Tag: اپریل وفات

  • رفیع پیر:‌ فنونِ لطیفہ کا نہایت معتبر نام، باکمال شخصیت

    رفیع پیر:‌ فنونِ لطیفہ کا نہایت معتبر نام، باکمال شخصیت

    "پیر صاحب دراز قد آدمی تھے۔ وفورِ ذہانت سے چمکتی ہوئی آنکھیں، شفاف و کشادہ پیشانی، ناک اونچی جو چہرے پر نمایاں تھی۔ پیر صاحب کم گو تھے۔ لب و لہجہ دھیما مگر ڈرامائی کیفیت سے بھرپور، دورانِ گفتگو ان کی آنکھیں یوں دکھائی دیتی تھیں جیسے ایک ایک لفظ سوچ کر کہہ رہے ہوں۔” آج رفیع پیر کا یومِ وفات ہے۔

    یہ چند سطری شخصی خاکہ میرزا ادیب کے قلم سے نکلا ہے اور یہ اُس مضمون سے لیا گیا ہے جو رفیع پیر کے ڈرامے کے نام سے ان کی مرتب کردہ کتاب میں شامل ہے۔ رفیع پیر سے متعلق اپنے اس مضمون میں میرزا ادیب مزید لکھتے ہیں:

    "رفیع پیر نے ڈرامے کی تربیت جرمنی میں پائی تھی اور جب بارہ برس تک جرمن اسٹیج پر عملاً حصّہ لینے کے بعد وطن لوٹے تھے تو ان کا سینہ نئی نئی امنگوں اور نئے نئے ولولوں سے معمور تھا۔ انھوں نے آتے ہی آل انڈیا ریڈیو پر لاہور سے اپنی آواز کا جادو اس انداز سے جگایا کہ ہزاروں کے دل موہ لیے۔ اس وقت ریڈیو سے باہر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ڈرامے میں خصوصی شہرت کے مالک تھے مگر پیر صاحب ان سے الگ تھلگ اور منفرد نظر آئے تھے۔”

    "ان کے یوں الگ تھلگ اور منفرد نظر آنے کی وجہ یہ تھی کہ پیر صاحب صدا کار ہی نہیں تھے، تمثیل نگار بھی تھے، اداکار بھی تھے اور ہدایت کار بھی۔ اور ان سبھی شعبوں میں انھیں‌ کمال حاصل تھا۔”

    رفیع پیر پاکستان میں فنونِ لطیفہ کی ایک نہایت معتبر شخصیت اور پائے کے فن کار تھے جن کی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا اعتراف اپنے زمانے کی ممتاز ہستیوں نے بھی کیا ہے۔ رفیع پیر کو تھیٹر، پتلی تماشہ، فلم اور ڈرامہ، رقص اور موسیقی میں کمال حاصل تھا۔ وہ ایک بہترین صداکار بھی تھے اور اداکار بھی اور اپنے اس فن کا اظہار پاکستان میں خوبی سے کیا۔ انھیں ایک ایسی علمی و ادبی ہستی کہا جاسکتا ہے جس نے دورانِ تعلیم اور بیرونِ ملک قیام کے دوران اپنے کام اور تجربات سے جو کچھ جانا اور سیکھا، اسے اپنے ڈراموں‌ اور مضامین کے ذریعے تحریری اور تھیٹر کے پلیٹ فارم سے عملی طور پر نئے آنے والوں‌ تک پہنچایا۔ رفیع پیر فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنی فکر اور فن کی بدولت خوب جانے گئے اور اپنے ہم عصروں‌ میں‌ یگانہ و ممتاز ہوئے۔

    1898ء میں بنّوں میں آنکھ کھولنے والے رفیع پیر کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ تھے اور بنّوں میں تعینات تھے۔ ان کا خاندان کشمیر سے گجرات میں آکر آباد ہوا تھا اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے آئے تھے۔ اِن کا شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال سے گہرا قلبی تعلق اور بڑی دوستی تھی۔ پیر تاج الدّین انہی کے صاحب زادے تھے جنھوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہیں ایک برطانوی خاتون سے ذہنی ہم آہنگی بڑھی اور پھر انھوں نے اسی عورت سے شادی کر لی۔ رفیع پیرزادہ نے اسی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ فنونِ لطیفہ سے نوعمری ہی میں واقف ہوگئے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کی دل چسپی علم و فنون میں بڑھتی چلی گئی اور پھر تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے بھی اپنے شوق اور رجحان کے مطابق یہی سب پڑھنے اور سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    کہتے ہیں کہ جب رفیع پیر اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر سجانے کے لیے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا۔ اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ تھیٹر کا آخری روز ہے۔ اب یہ تماشا لگانے والے دلّی چلے جائیں‌ گے۔ کم عمر رفیع پیر کے دل میں کیا آیا کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ان لوگوں کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ اہلِ خانہ ان کے یوں لاپتا ہوجانے پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ دلّی میں جب تھیٹر کے منتظمین نے اپنا شو شروع کیا تو اس روز وہاں جو شخصیت بطور خاص مدعو تھی، وہ رفیع پیر کے دادا قمر الدّین کے قریبی دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑی تو جھٹ پہچان لیا اور اس سے مل کر دریافت کہا کہ یہاں کیسے اور کس کے ساتھ آئے ہو؟ اس پر معلوم ہوا رفیع پیر تھیٹر کے شوق میں بغیر بتائے گھر سے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ فوراً اس بچّے کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو مطمئن کرنے کے بعد چند روز میں رفیع پیر کو لاہور پہنچا دیا۔ اس واقعے سے رفیع پیر کی ڈرامہ اور اداکاری سے لگاؤ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ غور و فکر کرنے کے عادی، متجسس اور مہم جُو قسم کے نوجوان تھے جو سنجیدہ بھی تھے اور سیاسی و سماجی شعور بھی رکھتے تھے۔ رفیع پیر اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ رفیع پیر کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے۔ رفیع پیر ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متأثر تھے۔ اکثر جلسوں میں اگلی صفوں میں نظر آتے اور پُرجوش انداز میں سب کے ساتھ مل کر خوب نعرے لگاتے۔ تحریک کے قائدین کے ساتھ ساتھ ایسے سرگرم کارکنوں‌ اور تحریک کے متوالوں پر پولیس نظر رکھتی تھی۔ رفیع پیر بھی ایک روز پولیس کی نظروں میں آ گئے تھے اور جب اس کا علم اہلِ خانہ کو ہوا تو رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے فوری لندن بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یوں 1916ء میں رفیع پیر قانون کے طالبِ علم بن کر اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر وہاں سے تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لے لیا۔ یہ اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ وہ برلن چلے گئے جسے پورے یورپ میں اس دور میں فن و ثقافت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے۔ یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا ثابت ہوئی۔ وہ بھی فنونِ لطیفہ کے ایسے ہی دیوانے تھے۔ اسی دیوانگی اور شوق نے رفیع پیر کو وہاں‌ برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کے قریب کردیا جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں کام کرتے ہوئے رفیع پیر نے معروف فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا۔ جرمنی میں‌ ہی میں قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

    جب جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے تو رفیع پیر ہٹلر سے اپنی نفرت اور کچھ دوسرے معاملات کی وجہ سے ہندوستان چلے آئے، لیکن خدشات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ بدقسمتی سے ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں۔ رفیع پیر کی اکلوتی بیٹی کسی طرح بچ گئی تھیں اور انھوں نے طویل عمر پائی۔

    رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے۔ اس زمانے میں وہ جدید تھیٹر کی تعلیم و تربیت مکمل کرکے آنے والے واحد ہندوستانی تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس سے نکلنے آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوئے اور مختلف شعبہ جات میں اپنی اداکاری، صداکاری اور قلم کا زور آزمایا۔ اسی زمانے میں رفیع پیر نے پنجابی کا مشہور ڈرامہ ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسے اسٹیج کیا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پہلا پنجابی کھیل تھا جس کے بعد انھوں‌ نے پنجابی زبان میں مزید ڈرامے تحریر کیے۔ ان کا آخری ڈراما ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس زمانے میں ان کے نظر ثانی شدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو زبان میں فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی فنی صلاحیتوں اور تھیٹر، ڈرامہ کی پیش کاری میں ان کی مہارت کا خوب چرچا ہوا۔ رفیع پیر نے اس دور میں‌ تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے اور لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

    ہندوستان آنے کے بعد والدہ کے اصرار پر رفیع پیر نے شادی کر لی تھی۔ برلن سے واپسی کے بعد رفیع پیرزادہ نے ہندوستان میں کم و بیش 12 برس گزارے اور اس دوران بمبئی، کلکتہ اور دہلی کے فلم نگر میں زبردست کام کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے جان اینڈرسن نامی تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ بمبئی میں قیام کے دوران ’’وائس آف انڈیا‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ اوم پرکاش، کامنی کوشل اور پرتھوی راج جیسے بڑے اداکار ان کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور ان کی صلاحیتوں کے معترف بھی تھے۔ پرتھوی راج نے اُن کے ساتھ مل کر ایک تھیٹر کمپنی بھی بنائی تھی، جس نے شیکسپیئر کے ڈراموں کو خوبی سے اسٹیج پر پیش کیا اور ان میں مرکزی کردار خود رفیع پیر ادا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں لاہور چھوڑ کر بھارت چلے جانے والے ہندوؤں کے اسٹوڈیوز کی ذمّے داری سونپی گئی تھی، جسے بخوبی انجام دیا۔ بعد ازاں، رفیع پیر نے ’’تصویر محل‘‘ نامی تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا اور اس میڈیم کے ذریعے کئی بہترین کھیل سامعین تک پہنچائے جن میں پنجابی کھیل ’’اکھیاں‘‘ بھی شامل تھا۔ انھوں نے خواتین کے مسائل اور اُن سے امتیازی سلوک پر اردو اور پنجابی زبان میں ایسے ڈرامے پیش کیے جن کا اُس وقت تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رفیع پیر نے ریڈیو اور اسٹیج کے سیکڑوں اداکاروں کو تربیت دی۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جو بعد میں ملک کے بڑے فن کاروں میں شامل ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ رفیع پیر پاکستان کے ایسے ڈرامہ نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی اہلِ علم و فنون نے افسوس کا اظہار کیا اور ان کی رحلت کو جہانِ فن کا بڑا نقصان قرار دیا۔ رفیع پیر 1974ء میں آج ہی کے روز اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رفیع پیر کی اولاد نے بھی فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنے والد کی طرح معیار اور شان دار کام کیا۔ رفیع پیر کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں نے ’’رفیع پیر تھیٹر‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے تحت بہترین اور بامقصد ڈرامے پیش کیے گئے۔ پیرزادہ خاندان نے فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو آزمایا اور بالخصوص ’رفیع پیر ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیولز‘ کا آغاز کر کے فن و ثقافت کے شعبے میں اہم اور منفرد کام کیا۔ اس پلیٹ فارم کے تحت میلے 1978ء سے 2007ء تک منعقد ہوتے رہے ہیں۔ 1978ء میں اس کے تحت پہلا 25 روزہ عالمی فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس پلیٹ فارم پر پتلی تماشے، موسیقی اور رقص کے عالمی فیسٹیول کے علاوہ صوفی سول ورلڈ میوزک فیسٹیول کا بھی انعقاد کیا گیا جسے بہت پذیرائی ملی۔

    رفیع پیر کی اولادوں میں عثمان پیرزادہ نے اداکار، ہدایت کار اور منظر نویس کے طور پر نام کمایا، ان کی شریکِ حیات ثمینہ پیرزادہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور فلموں میں شان دار اداکاری کی اور نام و مقام بنایا۔ رفیع پیر کے بڑے صاحب زادہ سلمان پیر زادہ جو 1963ء میں برطانیہ چلے گئے تھے، ان کا شمار بھی برطانوی اداکاروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کی مقبول برطانوی ڈرامہ سیریل، ’’ایمرجینسی وارڈ نمبر 10‘‘ میں ڈاکٹر مراد کا کردار ادا کرچکے ہیں۔ ایک صاحب زادی تسنیم پیر زادہ نے صحافی، کالم نگار، شاعرہ اور ناول نگار کے طور پر معروف ہیں۔ عمران پیرزادہ بھی اداکار، لکھاری اور فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں بہترین اداکار کے زمرے میں انھیں بھی نام زد کیا گیا تھا۔ رفیع پیرزادہ کی اولادوں نے جس طرح فنونِ لطیفہ کی خدمت کی، اس خاندان کی اگلی نسل بھی رفیع پیر تھیٹر کو آگے بڑھاتے ہوئے فن و ثقافت اور شوبز کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہے۔ پاکستان ہی نہیں‌ پیرزادہ خاندان کے ان فن کاروں‌ کو ان کی بہترین پرفارمنس پر عالمی سطح پر منعقدہ میلوں‌ اور شوبز انڈسٹری کی جانب سے بھی ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔

  • نعیم ہاشمی: فلمی اداکار، شاعر اور ادیب

    نعیم ہاشمی: فلمی اداکار، شاعر اور ادیب

    نعیم ہاشمی کی لکھی ہوئی یہ نعت آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ
    یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی

    نعیم ہاشمی 27 اپریل 1976ء وفات پاگئے تھے، لیکن ان کا یہ نعتیہ کلام شاعر تنویر نقوی سے منسوب ہے۔ اس کی وجہ وہ گرامو فون ڈسک ہے جس پر غلطی سے یا لاعلمی میں تنویر نقوی کا نام تحریر ہو گیا تھا اور یہی نام آگے بڑھتا رہا۔

    نعیم ہاشمی کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے بانیوں اور اوّلین دور کے قابل اور باصلاحیت آرٹسٹوں‌ میں ہوتا ہے۔ وہ اداکار، شاعر، ادیب اور ہدایت کار بھی تھے۔نعیم ہاشمی فلمی صنعت کے ایسے فن کار تھے جنھوں نے متعدد شعبہ جات میں بنیادی کام کیا اور بعد میں دوسرے آرٹسٹ آگے بڑھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ نعیم ہاشمی کی فن کارانہ صلاحیت کی بدولت پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا کام دوسروں سے منسوب ہوگیا یا وہ اس سے پہچان اور شناخت حاصل نہ کرسکے۔ مثلاً پاکستان کی اوّلین فلم بھی دراصل نعیم ہاشمی نے پروڈیوس کی تھی۔ اس کا نام انقلابِ کشمیر تھا اور یہ اس وادیٔ سرسبز کی تحریکِ آزادی سے متعلق فلم تھی۔ لیکن اس فلم کا لاہور کے رٹز سنیما میں پہلا ہی شو ہوا تھا کہ اس کی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی۔ شاید اس کا پرنٹ بھی محفوظ نہیں‌ رہا۔

    ان کا تحریر کردہ ایک ملّی نغمہ بھی مذکورہ فلم میں شامل تھا جس کے بول ہیں:

    سلام اے قائدِاعظم تِری عظمت ہے پائندہ
    ترا پرچم ہے تابندہ، ترا پیغام ہے زندہ

    یہ مِلّی نغمہ اردو کے درویش صفت شاعر ساغر صدیقی نے گایا تھا۔

    اداکار نعیم ہاشمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور میں سب سے پہلا اسٹیج ڈرامہ پیش کیا تھا۔ اس ڈرامے کا نام ’شادی‘ تھا جسے 1948ء میں لاہور کے اوڈین سنیما ہال میں دکھایا گیا تھا۔

    ایک دور میں‌ فلموں کا مرکز کلکتہ اور ممبئی ہوا کرتا تھا۔ نعیم ہاشمی نے وہیں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنا اور اپنے کام کو نکھارنا سیکھا۔ انھوں‌ نے فنّی تربیت کلکتہ میں لی اور وہاں تقسیمِ ہند سے قبل 1946ء میں وہ اپنی پہلی فلم ’چاندنی چوک‘ میں نظر آئے تھے۔ اس دور میں کلکتے میں ٹھاکر ہِمت سنگھ نے ایک گروپ بنا رکھا تھا جس میں‌ ہیرو کے طور پر سلیم رضا کو کام دیا جاتا تھا، لیکن جب شاعر اور مصنّف سیف الدین سیف نے ٹھاکر صاحب کو نوجوان نعیم ہاشمی سے ملوایا تو انھوں نے کچھ سوچ کر خوب رو نعیم ہاشمی کو ہیرو اور سلیم رضا کو اسی فلم میں وِلن کا رول دیا۔ یوں نعیم ہاشمی نے اداکاری کا آغاز کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد نعیم ہاشمی لاہور میں‌ سکونت پذیر ہوئے۔ یہاں‌ بھی انھوں نے فلم نگری سے ناتا جوڑا اور اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار نذیر کے ادارے میں کام شروع کرنے لگے۔ نعیم ہاشمی نے نذیر کے لیے خاتون، نورِاسلام، شمع اور عظمتِ اسلام جیسی فلمیں لکھیں اور کئی فلموں میں‌ بطور اداکار کام کرکے خود کو منوایا۔ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

  • کیدار شرما کا تذکرہ جن سے نام وَر فلمی ستاروں نے ‘بخشش’ وصول کی

    کیدار شرما کا تذکرہ جن سے نام وَر فلمی ستاروں نے ‘بخشش’ وصول کی

    کیدار شرما جن اداکاروں اور آرٹسٹوں کے کام سے خوش ہوتے، انھیں انعام میں‌ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔ بالی وڈ کے کئی ستاروں نے ان سے داد اور بخشش وصول کی تھی جن میں راج کپور، دلیپ کمار، گیتا بالی اور نرگس بھی شامل ہیں۔ بالی وڈ کے اس باکمال اور کام یاب فلم ساز نے آج ہی کے دن 1999ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

    کیدار شرما نے کئی اداکاروں اور مختلف آرٹسٹوں کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا اور کام کرنے کا موقع دیا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ فلم سازی کے ساتھ فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں کا علم اور ان میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔

    12 اپریل 1910ء کو نارووال (پاکستان) میں پیدا ہونے والے کیدار شرما نے امرتسر میں تعلیم مکمل کی اور روزگار کی تلاش میں ممبئی چلے گئے۔ 1933ء میں کیدار کو دیوکی بوس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”پران بھگت” دیکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انھیں بہت متاثر کیا اور کیدار نے فلم نگری میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا، اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے کولکتہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح دیوکی بوس سے ملاقات ہوگئی اور انہی کی سفارش پر نیو تھیٹر میں بطور سنیماٹو گرافر کام ملا۔

    سنیماٹو گرافر کی حیثیت سے کیدار کی پہلی فلم ‘سیتا’ تھی۔ اس کے بعد نیو تھیٹر کی فلم ‘انقلاب’ میں انھیں ایک چھوٹا سا کردار نبھانے کو ملا اور 1936ء میں فلم ”دیو داس” نے انھیں ایک باصلاحیت فن کار ثابت کرتے ہوئے فلمی کیریئر بنانے کا موقع فراہم کیا۔بعد میں‌ انھوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی شناخت بنائی۔ "چتر لیکھا” وہ فلم تھی جس نے انھیں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام یاب کیا۔ انھوں نے راج کپور کو پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ 1950ء میں کیدار نے فلم ”باورے نین” بنائی اور گیتا بالی کو پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی ایک فلم ”جوگن” سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں دلیپ کمار اور نرگس نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

    کیدار شرما نغمہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے گیت تحریر کیے۔ ان کا فنی سفر تقریباً پانچ دہائیوں تک جاری رہا اور ان کا نام بڑے پردے کے ایک باکمال کی حیثیت سے امر ہوگیا۔

  • اے حمید: پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں!

    اے حمید: پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں!

    کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کے لیے اے حمید نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا۔ بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کر کے اے حمید نے خوب شہرت پائی۔ ان کا یہ ڈرامہ 90 کی دہائی میں ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا۔ آج اس معروف قلم کار کی برسی ہے۔

    اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔ 2011ء میں‌ وفات پانے والے اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    ایک جگہ اے حمید لکھتے ہیں، ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

    انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی یادگار چھوڑیں۔ اے حمید کی چند مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • آغا حشر کاشمیری: ڈرامہ نویس اور شاعر

    آغا حشر کاشمیری: ڈرامہ نویس اور شاعر

    جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈرامہ اور تھیٹر کی تاریخ موضوعِ بحث آئے گی، آغا حشر کاشمیری کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ اردو ڈرامے کے عروج اور تھیٹر پر اس کی مقبولیت کے حوالے سے ان کا اہم مقام ہے۔

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے مشہور ڈرامہ نویس اور بہترین مترجم تھے۔ ان کے زمانے میں تھیٹر ہر خاص و عام کی تفریح کا بڑا ذریعہ تھا جس کے لیے آغا حشر کاشمیری نے طبع زاد کھیل اور غیر ملکی ادیبوں کے ڈراموں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔ ان کا مدفن لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں ہے۔

    یکم اپریل 1879 کو امرتسر میں پیدا ہونے والے آغا حشر کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ انھیں نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے پڑھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور ڈراموں کی ہدایات بھی دینے لگے۔ وقت کے ساتھ ان کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی گئی اور ان کا شمار بڑے ڈرامہ نگاروں میں ہونے لگا۔

    ہندوستان بھر میں ان کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو شائقین نے اتنا سراہا کہ انھیں ایک سے زائد مرتبہ تھیٹر پر پیش کیا گیا اور ہر بار بڑی تعداد میں‌ لوگ ان سے لطف اندوز ہوئے۔ اس زمانے میں تھیٹر پر معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا اور انھیں اردو ادب میں‌ بھی جگہ ملی۔

    آغا حشر شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

  • سَر عبداللہ ہارون: تحریکِ آزادی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار

    سَر عبداللہ ہارون: تحریکِ آزادی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار

    ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جن سیاست دانوں اور مخیّر حضرات نے دن رات ایک کردیا اور ہر موقع پر آگے نظر آئے، ان میں حاجی عبداللہ ہارون بھی شامل ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    سر عبداللہ ہارون 27 اپریل 1942ء کو وفات پاگئے تھے۔ آزادی کا سورج طلوع ہونے تک تو وہ زندہ نہ رہے تھے، لیکن جدوجہد کے آغاز کے بعد غلامی کی زنجیروں کی کم زور پڑتی ہر کڑی ضرور ان کی طاقت اور حوصلہ بڑھاتی رہی تھی۔ سر عبداللہ ہارون نے سیاست سے سماج تک مختلف شعبوں میں مسلمانوں کے لیے جو خدمات انجام دیں انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے سندھ میں تحریکِ آزادی کے لیے فعال و متحرک کردار ادا کیا اور قائدِ اعظم کے بڑے مددگار کی حیثیت سے اپنا سرمایہ اور دولت خرچ کرتے رہے۔

    1872ء میں پیدا ہونے والے سر عبداللہ ہارون نے بچپن میں غربت اور تنگ دستی دیکھی تھی، لیکن اپنی محنت اور لگن کے ساتھ مستقل مزاجی سے بعد میں کراچی کے امیر تاجر اور ایک ایسی شخصیت بن کر ابھرے جس نے رفاہِ عامّہ کے کاموں پر بے دریغ رقم خرچ کی اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے خوب کام کیا۔ انھوں نے کم عمری میں کھلونوں کے کاروبار کا‌ آغاز کیا اور دن رات محنت کی بدولت کام یابی ان کا مقدر بنی۔ مال دار ہونے کے باوجود سادگی اور کفایت شعاری ان کا شعار رہا، لیکن دوسری طرف جب بھی سیاسی سرگرمیوں اور تحریکی کاموں کے لیے رقم کی ضرورت پڑی، وہ سب سے آگے نظر آئے۔

    سر حاجی عبداللہ ہارون نے 1901 میں سیاست میں دل چسپی لینا شروع کیا۔ سب سے پہلے عوامی جلسوں میں حصہ لیا اور 1909 میں اپنے تجارتی مرکز کو جوڑیا بازار سے منتقل کر کے ڈوسلانی منزل میں منتقل کردیا۔ ابتدا میں وکٹوریہ روڈ پر ایک بنگلہ خریدا بعدازاں جائیداد میں اضافہ ہوتا گیا اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے شروع ہوجانے پر اپنی رہائش کلفٹن میں’’سیفیلڈ‘‘ میں اختیار کرلی جو بعد میں ہندوستان کے مسلمان راہ نماؤں کی آمد و رفت اور جلسوں کا گڑھ بن گئی۔

    وہ کئی تنظیموں اور تحریکوں کے روح رواں رہے۔ 1913 میں کراچی کے شہری کاموں میں دل چسپی لینی شروع کی اور کراچی میونسپلٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جب برصغیر میں کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کی تحریکیں شروع ہوئیں تو 1919 میں سر عبداللہ ہارون سندھ خلافت کمیٹی کے صدر چنے گئے۔ بعدازاں آپ کو سینٹرل خلافت کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ لاڑکانہ میں خلافت کانفرنس کا بڑا اجلاس ہوا، جس میں عبداللہ ہارون بھی شریک رہے۔

    درد مند اور مسلمانوں کے خیر خواہ سَر عبداللہ ہارون نے شہر میں متعدد مدراس، کالج، مساجد اور یتیم خانے بنوائے۔ وہ مسلم لیگ کا فخر تھے اور تحریکِ آزادی میں تا دمِ‌ آخر سرگرم کردار ادا کیا۔ کراچی میں عبداللہ ہارون کالج ان کی یادگار ہے جب کہ شہر کے اہم تجارتی مرکز صدر کی ایک سڑک انہی سے موسوم ہے۔

  • یومِ‌ وفات: مدیحہ گوہر تھیٹر سے سماج تک

    یومِ‌ وفات: مدیحہ گوہر تھیٹر سے سماج تک

    پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے حوالے سے خدمات کے لیے مدیحہ گوہر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ تھیٹر اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں‌ اداکارہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ مدیحہ گوہر 2018ء میں آج ہی دن انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

    مدیحہ گوہر سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھیں۔ 1956ء میں کراچی میں پیدا ہونے والی اس آرٹسٹ نے بعد میں‌ لاہور میں‌ سکونت اختیار کرلی تھی۔ مدیحہ گوہر کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام خدیجہ گوہر تھا جو ایک قلم کار تھیں، جب کہ مدیحہ گوہر کی ایک بہن فریال گوہر نے بھی اداکاری اور فن کی دنیا میں پہچان بنائی۔ مدیحہ گوہر کی شادی معروف ڈراما نویس اور پروڈیوسر شاہد محمود ندیم سے ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی تھی جو ملک کی صفِ اوّل کی تھیٹر کمپنی شمار ہوئی۔

    زمانۂ طالبِ علمی ہی سے اداکاری اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے والی مدیحہ گوہر نے 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئیں اور یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر کے فن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء میں وطن واپس آنے کے بعد اجوکا تھیٹر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس تھیٹر کے تحت مقامی لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے نوٹنکی کا تجربہ کیا جسے دیسی اور مغربی روایت کی آمیزش نے قبولیت کے درجے پر پہنچا دیا۔ اجوکا تھیٹر کے لیے انھوں نے تین درجن سے زائد ڈرامے لکھے اور بیشتر میں اداکاری بھی کی۔ ان کے ڈراموں کا مقصد لوگوں میں‌ شعور اجاگر کرنا اور اصلاح کرنا رہا۔ اجوکا تھیٹر کے فن کاروں نے پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے علاوہ یورپ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے شہرت اور داد پائی۔

    مدیحہ گوہر کے ڈراموں میں انسان دوستی اور صنفی مساوات کا موضوع نمایاں رہا جسے انھوں نے نہایت پُراثر اور معیاری انداز سے مقامی مزاج اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا۔

    وہ حقوقِ‌ نسواں‌ کی علم بردار اور ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی پہچانی جاتی تھیں۔ 2006ء میں انھیں نیدرلینڈز میں ‘پرنس کلوڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا اور 2007ء میں وہ "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ” کی حق دار قرار پائی تھیں۔

    مدیحہ گوہر کا شمار پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے ان آرٹسٹوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند رکھا اور دوسروں سے بھی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں‌ کی، وہ اس حوالے سخت گیر مشہور تھیں۔

  • اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    بیسویں صدی کے نصف اوّل میں دبستانِ دلّی کے نثر نگار اشرف صبوحی ان ادیبوں میں سے ہیں جن کے بغیر تاریخِ دلّی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اردو ادب کی نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب شخصیات میں اشرف صبوحی کا نام سرفہرست اور ان کی تخلیقات معتبر اور مستند ہیں۔

    آج اشرف صبوحی کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو کے مشہور ادیب اور اوّلین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اشرف صبوحی نے ڈرامے، ریڈیو فیچر، بچوں کی کہانیاں، تنقیدی مضامین، دلّی کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر مقالے، افسانے، شخصی خاکے لکھے اور تراجم کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    22 اپریل 1990ء ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ انھیں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب مانا جاتا ہے۔ وقائع نگاری اور تذکرہ نویسی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ دلّی سے متعلق مضامین میں انھوں نے گویا ایک تہذیب، معاشرت اور ثقافت کو تصویر کردیا ہے۔ ان مضامین میں مختلف مشہور شخصیات اور عام لوگوں کے تذکرے ہی نہیں، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، پکوان، لباس اور استعمال کی مختلف اشیا تک کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اشرف صبوحی کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    اشرف صبوحی کی نثر میں ایسا جادو ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ کتاب ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا۔ رواں اور نہایت خوب صورت اسلوب نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین میں ان کی تحریریں مقبول ہوئیں۔

    ان کی مشہور تصانیف میں دلّی کی چند عجیب ہستیاں، غبارِ کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے کیے ہوئے تراجم دھوپ چھاؤں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہیں۔ اشرف صبوحی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ ان کے ایک مضمون گنجے نہاری والے کی دکان سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    "جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے، رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔”

  • طلوعِ صبح آزادی اور مصطفٰی علی ہمدانی

    طلوعِ صبح آزادی اور مصطفٰی علی ہمدانی

    برصغیر کے مسلمانوں کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب آزاد وطن کی نوید سنانے والے مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    مصطفیٰ علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کا تاریخی اعلان کرتے ہوئے ریڈیو پر جو الفاظ ادا کیے تھے وہ آج بھی ریکارڈ کا حصّہ ہیں: اس براڈ کاسٹر اور معروف شاعر نے کہا تھا، ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلامُ علیکم 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوعِ صبح آزادی۔‘‘

    ان کا بچپن اردو کے مایہ ناز انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا تھا جس نے ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق پیدا کردیا۔ 1939ء میں وہ لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے اور 1969ء میں ریٹائر ہوگئے۔

    مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔

    مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تلفظ اور الفاظ کی درست ادائی کے حوالے سے سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • مارک ٹوین: مشہور امریکی طنز نگار جن کی حاضر جوابی کی بھی مثال دی جاتی ہے

    مارک ٹوین: مشہور امریکی طنز نگار جن کی حاضر جوابی کی بھی مثال دی جاتی ہے

    مارک ٹوین دنیا بھر میں‌ طنز نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ وہ ایک ناول نگار، صحافی اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 21 اپریل 1910ء کو مارک ٹوین نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    اس امریکی مصنّف کا اصل نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا جو 1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہوئے۔ وہ جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ ان کے ناول ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ بھی شائقینِ ادب میں بہت مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے مارک ٹوین و توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اپنی دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس مارک ٹوین بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔