Tag: آنگ سان سوچی

  • روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں پیش

    روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں پیش

    دی ہیگ: میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت کے لیے پیش ہوئی ہیں جو گیمبیا نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف کیا ہے۔

    اپنے کیس میں مغربی افریقی ملک گیمبیا نے کہا ہے کہ میانمار اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

    گیمبیا کا کہنا ہے کہ سنہ 1948 کے نسل کشی کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے طور پر اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل کشی کو روکے اوراس کے ذمہ داران کو سزا دلوائے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہورہا ہو۔

    گیمبیا نے ثبوت کے طور پر عدالت میں اقوام متحدہ کی رپورٹس پیش کی ہیں جو روہنگیا مسلمانوں کے قتل، اجتماعی زیادتی اور دیہاتوں کو جلانے کے حوالے سے تیار کی گئی ہیں۔

    گیمبیا نے عدالت انصاف سے درخواست کی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کا حکم دیا جائے تاکہ صورتحال کو مزید بدتر ہونے سے روکا جاسکے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ میانمار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مظالم کے ثبوت محفوظ رکھے اور ان تک اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو رسائی دے۔

    کیس کو 17 رکنی ججز کا پینل دیکھ رہا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ یہ کیس کئی سال تک چل سکتا ہے۔ جیسا کہ بوسنیا نسل کشی کے خلاف کیس جو سنہ 1995 میں شروع ہوا اور اسے مکمل ہونے میں 15 برس لگے۔

    کیس کی سماعت میں میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی پیش ہوئیں تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میانمار میں جنگی جرائم ہو رہے ہیں تاہم انہوں نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا۔

    انہوں نے عدالت میں اس بات پر بھی اصرار کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور فوجی آپریشن ضرور کیا جارہا ہے، تاہم اس کا ہدف رخائن کی ریاست میں موجود مسلح اور جنگجو مسلمان ہیں، نہتے اور غیر مسلح روہنگیوں کو کچھ نہیں کہا جارہا۔

    کیس کا دارو مدار چونکہ ’نسل کشی‘ پر ہے لہٰذا دوران سماعت میانمار کے ایک وکیل نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کی اموات کی تعداد اتنی نہیں کہ اسے نسل کشی قرار دیا جائے۔

    آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف سے اس درخواست کو خارج کرنے کی بھی درخواست کی اور کہا کہ اس ضمن میں پہلے ان کے اپنے ملک کی عدالتوں کو کام کرنے کا موقع دینا چاہیئے۔

  • روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مدت مکمل کرنے والے زید کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ملٹری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آنگ سان سو چی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے زید رعد الحسین جو کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ ہیں ، کہا کہ میانمار کی نوبیل انعام یافتہ وزیراعظم کو اپنی فوج کے مظالم کی توجیہات پیش کرنے کے بجائے ایک بار پھر نظر بند ہوجانا چاہیے تھا ( یاد رہے کہ برمی فوج نے طویل عرصہ انہیں نظر بند رکھا تھا)۔

    اقوام متحدہ نے حالیہ دنوں ایک میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم منظم تھے، تاہم میانمار نے اس رپورٹ کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔

    بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت پر مبنی ملک کی آرمی پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ برس بدھسٹ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں منظم طریقے سے نسل کشی کی ہے، رپورٹ میں ملک کی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بھی فسادات روکنے میں ناکام رہنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

    زید حسین نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’ وہ اس پوزیشن میں تھیں کہ ان حالات کی روک تھام کرتیں لیکن وہ اپنی فوج کی صفائیاں دیتی رہیں۔ کم از کم انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بہتر تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتیں۔ ان کو فوج کا ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ کہنے کی کہ اس معاملے میں غلط معلومات کا پورا آئس برگ ہے اور یہ سب جعلی اور تراشیدہ ہیں۔

    ا س کے بجائے انہیں اپنی فوج سے کہنا چاہیے تھاکہ میں اس ملک کی سربراہ ہوں لیکن ایسے حالات میں نہیں رہ سکتی، آپ کا شکریہ ، میں استعفی دے رہی ہوں اور میں ایک بار پھر نظر بندی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    یاد رہے کہ آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کے معاملے پر تحریک چلانے کےجرم میں سنہ 1989 سے لے کر 2010 تک کل سترہ سال نظر بندی میں گزارے تھے، اس دوران میانمار میں ملٹری کی حکومت تھی۔ سنہ1991 میں نوبیل پرائز کمیٹی نے انہیں امن کا نوبیل انعام دیا تھا، کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان سے یہ ایوارڈ واپس نہیں لیا جائے گا۔