Tag: آرمینیا

  • آذربائیجان کا نگورنو کاراباخ میں بڑا آپریشن، آرمینیائی فورسز نے سرنڈر کر دیا

    آذربائیجان کا نگورنو کاراباخ میں بڑا آپریشن، آرمینیائی فورسز نے سرنڈر کر دیا

    باکو: آذربائیجان کی جانب سے متنازع علاقے نگورنو کاراباخ میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن شروع کرنے کے ایک ہی دن بعد آرمینیائی مسلح فورسز نے سرنڈر کر لیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق آذربائیجان کے الگ ہونے والے علاقے نگورنو کاراباخ میں آرمینیائی علیحدگی پسند فورسز نے بدھ کے روز ہتھیار ڈال دیے اور جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی، باکو کی جانب سے اپنے علاقے پر مکمل کنٹرول بحال کرنے کے لیے گزشتہ روز ہی مسلح کارروائی شروع کی گئی تھی۔

    آذربائیجان کے فوجی آپریشن میں 27 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، 7 آذری فوجی بھی مارے گئے، آذربائیجان کی فوج نے 60 جنگی پوسٹوں پر کنٹرول حاصل کیا، 20 فوجی گاڑیاں، 40 توپ خانے، طیارہ شکن میزائل سسٹم اور 6 الیکٹرانک وار فیئر اسٹیشن تباہ کر دیے۔

    آذری حکام نے وارننگ دی تھی کہ آرمینیائی علیحدگی پسند ہوش میں آ جائیں، ان کے پاس اب کوئی راستہ نہیں، غیر قانونی حکومت ختم کر کے ہتھیار ڈال دیں اور سفید جھنڈا لہرا دیں۔ آذربائیجان کی فوج کی طرف سے کارروائی شروع کرنے کے چوبیس گھنٹے بعد ہی نسلی آرمینیائی افواج نے جنگ بندی کے لیے روسی شرائط پر اتفاق کر لیا۔

    کاراباخ افواج نے جو اہم مطالبات تسلیم کیے ہیں ان میں سے ایک مکمل طور پر غیر مسلح ہونا بھی ہے، معاہدہ بدھ کو دوپہر 1 بجے سے نافذ العمل ہو گیا ہے، خطے اور وہاں رہنے والے نسلی آرمینیائی باشندوں کے مستقبل پر بات چیت جمعرات کو شروع ہوگی۔ علیحدگی پسندوں نے سرنڈر کرنے کے باوجود دہائی دیتے ہوئے کہا ’’باکو فوج نے ہمارے دفاع حصار کو توڑ کر متعدد اہم مقامات پر قبضہ کیا اور اس طرح روسی امن دستوں نے جو شرائط پیش کیں ہمیں انھیں ماننے پر مجبور کر دیا گیا، اور دنیا نے کچھ نہیں کیا۔

    کاراباخ حکام کا کہنا ہے کہ آذربائیجانی فوج کی جانب سے ’’انسداد دہشت گردی‘‘ کی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے کم از کم 32 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہو چکے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کاراباخ آذربائیجان کا حصہ رہے گا، علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کسی سازش کو ترکیہ کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔

  • آرمینیا آذربائیجان میں جھڑپ، سرحد پر موجود کار میں کیا تھا؟

    آرمینیا آذربائیجان میں جھڑپ، سرحد پر موجود کار میں کیا تھا؟

    باکو: آرمینیا اور آذربائیجان کی سرحد پر تصادم میں 5 فوجی ہلاک ہو گئے، فائرنگ کا واقعہ سرحد پر موجود ایک کار کی وجہ سے پیش آیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آرمینیا کا کہنا ہے کہ سرحدی تنازعے میں تصادم کے دوران کم از کم 3 پولیس اہل کار ہلاک ہو گئے جب کہ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس کے 2 فوجی مارے گئے ہیں۔

    آرمینیا اور آذربائیجان دونوں ملکوں کے حکام نے اس فائرنگ کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

    آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ فائرنگ کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب فوجیو ں نے مبینہ طورپر ہتھیار لے جانے والی مشتبہ گاڑیوں کی چیکنگ شروع کی۔ جب کہ آرمینیا کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی مسلح فورسز نے ان کے پاسپورٹ اور ویزے کے محکمے کی ایک کار پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔

    واضح رہے کہ سابق سوویت یونین کی یہ دونوں ریاستیں اس پہاڑی خطے پر اپنا اپنا دعویٰ کرتی ہیں اور اس کے لیے کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے متصادم ہیں، 2020 میں اس تنازعے کی وجہ سے دونوں ممالک میں باقاعدہ جنگ بھی ہو چکی ہے۔

    آرمینیا کی وزارت خارجہ نے فائرنگ کے تازہ واقعے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ لاچین راہداری اور نگورنو کاراباخ میں حقائق کا پتا لگانے والی ایک بین الاقوامی ٹیم کو بھیجنا اب انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا کہ آج کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ آذربائیجان کو لاچین خان کینڈی سڑک پر ایک مناسب چیک پوائنٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

    لاچین راہداری تنازعہ

    آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان لڑائی میں چھ ہزار سے زائد جانیں ضائع ہونے کے بعد 2020 کے اواخر میں روس کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا تھا، اس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بھی فریقین کے مابین اب تک کئی مرتبہ جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

    2020 کی جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے معاہدے میں ایک سڑک، جسے لاچین راہداری کہا جاتا ہے، کو چوڑا کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ یہ نگورنو کاراباخ اور آرمینیا کو جوڑنے والی واحد قانونی راہداری ہے، خطے کے تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار افراد کی روزمرہ ضروریات کے لیے اسی راہداری کے ذریعے اشیا کی ترسیل ہوتی ہے۔

    لیکن آذربائیجان کے ماحولیاتی کارکنوں نے دسمبر کے بعد سے اس سڑک پر آمدورفت بڑی حد تک روک رکھی ہے، وہ علاقے میں غیر قانونی کان کنی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، آرمینیا نے آذربائیجان پر رکاوٹیں کھڑی کرنے والے مظاہرین کی حمایت کا الزام بھی لگایا ہے۔

  • بچے فروخت کرنے والے منظم نیٹ ورک کا انکشاف، ہسپتال بھی ملوث

    بچے فروخت کرنے والے منظم نیٹ ورک کا انکشاف، ہسپتال بھی ملوث

    یروان: سابق سوویت یونین کے ملک آرمینیا میں بچے فروخت کرنے والے ایک منظم نیٹ ورک کا انکشاف ہونے کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    رواں برس نومبر میں آرمینیا کی سیکیورٹی فورسز نے ایک ایسے گروہ کی نشاندہی کی تھی جو بچے فروخت کرنے کے مذموم دھندے میں ملوث تھا اور حکام کے مطابق یہ کام کئی برسوں سے ان کی ناک کے نیچے جاری تھا۔

    جب اس بارے میں تفتیش ہوئی تو انکشاف ہوا کہ ملک کے کئی اداروں کے اعلیٰ حکام بھی اس کام میں ملوث تھے جن میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار، پولیس افسران، میٹرنٹی ہومز میں کام کرنے والے ملازمین و انتظامیہ اور ملک میں جا بجا قائم یتیم خانوں کی انتظامیہ شامل ہے۔

    اس گروہ کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب انہوں نے 30 نومولود بچے ایک ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کو گود دلوائے۔

    اب تک اس اسکینڈل میں ملوث ملک کی ایک معروف گائنا کالوجسٹ، ایک یتیم خانے کے سربراہ اور دیگر حکام کو پکڑا گیا ہے جو سالوں سے اس مذموم فعل میں مصروف تھے۔

    آرمینیا کے وزیر اعظم نے اس معاملے کی مؤثر اور مکمل تفتیش کا حکم دیا ہے۔ حکام کے ساتھ ایک میٹنگ میں جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تو انہوں نے بھرپور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس طرح کا کوئی گروہ کیسے پھل پھول سکتا ہے۔

    تفتیش میں انکشاف ہوا کہ اس گروہ کے ارکان نے ابارشن کی خواہشمند خواتین کو مجبور کیا کہ وہ بچے کو جنم دیں اور بعد ازاں اسے ایڈاپشن کے لیے دے دیں۔

    آرمینیا کی نائب وزیر برائے لیبر کا کہنا ہے کہ حکام اس کیس کی ہر پہلو سے چھان بین کر رہے ہیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ مقامی افراد سے زیادہ غیر ملکیوں کو بچے فروخت کیے گئے جس کے بعد تفتیش کا دائرہ دیگر ممالک تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے۔

    اس گروہ کی گرفتاری کی خبروں کے بعد اب تک کئی مائیں سامنے آئی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے نومولود بچے ان سے چھینے گئے یا انہیں غائب کردیا گیا۔

    ایسی ہی ایک 35 سالہ ماں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 16 سال کی عمر میں انہوں نے ایک ناجائز تعلق کے نتیجے میں ایک بیٹی کو جنم دیا تھا۔ ان کی بیٹی کی پیدائش اسی گائناکالوجسٹ کے ہاتھوں ہوئی جو اب پولیس کی حراست میں ہے۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ گائنا کالوجسٹ اور اس کے ساتھ مل کر دیگر افراد نے انہیں دھمکیاں دیں کہ وہ بچی کے باپ کو پولیس کے حوالے کردیں گے۔ ’انہوں نے زبردستی مجھ سے ایک دستاویز پر دستخط لیے جس کے مطابق میں نے اپنی مرضی سے اپنا بچہ ایڈاپشن کے لیے ان کے حوالے کردیا‘۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ 3 دن بعد گھر جانے کے لیے جب انہوں نے اپنی بیٹی کو ساتھ لینا چاہا تو انہیں علم ہوا کہ وہ میٹرنٹی وارڈ سے غائب ہوچکی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کو ایک یتیم خانے میں بھیج دیا گیا ہے، تاہم انہیں اس یتیم خانے میں اپنی بیٹی کا کوئی سراغ نہیں ملا، ’مجھے یقین ہے کہ اسے اسپتال سے ہی فروخت کیا جاچکا تھا‘۔

    کیس میں متاثرین کی حیثیت سے پیش ہونے والی خواتین میں سے ایک کے وکیل کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عہدیداران اور پولیس افسران کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ نیٹ ورک منشیات فروشی کے مافیاز سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

    ان کے مطابق اس نیٹ ورک نے ملک کو ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں بچے پیدا کر کے دوسری جگہوں پر فروخت کیے جائیں۔

    غیر ضروری یتیم خانے

    اس اسکینڈل نے ایک طرف تو ملک بھر میں اشتعال کی لہر دوڑا دی ہے، تو دوسری طرف عوام کے اس مطالبے کو بھی تقویت دی ہے جس میں لوگ ملک میں جابجا کھلے یتیم خانوں کے خلاف ہیں۔

    ان یتیم خانوں کا مصرف سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہاں غیر ضروری طور پر بچوں کو لا کر رکھا جاتا ہے کیونکہ والدین غربت یا معذوری کے سبب اپنے پیدا ہونے والے بچوں کو ان یتیم خانوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔

    ایک طویل عرصے سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سنہ 2023 تک ان یتیم خانوں کو بند کر کے یہاں موجود بچوں کو ان کے والدین کو واپس لوٹا دیا جائے۔

    سنہ 2017 میں ہیومن واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان یتیم خانوں میں غیر ضروری طور پر پلنے والے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان میں سے 90 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں سے کوئی ایک زندہ موجود ہے۔

    اسی طرح 70 فیصد بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں اور ان کے والدین کا انہیں یہاں چھوڑ دینا نہایت ظالمانہ اور غیر انسانی فعل قرار دیا جاتا ہے۔