Tag: آئین شکنی کیس

  • آئین شکنی کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

    آئین شکنی کیس میں پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

    اسلام آباد: خصوصی عدالت نے سابق صدر اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا، سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی گئی۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ میں شامل ایک جج نے سزائے موت سے اختلاف کیا، تاہم خصوصی عدالت کے بینچ نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔

    عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

    خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف 6 سال آئین شکنی کیس چلا، 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی میں چیف جسٹس و دیگر ججز کو نظر بند کیا گیا تھا، جنرل (ر) پرویز مشرف تشویش ناک حالت میں دبئی کے اسپتال میں زیر علاج ہیں، وہ سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان رہ چکے ہیں، پاکستان کے لیے 2 جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔

    قبل ازیں، اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ہوئی، سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل نے خصوصی عدالت میں دفعہ تین سو بیالس میں بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست دائر کر دی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، خصوصی عدالت بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے، اور عدالتی کمیشن یو اے ای جا کر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرے

    دوسری طرف حکومت نے مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی گئی ہے، پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

    عدالت نے اس پر کہا کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ جنھیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ تو گزر چکا ہے، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟

    پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہیں، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی کا کہا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟

    دریں اثنا، خصوصی عدالت نے استغاثہ کی جانب سے شوکت عزیز، زاہد حامد، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو پارٹی بنانے کی دائر درخواست یہ کہہ کر واپس کر دی کہ آج کی عدالتی کارروائی مکمل ہو گئی ہے، درخواست دائر کرنے سے پہلے عدالت اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی گئی، پراسیکیوشن کی دیگر 2 درخواستوں پر بھی سماعت نہیں ہو سکتی، یہ دونوں درخواستیں عدالت کے سامنے نہیں ہیں۔

    آئین شکنی کیس کی اہم باتیں

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا کیس مسلم لیگ ن نے نومبر 2013 میں درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگائی۔ مارچ 2014 میں پرویز مشرف پر فرد جرم  عائد کی گئی۔ 2016 میں عدالتی حکم پر ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ مارچ 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

    گزشتہ برس مارچ میں سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کی گرفتاری اور جائیداد ضبطی اور انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔ تاہم اگست میں سیکریٹری داخلہ نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کے معاملے پر انٹرپول نے معذرت کرلی ہے اور کہا کہ سیاسی مقدمات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

    5 دسمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو آئین شکنی کیس میں دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سماعت آخری بار ملتوی کی جارہی ہے، کسی بھی وکیل کی عدم حاضری پر محفوظ فیصلہ 17 دسمبر کو سنا دیا جائے گا۔

    خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئین شکنی کیس 19 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جس پر 23 نومبر کو پرویز مشرف کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا اور کہا کہ عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

    2 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف شدید علیل ہو گئے تھے، جس پر انھیں دبئی کے اسپتال میں داخل کیا گیا، اکتوبر کے مہینے میں ایک میڈیکل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو ایک جان لیوا بیماری لاحق ہے، اے آر وائی نیوز کو موصول ہونے والے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کے مطابق سابق صدر کو ’امیلوئی ڈوسس نامی خطرناک بیماری لاحق ہوئی تھی۔

    ٹائم لائن

    جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی، اور 1973 کا آئین معطل کیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت دیگر ججز کو نظر بند کر دیا گیا، اعلیٰ عدالت کے 61 ججز کو فارغ کیا گیا۔ انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے کو ایمرجنسی کی وجہ قرار دیا۔ 29 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا اور 15 دسمبر 2007 کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی، ایمرجنسی کے خاتمے پر صدارتی فرمان کے ذریعے ترمیم شدہ آئین بحال کیا، 2013 میں ن لیگ کی حکومت نے مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا۔ آئین شکنی پر درج کیے گئے اس مقدمے میں 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں، 4 ججز تبدیل ہوئے، آخری تین ماہ مسلسل سماعت ہوئی۔

  • پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ،  28 نومبر کو سنایا جائے گا

    پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، 28 نومبر کو سنایا جائے گا

    اسلام آباد : خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کےخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، کیس کا فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس پر سماعت کی ، عدالتی حکم پر وفاقی سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت میں جسٹس وقاراحمد نے استفسار کیا کیااستغاثہ ٹیم کوہٹانے سےپہلے عدالت سےاجازت لی گئی؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا حکومت تبدیلی کے بعد پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفی دیدیا ، اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، حکومت نے 23 اکتوبر کواستغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا۔

    جسٹس شاہدکریم نے کہا عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا ، انہیں بات کرنے دیں، جس کے بعد عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کو روسٹرم سے ہٹا دیا، جسٹس وقار احمد سیٹھ کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے تحریری دلائل جمع کرا دیے جو کافی ہیں، پرویزمشرف کے وکیل کہاں ہیں؟ رجسٹرار خصوصی عدالت نے بتایا مشرف کے وکیل رضا بشیر عمرے پر گئے ہیں۔

    جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے کہا آج مشرف کے وکیل کو دلائل کے لئے تیسرا موقع دیا تھا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا میں وفاقی حکومت کا نمائندہ ہوں، جس پر جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت تو اس کیس میں فریق ہی نہیں۔

    جسٹس شاہد کریم نے کہا سیکرٹری داخلہ اس کیس میں شکایت کنندہ ہیں ، وزارت داخلہ کوعلم نہیں تھا پراسیکیوٹر کے استعفے کے بعد بھی ٹیم کام کر رہی ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کو شاید اس بات کا علم ہو، جسٹس نذر اکبر نے کہا وزارت داخلہ کے حکام کئی بار عدالت میں پیش ہوئے، کیسے ممکن ہے پیش ہونے والے افسران کو علم نہ ہو، شاید کیا بات ہے؟

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا حکومت کی تبدیلی پر پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے استعفی دیدیا ، اکرم شیخ کی ہدایت پر استغاثہ کی نئی ٹیم لگائی گئی تھی، حکومت نے 23 اکتوبر کو استغاثہ کی ٹیم کو برطرف کیا، جسٹس نذراکبر کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس کا اس کیس میں کوئی کردار نہیں۔

    جسٹس وقاراحمدسیٹھ نے کہا مختصر وقفے کے بعد اس حوالے سے مزید کارروائی کریں گے، بعد ازاں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، خصوصی عدالت 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنائے گی ، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا کو دفاعی دلائل سے روک دیا تھا اور پراسیکیوشن کی نئی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا ، نئی ٹیم مقرر کرنے میں تاخیر پر عدالت نے بغیر سماعت فیصلہ محفوظ کیا، عدالت کا کہنا ہے کہ مشرف کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرادیں۔

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا، مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

    بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

  • آئین شکنی کیس: پرویز مشرف کی بیماری کی  بنیاد پر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد

    آئین شکنی کیس: پرویز مشرف کی بیماری کی بنیاد پر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : آئین شکنی کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی کیس کے التوا کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کے دفاع کے لئےسرکاری وکیل مقرر کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے قرار دیا کہ ٹرائل شروع ہوچکا وہ ملزم کی بیماری یاعدم حاضری کی وجہ سے روکا نہیں جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی،  پرویزمشرف پھر پیش نہیں ہوئے۔

    سماعت میں استغاثہ نے عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کی جانب سےمقدمہ خارج کرنےکی درخواست سے متعلق جواب جمع کرادیا، استغاثہ کی جانب سے  مقدمہ خارج کیے جانے کی مخالفت کی گئی اور جواب کی کاپی پرویز مشرف کے وکیل کےسپرد کر دی گئی۔

    وکیل پرویز مشرف نے خصوصی عدالت سے مشرف کی پیشی کے لیے ایک اور موقع دینے کی استدعا کی ، وکیل نے کہا کہ پرویزمشرف زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ ذہنی اورجسمانی طور پراس قابل نہیں کہ ملک واپس آسکیں، ان کا وزن تیزی سے کم ہورہا ہے، وہ وہیل چیئر پر ہیں اور پیدل بھی نہیں چل سکتے۔

    وکیل کا کہنا تھا ہر تاریخ سماعت پر کیس کے التواءکی استدعا پر ہمیں بھی شرمنگی ہوتی ہے، ان کے دل کی کیمو تھراپی ہورہی ہے، جس کے بعد صحت مزید خراب ہوتی ہے، انہیں ایک موقع اور دیاجائے تاکہ وہ خودعدالت میں پیش ہوسکیں۔

    جس پر عدالت نے کہا گذشتہ تاریخ پر رعایت دی،اب باری ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے حکم کو اہمیت دیں اور استغاثہ کے وکیل سے پوچھا کیا آپ پرویز مشرف کی طبیعت سےمتعلق چیلنج کرتے ہیں؟ جس پر وکیل استغاثہ نے جواب دیا وکیل صفائی کے اپنے پاس براہ راست ا طلاع نہیں، ہمارے پاس بھی ان کی  صحت کےبارےمیں تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں، ہم اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔

    استغاثہ کے وکیل ڈاکٹر طارق حسن نے عدالت سے درخواست کی کہ مشرف کا بیان ویڈیو لنک کے زریعے قلمبند کرنے کا موقع دیا، فریقین کو سننے کے بعد سماعت ملتوی کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویزمشرف کی بیماری کی بنیاد پر سماعت ملتوی کرنےکی استدعامسترد کردی اور سنگین غداری کیس میں  پرویز مشرف کا حق دفاع ختم کرتے ہوئے مشرف کےموجودہ وکیل بیرسٹرسلمان کودلائل سےروک دیاگیا ، بیرسٹرسلمان کودلائل سےسپریم کورٹ کےحکم پرروکاگیا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کا حق دفاع ختم کر تے ہوئے کہاہے کہ مفرور ملزم وکیل کی خدمات بھی حاصل نہیں کر سکتا ، مشرف خود کو قانون کے حوالے کریں تو  اپنی مرضی کا وکیل کر سکتے ہیں۔

    عدالت نے حکم دیا مقدمہ خارج کرنےکی درخواست زیر غورنہیں لائی جاسکتی، مشرف کے دفاع کیلئے وزارت داخلہ وکیل یا وکلا ٹیم مقررکرے، ٹرائل شروع ہو چکا، ملزم کی بیماری یاعدم حاضری پرروکا نہیں جاسکتا۔

    عدالت نے مشرف کی بریت کی درخواست بھی ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کیس کی سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی۔

  • اگر پرویز مشرف 2 مئی کو  نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ

    اگر پرویز مشرف 2 مئی کو نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ

    اسلام آباد: :سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کے ٹرائل سےمتعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا 2مئی کومشرف نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ، اور حکم دیا ٹرائل کورٹ ان کی غیرموجودگی میں ٹرائل مکمل کرکے حتمی فیصلہ جاری کردے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت کی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ملزم پرویز مشرف 2مئی کو عدالت میں پیش ہوں گے ؟ جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا میں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ پیش ہوں، یقین سے نہیں کہہ سکتا ،ان کی صحت کا معاملہ ہے، ہفتے میں دو مرتبہ انکی کیموتھراپی ہوتی ہے، کیموتھراپی کا عمل مکمل ہوا تو ضرور حاضر ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا سیشن کورٹ ایکٹ کی دفعہ 9کیا کہتی ہے ؟ وکیل استغاثہ نے کہا پرویز مشرف شروع میں عدالت میں پیش ہوئے، پرویزمشرف نےفردجرم سنی اورانکار کیا، پھر استثنیٰ کی درخواست دی اوروعدہ کیا ضرورت ہوگی پیش ہوں گے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا اب وہ دانستہ طور پر غیر حاضرہیں، غیرحاضری میں ٹرائل اوردانستہ غیر حاضرہونا2مختلف باتیں ہیں، غیرحاضری میں ٹرائل ہوناآئینی طورپردرست نہیں، دانستہ طور پر غیر حاضرہونامختلف معاملہ ہے ، دانستہ طور پرغٖیر حاضری کافائدہ ملزم کو نہیں دیا جاسکتاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس مرحلے پر ہمیں کوئی فیصلہ نہیں دینا چاہیے، ہوسکتا ہےہمارے سامنے اپیل میں دوبارہ یہ نقطہ اٹھایاجائے، وفقے کے بعد اس پر مزید غورکریں گے کیا کرنا چاہیے۔

    سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کےٹرائل سے متعلق فیصلہ سنادیا، جس میں کہا گیا اگر 2 مئی کومشرف نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ، ایسی صورت میں ٹرائل کورٹ استغاثہ کےدلائل سن کر حتمی حکم جاری کردے۔

    فیصلہ میں کہا گیا جو ملزم غیر حاضرہوجائے اس کے حقوق معطل ہوجاتے ہیں، دفعہ 342 ملزم کو اپنےدفاع کا موقع فراہم کرتی ہے ، ملزم یہ موقع ہی حاصل نہیں کرنا چاہتاتوپھر اسےدفاع کاحق نہیں رہتا ، دانستہ غیر حاضری کی صورت میں گواہ پیش کرنے کابھی حق نہیں رہتا۔

    چیف جسٹس نے کہا اگر پرویز مشرف 2مئی آجاتے ہیں تو سارے حقوق بحال ہوں گے، نہیں آتے توچاہےوجہ کچھ ہو، استغاثہ کوسن کر حتمی حکم جاری کیاجائے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    مزید پڑھیں : پرویزمشرف کا مئی میں وطن واپسی کا عندیہ

    یاد رہے 28 مارچ کوسابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کے وکیل نے خصوصی عدالت میں عندیہ دیا ہے کہ ان کے موکل 13 مئی کو وطن واپس آکر عدالت کے روبرو پیش ہوسکتے ہیں۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ  نے پرویز مشرف کے سامنے تین آپشنز رکھے تھے،  پہلا آپشن پرویز مشرف آئندہ سماعت پر ہوکر بیان ریکارڈ کروائیں، دوسرا آپشن اگر  نہیں پیش ہوتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروائیں اور تیسرا آپشن اگر وہ اسکائپ پر بھی بیان ریکارڈ نہیں کرواتے تو ان کے وکیل بیان ریکارڈ کروائیں۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سےالتواکی درخواست بھی مسترد کردی  تھی،  چیف جسٹس نے کہا تھا پرویزمشرف تو مکے شکے دکھاتے تھے، یہ ناہوعدالت کو مکے دکھانا شروع کردیں۔

  • آئین شکنی کیس : سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے سامنے 3 آپشنز رکھ دیئے

    آئین شکنی کیس : سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے سامنے 3 آپشنز رکھ دیئے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آئین شکنی کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کے سامنےتین آپشنزرکھتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سےالتواکی درخواست مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا پرویزمشرف تو مکے شکے دکھاتے تھے، یہ ناہوعدالت کو مکے دکھانا شروع کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت کی ، سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے سامنے تین آپشنز رکھ دیئے، پہلا آپشن پرویز مشرف آئندہ سماعت پر ہوکر بیان ریکارڈ کروائیں، دوسرا آپشن اگر  نہیں پیش ہوتے تو
    اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروائیں اور تیسرا آپشن اگر وہ اسکائپ پر بھی بیان ریکارڈ نہیں کرواتے تو ان کے وکیل بیان ریکارڈ کروائیں۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سےالتواکی درخواست مسترد کردی اور کہا ان 3 آپشنزمیں سےکسی پرعمل نہ ہواتو سپریم کورٹ خودفیصلہ کرے گی۔

    پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سےالتواکی درخواست مسترد

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا پرویزمشرف تومکے شکے دکھاتے تھے، یہ ناہوعدالت کو مکے دکھا دیں،اندازہ تھا پرویز مشرف اسپتال میں داخل ہوجائیں گے، جس پر وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا پرویز مشرف نے عدالت کوسنجیدگی سےنہیں لیا،عدالت کے ساتھ کھلواڑ کیاجا رہا ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاسوال یہ ہے ایک ملزم پیش نہیں ہورہا، اب کیاہو سکتاہے؟ایک ملزم جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتاتوکیاعدالت بالکل بےبس ہے؟ اگرقانون اس صورتحال پرخاموش ہےتوآئین سپریم کورٹ کواختیار دیتاہے۔

    دوران سماعت وکیل مشرف نے کہا پرویز مشرف بیرون ملک حکومت کی اجازت سےگئے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا وکیل صاحب حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہے، عدالت کی ترجیح صرف قانون ہے، یہ نہیں ہوسکتاکہ کوئی ملزم نظام انصاف سے بچ نکلے، یہ بہت غلط تاثر پیدا ہو رہاہےکہ کچھ لوگ قانون سےبالا ترہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا اگر قانون خاموش ہے تو اس کاحل سپریم کورٹ نکالے گی، بہتر حل ہے کہ ملزم کو ایک اور مناسب موقع دیا جائے، نہ آئےتواسکائپ پربیان دینےکاموقع فراہم کیاجائے، بیماری کی وجہ سے اسکائپ پرنہیں آتے تو ان کے وکیل سے سوال جواب کئے جائیں، میرے خیال میں وکیل بہتر جواب دےگا۔

    پرویز مشرف جیسے قوم کومکےدکھاتےتھے، عدالت کوبھی آکرمکےشکےدکھانا نہ شروع کر دیں، چیف جسٹس

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وہ خو دجیسے قوم کومکےدکھاتےتھے، عدالت کوبھی آکرمکےشکےدکھانا نہ شروع کر دیں، علاج کیلئےباہرجاناقانونی حق ہے، ایسی مثالوں نےدوسروں کیلئے بھی مشکلات پیداکر دی ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کوئی ایسی غلط مثال نہیں بننےدیں گے، جس سےلگےکچھ لوگ قانون سےبالاترہیں ، ٹرائل ہر حال میں ہو گا اولیور کرومویل کی مثال ہمارے سامنے ہیں، مشرف اپنے ہوش وحواس میں ہیں، پاک بھارت ایشوپرمشرف نے بہت سمجھدارانہ بیانات دیئے، وہ دیگرموضوعات پر بیانات ، انٹرویو دے سکتے ہیں، اپنےکیس میں کیوں نہیں۔

    کوئی ایسی غلط مثال نہیں بننےدیں گے، جس سےلگےکچھ لوگ قانون سےبالاترہیں

    سپریم کورٹ میں پرویزمشرف کیخلاف کیس کی سماعت میں وقفہ کے بعد عدالت نے کہا توقع ہےٹرائل کورٹ مشرف کےبیان ریکارڈ کرانے پرحل نکالےگی ، رجسٹرار خصوصی عدالت کے مطابق ٹرائل پر 28 اپریل کی تاریخ مقرر ہے، مشرف کا بیان ریکارڈکرنے کےحوالے سے معاونت طلب کی گئی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی پھر ہم مسئلہ حل کریں گے بعد ازاں کیس کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے جسٹس یحیٰ آفریدی نے بطورخصوصی عدالت سربراہ کیس سننے سے انکار کیا تھا ، جسٹس یحیٰ آفریدی سپریم کورٹ کےاس بنچ کے آئندہ کی تاریخ کا حصہ نہیں ہوں گے۔

  • سابق صدر کیخلاف آئین شکنی کیس کی سماعت آج ہوگی

    سابق صدر کیخلاف آئین شکنی کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: سابق صدر مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس کی سماعت  آج ہوگی جس کی سماعت تین رکنی خصوصی بینچ کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سابق صدر اور ریٹائرڈ آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف  آئین شکنی کیس کی سماعت آج خصوصی عدالت میں ہو گی۔ کیس کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔

    خصوصی عدالت میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ایک ہفتے کے بعد آج گئی۔ وکیل صفائی بیرسڑ فروغ نسیم دلائل مکمل کر چکے ہیں، آج پروسیکیوٹر اکرم شیخ جوابی دلائل دیں گے۔