Tag: اپریل وفات

  • ہری سنگھ نلوا: بہادر سپاہ سالار اور بہترین منتظم

    ہری سنگھ نلوا: بہادر سپاہ سالار اور بہترین منتظم

    ہری سنگھ نلوا سکھ خالصہ فوج کا ایک سپاہ سالار تھا جس سے موسوم ہری پور آج صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک ضلع ہے۔ یہ وہ شہر ہے جسے ہری سنگھ نلوا نے آباد کیا تھا۔

    رنجیت سنگھ کی فوج کے اس سپاہ سالار نے کئی علاقے فتح کیے اور برصغیر کی سکھوں‌ کی تاریخ میں اپنا نام محفوظ کروانے میں کام یاب ہوا۔ ان علاقوں میں قصور، ملتان، اٹک، پشاور شامل ہیں‌ جب کہ جمرود کی جنگ کے دوران 1837ء میں آج ہی کے دن ہری سنگھ نلوا مارا گیا تھا۔

    ہری سنگھ نلوا کا سنہ پیدائش 1791 ہے جو گوجرانوالہ کے اپل کھتری خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے بزرگوں نے بھی اپنے دور میں متعدد جنگوں‌ میں حصّہ لیا تھا۔ ہری سنگھ نلوا کم عمر تھا جب باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا اور 14 برس کی عمر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں اسے بھیج دیا گیا۔ نلوا ایک ماہر گھڑ سوار اور اچھا نشانے باز تھا۔ اس نے جلد ہی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوا لیا اور سنہ 1818 میں اسے سکھ خالصہ فوج کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتخاب غلط نہیں تھا اور نلوا نے بالخصوص افغانوں اور دیگر اقوام کے خلاف جنگوں‌ میں‌ فتح حاصل کرکے سکھ سلطنت کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ ہری سنگھ نلوا کی انتظامی صلاحیتوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کشمیر اور گریٹر ہزارہ کا گورنر رہا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔

    محقق جہانداد خان تنولی کے مطابق ’رنجیت سنگھ کی سلطنت کے قیام اور اس کی فتوحات میں ہری سنگھ نلوا کا بہت بڑا کردار تھا۔ انھوں نے کم از کم بیس بڑی اور تاریخی جنگوں کی کمان کی یا ان میں حصہ لیا۔‘

    ہری سنگھ نے کئی عمارتیں‌ اور عوام کی سہولت کے لیے بھی تعمیرات کروائیں جن کی تعداد جہانداد خان کے مطابق 56 ہیں جن میں قلعے، گوردوارے، باغات، حویلیاں، اور سرائے عام شامل ہیں۔ ہری سنگھ نلوا نے جس شہر کی بنیاد 1823ء میں رکھی تھی اس میں‌ فوجی نقطۂ نظر سے ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا اور جسے ہرکشن گڑھ کہا گیا۔

    سکھ دور کے حوالے سے تحقیق کرنے والے جہاندار خان تنولی کے مطابق انھوں نے زیادہ تر عمارات آج کے صوبہ خیبر پختونخوا، کشمیر اور پنجاب میں تعمیر کروائی تھیں، جن میں سے کئی آج بھی موجود ہیں۔ کئی ایک کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کیا گیا ہے۔

    اگرچہ ہری سنگھ کی یہ فتوحات اور رنجیت سنگھ کی سلطنت کو وسعت اور استحکام بخشنے کی یہ قابلِ ذکر کاوشیں زیادہ عرصہ اپنی بہار نہ دکھا سکیں، لیکن ہری سنگھ نے خود کو ایک کام یاب سپاہ سالار اور بہترین منتظم ضرور ثابت کیا۔ کیوں‌ کہ ہری سنگھ سے پہلے اس علاقہ میں بھیجے گئے سکھ جرنیل ناکامی کے بعد مارے گئے تھے۔ یہاں سکھوں کے خلاف بغاوتیں کچلنے میں رنجیت سنگھ کا سب سے قابلِ بھروسا ہری سنگھ نلوا ہی کام یاب ہوا اور سکھوں کی عمل داری قائم ہوئی۔

  • استاد بڑے غلام علی خاں: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فن کار کا تذکرہ

    استاد بڑے غلام علی خاں: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فن کار کا تذکرہ

    استاد بڑے غلام علی خاں کو برصغیر کا عظیم موسیقار اور ایسا فن کار کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے کلاسیکی موسیقی کو خواص اور عوام دونوں‌ میں متعارف کروایا اور اپنے فن کی داد پائی۔ آج استاد بڑے غلام علی خاں کی برسی ہے۔

    استاد بڑے غلام علی خاں ایک گوّیے اور موجد دونوں حیثیتوں میں مستند استاد تسلیم کیے گئے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے گانے والے اُن کے مداح رہے اور گائیکی میں انھیں استاد مانتے ہیں۔ ہندوستان میں بڑے خاں صاحب کے فن کی عظمت کا اعتراف کس نے نہیں کیا۔ اس دور میں‌ جب یہاں‌ آواز ریکارڈ کروانے کا سلسلہ شروع ہوا تو بڑے خاں صاحب نے بیسیوں راگ ریکارڈ کروائے اور یہ تین، تین منٹ کے ریکارڈ تھے جنھیں گاتے ہوئے ان کے ہم عصر گویّے اکثر صبح سے شام کر دیا کرتے تھے۔ صحافی اور محقق طاہر سرور میر لکھتے ہیں: ساٹھ کی دہائی میں ہدایت کار کے آصف فلم ’مغل اعظم‘ بنا رہے تھے۔ فلم کے ایک منظر میں شاہی گویے میاں تان سین کی آواز کی ضرورت پڑی تو میوزک ڈائریکٹر نوشاد نے کے آصف سے کہا کہ تان سین کی آواز کے لیے ہمیں آج کے تان سین استاد بڑے غلام علی خاں سے درخواست کرنی چاہیے لیکن بڑے خاں صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ فلمی میوزک کو اپنے شایان شان خیال نہیں کرتے تھے۔ استاد نے کہا کہ کلاسیکی موسیقی عوام کا نہیں خواص کا فن ہے، یہ میلوں ٹھیلوں اور نوٹنکیوں کے لیے نہیں۔ اسے سننے کے لیے دو سے تین سو اہل ذوق خاص طور پر محفل سجاتے ہیں، اس پر نوشاد نے کہا کہ استاد محترم اپنے عظیم فن سے ہندوستان کے 45 کروڑ عوام ( اس وقت انڈیا کی آبادی) کو محروم نہ کیجیے۔ قصہ مختصر ’مغل اعظم‘ کے لیے استاد کی آواز ریکارڈ کرنے کا معاوضہ 25 ہزار روپے ادا کیا گیا۔ اس وقت لتا منگیشکر اور محمد رفیع جیسے مین اسٹریم سنگرز چار سے پانچ سو روپے معاوضہ وصول کر رہے تھے۔

    بڑے غلام علی خاں 23 اپریل 1968ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ وہ فنِ موسیقی میں‌ مشہور پٹیالہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان سنہ پیدائش 4 اپریل 1902ء اور آبائی شہر قصور تھا۔ ان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ اور اس کے رتنوں میں سے ایک تھے۔ بڑے غلام علی خاں‌ کے والد علی بخش خاں اور چچا کالے خاں پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔

    استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوگئے۔ ان کے فن کی شہرت جلد ہی ہندوستان بھر میں پھیل گئی جس کے بعد انھیں موسیقی کی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کرکے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

    استاد بڑے غلام علی کی انفرادیت ان کے تجربات اور گائیکی میں بعض ترامیم ہیں جو کلاسیکی موسیقی کی خوبی اور اس کا حُسن بن گئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خاں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا، مگر پاکستان میں ریڈیو پر بعض افسران کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر 1954ء میں بھارت چلے گئے تھے۔ وہاں استاد بڑے غلام علی خان کو بہت پذیرائی ملی اور اپنے فن کی بدولت وہ پدم بھوشن کے علاوہ سُر دیوتا، سنگیت سمراٹ اور شہنشاہِ موسیقی جیسے خطاب و القاب سے نوازے گئے۔ انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔

  • مارک ٹوین: امریکا کا سب سے بڑا طنز نگار

    مارک ٹوین: امریکا کا سب سے بڑا طنز نگار

    مارک ٹوین امریکا کے ایک ایسے طنز نگار تھے جن کی تحریریں اور بے لاگ تبصرے دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنے۔ حاضر جواب مارک ٹوین ادیب اور مدرّس بھی تھے جو 21 اپریل 1910ء کو چل بسے تھے۔

    طنز نگار مارک ٹوین نے اسی قلمی نام سے بچّوں کے لیے کہانیاں اور ناول بھی لکھے جنھیں بہت پذیرائی ملی۔ اس امریکی ادیب کو دنیا سے گئے ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، مگر آج بھی لوگ ان کے طنزیہ مضامین کو پڑھ کر امریکی معاشرے کی خرابیوں، طبقۂ اشرافیہ کی من مانیوں، اور فرسودہ نظام اور اس کے تضاد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    مارک ٹوین 1835ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا، مگر جہانِ ادب میں انھیں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ مارک ٹوین کی طنزیہ تحریروں کے علاوہ ان کے ناول ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کو بھی قارئین نے بہت پسند کیا۔ ان کے یہ ناول امریکہ ہی نہیں دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد بڑے شوق سے پڑھے گئے اور یہ ناول اردو زبان میں بھی قارئین تک پہنچے۔ انہی ناولوں کے تراجم کی بدولت مارک ٹوین ہندوستان میں پہچانے گئے تھے۔

    امریکی طنز نگار اور ادیب مارک ٹوین گیارہ سال کے تھے جب اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ والد کے بعد ان کے کنبے کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اسی وجہ سے مجبوراً مارک ٹوین کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ وہ ایک اخبار کے دفتر میں نوکر ہوگئے۔ وہیں کام سیکھنے کے دوران مارک ٹوین اخبار بینی اور کتب کا مطالعہ کرنے کے عادی ہوئے اور انھیں مختلف علوم میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی۔ رفتہ رفتہ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے وقت کے بڑے ادیبوں اور اہل قلم کی تحریروں کو خاص طور پر پڑھنے لگے۔ اس شوق کی تکمیل کے دوران مارک ٹوین کو احساس ہوا کہ وہ بھی لکھ سکتے ہیں اور اس میدان میں‌ ان کی حس ظرافت اور برجستہ گوئی نے انھیں‌ کام یاب اور مقبول ترین مزاح نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ آج بھی مارک ٹوین کے کئی اقوال لوگ تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف امریکی عوام میں مقبول تھے بلکہ ملک کے بڑے بڑے سیاست دان، مشہور و معروف شخصیات جن میں سرمایہ دار، اہلِ علم اور فن کار بھی شامل ہیں، ان سے متأثر تھے۔ ان شخصیات پر مشتمل مارک ٹوین کا حلقۂ احباب نہایت وسیع تھا۔ اس دور کے صاحبان فکر و فن، ناقدین اور ہم عصر شخصیات نے مارک ٹوین کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور انھیں ایک منفرد طرزِ فکر کا حامل ادیب اور بے لاگ طنز نگار کہا۔

    جس طرح اردو ادب میں مرزا غالب کو شاعری کے علاوہ ان کی شوخیٔ طبع اور حس ظرافت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

    اس کے چند لطیفے سنو:
    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

    مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘

    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

    عالمی شہرت یافتہ طنز نگار مارک ٹوین کی ذاتی زندگی کے دو بڑے المیے ان کی دو جوان بیٹیوں کی ناگہانی موت ہیں۔ مارک ٹوین کی 24 سالہ بیٹی سوزی سنہ 1896ء میں انتقال کر گئی تھی۔ بیٹی کی موت کے صدمے سے نڈھال مارک ٹوین کو چند برس بعد 1904ء میں اپنی اہلیہ اولیویا کو بھی کھونا پڑا اور وہ بہت ٹوٹ گئے۔ سنہ 1909ء میں ان کی دوسری بیٹی بھی صرف 29 برس کی عمر میں چل بسی جس کے اگلے برس مارک ٹوین بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مارک ٹوین کو بابائے امریکی ادب بھی کہا جاتا ہے۔

  • جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

    جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

    برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں کئی انگریز افسران نے حکومتی اور انتظامی عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جن میں سے بعض اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیتوں کے علاوہ شخصی اوصاف کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگوں میں مقبول ہوئے۔ جم کاربٹ انہی میں سے ایک تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے کئی دیہات میں لوگ اسے اپنا مسیحا کہتے تھے اور اکثر اسے دیوتا بھی مانتے تھے۔

    اس دور میں‌ برصغیر میں‌ توہم پرستی عام تھی اور اکثر لوگ اعتقاد کی کم زوری کے سبب ناگہانی آفات، ماورائے عقل یا ایسے واقعات جن کی بظاہر کوئی وجہ سامنے نہ ہو، انھیں جنّات، بھوت پریت یا کسی نادیدہ مخلوق کی کارستانی سمجھ لیتے تھے اور خوف زدہ ہوجاتے تھے۔ یہ باتیں بڑھا چڑھا کر دوسروں کو بتائی جاتیں اور ان کا خوب چرچا ہوتا۔ ہندوستان میں‌ جنگلات کے قریبی دیہاتی جنگلی جانوروں بالخصوص درندوں سے بڑے تنگ تھے جو آبادی پر حملہ کرکے انسانوں کا شکار کر لیتے تھے۔ کبھی وہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتے اور کبھی گاؤں والوں کو بھنبھوڑی ہوئی اور مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں۔ جم کاربٹ نے اُن جنگلی درندوں کا مقابلہ کیا اور کئی آدم خور شیر اور تیندوے ہلاک کیے اور لوگوں میں توہم پرستی کو دور کرنے کی کوشش کی۔

    جم کاربٹ ایک مشہور شکاری، مہم جُو اور مصنّف تھا۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین برطانوی تھے۔ یہ جوڑا بسلسلۂ ملازمت برطانیہ سے نینی تال آیا تھا اور یہیں 25 جولائی 1875 کو جم کاربٹ نے آنکھ کھولی۔ جم کاربٹ کا بچپن ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں بسر ہوا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں کے درمیان دیہی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شروع ہی سے فطرت کا دلدادہ تھا۔ جنگلی حیات میں دل چسپی کے سبب وہ جنگلات میں فوٹو گرافی کا شوق پورا کرتے ہوئے اپنا وقت گزارتا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد جم کاربٹ کینیا جا بسا اور وہیں 19 اپریل 1955 میں 79 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی جم کاربٹ نے اپنی چھٹی کتاب مکمل کی تھی۔

    جم کاربٹ کو ماہرِ‌ شکاریات بھی کہا جاتا ہے جس نے کئی ایسے درندوں کو ہلاک کیا تھا جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کاربیٹ نے مشہور ہندوستانی علاقے چمپاوت میں ایک آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں اور پانار میں بھی اس تیندوے کو شکار کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کئی انسانوں کو ہڑپ کرچکا ہے۔ اس وقت کے ریکارڈ کے مطابق یہ وہ درندے تھے جن کے حملوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ جم کاربٹ کو کماؤں کے علاقے میں خاص طور پر لوگوں سے بہت عزّت اور پیار ملا۔ وہاں کے لوگ اسے سادھو مانتے تھے۔ اس کی وجہ جم کاربٹ کا مقامی لوگوں سے اچھا برتاؤ اور ان کے لیے ہم دردی، خلوص اور نیک نیتی بھی تھی۔

    دو دہائی تک محکمۂ ریلوے سے وابستہ رہنے والا جم کاربٹ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ وہ ایک سخت کوش انسان تھا اور خطرے کا سامنا کرنا گویا اس کا مشغلہ۔ جم کاربٹ نے اپنی جوانی میں کئی شکار کیے اور وہ بے خطر جنگلات میں داخل ہوجاتا تھا لیکن بڑی عمر میں‌ بھی وہ اسی طرح بھرپور توانائی اور جوش و جذبے سے ان درندوں کو ٹھکانے لگاتا رہا جن کی وجہ سے مقامی لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 51 برس کی عمر میں جم کاربٹ نے ”روپریاگ “ میں ایک آدم خور کو ہلاک کیا اور جس وقت اس نے ”ٹھاک“ کے ایک درندے کو ٹھکانے لگایا تو وہ 63 برس کا تھا۔

    جم کاربٹ ایک مصنّف بھی تھا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں، درندوں کے حملے اور آدم خوری کے واقعات کے ساتھ اپنی مہم جوئی اور شکار کی تفصیلات بھی رقم کی اور اس کی کتابوں کا بشمول اردو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جم کاربٹ کے شکار کی یہ داستانیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا جس کی تحریروں میں اکثر مقامات پر ایک ”میگی“ نامی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ اس کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ ہی کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ نے شادی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل کینیا میں نیئیری کے مقام پر ایک بڑے اور بلند و بالا درخت پر نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا اور ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو اس کاٹیج میں ایک رات قیام کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

    جم کاربٹ نے ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی جس کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم ہوئے اور اردو میں بھی یہ سوانح عمری بہت شوق سے پڑھی گئی۔ مغربی مصنفین نے بھی جم کاربٹ پر بہت کچھ لکھا ہے جس میں مارٹن بوتھ کی کتاب بھی شامل ہے۔ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، ’’جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخر کرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔‘‘ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

  • بچّوں کے افسر کا تذکرہ!

    بچّوں کے افسر کا تذکرہ!

    اردو کے معروف شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور کئی کتب کے مصنّف حامد اللہ افسر میرٹھ کے باسی تھے اور اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ میرٹھی بھی جوڑ رکھا تھا۔ ان کا تخلّص افسر تھا۔ افسر میرٹھی کا اپنے ہم عصر ادیبوں میں امتیاز بچّوں کے لیے ان کی تخلیقات ہیں‌۔

    حامد اللہ 29 نومبر 1895ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ عربی زبان اور فارسی زبان کی مروّجہ تعلیم کے علاوہ گھر کے علمی، دینی اور ادبی ماحول کی وجہ سے وہ لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کے والد مولوی عصمت اللہ علم و فضل کے لیے مشہور تھے اور اس دور کے سربرآوردہ علما سے اُن کے گہرے تعلقات تھے جن کا اس گھر میں‌ آنا جانا رہتا تھا۔ سو، اس کا اثر افسر میرٹھی پر بھی پڑا۔ اُن کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں مولوی ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ بعد میں‌ مزید تعلیم حاصل کی اور 1916ء میں حامد اللہ کا تقرر پہلی بار نائب تحصیلدار کی حیثیت سے ہوا اور وہ میرٹھ ضلع کی تحصیل جانسٹھ میں متعین کردیے گئے۔ لیکن جلد ہی استعفا دے دیا۔ 1924ء میں الہ آباد کے یو پی گزٹ کے شعبے میں ملازمت اختیار کر لی۔ اعلیٰ تعلیم کے شوق نے یہ دوسری ملازمت بھی چھڑوا دی اور علی گڑھ چلے گئے۔ والد کی وفات کے بعد 1927ء میں افسر میرٹھی لکھنؤ کے جوبلی کالج میں اردو کے استاد مقرر ہو گئے۔ 1950ء میں یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ حامد اللہ افسر میرٹھی کا انتقال لکھنؤ میں 19 اپریل 1974ء کو ہوا۔

    افسر میرٹھی نے بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں۔ افسر میرٹھی کے تخلیقی اور تنقیدی ادب کا نمایاں وصف اس کا بامقصد ہونا ہے۔ حامد اللہ افسر کا پہلا شعری مجموعہ ’’پیامِ روح‘‘ تھا اور دوسرا شعری مجموعہ ’’جوئے رواں‘‘ کے نام سے آیا۔ دو افسانوں کے مجموعے ’’ڈالی کا جوگ‘‘ اور ’’پرچھائیاں‘‘ بھی شائع ہوئے۔ تنقیدی کتابوں میں ’’نورس‘‘ اور ’’نقد الادب‘‘ شامل ہیں۔

  • خورشید بانو: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    خورشید بانو: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    تقسیمِ ہند سے قبل جب ناطق فلموں کا دور آیا تو اس زمانے میں کئی نئے فن کار انڈسٹری میں‌ متعارف ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان کے فلمی مراکز کلکتہ، بمبئی اور لاہور میں کئی شان دار فلمیں‌ کیں اور جس وقت انھیں اپنے شعبے میں شہرت اور مقبولیت مل رہی تھی تو ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ خورشید بانو انہی میں سے ایک ہیں‌ جو ہندوستانی سنیما کی ایک گلوکارہ اور اداکارہ تھیں جو ہجرت کرکے پاکستان آگئی تھیں۔

    تقسیم سے قبل خورشید بانو نے 1930ء سے 1940ء تک ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کام کیا تھا۔ انھیں صرف خورشید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خورشید نے بطور گلوکارہ اپنی شناخت بنانے کے دوران کچھ فلموں‌ میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، فلمی ریکارڈ کے مطابق لیلٰی مجنوں خورشید کی پہلی فلم تھی۔ غیرمنقسم ہندوستان میں خورشید بانو نے تیس سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان کو شہرت فلم تان سین سے ملی تھی جو 1943ء میں ریلیز ہوئی اور جس میں خورشید بانو نے کندن لال سہگل جیسے نام ور گلوکار اور اداکار کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم کے کئی گانے بہت مشہور ہوئے اور یہ انہی دونوں فن کاروں‌ کی آواز میں‌ تھے۔

    خورشید پنجاب کے ضلع قصور کے ایک دیہاتی گھرانے میں‌ پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام ارشاد بیگم تھا۔ خورشید بانو نے فلم کے لیے گلوکاری کا آغاز کیا تو سب سے پہلی فلم لیلٰی مجنوں تھی۔ اس کے بعد اگلے دس سال میں ان کی فلمیں مفلس عاشق، نقلی ڈاکٹر، مرزا صاحباں، کمیا گر، ایمان فروش اور ستارہ تھیں۔ تاہم خورشید بانو کو قابل ذکر کام یابی ان فلموں کی بدولت نہ مل سکی۔ 1931ء سے 1942ء کے دوران انھوں نے کلکتہ اور لاہور کے اسٹوڈیوز کی بنائی ہوئی فلموں میں کام کیا۔ ان کے عروج کا آغاز بمبئی منتقل ہونے کے بعد ہوا۔ تان سین وہ فلم تھی جس نے باکمال گلوکاروں کے ساتھ خورشید بانو کو ان کے فن کی داد دلوائی۔ پاکستان آنے سے قبل خورشید بانو نے ہندوستان میں‌ آخری فلم پپیہا رے کی تھی جو 1948ء کی ایک ہٹ فلم تھی۔

    اسی برس خورشید اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔ انھوں‌ نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد 1956ء میں دو فلموں فن کار اور منڈی میں کام کیا۔ منڈی وہ فلم تھی جس میں‌ خورشید بانو کی آواز اور موسیقار رفیق غزنوی کی دھنوں کو بہت سراہا گیا لیکن فلم باکس آفس پر کام یاب نہیں ہو سکی۔ ان کی دوسری فلم بھی بدقسمتی سے ناکام ثابت ہوئی۔

    خورشید بانو نے دو شادیاں‌ کی تھیں۔ ماضی کی یہ فن کار 18 اپریل 2001ء میں‌ انتقال کرگئی تھیں۔

  • لعل چند امر ڈنومل:‌ سندھی زبان و ادب کا اہم نام

    لعل چند امر ڈنومل:‌ سندھی زبان و ادب کا اہم نام

    سندھی افسانوی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت نام و مقام بنانے والے ادیبوں‌ میں‌ لعل چند امر ڈنومل بھی شامل ہیں جو تقسیمِ ہند کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔ لعل چند امر ڈنومل کو سندھی زبان و ادب میں ناول نگار، مؤرخ، ڈراما نویس، سیرت و مضمون نگار کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہے۔ وہ 62 سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔ لعل چند امر ڈنومل 18 اپریل 1954ء کو بھارت کے شہر بمبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ کو پاکستان میں‌ حیدرآباد سندھ کے قریب دریائے سندھ میں بہایا جائے جس پر عمل کیا گیا۔

    لعل چند امر ڈنومل 25 جنوری 1885ء کو اس وقت بمبئی پریزیڈنسی میں‌ شامل حیدرآباد شہر میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد دیوان امر ڈنومل حیدرآباد میں مختار کار تھے۔ لعل چند کی ابتدائی گھر پر ہوئی اور بعد میں وہ ہیرا نند اکیڈمی میں‌ داخل کیے گئے۔ تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد 1903ء میں لعل چند امر ڈنومل سندھ مدرسۃُ الاسلام میں استاد مقرر ہوگئے۔ لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ ایک صوفی منش تھے اور وہ قوم یا ذات پات اور رنگ و نسل کی تفریق تو کجا مذہبی عصبیت سے بھی دور تھے۔ وہ انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے قلم کار تھے جسے اپنی جائے پیدائش اور سندھ سے بہت محبّت تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وصیت تھی کہ بعد از مرگ ان کی راکھ حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ میں بہائی جائے۔

    آج لعل چند امر ڈنومل کے نام اور سندھی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات اور کاوشو‌ں سے کون واقف ہے؟‌ مگر سندھ کی تاریخ‌ بالخصوص سندھی ادب سے متعلق کتب میں لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں‌ ضرور پڑھنے کو ملے گا۔ لعل چند امر ڈنومل کا فلسفۂ حیات اور ان کے خیالات انھیں اس دور کے ہم عصروں‌ سے ممتاز کرتے ہیں کیوں‌ کہ وہ اپنے دور کے تمام مذاہب کو انسانیت کی میراث اور معاشرتی سدھار کا وسیلہ تصوّر کرتے تھے۔ اس ادیب نے کسی قسم کی مذہبی تفریق اور اونچ نیچ کو قبول نہ کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ ایک غیرمتعصب اور پاکیزہ خیالات کے حامل شخص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لعل چند امر ڈنومل نے پیغمبر اسلام کی سوانح اور سیرت پر بھی کتاب لکھی تھی۔

    فکشن کی بات کی جائے تو لعل چند امر ڈنومل نے فکشن کی ہر صنف پر کتابیں لکھیں جو بہت اہم ہیں۔ ان کے طبع زاد ناولوں میں چوتھ جو چنڈ (چودھویں کا چاند)، سچ تے صدقے (سچائی پر قربان)، کشنی کے کشٹ و دیگر شامل ہیں۔ لعل چند امر ڈنومل نے دوسری زبانوں سے سندھی میں تراجم بھی کیے جو شایع بھی ہوئے۔ سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شخصیت اور شاعری پر بھی لعل چند نے کتابیں لکھیں۔ ان کے سندھی زبان میں مضامین کو بیرنگی باغ جو گل کے عنوان سے کتاب میں‌ بہم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں ہندوستان جی تاریخ، حیدرآباد سندھ، میراں، شاھ جا کی سُر، سامی جا سلوک، رام بادشاہ، جیل جی ڈائری، سندھی بولی جو نچوڑ وغیرہ شامل ہیں۔

  • سارتر کا تذکرہ جو آخری سانس تک اپنے نظریات پر قائم رہا!

    سارتر کا تذکرہ جو آخری سانس تک اپنے نظریات پر قائم رہا!

    ژاں پال سارتر کو دنیا ایک عظیم فسلفی اور ادیب، نقاد اور محقق کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے نوبل انعام وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سارتر نے کہا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کر کے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ آج سارتر کا یومِ وفات ہے۔

    فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس میں سارتر نے 1980ء میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں اپنے افکار اور نظریات کے ساتھ فلسفہ کی وجہ سے بڑا مقام رکھتے ہیں۔ سارتر نے فلسفۂ وجودیت پیش کیا اور فرانسیسی سماجی اور معاشرتی زندگی، تنقیدی اور پوسٹ کالونیل نظریات اور عالمی ادبیات پر عمیق اور ناقابلِ فراموش کام کیا۔ وجودیت وہ طرزِ فکر ہے جس نے بیسویں صدی میں خاص طور پر ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ سارتر نے اپنے وقت میں ادب کی کئی ایک اصناف میں کام کیا، تاہم اس کا بڑا حصہ تنقید اور سوانح عمری پر مبنی ہے۔ اس کے ڈرامے بنیادی طور پر علامتی تھے، جس سے سارتر کا فلسفۂ حیات اجاگر ہوتا ہے۔

    1905ء سارتر کا سنہ پیدائش ہے اور وہ ایک سال کی عمر میں اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ ان کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ بھی تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارا دن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے اور اپنے ملک کی سیاسی، سماجی حالت پر غور کرتے رہتے۔ اسی مطالعے اور غور و فکر کی عادت نے سارتر کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ ژاں پال سارتر اپنے انٹرویوز میں بتاتے تھے کہ ان کو نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق جنون کی حد تک بڑھ گیا تھا۔ فنونِ لطیفہ کے شائق و شیدا سارتر اچھے گلوکار اور پیانو نواز بھی تھے۔ کھیلوں کی دنیا سے سارتر نے باکسنگ میں‌ غیرمعمولی دل چسپی لی اور بطور باکسر مقابلے بھی کیے۔

    جب دنیا سارتر کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوئی تو سارتر کو فرانس کا ضمیر کہا جانے لگا۔ ان کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے انھیں وہ بلند مرتبہ اور مقام عطا کیا جس سے ان کے ہم عصر بالخصوص متاثر ہوئے اور ان کی تعریف و ستائش کرتے رہے۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگئے تھے، لیکن اس معذوری کے باوجود ایک بھرپور زندگی گزاری۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

    ژاں پال سارتر درس وتدریس سے منسلک رہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج نے سارتر کو گرفتار کر لیا اور ایک سال تک نظر بندی کے بعد ایک دن موقع ملتے ہی سارتر فرار ہوگئے۔ بعد میں‌ جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا تو اس کے خلاف سارتر مزاحمت میں پیش پیش رہے۔ جنگ کے بعد وہ بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک بن کر ایک جریدہ نکالنے لگے، جو بہت مقبول ہوا۔ اس جریدے میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی اور ادیب مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوتی تھیں جو ملک میں نظریاتی بنیادوں پر انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں۔ سارتر کو فلسفۂ وجودیت کا بانی کہا جاتا ہے۔

    فرانس کے اس عظیم فلسفی نے جہاں اپنی فکر سے اور سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے عملی طور پر جدوجہد کی، وہیں ادب کے میدان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار بھی کیا۔ ان کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کے زبردست حامی رہے، لیکن کسی جماعت اور گروہ سے وابستہ نہیں ہوئے۔ سارتر نے جنگ کے خلاف تحریکوں میں سرگرم کارکن کی طرح اپنا کردار نبھایا۔ الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف سارتر نے آواز بلند کی اور اس سلسلے میں‌ ہونے والے بڑے مظاہروں میں ہمیشہ صفِ اوّل میں‌ دکھائی دیے۔ تاہم سارتر کو ان کے عہد میں تنقید اور اپنے کام پر اعتراضات کا سامنا بھی کرنا پڑا جسے وہ کبھی خاطر میں نہ لائے۔

    مشہور ہے کہ جب مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کی حمایت پر فرانس میں‌ ژاں پال سارتر کو گرفتار کیا گیا اور اس کی اطلاع ملی تو ملک کے حکم ران ڈیگال نے بے اختیار کہا، سارتر تو فرانس ہے، اسے کون قید میں رکھ سکتا ہے اور اسی وقت جیل کے دروازے کھولنے کا حکم جاری کر دیا۔

  • ڈبلیو زیڈ احمد:‌ ایک بھولا بسرا فلم ساز اور باکمال ہدایت

    ڈبلیو زیڈ احمد:‌ ایک بھولا بسرا فلم ساز اور باکمال ہدایت

    آج فلم سازی کی تکنیک اور بڑے پردے پر پیش کرنے کا طریقہ ہی نہیں، موضوعات اور کہانیاں بھی زمانے کے ساتھ فلم بینوں کے بدلتے ہوئے رجحانات کے سبب تبدیل ہوچکے ہیں، لیکن پاکستان میں‌ آج سے چند دہائیوں قبل بھی رومانوی کہانیاں، مار دھاڑ سے بھرپور مناظر پر مشتمل فلمیں دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں‌ شائقین سنیما کا رخ کرتے تھے۔ ڈبلیو زیڈ احمد اسی دور میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار مشہور ہوئے اور اپنے کمالِ فن اور اپنے کام میں‌ انفرادیت کی بدولت بڑا نام پایا۔

    آج پاکستان میں نئی نسل ڈبلیو زیڈ احمد سے واقف نہیں، لیکن ستّر سال سے زائد عمر کے وہ لوگ جو سنیما کے دیوانے رہے ہیں، ان کے ذہن میں شاید یہ نام کہیں محفوظ ہو۔ خاص طور پر جنھوں نے فلم ’وعدہ‘ دیکھی ہو وہ ڈبلیو زیڈ احمد کو جانتے ہوں گے۔ یہ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسے ایک عام رومانوی فلم کہا جاسکتا ہے جس میں ہیرو زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر کام یابیاں سمیٹتا ہے اور جب وہ اپنی محبوب کو اپنانے کے قابل ہوتا ہے تو ایک المیہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بہم نہیں‌ ہو پاتے۔ اس فلم نے ڈبلیو زیڈ احمد کے کمالِ فن کی بدولت کام یابی سمیٹی تھی۔

    فلم سازی اور ہدایت کاری کو اپنے لیے چیلنج سمجھنے والے ڈبلیو زیڈ احمد 15 اپریل 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ طویل عرصہ علیل رہے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا اور اسی مناسبت سے انھیں ڈبلیو زیڈ احمد لکھا جانے لگا۔ یہی مختصر نام فلم نگری اور فلمی صحافت میں‌ ان کی شناخت بنا۔ آخری برسوں میں ان کی یادداشت صحیح طرح‌ کام نہیں کررہی تھی اور کچھ عرصے سے وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

    ڈبلیو زیڈ احمد کا وطن گودھرا تھا جہاں 20 دسمبر 1915ء کو انھوں نے آنکھ کھولی۔ ان کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں وسطی اور جنوبی ہند کے مختلف اضلاع میں قیام پذیر رہے۔ وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں نوجوان ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم نگری میں قسمت آزمانے کا آغاز کیا اور ابتدا 1939 میں کی۔ انھوں نے پہلی مرتبہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کیا، تاہم انھوں نے دیکھا کہ ان کے لکھے کو فلمانے میں‌ بہت عجلت کی گئی ہے، اور شاید یہ ایک مشکل کام بھی ہے، تب انھوں نے ایک مختلف قدم اٹھایا اور اگلے تین سال کے اندر پونا اور مدراس میں اپنے اسٹوڈیو تعمیر کر کے فلم سازی میں مشغول ہوگئے۔

    ڈبلیو زیڈ احمد نے شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے تحت پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو کام یاب رہی۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ وہ اس فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ اس فلم میں مرکزی کردار موجودہ ہندی سنیما کی مشہور فلم ایکٹریس کرشمہ کپور اور کرینا کپور کے پَر دادا، رشی کپور کے دادا اور راج کپور کے والد پرتھوی راج نے ادا کیا تھا۔ اگلے ہی برس اُن کی فلم پریم سنگیت منظرِ عام پر آئی جس کے ہیرو جے۔ راج تھے۔ اس کے بعد انھوں نے فلم من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ تمام فلمی نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ ناقدین کے مطابق ڈبلیو زیڈ احمد کو پہلی بڑی کام یابی 1944ء میں اُن کی فلم ’من کی جیت‘ پر ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی ٹامس ہارڈی کے معروف ناول ’TESS‘ پر مبنی تھی۔ اس میں ہیرو شیام کے مقابل راج کماری اور نِینا نے کام کیا تھا۔ بعد میں ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے نینا سے دوسری شادی بھی کی تھی۔ اُن کی پہلی شادی سر ہدایت اللہ کی صاحبزادی صفیہ سے ہوئی تھی۔

    فلم من کی جیت کا ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا اور ہندوستان بھر میں کئی برس بعد بھی لوگ اسے گنگناتے تھے جس کے بول تھے: اک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا…

    قیامِ پاکستان کے بعد ڈبلیو زیڈ احمد ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہاں اپنے نام سے اسٹوڈیو قائم کرلیا، بعد ازاں فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے ایک فلم ساز ادارہ بھی بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر بورڈ کے اعتراضات کی نذر ہوگئی تھی۔ وعدہ، وہ فلم تھی جس نے زبردست کام یابیاں سمیٹیں اور اسے فلم انڈسٹری کی بہترین اور یادگار فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ان کی آخری فلم ’میرا بائی‘ تھی جو 1947 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان آنے کے بعد وہ صرف دو ہی فلمیں بناسکے تھے، لیکن یہ دونوں پاکستان کی فلمی تاریخ میں یادگار اور نمایاں ہیں۔ ایک فلم وعدہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جب کہ دوسری فلم ’روحی‘ تھی۔ یہ 1954 میں ریلیز ہوئی جس کے لیے ہدایات بھی ڈبلیو زیڈ احمد نے دی تھیں اور وہی کہانی کار اور منظر نویس بھی تھے۔

    روحی کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں تاریخی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سینسر بورڈ کے ہاتھوں بین ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ سنسر بورڈ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ فلم میں امیر اور غریب کا ایسا تصادم دکھایا گیا ہے جس سے طبقاتی سطح پر لوگوں‌ میں نفرت پیدا ہوسکتی ہے۔ڈبلیو زیڈ احمد کی اس فلم کو معمولی کاٹ چھانٹ کے بعد سینسر بورڈ سے ریلیز کرنے کی اجازت تو مل گئی اور یہ عام نمائش کے لیے پیش بھی کی گئی، لیکن یہ ایک کوآپریٹیو سوسائٹی کے تحت پروڈیوس کردہ فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے چند دنوں بعد کوآپریٹیو بینک نے اپنا قرضہ وصول کرنے کے لیے چھاپا مارا اور فلم کا پرنٹ اٹھا کر لے گئے۔ یوں فلم روحی کے پرنٹ کو کہیں‌ ڈبّوں میں ڈال دیا گیا اور اس کا نیگٹو بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس فلم میں اداکار شمّی، سنتوش، ساحرہ، غلام محمد نے کام کیا تھا۔

    فلم ساز ڈبلیو زیڈ احمد لاہور میں بیدیاں روڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نظرؔ لکھنوی: ایک ادیب اور شاعر کا تذکرہ

    نظرؔ لکھنوی: ایک ادیب اور شاعر کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے نظرؔ لکھنوی کا جو ادب کی دنیا میں اپنی نثر نگاری اور شاعری کی بدولت مشہور ہوئے اور کئی رسائل کے مدیر رہے۔ آج نظرؔ کا نام اور اردو ادب میں‌ ان کے مقام کا ذکر شاذ ہی ہوتا ہے۔ ان کا ایک شعر دیکھیے۔

    دیکھنا ہے کس میں اچھی شکل آتی ہے نظرؔ
    اس نے رکھا ہے مرے دل کے برابر آئینہ

    منشی نوبت رائے اردو ادب اور صحافت کی دنیا میں اپنے تخلّص نظرؔ لکھنوی سے پہچانے گئے۔ لکھنؤ میں ان کی پیدائش 1866ء میں ہوئی اور تاریخِ وفات 10 اپریل 1923ء ہے۔ ادیب اور شاعر نظر لکھنوی کا تعلق ایک کایستھ خاندان سے تھا۔ یہ خاندان لکھنؤ کے نوابوں کے زمانے سے ہی برسرِ اقتدار تھا۔ نظر نے اوائلِ عمر میں ہی فارسی اور اُردو کی تکمیل کرلی تھی۔ بعد ازاں انگریزی زبان میں بھی دسترس حاصل کی۔ نظر میں ادبی صلاحیتیں بدرجۂ اُتم موجود تھیں، اِسی سبب سے 1904ء میں خداداد ذہانت و قابلیت کو دیکھتے ہوئے منشی دیا نرائن نگم (ایڈیٹر رسالہ ’’زمانہ‘‘ کانپور) نے اپنے مقبولِ عام رسالہ ’’زمانہ‘‘ کا نائب مدیر بنا کر اپنے پاس کانپور بلا لیا، مگر جلد ہی 1910ء میں آپ رسالہ ’’ادیب‘‘ کے مدیرہو کر انڈین پریس، الہٰ آباد چلے گئے۔ الہٰ آباد بھی دو سال سے زیادہ قیام نہ کیا اور 1912ء میں کانپور واپس آ کر دوبارہ سالہ ’’زمانہ‘‘ سے منسلک ہوئے۔ آزادؔ کے اجرا میں آپ نے منشی دیانرائن نگم کا بہت ہاتھ بٹایا، پھر حامد علی خاں بیرسٹر ایٹ لا کی وساطت سے نول کشور پریس میں چلے گئے۔ یہاں پہلے تو ’’تفریح‘‘ کے مدیر رہے اور بعد میں ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر ہو گئے۔ آخری دور میں نظر ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعض اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عمر کا آخری حصہ زیادہ پُر آشوب تھا جس میں ان کو پے در پے صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنی بیٹی اور پھر نواسی کے انتقال کے بعد نظر لکھنوی دل برداشتہ ہو گئے اور ’’ اودھ اخبار‘‘ سے قطع تعلق ہو گئے۔

    نظر نے ایک ایسی فضاء میں آنکھ کھولی تھی جب انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں لکھنؤ میں ہر طرف شعر و شاعری اور بڑے بڑے ناموں کی سخن گوئی کا چرچا تھا۔ نظر کی طبیعت میں شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہوا تو مظہر لکھنوی کے شاگرد ہو گئے اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ منشی دیانرائن نگم نے کہا ہے کہ: ’’ فطرت سے انھوں نے علم و اَدب کے لیے نہایت موزوں طبیعت پائی تھی، قدرت نے انھیں نہایت شستہ و سلیم ذوقِ سخن عطاء کیا تھا۔ بچپن میں اُن کو بہت اچھی صحبت ملی تھی جس سے طبیعت میں رفعتِ مزاج میں تہذیب‘ متانت و سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اُن کا ذہن بھی بلا کا تھا جس بات کو اور لوگ مہینوں میں حاصل کرتے، اُس پر وہ چند دِنوں کی محنت میں حاوی ہوجاتے تھے۔ اُن کا معیارِ خیال بہت اونچا، اُن کا مطمح نظر بلند اور رفیع تھا۔ اُن کی پسند مشکل ہوتی تھی‘‘۔

    نظر نے لکھنؤ ہی میں زندگی کے آخری ایّام بسر کیے اور وہیں انتقال ہوا۔