Tag: اپالو 11

  • چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    نیل آرمسٹرانگ کا نام 20 جولائی سن 1969ء کو ہمیشہ کے لیے زمین کی تاریخ میں محفوظ کر لیا گیا تھا اور مستقبل میں اگر انسان چاند پر آباد ہوا تو وہاں بھی تاریخ کے اوّلین اوراق پر اسی خلا نورد کا نام جگمگا رہا ہو گا۔

    نظامِ شمسی کے سیّارے زمین کے گرد گھومنے والے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم نیل آرمسٹرانگ کا تھا۔

    یہ امریکی خلا نورد 2012ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے کمانڈر کے طور پر خلا میں ان کا سفر اور چاند پر اترنا زمین کی تاریخ کے عظیم الشّان واقعات میں سے ایک ہے۔ اس موقع پر آرمسٹرانگ نے تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے، لیکن حقیقت میں انسانیت کی ایک بہت بڑی جَست ہے۔

    نیل آرمسٹرانگ نے دل کی بیماری کے سبب 82 برس کی عمر میں دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا تھا۔ وہ 1930ء میں امریکا میں‌ اوہائیو کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انجینئر کے طور پر کام کرنے لگے اور امریکی بحریہ کے پائلٹ بھی رہے اور تعلیم اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں‌ امریکا کے خلائی مشن کا حصّہ بنے۔

    چاند پر نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلا نورد ایڈوِن ایلڈرن تقریباً تین گھنٹے چہل قدمی کے بعد کام یابی سے زمین پر لوٹ آئے تھے۔

    نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کا آخری خلائی مشن اپالو گیارہ تھا اور اس کے بعد ان کو ناسا کے ایڈوانس ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعینات کر دیا گیا تھا اور انھیں دفتری امور تفویض کر دیے گئے۔ اسی عہدے کے ساتھ، ان کو ناسا کا ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی کے ایک سال کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور سنسناٹی یونیورسٹی میں پروفیسر برائے انجینئرنگ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    انھیں امریکا میں قومی سطح کے اعزازات اور دنیا بھر میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آرمسٹرانگ سنسناٹی میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یہیں وفات پائی۔

  • خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں اب تک کئی متضاد دعوے سامنے آچکے ہیں اور ان میں سے کون سا دعویٰ حتمی ہے، یہ کہنا مشکل ہے تاہم پہلی بار چاند پر قدم رکھنے والے خلانوردوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا، اب سچ ثابت ہوگیا ہے۔

    سنہ 1969 میں امریکی خلائی مشن اپالو 11 چاند پر بھیجا گیا تھا اور اس میں موجود خلا نوردوں نے چاند پر قدم رکھ کر، چاند پر پہنچنے والے اولین انسانوں کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

    مشن پر جانے والے خلا نورد اپنے کئی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا تاہم ان کے دعوے پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک

    اب حال ہی میں ان خلا نوردوں کا لائی ڈیٹیکٹر (جھوٹ پکڑنے والی مشین) سے ٹیسٹ کیا گیا جس میں وہ کامیاب ہوگئے، گویا خلائی مخلوق کو دیکھنے کا ان کا دعویٰ درست ہے۔

    یہ ٹیسٹ امریکی ریاست اوہائیو میں واقع انسٹیٹیوٹ آف بائیو ایکوزٹک بیالوجی میں کیا گیا جس میں اپالو 11 میں موجود خلا نورد بز ایلڈرن نے یہ ٹیسٹ پاس کرلیا۔

    ٹیسٹ کے نتائج میں ماہرین نے بتایا کہ ایلڈرن جو نیل آرم اسٹرونگ کے بعد چاند پر قدم رکھنے والے دوسرے انسان تھے، اس مشن کی واپسی سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ انہوں نے چاند تک اپنے سفر کے دوران خلائی مخلوق کو دیکھا تھا، اب انہوں نے لائی ڈیٹیکٹر کا یہ ٹیسٹ پاس کرلیا ہے چنانچہ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ انہوں نے خلائی مخلوق کو واقعتاً دیکھا تھا۔

    ایلڈرن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے چاند کے سفر کے دوران ایک قابل مشاہدہ شے دیکھی تھی جو انگریزی حرف تہجی ’ایل‘ جیسی تھی۔ ٹیسٹ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں تاہم وہ شے کیا تھی، ان کا دماغ اس کی تشریح پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    ٹیسٹ میں خلا نوردوں ایڈگر مچل اور گورڈن کوپر کی آوازوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ دونوں خلا نورد انتقال کرچکے ہیں اور ان کی آواز کے تجزیے کے لیے ان کے ایک پرانے انٹرویو سے مدد لی گئی۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا زمین کی تباہی کا سبب

    ایڈگر مچل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے متعدد اڑن طشتریوں کو دیکھا تھا۔ مذکورہ ٹیسٹ میں ان کی آواز کے تجزیے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ بھی سچ کہہ رہے تھے۔

    خلا نوردوں پر مذکورہ ٹیسٹ کے بعد خلائی مخلوق کی تلاش کے مشنز اور تجربات کے لیے ایک نئی راہ کھل گئی ہے۔ سائنس داں پر امید ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی کی جانے والی کوششوں کو جلد کامیابی حاصل ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔