Tag: اولاد کی تربیت

  • پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    آج جب کہ ہر بچّے کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے جس پر مختلف گیمز اور اسی نوع کی تفریحات ان کا مشغلہ ہیں تو والدین کو یہ بھی فکر ہے کہ ان کی ذہنی و فکری تربیت، کردار سازی کیسے ممکن ہو۔

    وہ اپنے زمانے کی طرف دیکھتے ہیں جب انھیں ان کے دادا دادی، والدین وغیرہ کہانیاں سناتے تھے اور ان کی ذہانت اور فکر و نظر کو تحریک دینے کے ساتھ اخلاقی تربیت کرتے تھے۔ زمانہ تو بدل گیا ہے، مگر سبق آموز کہانیوں اور ایسے قصّوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے جو بچّوں کے لیے باعثِ کشش ہوں۔

    یہاں ہم ایک نہایت دل چسپ کہانی نقل کررہے ہیں جسے والدین اپنے بچّوں کو سنا کر ان کی تفریحِ طبع کا سامان کرسکتے ہیں۔

    کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ کسان کا نام تھا منسا اور اس کی بیوی کا گریا۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ اچھا خاصا تھا مگر گھر میں کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لیے ہمیشہ دوسروں سے یا تو مزدوری پر کام لینا پڑتا تھا یا میٹھی بات کر کے کام نکلوانا پڑتا تھا۔

    بیساکھ کا مہینہ تھا۔ منسا کے کھیتوں میں گیہوں کی فصل خوب ہوئی تھی۔ اور کھیت کٹ بھی چکے تھے۔ اب بالیوں پر دائیں چلا کر دانے نکالنا باقی تھا۔ دوسرے سب کسان بھی اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ تم جانو ان دنوں جب فصل کٹتی ہے تو سب ہی کو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے۔

    اس نے بہتیرا چاہا کہ کوئی مزدور ملے مگر نہ ملا۔ ادھر آسمان پر دو ایک دن سے بادل آنے لگے اور ڈر تھا کہ کہیں پانی پڑ گیا تو سب دانے خراب ہوجائیں گے۔

    بیچ میں ایک دن کوئی تہوار آگیا۔ سب کسانوں نے اپنے یہاں کام بند رکھا۔ اس گاؤں میں بہت سے آدمیوں کی چھٹی ہوگئی۔ منسا ان کے پاس گیا اور مشکل سے پانچ آدمیوں کو پھسلا کر لایا کہ بھائی ہماری دائیں چلا دو۔ گھر میں بیوی سے کہا کہ تہوار کا دن ہے۔ یہ لوگ آج کام کو آئے ہیں، انھیں پوریاں کھلانا ہے۔ کوئی گیارہ بجے بیوی نے چولھے پر کڑھائی چڑھائی۔ کئی پلی کڑوا تیل کڑھائی میں ڈالا، آٹے کی چھوٹی سی ٹکیا بنا کر پہلے تیل میں ڈالی اور تیل گرم ہو کر کڑکڑانے لگا تو یہ ٹکیہ نکال لی۔ اس سے کڑوے تیل کی ہیک کم ہوجاتی ہے۔

    اب بیلن سے بیل بیل کر کڑھائی میں پوریاں ڈالنی شروع کیں۔ کچھ پوریاں پک گئیں تو باورچی خانے میں کسان کا بیٹا بدھو جانے کہاں سے آیا اور ادھر ادھر چیزیں کھکورنے لگا اور ناک سے برابر سڑ سڑ سڑ سڑ کرتا جاتا تھا۔ ناک بہہ رہی تھی۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پلّو سے اس زور سے ناک پونچھی کہ بدھو کن کن کرتا ہوا باورچی خانے سے چل دیا۔

    کڑھائی میں جو پوری پڑی تھی وہ اتنی دیر میں جلنے لگی اور اسے برا لگا کہ بدھو کی ماں نے اس کا ذرا خیال نہ کیا اور اتنی دیر جلتے ہوئے تیل میں اسے رکھ کر تکلیف دی۔ بدھو کی ماں نے جلدی سے جو اسے پلٹنا چاہا تو یہ اور چڑ گئی اور جھٹ سے کڑھائی میں کود کر بھاگ کھڑی ہوئی کہ تم بدھو کی ناک پونچھو میں تو جاتی ہوں۔

    بدھو کی ماں نے بہت چاہا کہ اسے پکڑے مگر وہ کہاں ہاتھ آتی۔ جھٹ گھر میں سے نکل کھیت کی طرف بھاگی۔ راستے میں منسا اور اس کے پانچوں دوست دانوں پر دائیں چلا رہے تھے۔ یہ پوری ان کے پاس سے گزری اور کہا کہ میں بدھو کی ماں سے بچ کر کڑھائی سے نکل کر آئی ہوں تم سے بھی بچ کر نکلوں گی۔ لو مجھے کوئی پکڑو تو۔‘‘

    ان آدمیوں نے جب دیکھا کہ اچھی پکی پکائی پوری یوں پاس سے بھاگی جارہی ہے تو کام چھوڑ کر اس کے پیچھے ہو لیے مگر وہ بھلا کہاں ہاتھ آتی۔ یہ سب دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے اور لوٹ آئے۔

    کھیت سے نکل کر پوری کو بنجر میں ایک خرگوش ملا۔ اسے دیکھ کر پوری بولی۔ ’’میں تو کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، اور چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر آئی ہوں۔ میاں چھٹ دُمے خرگوش تم سے بھی نکل بھاگوں گی۔‘‘

    خرگوش کو یہ سن کر اور ضد ہوئی اور اس نے بڑی تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بی پوری ایک بھٹ میں نہ گھس گئی ہوتیں تو اس چھٹ دُمے نے پکڑ ہی لیا تھا۔ مگر بھٹ میں یہ لومڑی کے ڈر سے نہ گیا۔

    پوری جو بھٹ میں گھسی تو واقعی اس میں لومڑی بیٹھی تھی۔ اس نے جو دیکھا کہ یہ ایک پوری گھسی چلی آتی ہے تو جھٹ اٹھ کھڑی ہوئی کہ اب آئی ہے تو جائے گی کہاں۔ مگر پوری الٹے پاؤں لوٹی اور یہ کہتی ہوئی بھاگی’’ میں تو کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر، اور میاں چھٹ دُمے خرگوش کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ بی مٹ دُمی لومڑی میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔‘‘

    لومڑی نے کہا، ’’کہاں جاتی ہے ٹھہر تو۔ تیری شیخی کا مزہ تجھے بتاتی ہوں۔‘‘ اور پیچھے لپکی۔ مگر پوری تھی بڑی چالاک۔ اس نے جھٹ سے ایک کسان کے مکان کا رخ کیا اور لومڑی بھلا کتّوں کے ڈر کے مارے ادھر کیسے جاتی۔ ناچار رک گئی۔

    کسان کے مکان کے قریب ایک دبلی سی بھوکی کتیا اور اس کے پانچ بجے ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ انھوں نے بھی ارادہ کیا کہ اس پوری کو چٹ کریں۔ پوری نے کہا ’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی اماں سے بچ کر چھ جوان جوان مردوں کو ہرا کر میاں چھٹ دمے خرگوش کو الّو بنا کر اور مٹ دمی لومڑی کو چونا لگا کرآئی ہوں۔ اجی بی بی لپ لپ، میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔ ‘‘

    کتیا بڑی ہوشیار تھی۔ آگے کو منہ بڑھا کر جیسے بہرے لوگ کرتے ہیں، کہنے لگی، ’’بی پوری کیا کہتی ہو۔ میں ذرا اونچا سنتی ہوں۔ ‘‘ پوری ذرا قریب کو آئی اور کتیا نے بھی بہروں کی طرح اپنا منہ اس کی طرف اور بڑھایا۔

    پوری پھر وہی کہنے لگی۔’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر چھ چھ جوان جوان مسٹنڈوں کو تھکا کر، میاں چھٹ دمے خرگوش اور بی مٹ دمی لومڑی کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ اجی بی لپ لپ ۔۔۔‘‘ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ کتیا نے منہ مارا’ ’حپ‘‘ اور آدھی پوری اس کے منہ میں آگئی۔ اب جو آدھی پوری بچی تھی وہ ایسی تیزی سے بھاگی اور آگے جاکر نہ معلوم کس طرح زمین کے اندر گھس گئی کہ کتیا ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک گئی مگر کہیں پتہ نہ چلا۔

    کتیا نے اپنے پانچوں بچّوں کو بلایا کہ ذرا ڈھونڈو تو لیکن بی پوری کا کہاں پتہ لگتا ہے۔ اس کتیا نے اور اس کے بچّوں نے ساری عمر اس آدھی پوری کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملی۔ ابھی تک سارے کتّے اسی آدھی پوری کی تلاش میں ہروقت زمین سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہیں سے اس کا پتہ چلے تو نکالیں۔ اس نے ہماری دادی امّاں کو دھوکہ دیا تھا، مگر اس آدھی پوری کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔

  • اسمارٹ فونز اور ٹیکنالوجی کے دور میں‌ والدین کی ذمہ داری

    اسمارٹ فونز اور ٹیکنالوجی کے دور میں‌ والدین کی ذمہ داری

    تحریر: ہادیہ رحمٰن

    ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جب دنیا بس ایک "کلک” کی دوری پر ہے۔ موبائل فونز اور دوسری اسمارٹ ڈیوائسز کے انٹرنیٹ سے منسلک ہوتے ہی جیسے سیکنڈوں پورا جہان آپ کے سامنے آجاتا ہے۔ تفریح اور عام معلومات کے ساتھ عام یہ ٹیکنالوجی تعلیم و تربیت میں بھی مددگار ہے، لیکن یہ بات جہاں سننے میں بھلی معلوم ہوتی ہے، وہیں والدین کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے، کیوں‌ کہ بچّے چھوٹے ہوں یا نوعمر آج کل سبھی موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کا استعمال جانتے ہیں۔

    اب جب کہ کرونا کی وبا پھیلی تو اسکول سے لے کر جامعات کی سطح تک آن لائن پڑھائی کا رجحان سامنے آیا ہے اور نوجوان نسل کو موبائل یا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کا جیسے جواز مل گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب چند فی صد ہی لوگ ہوں گے جو اسمارٹ موبائل فونز استعمال نہ کرتے ہوں۔ یوں اس دور میں‌ والدین کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہورہا ہے اور بچوں‌ کی نگرانی اور اچھے برے میں‌ تمیز سکھاتے ہوئے برائیوں سے دور رکھنا ناممکن نہیں‌ تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔

    بچوں پر پابندیاں اور روک ٹوک بھی مخصوص عمر تک ہی ممکن ہے اور دھڑکا لگا رہتا ہے کہ سختی اور پابندیاں‌ انھیں‌ خود سَر اور باغی نہ بنا دیں۔

    والدین کو کیا کرنا چاہیے؟ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ والدین اپنے بچوں سے دوستی کا تعلق استوار کریں۔ پیار و محبت سے انھیں‌ معاشرتی برائیوں اور فتنوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہر قدم پر ان کی راہ نمائی کریں اور نرمی کے ساتھ موقع بہ موقع اچھے برے میں‌ تمیز کرنا سکھائیں۔ بچپن سے ہی انھیں فضائل و رزائلِ اخلاق کا شعور دیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی عمر میں والدین بچوں کو بے جا لاڈ پیار سے بگاڑ دیتے ہیں اور بڑے ہونے پر سختی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ بچپن ہی سے انھیں اچھائی کی طرف راغب کریں اور ان کی تربیت پر توجہ دیں۔

    یہ عام مشاہدہ ہے کہ بعض والدین اپنی جان چھڑانے کے لیے پورا پورا دن بچوں کو موبائل فون استعمال کرنے یا ٹی وی دیکھنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ادھر بچے نے رونا شروع کیا اور ادھر موبائل فون ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ یاد رکھیں شاید اس وقت تو آپ اپنی جان چھڑا لیں‌ گے اور پُرسکون طریقے سے اپنے کام میں‌ مگن ہو جائیں گے، مگر اس طرح آپ کا بچہ ضدی اور موبائل فون کے استعمال کا عادی بن سکتا ہے۔

    موبائل یقینا آج کل کے دور کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے، اور اس کا استعمال فائدہ مند ہے یا نقصان دہ، یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ بچّوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپناتے ہوئے ان کی دل چسپیوں، مشاغل، گھر سے باہر ان کے ماحول اور دوستوں پر کڑی نظر رکھیں۔ اچھے دوستوں‌ کا ساتھ بھی ایک نعمت ہے اور بری صحبت میں آپ کا بچہ راہِ راست سے بھٹک سکتا ہے۔ ہم فتنوں کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں قدم قدم پر برائیاں آپ کا راستہ روکے کھڑی ہیں۔ایسے میں والدین سے بہتر دوست کون ہو سکتا ہے؟

    بچے اگر غلطی کریں تو ان کی سرزنش اس طرح کی جائے کہ وہ دوبارہ آپ سے کوئی بھی بات کرتے ہوئے نہ ہچکچائیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں میں بے جا مار پیٹ اور مسلسل روک ٹوک کی جائے، وہاں‌ بچّے بڑے ہو کر گھر سے باغی ہو جاتے ہیں اور بے راہ روی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بچّوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، لیکن ضرورت پڑنے پر سختی بھی ضروری ہے۔

    یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کو وقت نہیں دیتے اور ضروریاتِ زندگی مہیا کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں‌ نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بچوں کو ایک خاص عمر تک آسائشوں سے زیادہ آپ کی توجہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آج آپ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیں گے تو یہی بچے بڑے ہو کر آپ سے دور ہوسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیلیں، ان کے مشاغل جانیں‌، بات چیت کریں اور ان کے معمولات میں‌ دل چسپی لیں۔ مثلا اسکول یا کالج میں کیسا وقت گزرا، انھوں نے کوئی نیا دوست بنایا، کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا۔ اسی طرح‌ ایک خاص عمر میں‌ گھر کے چھوٹے موٹے معاملات میں ان کی رائے بھی لازمی لیں۔ اس سے انھیں اپنی اہمیت کا احساس ہوگا اور وہ بھی اپنی زندگی میں‌ مشاورت اور اپنے معاملات میں آپ سے رائے لینے کے عادی بنیں‌ گے۔

    اولاد کی تربیت ایک بڑی ذمہ داری ہی نہیں‌ یقیناً مشکل اور صبر آزما کام بھی ہے۔ شاید اسی لیے انسان کو اشرفُ المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور یہی چیز اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز ضرور استعمال کرنے دیں، لیکن ان کی طرف سے غافل نہ رہیں۔ پیار اور توجہ دے کر آپ اپنی اولاد کو نیک، صالح، اپنا فرماں بردار، اور معاشرے کے لیے بھی مفید اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔