Tag: اپریل وفات

  • آلیور گولڈ اسمتھ: ایک ایسا ادیب جس نے اپنی نرم دلی اور سخاوت کے ہاتھوں نقصان اٹھایا

    آلیور گولڈ اسمتھ نے بطور ادیب اور شاعر شہرت تو حاصل کی مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کا پیشہ طبّ تھا اور آلیور اپنے مطب کی ناکامی کے بعد سنجیدگی سے ادب کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ اس نے انگریزی ادب میں اپنی چند تصانیف کی بدولت نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ آلیور گولڈ اسمتھ ادیب ہی نہیں‌ شاعر بھی تھا، لیکن اس کی وجہِ شہرت نثر نگاری ہے۔

    آلیور کے اجداد انگریز تھے اور وہ پادریوں کے ایک ایسے خاندان میں‌ پیدا ہوا جو ان دنوں آئرلینڈ میں مقیم تھا۔ 1728 کو آنکھ کھولنے والے آلیور گولڈ اسمتھ کی زندگی کا سفر 1774 میں آج ہی کے دن تمام ہوگیا تھا۔

    آلیور نے ٹرنٹی کالج ڈبلن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایڈنبرا اور لیڈن میں طبّ کی تعلیم مکمل کی۔ سند یافتہ طبیب کی حیثیت سے ابتداً اس نے اپنا مطب شروع کیا، لیکن اس میں‌ خود کو کام یاب نہیں پایا۔ اس کی اپنے پیشے میں‌ وقت کے ساتھ دل چسپی کم ہوتی گئی اور اس کا رجحان ادب میں بڑھتا گیا۔ آلیور نے قلم تھاما تو مختلف رسائل کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے۔ یہ سلسلہ آلیور کے ذوق کی تسکین اور شوق کی تکمیل کے ساتھ اس کی وجہِ شہرت تو بنا۔ مگر اس دور میں‌ کئی دوسرے بڑے ادیبوں کے درمیان آلیور جیسے نوجوان کے لیے خود کو منوانا آسان نہیں تھا۔

    پھر وہ وقت آیا کہ آلیور گولڈ اسمتھ کے قلم کی نوک سے ایک ناول تخلیق ہوا اور اس کی وجہِ شہرت بن گیا۔ یہ ناول The Vicar of Wakefield کے نام سے 1766ء میں‌ سامنے آیا۔ اس سے قبل 1770ء میں اس کی ایک نظم The Deserted Village کے عنوان سے ایک ڈرامے The Good-Natur’d Man کا حصّہ بن کر اس کی پہچان بن چکی تھی۔ ان کام یابیوں نے آلیور گولڈ اسمتھ کو بڑا حوصلہ دیا اور پھر اس کی ایک کتاب Citizens of the World منظرِ‌عام پر آئی جس کے بعد وہ ہر خاص و عام میں ایک ادیب کی حیثیت سے مقبول ہوگیا۔

    گولڈ اسمتھ کو انگریزی ادب میں جو مقام ملا وہ اس کے دو کامیڈی ڈراموں کی بدولت ملا۔ ایک کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں اور دوسرا She stoops to Conquer تھا۔ یہ وہ ڈرامے تھے جن کا بعد میں متعدد غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور یہ ڈرامے اسٹیج بھی کیے گئے۔

    گولڈ اسمتھ کے دور میں انگریزی ادب پر جذباتیت غالب تھی۔ فکشن اور المیہ کو معاصر ادیب اہمیت دیتے تھے مگر آلیور گولڈ اسمتھ نے اپنی تخلیقات میں حقیقت پسندی کو رواج دیا۔

    کہتے ہیں کہ گولڈ اسمتھ نے اپنی تصانیف سے کافی کمایا لیکن مالی طور پر خوش حال نہیں‌ ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ اس کی وہ دریا دلی اور سادگی تھی جس کا دوسرے لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے۔ اس کی طبیعت ایسی تھی کہ کسی کو پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا اور کوئی اپنی مجبوری اور مسئلے کا ذکر کرتا تو وہ اس کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہو جاتا تھا۔ آلیور اپنی اس نرم دلی کے ہاتھوں نقصان میں‌ رہا۔

    آج اگرچہ آلیور گولڈ اسمتھ کا تذکرہ ایک بڑے مصنّف اور ڈرامہ نگار کے طور پر بہت کم ہی ہوتا ہے، لیکن انگریزی ادب کی تاریخ پڑھیں تو اس ادیب اور شاعر کا تذکرہ بھی ملے گا۔ برطانیہ، بالخصوص آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی چند شاہراہیں بھی اس مصنّف سے موسوم ہیں اور کئی مقامات پر آلیور گولڈ اسمتھ کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • رشی کپور: وہ ہیرو جس نے رقم دے کر فلمی ایوارڈ اپنے نام کیا

    رشی کپور: وہ ہیرو جس نے رقم دے کر فلمی ایوارڈ اپنے نام کیا

    رشی کپور نے بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنے رومانوی کرداروں کی وجہ سے خوب شہرت سمیٹی۔ جہاں ان کی کئی فلمیں کام یاب ہوئیں، وہیں باکس آفس پر ناکامی سے دوچار بھی ہوئیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا رشی کپور 2020ء میں آج ہی کے دن وفات پا گئے تھے۔

    ’بوبی‘ وہ فلم تھی جس کی کام یابی نے ہندوستان بھر میں‌ رشی کپور کو شہرت دی اور اس فلم کے بعد انھیں انڈسٹری سے کئی فلموں میں‌ کردار آفر ہوئے۔ رشی کپور ہندی فلمی صنعت کے اس خاندان کے فرد تھے جسے راج کپور نے اپنے فن اور اپنے کام کے سبب لازوال پہچان اور مقام دلوایا تھا۔ رشی کپور ممبئی میں‌ 1952ء میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ پنجابی ہندو کھتری برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا آبائی گھر پشاور میں‌ تھا اور رشی کپور ہمیشہ پاکستان اور اپنے خاندانی مکان کو یاد کرتے تھے۔ وہ اپنی موت سے قبل سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی اور مختلف موضوعات پر سنجیدہ اور مزاحیہ ٹویٹس اور تبصروں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں‌ لوگوں کے درمیان زیر بحث بھی رہتے تھے۔ انھوں نے آن کیمرہ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بھی پاکستان آنے اور پشاور میں‌ اپنے والد کے مکان کو دیکھنے کی خواہش کا متعدد مرتبہ اظہار کیا تھا۔

    کہتے ہیں رشی کپور صاف گو تھے اور ان کی اداکاری کے ساتھ ان کا مزاج بھی لوگوں کو بہت پسند تھا۔ انھوں نے 2017 میں آپ بیتی شایع کی تھی جس کا نام ’کھلم کھلا‘ تھا اور ان کی یہ کتاب بھی میڈیا اور کتاب کے قارئین میں‌ خوب زیر بحث رہی کیوں کہ اس آپ بیتی میں رشی کپور نے اپنی زندگی کے کئی واقعات اور بہت سے معاملات پر کھل کر لکھا۔ انھوں نے اپنے والد کی رنگین مزاجی کے علاوہ انڈسٹری میں اپنے کیریئر سے متعلق بھی کسی ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے بغیر بہت کچھ لکھا۔ انھوں نے اپنے اس ایوارڈ کا قصّہ بھی لکھا ہے جو ان کے بقول خریدا گیا تھا اور اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لیے رشی کپور نے کسی کو اس زمانے میں‌ 30 ہزار روپے دیے تھے۔

    رشی کپور کی شادی نیتو سنگھ سے ہوئی تھی اور وہ ان کے ساتھ فلموں میں‌ کام کرچکے تھے۔ وہ اس زمانے کی مشہور ہیروئن تھیں اور ان دونوں نے 1980 میں شادی کی تھی، ان کے بیٹے رنبیر کپور بھی بولی وڈ فلموں کے مشہور اداکار ہیں۔ رشی کپور کی ایک بیٹی ردھیما بھی ہیں۔

    رشی کپور نے اپنے ہی فلمی بینر تلے 420 اور میرا نام جوکر جیسی فلموں میں‌ چائلڈ ایکٹر کے طور پر کام کیا تھا اور یہ اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں‌، لیکن بولی وڈ میں ان کو اصل کام یابی سنہ 1973 میں فلم ’بوبی‘ سے ملی۔ یہ اپنے وقت کی سپرہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد رشی کپور کو ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا۔

    اداکار رشی کپور کا فلمی سفر تقریباً 20 برس پر محیط ہے جس میں انھوں نے ہندی فلموں میں بہ طور ہیرو کام کیا۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں انھیں‌ شائقینِ سنیما نے کھیل کھیل میں، قرض اور چاندنی جیسی سپرہٹ فلموں میں بہت پسند کیا۔ عمر کے زینے طے کرتے ہوئے رشی کپور بعد میں بطور معاون اداکار فلموں میں نظر آنے لگے اور اس حیثیت میں بھی خاصا کام کیا۔ اداکار رشی کپور کی آخری فلم ‘دی باڈی’ تھی اور موت سے قبل انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بولی وڈ اداکارہ دیپکا پاڈوکون کے ساتھ اپنے نئے فلمی پروجیکٹ کا اعلان کیا تھا جو ہالی وڈ کی ایک فلم کا ہندی ری میک تھی۔

    بولی وڈ کے اس کام یاب فلمی ہیرو خون کے سرطان کا مرض لاحق تھا جس کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض‌ سے وہ امریکا کے شہر نیویارک چلے گئے تھے جہاں‌ سے 2019ء میں‌ تقریباً ایک سال کے بعد کام یاب علاج کے بعد بھارت واپس آئے۔ یہاں چند ماہ بعد ان کی حالت بگڑ گئی اور انھوں نے ممبئی کے ایک اسپتال میں‌ دم توڑ دیا۔

    ‘امر اکبر انتھونی’، ‘لیلیٰ مجنوں’، ‘رفو چکر’، ‘سرگم’، ‘قرض’ اور ‘بول رادھا بول’ ان کی کام یاب ترین فلموں میں شامل ہیں۔

  • مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ کو اصلاً مزاح نگار کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں موقع کی مناسبت سے اور حسبِ ضرورت چوٹ کر کے بڑھ گئے ہیں اور شدّت نہیں کی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے مقبول نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی وفات 1947ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ وہ ایک انشاء پرداز اور ایسے ادیب تھے جس نے مضامینِ شگفتہ کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے اور واقعات نگاری بھی کی۔ ان کا تخلیقی سفر متعدد اصنافِ ادب پر محیط ہے۔

    بیسویں صدی کے اس ممتاز انشا پرداز کو اردو داں طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ انہوں نے ادب کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ، تحقیق، سوانح وغیرہ میں بھی خامہ فرسائی کی مگر سب میں مزاح کا رنگ غالب رہا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ان تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے۔

    مرزا صاحب کے بارے میں تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔ اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حقِ شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بے نظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

    تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کر دیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف و لذّت حاصل ہوتی ہے۔

    ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • جمیل جالبی: یگانۂ روزگار ادبی شخصیت

    جمیل جالبی: یگانۂ روزگار ادبی شخصیت

    پاکستان کے ممتاز نقّاد، محقق، ادبی مؤرخ، مترجم اور ماہر لسانیات ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے بے حد فعال اور طویل علمی و ادبی سفر میں نمایاں سرگرمیاں انجام دیں اور اپنے زورِ قلم سے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں۔ 18 اپریل 2019ء کو ڈاکٹر جمیل جالبی اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ آج اس نابغۂ روزگار شخصیت کی برسی ہے۔

    جمیل جالبی علم و ادب کی دنیا میں ایسے ہمہ صفت تھے جس نے کئی نہایت اہم اور ادق موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت اور علمی استعداد کا لوہا منوایا۔ وہ بلاشبہ ایک قابلِ قدر اور لائقِ صد مطالعہ سرمایہ نئی نسل کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ جمیل جالبی جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔ ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے انھوں نے تصنیف و تالیف سے لے کر تدوین و ترجمہ تک نہایت وقیع کام کیا۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 2 جون، 1929 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہا‌ں انھوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ ماقبل ان کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول سہارنپور میں ہوئی۔ وہیں سے 1943ء میں میٹرک پاس کیا تھا۔ 1945ء میں میرٹھ کالج، میرٹھ سے ایف اے کے بعد 1947ء میں یہیں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہجرت کے بعد سندھ یونیورسٹی کراچی سے 1949ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا اور پھر ایل ایل بی بھی پاس کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1971ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اور 1976ء میں ڈی لٹ سے نوازے گئے۔

    ڈاکٹر صاحب 1950ء سے 1952ء بہادر یار جنگ اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ اس کے بعد ایک مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہوئے اور انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔ اور اسی محکمے سے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ 1980ء میں انھوں نے وزارت تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور پھر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے۔

    علمی و ادبی میدان میں ان کی خصوصی دل چسپی تحقیق و تنقید، فکر و فلسفہ وغیرہ میں رہی اور انھوں نے تاریخ، تعلیم، ثقافت پر بھی مضامین سپردِ قلم کیے۔ ان کی ذاتی لائبریری ہزاروں کتابوں سے سجی ہوئی تھی جن میں کئی نادر کتابیں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے لکھنے لکھانے کے سفر کا آغاز ادب سے کیا اور کہانی لکھی جس کے بعد ان کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہونے لگی تھیں۔

    جمیل جالبی کی کتابوں میں تصنیف و تالیف، تنقیدی مضامین کے علاوہ تراجم بھی شامل ہیں جن کے نام پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    الغرض ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار اُن یگانۂ روزگار ادبی شخصیات میں ہوتا ہے، جن کی زندگی کا ہر نفس گویا علم اور ادب کے نام ہوا۔ انھوں نے ادب کی ہر جہت میں کام کیا اور خوب کیا۔ ایسا وقیع اور جامع کام بہت کم نقّادوں نے کیا ہے۔ ہمہ صفات کا لاحقہ انہی جیسی ہستیوں کے لیے برتنا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • وہ دن جب ایک طلسمی حقیقت نگار ہم سے جدا ہوا!

    وہ دن جب ایک طلسمی حقیقت نگار ہم سے جدا ہوا!

    مارکیز کو ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اس اصطلاح سے قطعی اتفاق نہ تھا جو انہی کے لیے وضع کی گئی۔ وہ اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔ ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ مارکیز کے شہرۂ آفاق ناول ہیں۔ آج نوبیل انعام یافتہ مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

    گیبریئل گارشیا مارکیز کو عصرِ حاضر کا سب سے بڑا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ دورِ حاضر کے سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار کہلائے۔ 2014 میں 87 برس کی عمر میں‌ مارکیز آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

    مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

    گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔
    (1967) One Hundred Year of Solitude
    (1975) The Autum of the Patriarch
    (1985) Love in the Time of Cholera
    (2002) Living to Tell the Tale

    مارکیز 1927ء میں کولمبیا کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ایک کیمسٹ تھا اور بیٹے کی پیدائش پر کاروبار کی غرض سے اپنی بیوی کے ساتھ ایک بڑے شہر میں منتقل ہوگیا تھا۔ یوں‌ مارکیز نے دادا، دادی اور آنٹی کے زیرِ سایہ تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور مارکیز کو تفریح کے ساتھ گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا اور وہ اپنے شوق پورے کرتے تھے۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ ان کے دادا ایک ریٹائر کرنل تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، مگر پھر عملی زندگی میں‌ قدم رکھنا پڑا۔ انھوں نے ناول نگاری کا آغاز 1961 میں اپنے کنبے کے ساتھ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہونے کے بعد کیا۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور وہ نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔ وہ ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہے۔ مارکیز اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار کے ساتھ تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی تھی۔ اس عالمی شہرت یافتہ ناول نگار کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل اس زمانے کے فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

    اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ اس عہد ساز ادیب کی کہانیوں کے بیشتر کردار ان کے خاندان اور شہر کے باسی تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے اپنے ناولوں میں نیا مفہوم دیا۔

    مارکیز کی میکسیکو میں‌ موت پر فضا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداحوں کی بڑی تعداد ان کے آخری دیدار کو پہنچی۔ دنیا بھر کے ادیبوں، فن کاروں اور سیاست دانوں نے بھی تعزیتی پیغامات میں اس عظیم ناول نگار کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

  • بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ایک درد مند انسان

    بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ایک درد مند انسان

    بلراج ساہنی نے فلموں میں جو کردار ادا کیے، وہ ہیرو سے لے کر کریکٹر ایکٹر تک منفرد تھے۔ فلم سے بلراج ساہنی کا اوّلین تعارف زمانۂ طالبِ علمی میں ہوا تھا۔ کون جانتا تھا کہ آگے چل کر یہ بچّہ اسٹیج اور پھر بمبئی کی فلمی دنیا کا باکمال اداکار اور مصنّف بھی بنے گا۔ بلراج ساہنی ایک دردمند اور سماجی شعور رکھنے والے انسان مشہور تھے اور فن کی دنیا میں‌ انھیں استاد کا درجہ حاصل تھا۔

    بھارتی فلم انڈسٹری کے اس اداکار نے لگ بھگ 130 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1940 سے لے کر 1970 تک تین دہائیوں پر محیط فلمی سفر میں‌ بلراج ساہنی کو سدا بہار اداکار کے طور پہچانا گیا۔

    ایک روز بلراج کے اسکول میں اعلان ہوا کہ شہر میں بائی سکوپ آئی ہے۔ طالبِ علموں کے لیے ٹکٹ کی قیمت آدھی ہے۔ بچّوں کو والدین اجازت دیں تو تفریح کا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ بلراج اور ان کا بھائی ایک ہی اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ وہ اسکول سے گھر لوٹے تو بلراج نے اپنی ماں سے خواہش کا اظہار کیا اور بات بن گئی۔ انھیں‌ نہ صرف اجازت ملی بلکہ ماں نے ٹکٹ کے پیسے بھی دے دیے۔

    وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ اسکرین پر نظریں‌ جمائے شائقین کے کانوں‌ میں اس شخص کی آواز حسبِ موقع پڑتی رہتی تھی جو فلم کے سین کے مطابق اور اداکاروں کے پردے پر نمودار ہونے پر کمنٹری کرتا رہتا تھا۔ یوں فلم کی کہانی اور آرٹسٹوں کے تأثرات شائقین پر کھلتے جاتے اور وہ محظوظ ہوتے تھے۔

    فلمی دنیا اور فن کاروں‌ سے متعلق مضمون نگاری کے لیے مشہور انیس امروہوی، بلراج ساہنی جیسے بے مثال فن کار کی زندگی اور اس کے فن سے متعلق لکھتے ہیں، ” بلراج ساہنی کا جنم یکم مئی 1913 کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو تقسیم وطن کے بعد اب پاکستان میں ہے۔ راولپنڈی دو بڑے شہروں، لاہور اور پشاور کے درمیان میں ایک نسبتاً چھوٹا شہر تھا۔ پشاور کے لوگ پرانی وضع کے تھے، جب کہ لاہور نئی روشنی کا شہر تھا، لیکن بلراج جی کے بچپن میں راولپنڈی میں بھی نئی روشنی ہونے لگی تھی، اور قدیم شہر جدیدیت کی طرف گامزن ہوگیا تھا۔”

    "بلراج ساہنی کی زندگی کی کہانی بھی اپنے آپ میں ایک عجیب وغریب داستان ہے۔ بڑی سادہ سی زندگی، مگر کتنی جدوجہد بھری۔ بلراج ساہنی کے والد ہربنس لال ساہنی راولپنڈی کے چھاچھی محلہ کے ایک دو منزلہ مکان میں اپنی بیوی لکشمی، دو بیٹوں، بلراج اور بھیشم اور دو بیٹیوں، ویراں اور سمترا کے ساتھ رہتے تھے۔ ان سب بچوں میں تیسرے نمبر پر بلراج ساہنی تھے اور بھیشم سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جس میں کمیشن کے طور پر اوسط آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ ان کے والد کی بازار میں کوئی دکان نہیں تھی، بلکہ گھر پر ہی مکان کے نچلے حصے میں انھوں نے ایک چھوٹا سا دفتر بنا لیا تھا۔ خاندان کے سب لوگ گھر کے اوپری حصے میں رہتے تھے۔ بلراج جی کے والد ہربنس لال ساہنی آریہ سماجی خیالات کے تھے اور راولپنڈی کے آریہ سماج کے منتری بھی تھے۔ ان دِنوں آریہ سماج کا ہمارے معاشرے پر اثر بڑھ رہا تھا اور مورتی پوجا، مذہبی ڈھونگ اور اندھے عقائد و روایات کے خلاف ویدک ادب، سنسکرت زبان اور سچے صوفی ازم کے رجحانات سماج پر کافی اثر ڈال رہے تھے۔”

    "بلراج ساہنی اور اُن کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو بچپن میں گروکل میں سنسکرت پڑھنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہاں دونوں کا دل نہیں لگا اور ایک دن بلراج ساہنی نے اپنا فیصلہ اپنے والد کو سنا دیا کہ وہ اب گروکل میں نہیں بلکہ اسکول میں پڑھیں گے۔ اُن کے والد اس بات سے حیران رہ گئے، مگر حقیقت میں بلراج ساہنی نے جیسے ان ہی کے دل کی بات کہہ دی تھی۔ وہ اپنا سارا کام اُردو یا انگریزی میں کرتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ نئی طرز کی تعلیم اب اُن کے بچّوں کے لیے بھی ضروری ہو گئی ہے۔ ان کی والدہ بھی بچّوں کو نئی تعلیم دلانے کے حق میں تھیں، اس لیے دونوں بھائیوں کو اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ بڑے بھائی بلراج ساہنی چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی سے صرف دو سال ہی بڑے تھے، مگر انہیں چوتھی کلاس میں اور بھیشم ساہنی کو پہلے درجے میں داخلہ ملا۔”

    "بلراج ساہنی لڑکپن سے ہی اپنا ادبی رجحان نظموں کے ذریعے ظاہر کرنے لگے تھے، صرف پندرہ برس کی عمر میں ہی وہ اردو میں شعر کہنے لگے۔ ایک پوری نظم انگریزی میں بھگت سنگھ کی یاد میں کہہ ڈالی۔ بلراج اور بھیشم دونوں بھائیوں نے مڈل کلاس تک کی تعلیم راولپنڈی میں ہی حاصل کی، بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ لاہور چلے گئے۔
    بلراج ساہنی کو بچپن سے ہی ادبی ماحول اپنے خاندان میں ہی مل گیا تھا۔ ان کی دو پھوپی زاد بہنیں کشمیر میں رہتی تھیں، جن میں سے ایک پروشارتھ وتی کے شوہر جانے مانے ادیب اور مدیر چندر گپت وِدیا لنکار تھے، جو ادب پر اکثر بحثیں کرتے رہتے تھے۔ بلراج ساہنی نے بچپن میں اپنی والدہ سے بھی سنا تھا کہ ان کی دادی بھی کویتا کہتی تھیں اور ان کے کاروباری والد نے بھی بتایا تھا کہ ایک زمانے میں انھوں نے بھی ایک ناول لکھا تھا، مگر وہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔”

    "بلراج ساہنی کی تعلیم ایم۔ اے انگریزی تک ہونے کے بعد ان کے والد ہربنس لال ساہنی نے ان کو اپنے کپڑے کے کاروبار میں شامل کر لیا۔ شادی کے بعد 1937 میں بلراج ساہنی نے والد اور چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو کاروبار اور دفتر کی ذمے داریاں سونپ کر گھر والوں سے الوداع کہا اور اپنی بیوی دمینتی کے ساتھ کولکاتہ میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن چلے گئے، جہاں انھوں نے ہندی اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔”

    "شانتی نکیتن کا ماحول بلراج ساہنی کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ وہاں پہنچ کر بلراج کے دل نے گواہی دی کہ یہی زندگی ہے جو وہ جینا چاہتا ہے۔ شروع شروع میں شانتی نکیتن کے پُرسکون ماحول میں بلراج ساہنی کا دل خوب لگا، مگر جلد ہی وہ وہاں کی یکسانیت اور موسیقی ریز ادبی ماحول سے اُکتا گئے۔ ان کو وہاں کی شانت اور پُرسکون زندگی سے الجھن سی ہونے لگی، کیونکہ ان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا ارمان جوش مار رہا تھا۔ بلراج ساہنی کے دل میں ملک و قوم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے کا جذبہ موجزن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک کی روح، ہندوستان کی آتما اُن کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ملک و قوم کی اس آواز پر بلراج ساہنی مہاتما گاندھی کے پاس وَردھا جا پہنچے۔ وردھا پہنچ کر انھوں نے رسالہ ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اپنے ذمے لے لی۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ 1939 میں بلراج ساہنی کو بی بی سی لندن سے مراسلہ ملا کہ ان کا انتخاب ہندی سروس میں اناؤنسر کی حیثیت سے ہو گیا ہے۔ لہٰذا وہ گاندھی جی سے آشیرواد لے کر انگلینڈ چلے گئے، جہاں بی بی سی کی ریڈیو سروس میں ہندی کے اناؤنسر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ اس طرح بلراج ساہنی پورے چار برس تک ملک سے باہر رہ کر ملک کی اہم خدمت انجام دیتے رہے اور یہ چار برس بلراج ساہنی کی زندگی میں بڑے عجیب گزرے اور ان کی زندگی کے لیے اہم بھی تھے۔”

    "یہاں رہتے ہوئے ہندوستان میں چل رہی آزادی کی لڑائی میں شامل نہ ہونا اب ان کے بس کی بات نہ رہی تھی۔ لہٰذا وہ اس جنگِ آزادی میں اپنے ہم وطنوں کے کندھے سے کندھا ملا کر لڑنے کے لیے وطن واپس چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے ’لوک ناٹئیہ منچ‘ کی ذمے داریاں قبول کر لیں۔ یہ بھی ایک طریقہ تھا عام لوگوں سے وابستہ ہونے اور عام زندگی سے قریب رہنے کا۔ ناٹک یا ڈرامے کے ذریعے ایک عام آدمی سے اداکار یا فن کار کا کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، یہ بات بلراج ساہنی کو بہت اچھی طرح معلوم تھی، اور وہ یہی کر بھی رہے تھے۔ ڈراموں سے اُن کو اتنا لگاؤ تھا کہ رات دن سوتے جاگتے بس ڈراموں کی ہی باتیں ان کی گفتگو کا موضوع ہوا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک آزادی میں بھی برابر حصہ لیتے رہے اور ہر طرح سے کانگریس کے ایک اہم اور سرگرم رکن رہے۔ اسی دوران بلراج ساہنی کا ذہن فلموں کی طرف متوجہ ہوا، اور انہوں نے فلموں سے وابستہ ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ 1944 میں وہ اِپٹا (انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن) سے وابستہ ہو گئے، وہیں سے فلم ساز و ہدایت کار مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا۔
    اس کے فوراً بعد ہی خواجہ احمد عباس کی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں ایک بھرپورکردار ادا کرنے سے ان کی پہچان شروع ہوئی۔ یہ فلم بنگال کے قحط زدگان سے متعلق ایک انتہائی اثردار فلم تھی۔”

    "جب بلراج ساہنی پوری طرح فلموں سے وابستہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر فلموں سے جوڑ لیا تب اس زمانے کے چند بڑے اچھے اور قابل فلم ساز اور ہدایتکار فلمی دنیا میں موجود تھے۔ یہ بلراج ساہنی کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ہمیشہ قابل اور سلجھے ہوئے ہدایتکار اور فلم ساز ملے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی آسمان پر بلراج ساہنی کا نام اس روشن ستارے کی طرح جگمگایا جس سے لوگ دشاؤں کا گیان حاصل کرتے ہیں۔”

    "بلراج ساہنی نے اپنی فلمی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1946 میں فلم ’دھرتی کے لال‘ سے کیا، مگر ان کو شہرت ملی 1953 میں ریلیز بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ سے۔ اس فلم نے عالمی شہرت حاصل کی اور کانز فلم فیسٹیول میں اعزاز سے نوازی گئی۔ 1947 میں کم عمری میں ہی اُن کی بیوی کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو سال بعد ہی بلراج ساہنی نے اپنی ایک کزن سنتوش چنڈھوک سے شادی کر لی، جو ٹیلی ویژن میں ایک مصنفہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔”

    "گرم کوٹ، ہیرا موتی، دو بیگھہ زمین، ہم لوگ، کابلی والا، سیما، گرم ہوا، ہنستے زخم، وقت، حقیقت، سنگھرش اور ’نیل کمل‘ وغیرہ کچھ ایسی فلمیں ہیں جن میں بلراج ساہنی نے اپنی فنی صلاحیتوں سے ان سب کرداروں کو زندگی بخشی جو اِن فلموں میں انھوں نے پیش کیے۔ یہ چند ایسی فلمیں ہیں جن کی وجہ سے بلراج ساہنی کو فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔”

    انیس امروہوی اپنے اس طویل مضمون میں مزید لکھتے ہیں، "فلموں سے وابستہ ہو کر بھی بلراج ساہنی کی دیش بھگتی اور قوم پرستی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر عوام کے درمیان خدمت خلق کا کام جاری رکھا۔ ان کے ساتھیوں میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کیفی اعظمی اور رشی کیش مکرجی کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں۔ بلراج ساہنی نے اُن دنوں ایسی ہی فلموں میں کام بھی کیا۔ ’گرم کوٹ، فٹ پاتھ، وقت‘ اور ’حقیقت‘ وغیرہ فلموں کی کہانی مکمل طور پر سچائی سے بھری زندگیوں کی ہی کہانیاں تھیں۔ اسی لیے ان فلموں کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان فلموں کو فلم بینوں کے ہر طبقے نے سراہا۔”

    "بلراج ساہنی اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ ہمیشہ غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بلراج جی کے فلمی کرداروں میں بھی ورائٹی ملتی ہے۔ ’دو بیگھہ زمین‘ میں رکشہ چلانے والے کا کردار، ’تلاش‘ میں ایک کروڑ پتی تجارتی آدمی کا کردار اور ’سنگھرش‘ میں گنپتی پرساد کا کردار، جس کی آنکھوں میں ہر وقت نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہتی ہے، ’کابلی والا‘ کا بھولا بھالا پٹھان جس کی نگاہیں محبت اور خلوص و ہم دردی سے ہمیشہ بوجھل رہتی ہیں۔ ’گرم ہوا‘ میں جوتے بنانے والے ایک مسلم کاریگر کا کردار کون بھلا سکتا ہے۔ ’حقیقت‘ میں میجر کا کردار اور اسی طرح کے بہت سے مختلف کردار جن کو بلراج ساہنی نے زندگی بخشی۔ وہ اپنے آپ کو کردار میں اتنا جذب کر لیا کرتے تھے، کہ بلراج ساہنی کا پردے پر کہیں نام ونشان نہیں ملتا تھا اور صرف کردار ہی رہ جاتا تھا۔”

    اس باکمال اداکار نے پردے پر پہچان بنانے کے ساتھ بطور مصنّف بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا اور اپنے زورِ قلم کو آزمایا۔ انیس امروہوی نے اس کا تذکرہ کچھ یوں کیا، "بلراج ساہنی کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک بہترین اور سلجھے ہوئے ترقی پسند مصنف بھی تھے۔ انہوں نے ہندی، انگریزی اور پنجابی ادب کو بہت یادگار تخلیقات بخشی ہیں۔ ’’میری غیر جذباتی ڈائری، یورپ کے واسی، میرا پاکستانی سفرنامہ‘‘ اور’یادیں‘ کافی مقبول کتابیں ہیں۔ فلم اور اسٹیج کے موضوع پر بھی انھوں نے ’سنیما اور اسٹیج‘ اور ’میری فلمی آتم کتھا‘ تصنیف کیں۔”

    "1949 میں بلراج ساہنی کو ان کی کتاب ’میرا روسی سفرنامہ‘ کے لیے سوویت نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1969 میں بلراج ساہنی کو حکومت ہند کی طرف سے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔ بلراج ساہنی نے دیوآنند کے لیے فلم ’بازی‘ کی کہانی بھی لکھی تھی جس کو گرودت کی ہدایت میں بنایا گیا۔”

    13 اپریل 1973 کو صرف ساٹھ برس کی عمر میں بلراج ساہنی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی ان کی بیٹی شبنم کا انتقال کم عمری میں ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت دل برداشتہ اور رنجیدہ تھے۔”

    "اس میں دو رائے نہیں کہ بلراج ساہنی اداکاری کی دنیا میں ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جس کو پُر کرنا برسوں تک ہندوستانی فن کاروں کے بس کی بات نہیں۔”

  • علّامہ آئی آئی قاضی: فکر و دانش میں‌ ممتاز، علم و عمل میں‌ منفرد

    علّامہ آئی آئی قاضی: فکر و دانش میں‌ ممتاز، علم و عمل میں‌ منفرد

    علّامہ آئی آئی قاضی کی پُراسرار موت پر حلقۂ فکر و دانش، علمی و دینی مجالس اور ان کی قابلیت اور خدمات کا معترف ہر خاص و عام سوگوار تھا 13 اپریل 1968ء کو انھوں نے اس دارِ‌ فانی کو خیرباد کہا۔ آج متعدد زبانوں کے اس عالم اور بیدار مغز شخصیت کی برسی ہے۔

    ان کا پیدائشی نام امداد علی امام علی قاضی تھا، جسے دنیا آئی آئی قاضی کے نام سے جانتی ہے۔ علاّمہ صاحب نے 9 اپریل 1886ء کو دنیا میں‌ آنکھ کھولی۔ ان کی پیدائش حیدر آباد، سندھ میں ہوئی، لیکن خاندان ضلع دادو کے ایک گاؤں ’’پٹ‘‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ امداد علی امام بچپن ہی سے ذہین تھے۔ ان کا حافظہ زبردست اور یادداشت بے حد اچھی تھی۔ وہ جس ماحول کے پروردہ تھے اس میں تہذیب، تعلیم و تربیت کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور ساتھ ہی ہر لحاظ سے ان کا گھرانا خوش حال اور ثروت مند تھا جس کے باعث انھیں کسی قسم کی کمی اور محرومی نہیں تھی۔

    قاضی صاحب کو ابتدائی تعلیم ایک عالم، اخوند عبدالعزیز نے دی۔ انھیں شروع ہی سے پڑھائی کا شوق اور مختلف زبانیں‌ سیکھنے میں دل چسپی رہی۔ اسی شوق اور لگن کے باعث اردو کے ساتھ عربی، سندھی، فارسی اور انگریزی میں مہارت حاصل کرلی۔ 1904ء میں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سندھی زبان کا اعلیٰ ترین امتحان اور اگلے ہی برس 1905ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ وہ انتہائی ذہین اور نصاب میں غیر معمولی دل چسپی لینے والے طالبِ علم تھے اور اساتذہ کے مشورے پر والدین نے انھیں 1906ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھیج دیا۔ مگر جلد ہی لندن چلے گئے۔ اس وقت تک ہندوستان میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آچکا تھا اور مسلمانوں میں بیداری کی لہر محسوس کی جا سکتی تھی۔ برطانیہ میں آئی آئی قاضی نے اپنے سیاسی اور سماجی شعور کو بلند کیا اور لندن اسکول آف اکنامکس سے معاشیات اور پھر کِنگز کالج سے نفسیات کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ان کو مشرقی علوم پر گہری دسترس رکھنے والے تھامس آرنلڈ جیسے استاد اور پروفیسر ایل ٹی ہاب ہاؤس کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور ان کی فکر اور کام سے خوب استفادہ کیا۔

    بعد ازاں علّامہ صاحب مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے، جہاں اُن کی ملاقات ایلساجیر ٹروڈ نامی ایک خاتون سے ہوئی۔ قاضی صاحب نے 1910ء میں ان سے شادی کرلی اور وہ ایلسا قاضی کے نام سے پہچانی جانے لگیں۔ وہ ایک شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ساتھ فلسفے اور موسیقی سے بھی خاص شغف رکھتی تھیں۔ شادی کے اگلے برس یعنی 1911ء میں آئی آئی قاضی نے لنکنز اِن، لندن سے بار ایٹ لاکی ڈگری حاصل کی اور وہیں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ اس عرصہ میں انھوں نے مغربی علوم اور ادب پر بھی گہری توجّہ مرکوز رکھی۔ مذکورہ سال ہی وہ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ حیدرآباد آگئے جہاں دو برس قیام کے بعد برطانیہ چلے گئے اور 1918ء تک وہیں رہے۔ 1919 ء میں جب وہ اپنے وطن واپس پہنچے تو اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب انھوں نے ہندوستان ہی میں ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی حکومت نے آئی آئی قاضی کو ٹنڈو محمد خان، سندھ میں سول جج کی ملازمت کی پیش کش کی، جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ بعدازاں خیرپور، سندھ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کا عہدہ دے دیا گیا۔ 1921ء میں آئی آئی قاضی کو ’’ریاست خیرپور کا داخلی نمائندہ برائے مشاورتی کاؤنسل‘‘ کا عہدہ بھی پیش کیا گیا، جو انھوں نے قبول کر لیا۔ بعد میں علّامہ آئی آئی قاضی خیرپور کی ملازمت ترک کر کے پبلک پراسیکیوٹر تھرپارکر کے عہدے پر تعیّنات ہوئے۔ اور اسی عہدے سے طویل رخصت لے کر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1931 ء میں اپنا استعفیٰ روانہ کر دیا۔ لندن میں ان کی زندگی میں موڑ یہ آیا کہ انھوں نے وہاں کے مختلف مذہبی اجتماعات، بالخصوص جمعے کے روز خطبات دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ان کا دنیاوی علم خاصا وسیع تھا، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور مذہبی موضوعات اور تقابلِ مذاہب کے ساتھ اسلام کی تعلیمات پر دسترس ایسی تھی کہ حاضرین و سامعین بے حد متأثر ہوتے۔ 1936 ء میں سندھ کو بمبئی سے الگ کر دیا گیا، جو ایک بڑا سیاسی اور انتظامی فیصلہ تھا۔ آئی آئی قاضی 1938ء میں کراچی آگئے۔ یہاں جمعے کی نماز پڑھانے اور خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا، تو اُن کی پُر مغز تقاریر کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ اُن کے خطبے سننے کے لیے نام وَر شخصیات مذہبی اجتماع میں آنے لگیں اور تحریک پاکستان اور دیگر اہم مذہبی شخصیات سے ان کے تعلقات استوار ہوئے۔

    1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو علّامہ آئی آئی قاضی کو جج بننے کی پیش کش کی گئی، لیکن انھوں نے برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ 1951ء میں وہ واپس آئے اور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر فرائض ادا کرنے لگے۔ ان کی علم دوستی اور ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے اداروں سے ان کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ اپنی آدھی تنخواہ اس ادارے کو دیتے تھے۔ یہ سارا عمل اُن کی غیرمعمولی شخصیت کا غمّاز تھا۔ ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا تو یونیورسٹی انتظامیہ سے علّامہ آئی آئی قاضی سے متعلق بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ اس پر علّامہ نے استعفیٰ دے دیا۔

    مشہور ہے کہ علّامہ آئی آئی قاضی نے خود کو دریا کے سپرد کردیا تھا اور یوں ان کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔ علّامہ آئی آئی قاضی کو سندھ یونیورسٹی جامشورو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نظیر صدیقی کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب کو ‘جان پہچان’ دی!

    نظیر صدیقی کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب کو ‘جان پہچان’ دی!

    نظیر صدیقی اردو کے ایک اہم نثر نگار اور نقاد تھے۔ وہ انشائیہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے بھی معروف ہیں‌۔ اردو زبان و ادب کے کم ہی طالبِ علم شاید ان کے نام اور علمی و ادبی کارناموں سے واقف ہوں گے، لیکن نظیر صدیقی کا ادبی تحقیقی کام، اور تدریس کے میدان میں ان کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ آج پروفیسر نظیر صدیقی کی برسی ہے۔

    اردو اور انگریزی میں ایم اے کرنے والے پروفیسر نظیر صدیقی مشرقی پاکستان کی کئی جامعات اور کالجوں سے وابستہ رہے۔ 1969ء میں وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں اسلام آباد کے وفاقی کالج برائے طلبہ سے وابستگی اختیار کی اور بعد ازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوگئے۔ اسی جامعہ سے وہ صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ نظیر صدیقی نے نے بیجنگ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بھی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔

    پروفیسر نظیر صدیقی نے 12 اپریل 2001ء کو وفات پائی اور اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔ نظیر صدیقی کا پورا نام محمد نظیر الدّین صدیقی تھا۔ وہ 7 نومبر 1930ء کو سرائے ساہو ضلع چھپرا بہار میں پیدا ہوئے تھے۔

    تنقید ایک مشکل کام ہے اور نثر پاروں یا کسی شاعر کے کلام پر معیاری اور مفید تنقید ہر اعتبار سے تحقیق اور محنت طلب امر ہے اور صرف اسی صورت میں‌ معیاری اور مفید مباحث سامنے آسکتے ہیں جب کوئی نقاد اس میں‌ دقّتِ نظری سے کام لے۔ پروفیسر نظیر صدیقی نے اس میدان میں‌ بڑی محنت سے مفید مباحث چھیڑے ہیں۔

    نظیر صدیقی کی انشائیہ نگاری بھی کمال کی ہے۔ ادبی حلقوں‌ نے ان کی بلند خیالی اور نکتہ رسی کو سراہا اور ان کے انشائیوں پر مشتمل کتاب ‘شہرت کی خاطر’ کو بہت پذیرائی ملی۔ اسی طرح پروفیسر نظیر صدیقی کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ‘جان پہچان’ کے نام سے بہت مشہور ہوا۔ ادبی دنیا میں بالخصوص اس کتاب میں شامل خاکے بہت مقبول ہوئے۔ پروفسیر نظیر صدیقی نے ایک خود نوشت سوانح عمری بھی سپردِ‌ قلم کی تھی۔ ان کی یہ کتاب بعنوان ‘سو یہ ہے اپنی زندگی’ شایع ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف نقاد، ادیب اور شاعر کی تنقیدی کتب میں‌ تأثرات و تعصبات، میرے خیال میں، تفہیم و تعبیر، اردو ادب کے مغربی دریچے، جدید اردو غزل ایک مطالعہ شامل ہیں جب کہ ادبی تحقیقی کتابیں اردو میں عالمی ادب کے تراجم، اقبال اینڈ رادھا کرشنن اور ایک شعری مجموعہ حسرتِ اظہار کے نام سے شایع ہوا تھا۔

  • مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

    مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

    آج اردو کے معروف شاعر، مصنّف مولانا عامر عثمانی کی برسی ہے جن کی تخلیقات کا نمایاں پہلو ان کی طنز نگاری ہے۔ وہ ایک محقق بھی تھے جن کا قلم دینی تعلیمات کے فروغ اور سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے متحرک رہا۔ چند برسوں کے دوران مولانا عامر عثمانی کی ایک نظم سوشل میڈیا کے ذریعے ہر خاص و عام تک پہنچی ہے۔ یہ نظم انسانوں کی بے بسی، جبر اور ظلم کی منظر کشی کرتی ہے اور کسی بھی معاشرے میں‌ ناانصافی پر عوام کے جذبات کی عکاس ہے۔

    اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:

    آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
    میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
    آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
    میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
    جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں
    نشۂ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
    جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
    ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
    تشنگی نفس کے جذبوں کی بجھانے کے لیے
    نوعِ انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
    ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
    ان سے ہر سانس میں تحریکِ بغاوت ہے مجھے

    پاکستان میں ان دنوں‌ ایک طرف سیاسی افراتفری، انتشار بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب عوام مسائل اور مصائب کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ظلم و ستم اور ناانصافی کے واقعات عام ہیں‌۔ لوگ لٹیروں کے نشانے پر ہیں۔ لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر جرائم پیشہ افراد کئی شہریوں کو ابدی نیند سلا چکے ہیں۔ ایسے ہی افسوس ناک واقعات کی فوٹیجز کے پسِ پردہ ایک گلوکار کی آواز میں‌ ہم یہ نظم سنتے ہیں جس کے اشعار ناانصافی اور لاقانونیت کا شکار ہونے والوں کی بے بسی اور کرب کو ظاہر کرتے ہیں۔ لوگوں میں‌ اپنی نقدی اور اسباب کے چھن جانے اور زندگی سے محروم ہوجانے کے خوف کو اجاگر کرتی یہ نظم بحیثیت شہری ان کے حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کا نوحہ بھی ہے۔ عامر عثمانی کی یہ نظم عوام کو بغاوت پر اکساتی ہے۔ شاعر نے اپنی اس نظم کو عنوان بھی بغاوت ہی دیا ہے۔

    مولانا عامر عثمانی دیو بند کے فیض یافتہ تھے۔ دیوبند کے کتب خانے سے انہوں نے بہت استفادہ کیا۔ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میں‌ اپنے کمالِ فن کا اظہار کیا اور طنز نگار کی حیثیت سے مخصوص شناخت بنائی۔ مولانا عامر عثمانی کا سنہ پیدائش 1920ء اور ان کا آبائی علاقہ دیوبند ہے۔ ان کے والد کا نام مطلوبُ الرّحمٰن تھا جو انجنیئر تھے۔ عامر عثمانی نے معاش کے لیے کئی راستے اختیار کیے جن میں‌ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنا بھی شامل ہے۔ اس سے ضروریات پوری نہ ہوئیں تو شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس فن میں طاق ہوئے۔ تجلی وہ رسالہ تھا جس کے کئی سرورق مولانا عامر عثمانی نے بنائے۔ پھر کسی نے ان کو بمبئی کی فلم نگری کی طرف دھکیل دیا، مگر ان کی روح اس دنیا سے بیزار ہی رہی اور عامر عثمانی جلد ہی دیوبند لوٹ گئے۔ یہیں‌ انہوں نے ذریعۂ معاش کے طور پر 1949 میں تجلّی جیسے رسالے کا اجراء کیا۔ اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم عرصہ میں مقبولیت حاصل کی۔ یہ رسالہ مولانا عامر عثمانی کی وفات تک 25 سال مسلسل شائع ہوتا رہا۔

    عامر عثمانی نے جہاں‌ شاعری کے ذریعے علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ اپنا تعارف کروایا، وہیں اپنے کالموں‌ کی بدولت اسلامیانِ ہند کو اپنی جانب متوجہ کیا اور مقبول ہوئے۔ ان کے کالم ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘ کے عنوان سے تجلّی میں شائع ہوئے جن میں‌ مولانا کا بامقصد انداز اور طرزِ تحریر طنزیہ واضح ہوتا تھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو مغرب کی نقالی، بدعات و خرافات کے ساتھ علمائے وقت کو ان کے غلط فیصلوں پر گرفت کرنے سے بھی نہ رکے اور دینی اور سماجی اصلاح کا کام انجام دیا۔

    مولانا عامر عثمانی جماعتِ اسلامی (ہند) کے بڑے حامی تھے۔ انہوں‌ نے خلافت و ملوکیت نمبر نکالا اور مولانا مودودی کے خلاف کی جانے والی باتوں‌ کا جواب دیا اور جماعت اسلامی کے مخالفین کو دلائل سے رام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا انداز جارحانہ ہی رہا۔

    بھارت میں‌ علم و ادب کی دنیا میں مولانا عامر عثمانی کی شہرت کے بعد وہ وقت بھی آیا جب بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کو چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ ازحد محدود ہوچکا تھا۔ مگر ایک موقع پر وہ سفر کر کے پونے (بھارت) میں منعقدہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔ یہ طویل سفر تھا اور وہاں‌ عامر عثمانی نے اپنی مشہور نظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ سنائی۔ اس نظم کو سنانے کے فقط دس منٹ بعد ہی مولانا عامر عثمانی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ 12 اپریل 1975ء کی بات ہے۔

    یوں داغِ‌ مفارقت دے جانے والے عامر عثمانی پر اخبارات اور رسائل میں تعزیتی مضامین کا انبار لگ گیا۔ ماہر القادری جیسے بلند مرتبہ شاعر اور نثار نے لکھا:

    ’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ بحرِ اوقیانوس کی طرح عریض و طویل اور عمیق تھا۔ وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے۔ پھر سونے پر سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔ تفسیر، حدیث، فقہ و تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے۔ ایک ایک جزو کی تردید یا تائید میں امہاتُ الکتب کے حوالے پیش کرتے۔ علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اور اہلِ قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔‘‘

    مولانا عامر عثمانی کا شعری مجموعہ یہ قدم قدم بلائیں، حفیظ جالندھری کے شاہ نامۂ اسلام کے طرز پر شاہ نامۂ اسلام (جدید) اور کالموں پر مشتمل کتاب شایع ہوچکی ہے۔

  • احمد رشدی: آواز اور انداز کا ساحر

    احمد رشدی: آواز اور انداز کا ساحر

    احمد رشدی کی آواز میں کئی فلمی گیت نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ اسٹیج پر گلوکاری کے دوران پرفارمنس نے بھی احمد رشدی کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ انھوں نے سولو، ڈسکو، پاپ میوزک، کلاسیکل میوزک، ہپ ہاپ میوزک جیسی تمام اصناف میں اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور خوب شہرت سمیٹی۔ آج پاکستان کے اس منفرد گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد رشدی نے موسیقی کی کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی گانے پر جذباتی انداز میں ایسے پرفارم کرتے تھے کہ دیکھنے والا ان کا دیوانہ ہوجاتا۔

    پاکستان کے اس مشہور گلوکار نے کئی زبانوں میں گانے گائے جن میں گجراتی، مراٹھی، تامل، تلگو، بھوجپوری شامل ہیں لیکن اردو زبان میں‌ ان کی آواز میں شوخ نغمات زیادہ مشہور ہوئے۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر رشدی کی آواز میں تقریباً 150 گانے گائے فلمائے گئے اور سبھی مقبول ہوئے۔

    11 اپریل 1983ء کو احمد رشدی ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ احمد رشدی کی آواز میں یہ سدا بہار گیت بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی….آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ اسی طرح کوکو رینا اور آیا گول گپّے والا آیا وہ نغمات تھے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    احمد رشدی نے 1935ء میں ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے فلم عبرت سے پسِ پردہ گائیکی کا آغاز کیا اور 1954ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے جہاں ان کی گائیکی کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع ہوا۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے بندر روڈ سے کیماڑی جیسے مقبول نغمے سے یہاں اپنی پہچان کا سفر طے کرنا شروع کیا تھا۔ اس دور میں‌ ریڈیو تفریح اور معلومات کا ایک مقبول اور عام ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ انھیں‌ جلد ہی ملک کے طول و عرض میں‌ پہچان مل گئی۔

    پاکستان میں احمد رشدی کی بطور پسِ پردہ گلوکار پہلی فلم کارنامہ تھی۔ تاہم اس کی ریلیز سے پہلے فلم انوکھی ریلیز ہوگئی جس کے لیے انہی کی آواز میں گیت ریکارڈ کیے گئے تھے۔ اس فلم کے گیت کو سبھی نے بہت پسند کیا۔ اس فلم کے بعد احمد رشدی کی کام یابیوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وہ فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں‌ شامل ہوگئے۔ سرحد پار بھی احمد رشدی کے گائے ہوئے گیتوں کو سراہا گیا اور پاکستان میں ان کا شمار فلمی صنعت کے ورسٹائل اور مقبول ترین گلوکاروں میں ہوا۔ احمد رشدی کی خاص بات ان کے شوخ اور رومانوی نغمات پر دیوانہ وار پرفارمنس تھی۔ اس کے علاوہ المیہ اور طربیہ شاعری کو بھی احمد رشدی نے اپنی آواز میں اس طرح سمویا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔ یہ پاکستانی گلوکار دھیمے سُروں کے ساتھ چنچل اور شوخ موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے لیے مشہور تھے۔ احمد رشدی کو ان کی گائیکی پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا اور بعد از مرگ حکومتِ پاکستان نے بھی احمد رشدی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔