Tag: اومیکرون

  • اومیکرون سب کے گھروں‌ پر دستک دینے والا ہے: بل گیٹس کی پیشگوئی

    اومیکرون سب کے گھروں‌ پر دستک دینے والا ہے: بل گیٹس کی پیشگوئی

    واشنگٹن: بل گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ سب کے گھروں‌ پر دستک دینے والا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس نے متنبہ کیا ہے کہ لوگ اب وبائی مرض کے بدترین مرحلے میں داخل ہو سکتے ہیں، اومیکرون ویرینٹ ہم سبھی کے گھروں پر دستک دینے والا ہے۔

    انھوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انھوں نے چھٹیوں کے اپنے بیش تر منصوبے منسوخ کر دیے ہیں کیوں کہ ان کے قریبی دوست کرونا وائرس سے تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    بل گیٹس نے لکھا جب ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی اب معمول پر آ جائے گی، لیکن ہم وبائی مرض کے بدترین دور میں داخل ہونے لگے ہیں۔

    گیٹس کا کہنا تھا کہ اومیکرون ویرینٹ پہلے کے کرونا وائرس ویرینٹس سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ جلد ہی دنیا کے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

    انھوں نے لکھا ’ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ اومیکرون آپ کو کس حد تک بیمار کر سکتا ہے، لیکن ہمیں اس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، جب تک کہ اس کے بارے میں مزید معلومات سامنے نہیں آتیں، چاہے یہ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں کم خطرناک ہی کیوں نہ ہو۔‘

    گیٹس کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے ڈی جی ٹیڈروس ایڈہانم گبریس پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’زندگی ختم کرنے سے بہتر ہے کہ چھٹیاں ختم کر دیں‘ امریکا میں اومیکرون کے کیسز تیزی سے پھیل رہے ہیں، یہاں تک کے کرونا کے نئے کیسز میں سے 73 فی صد کیسز اومیکرون سے وابستہ ہیں۔

    واضح رہے کہ اب تک اومیکرون ویرینٹ سے اموات کی تعداد 12 ہے۔

  • 3 دن میں اومیکرون کے کیسز دگنے ہوگئے

    3 دن میں اومیکرون کے کیسز دگنے ہوگئے

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ پچھلے 3 دن میں کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز دگنے ہوگئے ہیں، اومیکرون کا تیزی سے پھیلنا خطرے کی گھنٹی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں اور آخری تین دن میں اس کے کیسز دگنے ہوگئے۔

    عالمی ادارہ صحت نے اومیکرون پر اپڈیٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 18 دسمبر تک کرونا وائرس کی مذکورہ قسم 89 ممالک تک پھیل چکی تھی۔

    رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اومیکرون کی قسم ایسے ممالک میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے جہاں کی آبادی کی قوت مدافعت بھی ویکسی نیشن کے بعد اچھی ہو چکی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اومیکرون کی قسم متاثرہ شخص کو کس قدر سخت بیمار بناتی ہے، تاہم اب تک کے محدود ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسی نیشن کروانے والے افراد کو نئی قسم زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    عالمی ادارے کے مطابق اومیکرون کا تیزی سے پھیلنا خطرے کی گھنٹی ہے اور اس سے کئی ممالک کا صحت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔

    اومیکرون قسم کی پہلی بار 26 نومبر کو جنوبی افریقہ میں تصدیق ہوئی تھی، اس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد متعدد یورپی ممالک نے نئی پابندیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔

    برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس، آئر لینڈ اور ڈنمارک سمیت متعدد ممالک نے کرسمس سے قبل ہی نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

  • کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک خاتون اہل کار نے امید دلائی ہے کہ کرونا وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے کرونا سے متعلقہ تکنیکی وفد کی سربراہ ماریا وان کرخوف نے کہا ہے کہ اس بات کا قومی امکان ہے کہ وائرس اگلے سال ختم ہو جائے گا۔

    انھوں نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منعقدہ خصوصی سیشن میں کرونا کی نئی قسم اومیکرون سے متعلق سوالوں کے جواب میں اس بات کا اظہار کیا۔

    انھوں نے کہا کہ ہمیں کافی امید ہے کہ یہ وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے جس کے لیے ہمارے پاس شرح اموات، وبائی اثرات اور اسپتالوں سے رجوع میں کمی کے مواقع دستیاب ہیں۔

    دوسری جانب یورپی مرکز برائے انسداد امراض کا کہنا ہے کہ اگلے سال کے ابتدائی دو مہینوں میں اومیکرون کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔

    مرکز نے اپنی جائزاتی رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ یہ نئی قسم تیزی سے یورپ میں پھیل سکتی ہے، ڈائریکٹر انڈریا آمون نے خدشہ ظاہر کیا کہ اموات اور مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    باور رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریوسس نے بتایا تھا کہ اومیکرون اس وقت 77 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

  • قرنطینہ سے فرار اومیکرون سے متاثرہ شخص کے حوالے سے اہم خبر

    قرنطینہ سے فرار اومیکرون سے متاثرہ شخص کے حوالے سے اہم خبر

    کراچی: چند دن قبل شہر قائد کے ایک نجی اسپتال سے فرار ہونے والا اومیکرون متاثرہ شخص کو دوبارہ پکڑ لیا گیا ہے۔

    ذرائع محکمۂ صحت حکومت سندھ کے مطابق نجی اسپتال سے فرار ہونے والے اومیکرون کے متاثرہ مریض 35 سالہ مزمل کو دوبارہ قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔

    مزمل کراچی میں صدر ٹاؤن کی حدود کھارادر کا رہائشی ہے، مزمل کرونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ کا پاکستان میں دوسرا کیس ہے۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ مزمل کو اسپتال سے فرار ہونے کے بعد 15 دسمبر کو انتظامیہ کی مدد سے پکڑا گیا تھا، اور اب وہ قطر اسپتال میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

    کراچی میں ‘اومی کرون’ کا دوسرا کیس رپورٹ، متاثرہ شخص قرنطینہ سے فرار

    محکمۂ صحت کی ہدایت پر قرنطینہ سنیٹر کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق محکمۂ صحت کی ٹیم نے برطانیہ سے آمد کے بعد مزمل کا ٹیسٹ کیا تھا، جو مثبت آ گیا تھا، ان کا کرونا اور اومیکرون دونوں ٹیسٹ پازیٹو تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قرنطیہ سے فرار ہونے والے اومیکرون کے دوسرے متاثرہ شخص کے لیے قرنطینہ میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

  • برطانیہ میں اومیکرون سے پہلی ہلاکت

    برطانیہ میں اومیکرون سے پہلی ہلاکت

    لندن: برطانیہ میں کرونا وائرس کے نئے اور سب سے زیادہ متعدی ویرینٹ اومیکرون سے پہلی ہلاکت سامنے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ایک شخص کی اومیکرون ویرینٹ سے موت واقع ہوئی ہے۔

    بورس جانسن نے کہا کہ نئے ویرینٹ کا نتیجہ مریضوں کے اسپتال داخلے کی صورت میں بھی نکل رہا ہے اور لوگ جو "بہترین چیز” کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ بوسٹر ڈوز حاصل کی جائے۔

    لندن میں ایک ویکسینیشن کلینک کا دورہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لوگوں کو اس خیال کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے کہ اومیکرون کرونا کی بغیر شدت والی ایک ہلکی قِسم ہے۔

    اتوار کو وزیر اعظم جانسن نے انگلینڈ میں تمام بالغوں کے لیے ایک نیا ہدف مقرر کیا ہے کہ اس مہینے کے آخر تک ان کے لیے بوسٹر ڈوز کی شروعات کر دی جائیں۔

    یاد رہے کہ پیر کے روز برطانوی سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے کہا تھا کہ 10 لوگ اومیکرون ویرینٹ کے ساتھ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

  • اومیکرون کے خلاف روسی ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی

    اومیکرون کے خلاف روسی ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی

    ماسکو: روسی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف روسی ساختہ سپٹنک ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی۔

    روسی میڈیا کے مطابق روس کے گمیلیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ایپڈمولوجی اینڈ مائیکرو بائیولوجی کے ڈائریکٹر الیگزینڈر گِنٹسبرگ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی شکل اومیکرون کے خلاف روسی اسپٹنک وی ویکسین کی تاثیر کا 10 دن کے اندر تجربہ کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اومیکرون پر اسپٹنک وی کی تاثیر کو جانچنے کے لیے 10 دن کافی ہوں گے۔

    ایک ہفتہ قبل گنٹسبرگ نے کہا تھا کہ گیملیا ریسرچ سینٹر نے تصدیق کی ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ مریضوں کو، جو جنوبی افریقہ سے روس پہنچے تھے، انہیں ویکسین لگائی گئی تھی۔

    نومبر کے آخر میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ ویکسین کو تبدیل کرنے کے بارے میں اور اومیکرون کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

    گنٹسبرگ کے مطابق اگر ضرورت ہو تو نئی ویکسین تیار کرنے میں 10 دن سے زیادہ نہیں لگیں گے اور ریگولیٹری عمل میں ڈیڑھ سے ڈھائی ماہ لگیں گے۔

  • بوسٹر شاٹ سے اومیکرون کے خلاف کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے؟

    بوسٹر شاٹ سے اومیکرون کے خلاف کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے؟

    لندن: برطانوی طبی ادارے کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسینز کے بوسٹر شاٹ سے کم شدت کے اومیکرون کے خلاف 70 سے 75 فی صد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ مریضوں پر براہ راست آزمائے جانے کے بعد ابتدائی طور پر جو اعداد و شمار سے حاصل ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ کرونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لوگوں کو اومیکرون ویرینٹ سے ہونے والی ہلکی بیماری سے بچاتی ہے۔

    لیب اسٹڈیز سے باہر کی جانے والی اس ریسرچ کے ابتدائی اعدا و شمار جمعہ کو جاری کیے گئے ہیں۔

    ابتدائی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ، جب کہ اومیکرون ویرینٹ ابتدائی 2 ڈوزز کے ویکسینیشن کورس سے ہلکی بیماری کے خلاف تحفظ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے، تاہم بوسٹرز ڈوز نے اس تحفظ کو ایک حد تک پھر بحال کیا۔

    برطانوی ادارے میں حفاظتی ٹیکوں کی سربراہ میری رامسے نے کہا کہ ان ابتدائی تخمینوں کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے، کیوں کہ یہ اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ دوسری ڈوز کے چند ماہ بعد، ڈیلٹا اسٹرین کے مقابلے میں اومیکرون ویرینٹ کے لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شدید بیماری کے خلاف تحفظ زیادہ رہنے کی امید کی گئی تھی۔

    میری رامسے نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بوسٹر ویکسین کے بعد یہ خطرہ نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے، اس لیے میں ہر کسی سے گزارش کرتی ہوں کہ جب اہل ہوں تو اپنا بوسٹر ضرور لگوائیں۔

    اس ریسرچ اسٹڈی کے لیے اومیکرون کے تصدیق شدہ 581 کیسز کا تجزیہ کیا گیا، ان افراد کو اومیکرون ویرینٹ کی علامات بھی ظاہر ہو گئی تھیں، انھیں آسٹرازینیکا اور فائزر ویکسینز کی 2 ڈوز لگائی گئیں، دیکھا گیا کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں دو ڈوز سے انفیکشن کے خلاف تحفظ کی بہت کم سطح فراہم ہوئی۔

    تاہم جب فائزر ویکسین کی بوسٹر ڈوز دی گئی تو، ابتدائی طور پر آسٹرازینیکا دو ڈوز لگوانے والے لوگوں کے لیے علامات والے انفیکشن کے خلاف تقریباً 70 فی صد تحفظ پایا گیا، جب کہ فائزر کی دو ڈوز حاصل کرنے والوں کے لیے تحفظ کو تقریباً 75 فیصد پایا گیا۔ ڈیلٹا سے اس کا موازنہ کیا جائے تو بوسٹر ڈوز کے بعد ڈیلٹا میں تقریباً 90 فیصد تحفظ پایا گیا۔

    ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ سائنس دان نہیں جانتے کہ اومیکرون سے ہونے والے شدید انفیکشن میں یہ ویکسینز کس حد تک کارآمد ہوں گی، تاہم یہ امید کی جا رہی ہے کہ ہلکے انفیکشن کے مقابلے میں شدید انفیکشن کے خلاف یہ زیادہ مؤثر ہوں گی۔

  • اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا: نئی تحقیق

    اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا: نئی تحقیق

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتی۔

    جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 22 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ 26 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے 9 صوبوں تک پھیل چکا ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قسم میں مبتلا ہونے والا شخص زیادہ بیمار نہیں ہو رہا۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین علامات بھی نہیں دکھائی دیتیں، تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت ہے، اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔

    اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے آخر میں 25 یا 26 نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔

    اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں 5 درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے، تاہم اب تک کی اطلاعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتلا ہونے والے افراد میں موت کی شرح کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔

    پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9 دسمبر کو اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

  • اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کب تک دستیاب ہوگی؟

    اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کب تک دستیاب ہوگی؟

    امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ برس مارچ تک کورونا کی نئی قسم اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین دستیاب ہوگی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ فائزر ویکسین کی تین خوراکیں اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے 57 ممالک میں کورونا کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے جن کو اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

    ڈبلیو ایچ او نے اپنی ہفتہ وار وبا کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اومی کرون سے پیدا ہونے والی بیماری کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے 26 نومبر کو اومی کرون ویرینٹ کا اعلان کیا تھا جس کا پہلا کیس جنوبی افریقہ میں سامنے آیا تھا۔

    مزید پڑھیں: اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 دسمبر تک جنوبی افریقہ میں کورونا کیسز کی تعداد 62 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے اور اسی طرح کی صورت حال زمبابوے، موزمبیق، نمیبیا، لیسوتھو اور ایسواتینی میں بھی ہے۔

    انفیکشن کے خطرے پر بات کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’ابتدائی جائزے میں معلوم ہوا ہے کہ اومی کرون کی شکلیں تبدیل ہونے سے قدرتی مدافعت میں کمی ہو سکتی ہے۔‘

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس ایدہانوم کا کہنا ہے کہ اگرچہ اومی کرون سے دوبارہ انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے تاہم اس کے اثرات ڈیلٹا سے کم ہوسکتے ہیں۔

  • اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    فکرمندی اور خوف کی وجہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے؟

    کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔

    دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہوتے ہیں، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں، اس لیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آ جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں، جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں، اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

    خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

    جس سے خوشی محسوس ہو

    چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے، یہ کام آپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کر سکتا ہے۔

    دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے

    انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے، جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے، گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے لاک ڈاؤن میں اکیلا پن زیادہ محسوس کیا، خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکھتی ہے، ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

    غذائیت سے بھرپور خوراک

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے انجام دینے، اور حتیٰ کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو نیوٹرینٹس موجود ہوں، طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔

    مائیکرو نیوٹرینٹس ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہے، ان میں وٹامنز, اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی پیداوار، مدافعتی افعال، خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں، جب کہ معدنیات نشوونما، ہڈی کی صحت، مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جب کہ میکرونیوٹرینٹس میں کاربوہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹین شامل ہیں، یہ وہ چیزیں جو بہت استعمال ہوتی ہیں، یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں۔