Tag: اومیکرون

  • اومیکرون وائرس 19 ممالک تک پھیل گیا

    اومیکرون وائرس 19 ممالک تک پھیل گیا

    کرونا وائرس کا نیا ویرینٹ اومیکرون 19 ممالک تک پھیل گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی نئی تبدیل شدہ شکل جسے عالمی ادارۂ صحت نے اومیکرون کا نام دیا ہے، تیزی سے دنیا بھر میں پھیلتی جا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووِڈ 19 کا نیا ویرینٹ B.1.1.529 یعنی اومیکرون سے بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہے، اور یہ تیزی سے ایک کے بعد دوسرے ملک پھیل رہا ہے۔

    اب تک اومیکرون وائرس انیس سے زائد ممالک میں پنجے گاڑ چکا ہے، جنوبی افریقا میں 77، بوٹسوانا میں 77، نیدرلینڈ اور پرتگال میں 13،13 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    جرمنی، ہانگ کانگ میں 3 کیسز، آسٹریلیا، ڈنمارک میں 2 کیسز رپورٹ ہوئے، آسٹریا، بیلجیم، چیک ری پبلک، اٹلی، جاپان، اور اسرائیل میں بھی اومیکرون کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اومیکرون نے انھیں حیران کر دیا ہے، اس میں 50 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جانے والی قسم ڈیلٹا میں صرف 2 تبدیلیاں پائی گئی تھیں، اومیکرون میں موجود مخصوص اسپائک پروٹین میں 30 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

    خیال رہے کہ ویکسین اسی اسپائک پروٹین کو نشانہ بناتی ہے، جب کہ انسانی جسم پر سب سے پہلے اثر انداز ہونے والے حصے کی سطح پر بھی 10 جینیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے،ماہرین صحت کے مطابق اس کی علامات ڈیلٹا ویریئنٹ سے مختلف ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نے، جنہوں نے حکومتی سائنسدانوں کو کرونا کی ایک نئی قسم کی موجودگی سے خبردار کیا تھا، کہا ہے کہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی علامات ڈیلٹا قسم سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔

    ساؤتھ افریقن میڈیکل ایسوسی ایشن کی چیئروومن ڈاکٹر اینجلیک کوئیٹزی نے بتایا کہ اومیکرون سے متاثر افراد نے بہت زیادہ تھکاوٹ، سر اور جسم میں درد، کبھی کبھار گلے کی سوجن اور کھانسی کی علامات کو رپورٹ کیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ڈیلٹا کے مقابلے میں کرونا کی اس نئی قسم سے متاثر افراد کی نبض کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس کی وجہ خون میں آکسیجن کی سطح میں کمی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کئی ہفتوں تک پریٹوریا میں ان کے پاس کووڈ مریضوں کی آمد نہ ہونے کے برابر تھی، مگر نومبر کے دوسرے عشرے میں اچانک مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جن کی جانب سے مختلف علامات کو رپورٹ کیا گیا۔

    اس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے حکومتی وزارتی ایڈوائزری کونسل کو آگاہ کیا اور لیبارٹریز نے چند دن میں نئی قسم کو شناخت کرلیا۔

    جنوبی افریقی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں بتایا کہ اس بار کووڈ کی علامات مختلف ہیں جو ڈیلٹا کی نہیں ہوسکتیں، بلکہ یہ علامات یا تو بیٹا سے ملتی جلتی ہیں یا یہ کوئی نئی قسم ہے، مجھے توقع ہے کہ اس نئی قسم کی بیماری کی شدت معمولی یا معتدل ہوگی، ابھی تک تو ہم اسے سنبھالنے کے لیے پراعتماد ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس نئی قسم کا تجزیہ کیا جارہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ابھی اس کے متعدی ہونے اور بیماری کی شدت کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    عالمی ادارے نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اومیکرون کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ شروع کرنے کا بھی کہا ہے۔

    دوسری جانب جنوبی افریقی حکومت کو تجاویز دینے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بظاہر اومیکرون زیادہ متعدی ہے مگر اس سے متاثر زیادہ تر افراد میں کیسز کی شدت معمولی دریافت ہوئی ہے۔

    29 نومبر کو میڈیا بریفننگ کے دوران جنوبی افریقی ماہرین صحت نے بتایا کہ اسپتال میں داخل ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ان میں بیماری کی شدت ماضی جیسی ہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ویکسینز ممکنہ طور پر اس نئی قسم سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں سے ٹھوس تحفظ فراہم کرسکیں گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ امکان ہے کہ اس ہفتے کے اختتام تک جنوبی افریقہ میں روزانہ کیسز کی تعداد 10 ہزار تک بڑھ جائے گی جو کہ گزشتہ ہفتے 3 ہزار کے قریب تھی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کیسز کی تعداد میں اضافے سے اسپتالوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے مگر لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

    ایک ماہر نے کہا کہ ابھی کیسز میں بیماری کی شدت معمولی ہے مگر ابھی اس قسم کے ابتدائی دن ہیں، جس کے دوران مریضوں میں خشک کھانسی، بخار، رات کو پسینے اور جسمانی تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہورہا ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم: تبدیل شدہ ویکسین پر کام شروع

    کرونا وائرس کی نئی قسم: تبدیل شدہ ویکسین پر کام شروع

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، جرمن بائیو ٹیکنالوجی کمپنی بائیو این ٹیک نے اومیکرون سے نمٹنے کے لیے اپنی کووڈ ویکسین کے نئے ورژن پر کام شروع کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمن بائیو ٹیکنالوجی کمپنی بائیو این ٹیک نے کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے مقابلے کے لیے ایک نئی کووڈ 19 ویکسین کی تیاری شروع کردی ہے۔

    بائیو این ٹیک نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر ایم آر این اے ٹیکنالوجی پر مبنی کووڈ 19 ویکسین تیار کی تھی، کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اس کی جانب سے اومیکرون کے لیے ایک ویکسین کی تیاری شروع کردی گئی ہے تاکہ تیزی سے آگے بڑھنا ممکن ہوسکے۔

    دنیا بھر کے سائنسدان اور صحت عامہ کے حکام کی جانب سے اومیکرون پر نظر رکھی جارہی ہے جو سب سے پہلے افریقہ کے جنوبی خطے میں ابھری تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کی اس نئی قسم میں بظاہر ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جن سے اس کے زیادہ متعدی ہونے یا دیگر اقسام سے خطرناک ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔

    بائیو این ٹیک کے ترجمان نے بتایا کہ ہم ماہرین کی تشویش کو سمجھتے ہیں اور فوری طور پر اومیکرون پر تحقیقی کام شروع کیا گیا جبکہ اس کو مدنظررکھ کر ایک ویکسین بھی تیار کی جارہی ہے جو نئی اقسام کے حوالے سے ہمارے طے کردہ طریقہ کار کا حصہ ہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ ہمیں توقع ہے کہ کرونا کی اس نئی قسم کے خلاف موجودہ ویکسین کی افادیت کا ڈیٹا 2 ہفتوں کے دوران سامنے آجائے گا، اس ڈیٹا سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ اومیکرون ویکسین کے اثرات سے بچنے والی قسم ہے جس کے لیے ایک اپ ڈیٹڈ ویکسین کی ضرورت ہے۔

    کمپنی نے مزید بتایا کہ اس کی جانب سے اپ ڈیٹڈ ویکسین کی تیاری کے ساتھ موجودہ شاٹ کی بھی آزمائش کی جارہی ہے تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔

    اس سے قبل 26 نومبر کو بائیو این ٹیک نے کہا تھا کہ وہ اپنی کووڈ ویکسین کا نیا ورژن 100 دن کے اندر مارکیٹ میں فراہم کرسکتی ہے۔

    دوسری جانب موڈرنا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر اومیکرون ویرینٹ سے مقابلے کے لیے 2022 کے اوائل میں اپنی کووڈ 19 ویکسین کے اپ ڈیٹ ورژن کو جاری کرسکتی ہے۔

    موڈرنا کے چیف میڈیکل آفیسر پال برٹن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہمیں موجودہ ویکسین سے ملنے والے تحفظ کے بارے میں آنے والے ہفتوں میں معمولم ہوجائے گا، اگر اس کے بعد ضرورت محسوس ہوئی تو ہم 2022 کے شروع میں نئی ویکسین تیار کرسکتے ہیں۔

    ابھی یہ واضح نہیں کہ موجودہ کووڈ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف کتنی مؤثر ہیں، موڈرنا کے مطابق وہ اپنی موجودہ ویکسین کی آزمائش اس نئی قسم کے خلاف کررہی ہے۔

  • کیا ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں نے کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کو سمجھ لیا؟

    کیا ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں نے کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کو سمجھ لیا؟

    برسلز: کیا ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں نے کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کو سمجھ لیا؟ یورپی یونین کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں کو اومیکرون کو سمجھنے کے لیے ابھی مزید 2 سے 3 ہفتے درکار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوروپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کو کرونا کی سب سے زیادہ متعدی قِسم کو مکمل سمجھنے کے لیے 2 سے 3 ہفتے لگیں گے۔

    ادھر آسٹرازینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ویکسین گروپ کے سربراہ ڈائریکٹر ‏پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ دستیاب تمام ویکسینز ہی کرونا کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف ‏بھی کارگر ثابت ہوں گی۔

    بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے کہا کہ اس وقت کرونا کے خلاف موجود تمام ‏ویکسینز نئی قسم اومیکرون کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہیں تاہم آئندہ چند ہفتوں کی تحقیق میں ‏اس سے متعلق مزید معلومات سامنے آئیں گی۔

    کرونا کے خلاف ویکسین بنانے والی دیگر کمپنیوں نے بھی اس امید کا اظہار کیا ہے ان کی بنائی گئی ویکسینز ‏اومیکرون قسم کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

    واضح رہے کہ جنوبی افریقا میں کووِڈ 19 کی مختلف اقسام کی جانچ کرنے والے اوّلین ماہرین میں شامل ڈاکٹر ‏کا کہنا ہے کہ ‏اومیکرون قسم کی علامات انتہائی ہلکی ہوتی ہیں۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے جنوبی افریقا سے سامنے آنے والی نئی قسم کو ’اومیکرون‘ کا نام دیا تھا، ماہرین کے مطابق پریشانی کی بات یہ ہے کہ نئی قسم میں مجموعی طور پر 50 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، جب کہ اس کی نسبت کچھ عرصہ قبل دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کورونا کی ڈیلٹا قسم میں صرف 2 جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی تھیں۔

    برطانوی طبی ماہرین کے مطابق بھی کرونا کی یہ قسم اب تک سامنے آنے والی تمام اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

  • کرونا کی نئی قسم کا فوری پتا لگانے پر سزا دی جا رہی ہے: جنوبی افریقہ

    کرونا کی نئی قسم کا فوری پتا لگانے پر سزا دی جا رہی ہے: جنوبی افریقہ

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ نے شکوہ کیا ہے کہ اب تک کے سب سے خطرناک کووِڈ وائرس اومیکرون کا فوری سراغ لگانے پر اسے سراہے جانے کی بجائے سزا دی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے افریقہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگائی گئی ہے، وزرات خارجہ نے اسے جنوبی افریقہ کو سزا دینے کے مترادف قرار دے دیا ہے۔

    جنوبی افریقی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہمیں کرونا کی نئی قسم کا فوری پتا لگانے کی سزا دی جا رہی ہے، حالاں کہ شان دار سائنس کو اسے سراہنا چاہیے نہ کہ سزا نہیں دینی چاہیے۔

    وزارت نے نشان دہی کی ہے کہ اومیکرون دنیا کے دیگر حصوں میں بھی دریافت ہوئی تھی، ان میں سے کسی بھی کیس کا جنوبی افریقہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ان ممالک کے ساتھ رویہ جنوبی افریقہ سے واضح طور پر مختلف ہے۔

    کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خلاف موڈرنا ویکسین کی بوسٹر شاٹ

    جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ دنیا کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ ہم بھی وبا سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات کر رہے ہیں، ہمیں دنیا کی بہترین سائنسی کمیونٹی کی حمایت حاصل ہے، اور ٹیسٹ کی صلاحیت بہترین ہے۔

    واضح رہے کہ نئے ویریئنٹ کا پتا جنوبی افریقی سائنس دانوں نے لگایا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کرونا کی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اسے omicron کا نام دیا، اس ویریئنٹ کا تکنیکی نام B.1.1.529 ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم میں کووِڈ نائنٹین نے وسیع سطح پر اپنی ہیئت اور شکل تبدیل کر لی ہے، جس سے اس وائرس میں بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہو گیا ہے۔

    اب تک امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، بھارت اور کینیڈا نے جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں۔

  • کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خلاف موڈرنا ویکسین کی بوسٹر شاٹ

    کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خلاف موڈرنا ویکسین کی بوسٹر شاٹ

    واشنگٹن: امریکی دوا ساز کمپنی موڈرنا نے کووِڈ نائنٹین کی نئی اور سب سے خطرناک قِسم ’اومیکرون‘ کے خلاف ویکسین کی بوسٹر شاٹ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فارماسوٹیکل کمپنی موڈرنا نے کہا ہے کہ اس نے اومیکرون کے خطرے سے نمٹنے کے لیے 3 طرح کی حکمت عملی تیار کی ہے، ان میں ایک موجودہ ویکسین کی ’بوسٹر ڈوز‘ کا استعمال بھی شامل ہے۔

    موڈرنا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اسٹیفن بینسل نے اومیکرون کی تبدیل شدہ شکل کو باعثِ تشویش قرار دیا، انھوں نے کہا ہم اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی پر جلد سے جلد عمل درآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کرونا کی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اسے omicron کا نام دیا ہے، اس ویریئنٹ کا تکنیکی نام B.1.1.529 ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم میں کووِڈ نائنٹین نے وسیع سطح پر اپنی ہیئت اور شکل تبدیل کر لی ہے، جس سے اس وائرس میں بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہو گیا ہے۔

    کرونا کی نئی خطرناک قسم کو ‘اومیکرون’ کا نام دے دیا گیا

    یورپی یونین کے ڈرگ ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم کا جائزہ لیا جا رہا ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس کے لیے نئی ویکسین کی ضرورت ہوگی۔

    بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے ٹوئٹر پر لکھا کہ براعظم افریقہ کے جنوبی خطے میں ویکسینیشن میں مدد نہ کرنا ناکامی ہے، ابھی تک یہاں صرف 4 فی صد آبادی کو ویکسین لگائی جا سکی ہے، جس سے ہم سب تیزی سے پھیلنے والے نئے وائرس کے خطرے سے دوچار ہوگئے ہیں۔

  • کرونا کی نئی خطرناک قسم کو ‘اومیکرون’ کا نام دے دیا گیا

    کرونا کی نئی خطرناک قسم کو ‘اومیکرون’ کا نام دے دیا گیا

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت نے کووِڈ نائنٹین کی نئی قسم کو ‘اومیکرون’ کا نام دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کرونا کی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اسے omicron کا نام دے دیا ہے، اس ویریئنٹ کا تکنیکی نام B.1.1.529 ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم میں کووِڈ نائنٹین نے وسیع سطح پر اپنی ہیئت اور شکل تبدیل کر لی ہے، جس سے اس وائرس میں بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہو گیا ہے۔

    اومیکرون کے کیسز سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں رپورٹ ہوئے، اب تک یہ قِسم بوٹسوانا، بلجیئم، ہانگ کانگ، اور اسرائیل میں رپورٹ ہو چکی ہے، عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ کرونا کی نئی قسم کی جینیاتی ساخت میں بہت تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، اور سائنس دانوں نے اسے ہول ناک وائرس قرار دیا ہے۔

    جینیاتی تبدیلیوں کے بعد سامنے آنے والی کرونا کی نئی قسم ’این یو‘ سے کتنی خطرناک ہے؟

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اومیکرون نے انھیں حیران کر دیا ہے، اس میں 50 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جانے والی قسم ڈیلٹا میں صرف 2 تبدیلیاں پائی گئی تھیں، اومیکرون میں موجود مخصوص اسپائک پروٹین میں 30 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئیں، خیال رہے کہ ویکسین اسی اسپائک پروٹین کو نشانہ بناتی ہے، جب کہ انسانی جسم پر سب سے پہلے اثر انداز ہونے والے حصے کی سطح پر بھی 10 جینیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔