمرے میں 8 بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن بڑے ہوکر وہی اولاد بوڑھے ماں باپ کو نہیں سنبھال سکتے، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی لیکن والدین کا حق سب سے پہلے نمبر پر اور سب سے زیادہ ہے۔

    پشاور ہائیکورٹ میں بوڑھے والدین کو بچوں کی طرف سے بے سہارا چھوڑے جانے کے ایک کیس میں عدالت نے برزگ والدین کے پانچ بیٹوں پر ہر مہینے 26 سے 28 تاریخ تک تین تین ہزار روپے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو تمام بیٹوں سے تین تین ہزار روپے لے کر ان کے والدین تک پہنچانے کی ہدایت کی، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایس ایچ او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھیں، ان کا جو بیٹا بیرون ملک مقیم ہے، ان کے گھر کا پتا کر کے ان کی بیوی کو اطلاع دیں، کہ اپنے شوہر کو آگاہ کرے کہ ہر مہینے تین ہزار روپے والدین کے لیے بھیجیں، اگر پیسے نہیں بھیجتے تو پھر ہم ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیں گے۔

    قبل ازیں، بوڑھے والدین کو بے سہارا چھوڑنے پر بیٹوں کے خلاف دائر کیس میں ایس ایچ او نے بیٹوں کو بغیر ہتھکڑیوں کے عدالت میں پیش کیا تو عدالت نے ایس ایچ او کی سرزنش کر دی، جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ان کی ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے، بغیر ہتھکڑی کیوں پیش کیا، ہتھکڑیوں میں ان کو لاتے تو ان کو کچھ احساس ہوتا۔

    جسٹس روح الامین نے والدین کو بے سہارا چھوڑنے والے بیٹوں سے استفسار کیا کہ آپ کی شادیاں کس نے کرائیں، کیا خود شادی کی یا والدین نے شادی کا خرچہ برداشت کیا، اس پر عدالت میں موجود تینوں بھائیوں سے جواب دیا کہ والدین نے ان کی شادیاں کی ہیں، جسٹس روح الامین نے کہا کہ آپ کے والدین عدالت میں کھڑے ہیں اور شکایت کر رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے اس عمر میں ان کو بے سہارا چھوڑا ہے، آپ لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آپ تینوں نے داڑھی رکھی ہے اور ٹوپیاں پہنی ہیں، ایہ اچھی بات ہے نیکی کے کام کرنا چاہیے لیکن جب تک آپ والدین کی خدمت نہیں کریں گے اللہ آپ کو نہیں بخشے گا۔

    عدالت میں بے آسرا ماں نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے پانچ بیٹے ہیں تین عدالت میں موجود ہیں، ایک بیرون ملک ہے، لیکن ہم اکیلے رہ رہے ہیں، ایک بیٹا ہے اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، گھر کا 6 ہزار ماہانہ کرایہ ہے اور اس کے علاوہ 2 ہزار بجلی کا بل بھی ہے، لیکن ان کے بچوں نے انھیں چھوڑ دیا ہے اور اب وہ خود کوئی کام بھی نہیں کرسکتی، شوہر بیمار ہے کل بھی اسپتال لے کر گئی لیکن علاج کے پیسے نہ ہونے پر واپس گھر آ گئے۔

    ماں نے بتایا کہ ایک کمرے میں نے 8 بچوں کو پالا تھا لیکن اب میرا کوئی آسرا نہیں ہے، بزرگ خاتون کی فریاد پر عدالت میں موجود زیادہ تر لوگ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، اور آبدیدہ ہوگئے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ کتنی مشکل سے ان ماں پاب نے آپ کو بڑا کیا ہوگا آپ لوگ ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی حق ہوتا ہے لیکن بزرگ والدین کی خدمت سب سے پہلے ہے، ابھی اس سے پہلے ایک کیس سن رہے تھے ہم، 4 بیٹوں نے والد پر جان قربان کر دی تھی، والدین کے قدموں تلے جنت کا کہا گیا ہے اور آپ لوگوں نے بزرگ والدین کو ایسے چھوڑ دیا ہے، ہم آپ کو ایک مہینے کے لیے ڈی آئی خان جیل بھیج دیں گے، رمضان کا مہینہ جیل میں بیوی بچوں سے دور گزاریں گے تو کچھ احساس ہوگا۔

    عدالت میں موجود بزرگ والدین کے بڑے بیٹے نے والدین کو ساتھ لے جانے پر رضا مندی ظاہر کی تو عدالت نے ان کو والدین ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی، اور ہر مہینے تین تین ہزار روپے تمام بھائیوں سے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے عدالت میں موجود ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مجاہد علی خان سے استفسار کیا کہ حکومت کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جس سے ایسے لوگوں کی امداد ہو سکے، اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ احساس پروگرام اور بیت المال سے ہو سکتی ہے ان کی مدد، اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ احساس پروگرام تو ہے لیکن لوگوں میں احساس نہیں ہے۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ اے اے جی صاحب والدین کے تحفظ کے لیے آپ لوگوں نے جو آرڈیننس بنایا تھا کیا وہ صرف دکھانے کے لیے تھا، صوبائی حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ ایسے والدین کی مدد کی جا سکے، عدالت نے اے اے جی مجاہد علی خان کو برزگ والدین کو صحت کارڈ اور احساس پروگرام سے مدد فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

  • 8 اولادوں کے بزرگ والدین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور

    8 اولادوں کے بزرگ والدین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور

    لاہور: پنجاب کے شہر چوک اعظم میں بزرگ والدین اولادوں کی سفاکی کا نشانہ بن کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    چوک اعظم سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ محمد اسلم نے ساری زندگی ٹرک چلا کر اپنا گھر چلایا، انہوں نے اپنی 8 اولادوں کو چھوٹے سے بڑا کیا، انہیں تعلیم دلوائی، لیکن ایک حادثے میں جب محمد اسلم کی بینائی جانے لگی تو بزرگ والدین اولاد کو بوجھ لگنے لگے۔

    محمد اسلم اور ان کی اہلیہ کے مطابق معمولی تلخ کلامی پر ان کی اولادوں نے انہیں دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔

    70 سالہ محمد اسلم کا کہنا ہے کہ انہوں نے ساری زندگی ٹرک چلا کر بچوں کو جوان کیا، اب کوئی 5، 6 سال سے انہوں نے مجھے چھوڑ رکھا ہے۔

    ان کی اہلیہ بچوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔

    محمد اسلم کے سر سے جب چھت چھنی تو وہ اہلیہ کو لے کر ایک دوست کے گھر آگیا جہاں اسے رہنے کی جگہ مل گئی۔

    3 ٹرکوں اور 1 ٹریکٹر کا مالک محمد اسلم آج ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہے اور 8 جوان اولادوں کے ہوتے ہوئے کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہا ہے۔

  • کیا 12 سال قبل اولاد نے ماں کو قتل کر دیا تھا؟ پولیس کی تفتیش شروع

    کیا 12 سال قبل اولاد نے ماں کو قتل کر دیا تھا؟ پولیس کی تفتیش شروع

    کراچی: شہر قائد میں خاتون کی 12 سال پرانی لاش ملنے کے سلسلے میں پولیس نے قتل کے رخ سے بھی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے خاتون کی دس سے بارہ سال پرانی لاش ملنے کے واقعے کے سلسلے میں پولیس نے قتل کے تناظر میں بھی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ لاش کی ہڈیوں سے نمونے حاصل کر لیے گئے، ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے، رپورٹ سے واضح ہو سکے گا کہ ذکیہ زیدی کی موت طبی تھی یا قتل۔

    پولیس نے لاش ملنے کا مقدمہ بھی گلستان جوہر تھانے میں درج کر لیا، یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نا معلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے، مقدمے میں قتل کی دفعہ کے علاوہ جرم چھپانے کی دفعہ201 بھی شامل کی گئی ہے۔

    کراچی: اولاد نے ”محبت“ میں ماں کی لاش کو 12 سال تک فریزر میں رکھا

    گزشتہ روز پولیس نے فلیٹ کا تالا توڑ کر جائے وقوعہ کا جائزہ بھی لیا تھا تاہم فلیٹ سے کوئی مشکوک چیز یا واقعاتی شواہد نہیں ملے، فرانزک ٹیم نے تمام کمروں کا جائزہ لیا اور مختلف نمونے اکٹھے کیے، رہایشی عمارت کے مکینوں سے بھی بیانات لیے گئے، علاقہ مکینوں نے بتایا کہ جن بہن بھائیوں نے ماں کی لاش کو فریزر میں سالہا سال تک سنبھل کر رکھا تھا ان کی حرکات مشکوک تھیں۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ماں کی لاش کو فریزر میں رکھنے والے بھائی بہن نفسیاتی مسائل کا شکار تھے، بہن بھائی کچھ سال قبل مذکورہ فلیٹ میں رہایش بھی ترک کر چکے تھے، دونوں ہفتے میں فلیٹ کا ایک چکر ضرور لگاتے تھے، مکینوں کے مطابق ہمیشہ ایک فرد فلیٹ میں جاتا، دوسرا نیچے انتظار کرتا، پھر دوسرا فرد فلیٹ میں جاتا اور پہلا نیچے انتظار کرتا۔

    متوفی خاتون ذکیہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سرکاری اسکول ٹیچر تھیں، مرنے کے بعد ان کی لاش کو بیٹی اور بیٹے نے فریزر میں رکھ کر محفوظ کر دیا تھا، خاتون کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ بچوں نے اپنی ماں کی لاش محبت کی وجہ سے نہیں دفنائی، تاکہ ان کی ماں مرنے کے بعد بھی ان کی آنکھوں کے سامنے رہے۔ پولیس کے مطابق خاتون کے بیٹے قیصر نے خود کشی کی تھی اور کچھ عرصہ قبل بیٹی شگفتہ کی موت ہو گئی تھی۔

    اولاد کے مرنے کے بعد خاتون کی لاش کی دیکھ بھال ان کے بھائی محبوب نے کی، تاہم دو دن قبل انھوں نے اپنی بہن کی لاش فلیٹ سے نکال کر کچرہ کنڈی میں پھینک دی تھی، اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز کو موصول ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں محبوب کو لاش نکال کر گاڑی میں رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس محبوب کو حراست میں لے کر مزید تفتیش کر رہی ہے، لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جا چکا ہے، جس کے بعد قتل کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

  • ملتان: ماں کو کمرے میں قید کر کے تشدد کرنے کا انکشاف

    ملتان: ماں کو کمرے میں قید کر کے تشدد کرنے کا انکشاف

    شجاع آباد: ملتان کے ایک نواحی علاقے میں بیٹوں نے ماں کو کمرے میں قید کر دیا، بد بخت اولاد نے ماں کو بد ترین تشدد کر کے شدید زخمی کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملتان کی تحصیل شجاع آباد میں بیٹوں نے ماں کو کمرے میں بند کر کے تشدد کا نشانہ بنایا، ایک بھائی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بھائی ماں پر تشدد کر رہے ہیں۔

    بھائی کا کہنا ہے کہ وہ روزگار کے سلسلے میں راولپنڈی میں ہیں، انھیں محلے والوں نے فون پر اطلاع دی کہ بھائی ماں کے ساتھ بد سلوکی کر رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا بھائیوں کے تشدد سے والدہ کے دونوں ٹانگوں پر زخم پڑ چکے ہیں، جس کے باعث ماں نذیراں بی بی کو تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  لاہور، سنگ دل بیٹے نے کلہاڑی کے وار سے ماں‌ کو زخمی کردیا

    ادھر میاں چنوں کے علاقے شمس پورہ میں خرچہ مانگنے پر شوہر نے بیوی پر تشدد کر کے زخمی کر دیا، خاوند کے تشدد سے خاتون کے منہ اور جسم کے دیگر حصوں پر تشدد کے نشانات بن گئے۔

    متاثرہ خاتون نے تھانہ سٹی میں شوہر کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دے دی، پولیس کا کہنا ہے کہ مدعیہ کی درخواست اور میڈیکل رپورٹ کے بعد کارروائی ہوگی۔

    متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ شوہر شراب پیتا ہے، جوا کھیلتا ہے اور مجھ پر تشدد کرتا ہے، 7 سال پہلے شادی ہوئی، مجبور ہو کر انصاف کے لیے تھانے پہنچی ہوں۔

    یاد رہے جولائی میں پنجاب کے دارالحکومت میں واقع علاقے شاہدرہ میں ناخلف بیٹے نے ماں کو کلہاڑیوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا، ماں کی چیخ پکار سُن کر اہل علاقہ نے پولیس کو اطلاع دی جس پر ڈولفن پولیس کے اہل کاروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر ماں کو بیٹے کے تشدد سے بچایا۔

  • کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    کہیں آپ ہیلی کاپٹر والدین تو نہیں؟

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان پر اپنے بچے کی تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی معاشرے میں ایک اچھے یا برے شخص کا اضافہ کرے گی۔

    تاہم بعض افراد اس ذمہ داری کا مطلب نہایت غلط انداز سے لیتے ہیں اور اپنے بچے کے لیے نہایت حساس ہوجاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ صرف بچے کی نگرانی کرنا اور اس کے ہر کام میں مداخلت کرنا ہی ان کی ذمہ داری ہے۔

    یہ انداز تربیت بچوں کی شخصیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور ان کی شخصیت میں منفی پہلو پیدا کرتا ہے۔

    ماہرین نفسیات ایسے انداز تربیت کو ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ اور ایسے والدین کو ہیلی کاپٹر والدین کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ ہیلی کاپٹر کی طرح ہر وقت اپنے بچوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہیلی کاپٹر والدین کی وہ کون سی عادات ہیں جس سے وہ لاعلمی میں اپنے بچوں کا نقصان کر رہے ہیں۔

    ہیلی کاپٹر والدین بچوں کے چھوٹے چھوٹے کام خود کرتے ہیں۔

    یہ بچوں کے ہوم ورک اور اسکول کے پروجیکٹس بھی خود کرتے ہیں۔

    ایسے والدین اساتذہ کو مشورے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کو کیسے پڑھانا ہے۔

    اگر بچے کی دوستوں کے ساتھ لڑائی ہوجائے تو اس میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

    بچہ کوئی نیا کام یا تجربہ کرنا چاہے تو ناکامی کے ڈر سے اسے منع کر دیتے ہیں۔

    اگر بچے کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو فوراً اس کی مدد کو پہنچتے ہیں یوں بچہ ہمیشہ والدین پر انحصار کرنے لگتا ہے۔

    بچے کے کھیل سے لے کر تعلیمی سرگرمیوں تک دخل اندازی کرنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

    یہ سلسلہ بڑے ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے، ایسے والدین بچے کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی دخل اندازی کرنے سے باز نہیں آتے اور اس کے پروفیشنل پروفائل اور انٹرویو کی تیاری اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔

    ایسے والدین بچوں کی شادی شدہ زندگی میں بھی مداخلت کرتے ہیں یوں جوڑے کے آپس میں اور بعض اوقات بچوں اور والدین کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    بچوں پر اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟

    ہیلی کاپٹر والدین کے بچے سست ہوجاتے ہیں اور ان سے اپنا کوئی کام کرنا محال ہوجاتا ہے۔

    بچے بڑے ہونے کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے سے کتراتے ہیں اور عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچہ ذاتی اور پیشہ ورانہ کاموں کو خود منظم نہیں کر پاتا کیونکہ انہیں ایسا کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔

    بچہ آرام دہ ماحول کا عادی ہوجاتا ہے۔

    بچہ خود مختار نہیں ہو پاتا اور والدین پر انحصار کرتا ہے۔

    بچہ کسی سے صحت مندانہ تعلقات بنا نہیں پاتا اور تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

    اپنی زندگی کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کے بعد بچہ (جو اب بڑا ہوچکا ہوتا ہے) مایوسی، پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے خصوصاً اگر وہ ایسے موڑ پر ہو جب والدین اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں۔

    یاد رکھیں، والدین کی ذمہ داری صرف بچے کو مشکلات سے بچانا نہیں ہے۔ مشکلات ہر شخص کی زندگی میں آتی ہیں چاہے ان سے بچنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے۔

    اہم یہ ہے کہ مشکل وقت کو گزارا جائے اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جائے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ بچے کو بغیر کسی سہارے کے اپنی سمجھ بوجھ اور حالات کے مطابق مشکلات کا سامنا کرنا سکھائیں۔

  • اولاد ہم جنس پرست ہوئی تو ساتھ دوں گا، شہزادہ ولیم کا شرمناک انکشاف

    اولاد ہم جنس پرست ہوئی تو ساتھ دوں گا، شہزادہ ولیم کا شرمناک انکشاف

    لندن : شہزادہ ولیم نے ہم جنس پرستوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے بچے ہم جنس پرست ہوئے تو ان کی حمایت کروں گا، مجھے معلوم ہے اس معاملے پرمیرے خاندان اور رتبے سے مجھے پریشانیاں اٹھانی پڑ سکتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی شہزادہ ولیم نے کہاہے کہ اگر ان کے بچے ہم جنس پرست ہوئے تو وہ ان کی پوری طرح سے حمایت کریں گے تاہم اس کے لیے ان پر آنے والے دباؤ پر پریشان ہوں گا۔

    شہزادہ ولیم کا کہنا تھا کہ میں نے یہ والد بننے سے قبل ہی سوچ لیا تھا، کاش ہم ایسی دنیا میں رہتے جہاں یہ عام اور اچھی بات ہوتی مگر میرے خاندان اور رتبے سے مجھے پریشانیاں اٹھانی پڑ سکتی ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارےکا کہنا تھا کہ یہ بات انہوں نے لندن میں منعقدہ البرٹ کینیڈی ٹرسٹ (اے کے ٹی) کی ایل جی بی ٹی یوتھ چیریٹی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

    واضح رہے کہ یہ ٹرسٹ ان ہم جنس پرستوں کی مدد کرتا ہے جنہیں بے گھر ہونے کے خدشات ہوتے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق شہزادہ ولیم کا کہنا تھا کہ میرے بچے جو بھی فیصلہ کریں گے میں ان کی پشت پناہی کروں گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ کتنی رکاوٹیں ہیں آپ جانتے ہیں، نفرت آمیز جملے اور تفرقہ جھیلنا پڑ سکتا ہے، یہ بات بھی مجھے پریشان کرتی ہے۔

    شہزادہ ولیم کا کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر اسے ٹھیک کرنا ہوگا اور اس بات کی یقین دہانی کرانی ہوگی کہ یہ ساری باتیں ماضی کا حصہ بن جائیں۔