Tag: اپریل وفات

  • اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    اقبال بانو جنھیں فیض کی نظم گانے کی ‘سزا’ ملی

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو بامِ عروج پر پہنچانے والی اقبال بانو سُر اور ساز ہی نہیں اردو زبان کی لطافت اور چاشنی سے بھی خوب واقف تھیں۔ ان کا تلفظ نہایت عمدہ اور ادائیگی کا انداز پُراثر تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا جس نے ان کی گائیکی کو بے مثال بنا دیا تھا۔ آج اس گلوکارہ کی برسی ہے۔

    اقبال بانو کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک ان کا اثر رہتا۔ برصغیر پاک و ہند کی یہ منفرد اور بے مثال گلوکارہ 21 اپریل 2009ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کے فن کو عروج پر لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز سترہ برس کی عمر میں‌ کرنے والی اقبال بانو نے 1952 میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر ملتان میں قیام پذیر ہوئیں۔

    انھوں نے یہاں اپنی گائیکی سے اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور باذوق حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کی آواز گونجی تو مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ اقبال بانو کی آواز میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ لوگوں تک پہنچی تو یہ کلام ہر خاص و عام میں‌ ایسا مقبول ہوا کہ ایک نعرے کی صورت میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔

    اقبال بانو کی گائی ہوئی غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسا گیت اقبال بانو کی آواز میں‌ امر ہوگیا۔

    فیض احمد فیض کا انقلابی کلام گانے کے بعد اقبال بانو کی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ دورِ آمریت تھا جس میں‌ ایک فن کار کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ نجی محافل میں‌ شرکت کرتی رہیں اور ان کی آواز میں فیض کی یہ مشہور نظم فرمائش کرکے سنی جاتی تھی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کا اعتراف کیا۔

  • ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    امتیاز علی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ ’انار کلی‘ ان کا شاہ کار ڈرامہ تھا۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت اور تخلیقی شعور کا اظہار کیا اور ریڈیو فیچر، فلمیں، مکالمہ نویسی کے ساتھ جو ڈرامے لکھے ان میں سب سے زیادہ شہرت ’انار کلی‘ کو ملی تھی۔

    یہ وہ اردو ڈرامہ ہے جس پر بے شمار فلمیں بنیں، اسے نصابی کتب میں‌ شامل کیا گیا اور جامعات میں‌ اس پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ اردو ادب کے نام وَر نقّادوں نے اسے نقد و نظر کے لیے موضوع بنایا۔ یہ ڈراما شہزادہ سلیم (جہانگیر) اور انار کلی کے فرضی معاشقے پر مبنی تھا۔

    امتیاز علی تاج کو ایک قاتل نے ہمیشہ کے لیے ہم سے چھین لیا تھا۔ 19 اپریل 1970ء کو دَم توڑنے والے امتیاز تاج پر دو چاقو برداروں نے رات کو اس وقت حملہ کیا جب گہری نیند میں‌ تھے۔ ان کی شریکِ حیات بھی ان کے ساتھ سو رہی تھیں۔ چاقو کے وار سے زخمی ہونے والے امتیاز علی تاج چند گھنٹے زندگی اور موت سے لڑتے رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں۔ ان کے قتل کی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی اور قاتل بھی گرفتار نہیں‌ ہوسکے۔

    انار کلی کے علاوہ چچا چھکن امتیاز تقاج کا تخلیق کردہ وہ کردار ہے جس سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے ادیب اور باذوق قارئین بھی واقف ہیں۔ امتیاز علی تاج کو علم و ادب کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ ان کی والدہ محمدی بیگم مشہور رسائل کی مدید اور مضمون نگار تھیں جب کہ شریکِ حیات کا نام حجاب امتیاز علی تھا جو اپنے وقت کی نام ور افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی کے فیض یافتہ اور امام بخش صہبائی کے شاگرد تھے۔ اسی طرح والد ممتاز علی اپنے وقت کی قابل ترین علمی و دینی ہستیوں کے قریبی دوست اور ہم مکتب رہے تھے۔

    اردو کے اس مشہور ڈرامہ نویس نے 13 اکتوبر 1900ء میں‌ جنم لیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ وہ اپنے کالج میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے اور ڈرامہ اور شاعری سے خاص دل چسپی رکھنے کے سبب طلبا میں نمایاں تھے۔ خود بھی غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ امتیاز تاج نے افسانہ نگاری ے ساتھ کئی عمدہ تراجم بھی کیے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ و دیگر کی کہانیوں کے ترجمے کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ امتیاز علی تاج نے ادبی اور سوانحی نوعیت کے مضامین بھی لکھے۔ گاندھی جی کی سوانح پر مبنی ان کی کتاب ’بھارت سپوت‘ کے علاوہ محمد حسین آزاد، حفیظ جالندھری اور شوکت تھانوی پر ان کے مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

    امتیاز تاج کا شمار مستند صحافیوں میں‌ بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا صحافتی سفر ’’تہذیب نسواں‘‘ سے شروع کیا تھا اور پھر ’کہکشاں‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ شائع کیا جس نے مختصر عرصہ میں اپنی پہچان بنا لی۔ امتیاز علی تاج نے بعد میں ایک فلم کمپنی ’تاج پروڈکشن لمیٹیڈ‘ کے نام سے بھی بنائی۔

  • لارڈ بائرن: رومانوی عہد کا سب سے بڑا شاعر

    لارڈ بائرن: رومانوی عہد کا سب سے بڑا شاعر

    برطانوی شاعر لارڈ بائرن کو رومانوی عہد کا سب سے بڑا تخلیق کار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے زمانے کا مقبول شاعر بھی تھا اور اپنی بعض عادات اور نظریات کی وجہ سے ناپسندیدہ اور بدنام بھی رہا۔

    میتھیو آرنلڈ نے بائرن کے بارے میں کہا تھا: ’’لارڈ بائرن لکھنے پر مجبور ہے اور ہم اسے پڑھنے پر مجبور ہیں۔‘‘

    22 جنوری 1788ء کو بائرن نے لندن میں جیک بائرن کے گھر میں‌ آنکھ کھولی۔ تعجب کی بات ہے، مگر بائرن جس خاندان کا فرد تھا، وہ لوگ خبطی اور دوسروں کی نظر میں ناپسندیدہ تھے۔ اس کا باپ پاگل جیک مشہور تھا جب کہ دادا جو بحریہ میں بڑا افسر تھا، وہ بھی عجیب آدمی تھا۔ بقول اس کی نوکرانی کے وہ کثرتِ مے نوشی کے بعد فرش پر لیٹ جاتا اور مخصوص آواز نکال کر حشرات کو اپنے جسم پر رینگنے کی دعوت دیتا۔ مکڑیاں، چوہے اور چھپکلیاں اس کے قریب آجاتے اور جب وہ تھک جاتا تو انھیں بھگا دیتا تھا۔ یہی نہیں بائرن کی ماں بھی جھگڑالو اور بدزبان عورت تھی۔

    بائرن کا ایک پاؤں پیدائشی طور پر ٹیڑھا تھا اور وہ کچھ لنگڑا کر چلتا تھا۔ وہ کم عمری میں‌ اپنے باپ کی شفقت سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ بائرن کی ماں اسے ایک اناڑی ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس نے اس کی تکلیف بڑھا دی اور ساری زندگی وہ لنگڑا کر چلتا رہا۔

    بائرن کا دادا نہایت امیر تھا اور اس کی دولت پوتے کے ہاتھ لگی تو اس نے عیاشیوں پر اڑا دی۔ بائرن کو لارڈ کا خطاب ملا اور وہ پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا، جہاں اس نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح‌ کیا کہ پورا لندن اس کا مخالف ہو گیا۔ اس نے دو تقریریں کیں، جن میں خطابت کے جوہر تو دکھائے، لیکن لندن کے باسیوں اور ان کے طرزِ زندگی پر کڑی تنقید بھی کر ڈالی۔ اس نے اشرافیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی دوسری تقریر مزدوروں کے حق میں تھی۔ وہ صنعتی انقلاب کا بڑا مخالف ثابت ہوا اور مشینوں کو بے روزگاری کا سبب بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر مشین 50 مزدوروں کو گھر بٹھا دیتی ہے۔

    اس کی دوسری تقریر نے برطانیہ کے مذہبی طبقے کو مشتعل کر دیا تھا۔ لارڈ بائرن نے مذہب کو ریاست کا حصّہ بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر مذہب کو آزادی ملنا چاہیے اور لوگوں کو اپنی مرضی سے اپنی رسومات کی ادائیگی کا حق دینا چاہیے۔ صرف ایک مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ بائرن کے ان نظریات نے ایک ہجوم کو اس کے خلاف اکٹھا کر دیا۔ وہ اپنی پُر زور مخالفت سے تنگ آگیا تو دنیا کی سیر کرنے کی غرض سے نکل پڑا۔ بعد میں لندن آیا تو اپنی تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کردیا۔

    کہتے ہیں اس کی کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور وہ اتنی مقبول ہوئی کہ اسے انگریزی زبان کا بڑا شاعر قرار دے دیا گیا۔ اس کی نظمیں بے حد مقبول ہوئیں اور ان میں سے بعض اپنے وقت کی شاہ کار تخلیقات شمار کی جاتی ہیں۔

    جب بائرن نے اپنے زمانے کے دو نام ور اور مقبول ترین تخلیق کاروں ورڈز ورتھ اور کولرج پر کو تنقید کی تو قارئین اس سے سخت ناراض ہوئے اور بائرن کی کتاب کی فروخت پر اس تنقید کا منفی اثر پڑا۔

    لندن میں اپنی مخالفت اور لوگوں کی نفرت نے بائرن کو بیزار کردیا تو اس نے یورپ کا رخ کیا اور وہاں بھی اسے بہت پذیرائی ملی۔ بائرن ایسا شاعر تھا جس نے مختلف جانور بھی پالے۔ ان میں لومڑی، بندر، طوطا، بلّی، عقاب وغیرہ شامل ہیں‌ جب کہ سب سے زیادہ محبت اسے اپنے کتّے سے تھی۔

    1823ء میں یونانیوں اور ترکوں کے مابین جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج نے لی پانٹو نامی قلعے پر قبضہ کر لیا تو بائرن نے بھی اس قبضے کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا۔ وہ یونان کا حامی تھا۔ اس نے یونانی جرنیل کے ساتھ مل کر قلعے کا قبضہ حاصل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا اور حملہ کردیا، جس میں بائرن زخمی ہو گیا۔ اس کا علاج شروع ہوا تو تیز بخار ہوگیا اور 19 اپریل 1824ء کو بائرن کی موت واقع ہوگئی۔

    فوج میں وہ بہت مقبول تھا اور یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اگر بائرن زندہ رہتا تو اسے یونان کا بادشاہ بنا دیا جاتا۔ بائرن کو لندن میں دفن کرنا تھا لیکن یونانی اس بات پر بضد تھے کہ اسے یونان میں دفنایا جائے چنانچہ بائرن کا دل وہیں دفن کردیا گیا۔ اس کا جسد خاکی لندن پہنچایا گیا، لیکن چوں کہ وہ مذہبی حلقوں میں ناپسند کیا جاتا تھا اور لندن کے پادری بھی اس کے سخت مخالف تھے، تو اسے دفن کرنا مشکل ہو گیا۔ دو دن کے بعد اسے سینٹ میری چرچ کے قبرستان میں دفنایا گیا۔

  • ہشام اوّل کے خلاف سلیمان کی بغاوت: امارتِ قرطبہ کا ایک ورق

    ہشام اوّل کے خلاف سلیمان کی بغاوت: امارتِ قرطبہ کا ایک ورق

    مؤرخین نے ہشام اوّل کو نرم دل، رعایا پرور اور نیک و عبادت گزار حکم راں لکھا ہے جو بہترین نظم و نسق اور اپنے حسنِ سلوک کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ وہ امارتِ قرطبہ کے بانی اور پہلے حکم ران عبدالرّحمٰن الداخل کا بیٹا تھا جو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا۔

    ہشام بن عبدالرحمٰن الداخل کا سنِ پیدائش 26 اپریل 757ء بتایا جاتا ہے جس کی زندگی کا سفر آج ہی کے دن 796ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ وہ امارتِ قرطبہ کے دوسرے حکم ران کی حیثیت سے 788ء میں تخت پر بیٹھا تھا۔ ہشام ایک علم پرور، ادب دوست خلیفہ ہی مشہور نہیں بلکہ اپنے محاسن و اخلاق کی بنا پر عوام میں‌ بھی مقبول رہا۔

    وہ قرطبہ میں پیدا ہوا تھا۔ ہشّام کی کنیت ابوالولید تھی۔ اسے عبدالرحمٰن الدّاخل نے اپنی زندگی میں ہی اپنا ولی عہد مقرر کر کے بطور جانشین اس کے نام کا اعلان کر دیا تھا۔ ہشّام کے بھائی سلیمان کو والد کا یہ فیصلہ سخت گراں‌ گزرا تھا، لیکن مجال نہ تھی کہ اختلاف کرتا۔

    مؤرخین اس سے متعلق ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے: ایک مرتبہ عبدالرحمٰن الدّاخل نے اپنے ان دونوں بیٹوں کی ذہانت اور قابلیت کی آزمائش کے لیے انھیں‌ اشعار سنا کر شاعر کا نام پوچھا۔ ہشام نے شعر سن کر بتایا کہ اس کا حافظہ کہتا ہے یہ اشعار امرؤ القیس کے ہیں اور میرا گمان ہے کہ یہ اشعار اس نے ہمارے امیر ہی کی شان میں کہے ہیں۔ عبدالرحمٰن نے اسے سراہا اور اس کا جواب قبول کیا اور پھر دوسرے اشعار سلیمان کے سامنے پڑھے مگر اُس نے کہا کہ مجھے عربوں کے اشعار یاد کرنے کی فرصت نہیں، کیوں کہ مجھے اس سے زیادہ دوسرے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں۔ عبدالرحمٰن یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ یہ واقعہ احمد محمد المقری کی مشہور تصنیف میں موجود ہے۔

    788ء میں عبدالرحمٰن الدّاخل کا انتقال ہو گیا۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ: ’’جس وقت عبدالرحمٰن نے سفرِ آخرت اختیار کیا تو اُس وقت اُس کا بڑا بیٹا سلیمان طلیطلہ میں حکم رانی کر رہا تھا اور اُس کا دوسرا بیٹا ہشام ماردہ کا انتظام سنبھالے ہوئے تھا۔ عبدالرحمٰن نے اِسی کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ تیسرا بیٹا عبد اللہ مسکین وفات کے وقت قرطبہ میں موجود تھا۔ اپنے باپ کے مرنے پر اپنے بھائی ہشام کی حکومت کی بیعت کر لی اور اُس کو خبر پہنچائی۔ چنانچہ ہشام ماروہ سے قرطبہ آیا اور حکم رانی کی عبا پہن کر حکم رانی کرنے لگا۔

    ہشام کی حکومت قائم ہوتے ہی اُس کے بڑے بھائی سلیمان نے بغاوت کر دی اور اپنے ہمراہ طلیطلہ کے باشندوں سمیت جنگ پر اتر آیا۔ ہشام کا چھوٹا بھائی عبد اللہ بھی پسِ پردہ سلیمان سے جا ملا اور محض غائبانہ بیعت کی آڑ میں موقع پاکر قرطبہ سے فرار ہو گیا اور سلیمان کے پاس پہنچ کر بغاوت کے منصوبے میں اُس کا شریکِ کار ہو گیا۔ ہشام نے دونوں کو پیش قدمی کرنے کا موقع نہ دِیا خود فوج لے کر روانہ ہو گیا۔ طلیطلہ شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے وہاں مقابلہ نہ کرنے کا سوچا۔ طلیطلہ کے محاصرے کو دو مہینے گزر گئے مگر مقابلے کے لیے سلیمان کی کوئی سپاہ نہ نکلی اور ہشام واپس قرطبہ آگیا۔ عبد اللہ نے جب دیکھا کہ ہشام کی فتح مندی عروج پر ہے تو وہ سلیمان کو چھوڑ کر تمرد چلا گیا اور ہشام پر بھروسا کرتے ہوئے بغیر امان طلب کیے بغیر کسی اطلاع کے قرطبہ میں آگیا جہاں ہشام اُس سے حسنِ سلوک سے پیش آیا۔ چند روز بعد سلیمان نے مصالحت کرنی بہتر سمجھی اور ہشام نے اُسے اپنے خاندان سمیت اندلس سے چلے جانے کی اجازت دے دی۔ جہاں سے وہ مراکش میں بربر قبائل کے ساتھ سکونت پر آمادہ ہو گیا اور یوں جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

    ہشام نے محض 39 سال کی عمر میں قرطبہ میں وفات پائی۔ اس نے اپنے بیٹے الحکم بن ہشام کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ ہشام کی تدفین قصرِ قرطبہ میں‌ کی گئی۔

  • بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    بنجمن فرینکلن کی وہ عادت جس نے اس کا احساسِ شرمندگی دور کیا

    غربت اور مفلسی کو اپنے ارادے کی پختگی، محنت اور لگن سے شکست دے کر غیرمعمولی اور مثالی کام یابیاں سمیٹنے والے بنجمن فرینکلن نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سے یہ اقتباس پڑھیے جو اس کی زندگی کی وضاحت کرتا ہے۔

    "میں اپنی کام یابیوں اور کارناموں سے بہت خوش تھا، کام یابی میرے قدم چوم رہی تھی مگر اس کے باوجود مجھے یہ سب خوشیاں خالی خولی نظر آتیں۔ مجھے سب کچھ کھوکھلا سا دکھائی دیتا۔ ایک بار میں نے تنہائی میں بیٹھ کر اس چیز کا جائزہ لیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں ایک اچھا دوست یا ساتھی نہیں تھا۔ میں صرف لوگوں سے اسی بات کی توقع رکھتا تھا کہ وہ میری عزّت کریں، میری تعریف کریں، خود میں کبھی بھی کسی کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ میں صرف حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا نہ کہ دینے پر۔

    اس روز میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو یکسر بدل ڈالوں گا اور میں نے 12 نیکیوں کا انتخاب کرلیا اور فیصلہ کیا کہ ہر روز ان میں سے ایک میں کروں گا اور ہوسکے تو پوری کی پوری نیکیاں ایک دن میں کر کے دکھاؤں گا اپنے آپ کو۔ اب میرا یہ اصول ہوگیا تھا کہ میں جس روز ایسا نہ کرتا اپنے روزنامچے میں ان نیکیوں یا خوبیوں کے آگے صفر لکھ دیتا۔ صفر دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں اس بارے میں بڑا پکا اور مضبوط ہو گیا۔ اب میرے روزنامچے میں صفر نہیں ہوتا تھا۔”

    بنجمن فرینکلن 17 جنوری 1706ء کو امریکا کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ اسے ایک سیاست دان، تاجر، ناشر، سائنس دان اور سفارت کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنجمن فرینکلن کو چار زبانیں آتی تھیں۔

    بوسٹن میں اس کا خاندان مفلسی کی زندگی بسر کررہا تھا بنجمن نے جب سنِ شعور میں قدم رکھا تو بوسٹن سے نکل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ فلاڈیلفیا چلا آیا۔ تہی دامن بنجمن فرینکلن نے یہاں پہنچ کر چھوٹے موٹے کام کرکے گزر بسر شروع کی۔ جلد ہی کسی طرح‌ اسے اشاعت و طباعت کا کام مل گیا اور وہ ناشر بن کر اس کام سے خوش حال ہو گیا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا شوق شروع ہی سے تھا۔ سائنس میں‌ اس کی دل چسپی پڑھنے کی حد تک ہی نہیں تھی بلکہ وہ تجربات بھی کرتا رہتا تھا۔ فارغ وقت میں سائنسی کتب پڑھ کر ان کی مدد سے مختلف بنیادی سائنسی فارمولوں، اشیا اور مشینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور سادہ تجربات بھی کرتا جس نے ایک دن اسے موجد بنا دیا۔

    اس نے برقیات اور روشنی کے حوالے سے تحقیقی کام بھی کیا اور بطور سائنس دان بائی فوکل عدسہ، چولھا (اسٹوو) ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ ایجادات اس کی وجہِ شہرت بنیں۔ لیکن اس کی کام یابیوں کا سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت صحافی اور قلم کار بھی اس نے امریکا میں بڑی شہرت پائی۔

    اشاعت و طباعت تو اس کا کام تھا ہی، اس نے بعد میں poor richard’s almanack کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کردیا جس کا طرزِ تحریر بہت پسند کیا گیا۔ اس کے کئی برس بعد بنجمن فرینکلن کی خود نوشت سوانح منظرِ عام پر آئی اور یہ بہت مقبول ہوئی۔ آج بھی امریکی اسے رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اس کتاب میں‌ بنجمن فرینکلن نے اپنی زندگی کے کئی اہم اور دل چسپ واقعات رقم کیے ہیں جو غربت سے اس کی امارت اور کام یابیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    اسی عرصے میں اس نے سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی امریکا میں‌ پہچان بنائی۔ اسے ایک قابل منتظم قرار دیا جاتا ہے جس نے نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کیا۔ بعد میں وہ قانون ساز کے طور پر پنسلوانیا کی مجلس میں منتخب ہوا اور فرانس میں امریکا کا سفیر رہا۔ بنجمن امریکی آئین ساز مجلس کا بھی رکن تھا اور ان شخصیات میں‌ شامل ہے جنھوں‌ نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔

    17 اپریل 1790ء کو بنجمن فرینکلن نے پھیپھڑوں کے ایک مرض کے سبب زندگی کی بازی ہار دی تھی۔

  • دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کا تذکرہ

    موسیقار امجد بوبی کا تعلق ایک فن کار گھرانے سے تھا۔ وہ رشید عطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے، موسیقار صفدر حسین اور ذوالفقار علی اور گلوکار منیر حسین بھی ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی کلاسیکی گائیک تھے، لیکن خود کو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لیے امجد بوبی کو خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔

    فلمی تذکروں کے مطابق بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امجد بوبی کی پہلی فلم اک نگینہ (1969ء) تھی۔ اس میں احمد رشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔” اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتّھر ہی ملے۔” کے علاوہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا۔” بڑے خوب صورت گیت تھے۔ اسی سال فلم میری بھابھی پردے پر سجی اور کے گیت بھی اچھّے تھے۔ لیکن کوئی گیت سپرہٹ ثابت نہیں‌ ہوا اور امجد بوبی اپنی پہچان کروانے میں بھی ناکام رہے۔

    اسّی کی دہائی میں موسیقار کے طور پر امجد بوبی نے شہرت پائی اور اپنے فن کا عروج دیکھا۔ فلم نقشِ قدم (1979) میں گلوکار اے نیّر کی آواز میں "کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام” وہ گیت تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔

    امجد بوبی کی ایک وجہِ شہرت پاکستانی فلموں کے گیتوں کی بمبئی میں ریکارڈنگ کروانا ہے جس نے انھیں پاکستانی موسیقاروں میں‌ ممتاز کیا۔ انھوں نے جاوید شیخ کی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ کے لیے بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے اور پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو امجد بوبی نے کئی مدھر دھنیں دینے کے ساتھ ساتھ اس فن میں‌ نت نئے تجربات کرکے بلاشبہ خود کو جدّت پسند موسیقار ثابت کیا۔

    آج امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2005ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں انھوں نے 1942 میں آنکھ کھولی۔ امجد بوبی نے گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی فلموں کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ ان کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

  • مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کے حامی سارتر کی کہانی

    مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کے حامی سارتر کی کہانی

    ژاں پال سارتر نے نوبل انعام وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کر کے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ آج اسی سارتر کا یومِ وفات ہے جس نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول نہیں‌ کیا تھا۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس کے اس عظیم فلسفی، دانش وَر، ڈراما اور ناول نگار اور محقق نے 1980ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ سارتر کو سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں اس کے افکار اور نظریات کی وجہ سے بڑا مقام و درجہ حاصل ہے اور دنیا بھر میں اسے پہچانا جاتا ہے۔

    1905ء سارتر کا سنِ پیدائش ہے اور وہ ایک سال کا تھا جب اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگیا۔ اس کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ بھی تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارا دن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتا اور اپنے ملک کی سیاسی، سماجی حالت پر غور کرتا رہتا تھا۔اسی مطالعے اور غور و فکر کی عادت نے سارتر کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ ژاں پال سارتر نے اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ اسے نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق جنون کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ فنونِ لطیفہ میں سارتر کی دل چسپی اس قدر تھی کہ وہ خود بھی بہت اچھا گلوکار اور پیانو نواز تھا۔ کھیلوں میں سارتر نے باکسنگ میں‌ غیر معمولی دل چسپی لی اور خود بھی اچھا باکسر رہا۔

    جب دنیا سارتر کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوئی تو سارتر کو فرانس کا ضمیر کہا۔ اس کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے اسے انسانوں کے درمیان وہ بلند مرتبہ اور مقام عطا کیا جس نے دنیا بھر میں انسانوں کو متاثر کیا۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگیا، لیکن اس معذوری کے باوجود ایک بھرپور زندگی گزاری۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

    وہ درس وتدریس سے منسلک تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج نے سارتر کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک سال تک نظر بند رکھا تھا۔ ایک دن موقع ملتے ہی سارتر فرار ہونے میں کام یاب ہوگیا اور بعد میں‌ جب فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا تو اس کے خلاف سارتر مزاحمت میں پیش پیش رہا۔ جنگ کے بعد وہ بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک بن گیا اور ایک جریدہ نکالا، جو بہت مقبول ہوا۔ اس جریدے میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوتی رہیں جو ملک میں نظریاتی بنیادوں پر انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں۔ سارتر کو فلسفۂ وجودیت کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

    ژاں پال سارتر نے جہاں اپنی فکر سے اور سیاسی اور سماجی انقلاب کے لیے عملی طور پر جدوجہد کی تھی، وہیں ادب کے میدان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی بھرپور اظہار کیا۔ اس کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا تھا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کا زبردست حامی تھا، لیکن کسی جماعت اور گروہ سے وابستہ نہیں رہا۔ سارتر نے جنگ کے خلاف تحریکوں میں سرگرم کارکن کی طرح اپنا کردار نبھایا۔ الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف سارتر نے آواز بلند کی اور اس سلسلے میں‌ ہونے والے بڑے مظاہروں میں اسے ہمیشہ صفِ اوّل میں‌ دیکھا گیا۔

    مشہور ہے کہ جب مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کی حمایت پر فرانس میں‌ ژاں پال سارتر کو گرفتار کیا گیا اور اس کی اطلاع ملی تو ملک کے حکم ران ڈیگال نے بے اختیار کہا، سارتر تو فرانس ہے، اسے کون قید میں رکھ سکتا ہے اور اسی وقت جیل کے دروازے کھلوا دیے۔

  • ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جسے امریکا کا غریب ترین صدر کہا جاتا ہے

    ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جسے امریکا کا غریب ترین صدر کہا جاتا ہے

    ابراہم لنکن کو امریکہ کے غریب ترین صدور میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ انھیں امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر بھی کہا جاتا ہے جس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور ہمّت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا میں نام و مقام پایا۔ اس امریکی صدر کو 1865ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کر دیا گیا تھا۔

    امریکا میں ان کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ سیاہ فام افراد کی آزادی اور اس معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی سے ملک کو ٹوٹنے سے بچانا تھا۔ ابراہم لنکن کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز اور سیاست کے میدان میں مخالفت کے باوجود ان کی کام یابیوں کی داستان لائقِ توجہ ہے۔ وہ 12 فروری 1809ء کو کینٹکی، امریکا کے ایک چھوٹے کاشت کار کے گھر پیدا ہوئے۔ ابراہم لنکن دو سال کے تھے جب ان کے والد ایک مقدمہ میں اپنی زمین ہار گئے اور اس گھرانے کے لیے مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ یہ خاندان ریاست انڈیانا منتقل ہوگیا جہاں وہ ایک سرکاری زمین پر کیبن بنا کر اس میں رہنے لگے۔ اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ وہ صرف ایک سال ہی اسکول جاسکے اور بعد میں اپنی سوتیلی ماں سے پڑھا۔

    لنکن کا بچپن اور نوجوانی کا عرصہ بھی غربت اور تکالیف جھیلتے اور محنت کرتے ہوئے گزرا۔ انھوں نے نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، مگر انھوں نے مشکلوں سے لڑنا سیکھ لیا تھا۔

    نوجوان لنکن نے معاش کی تگ و دو کے ساتھ وکالت بھی پڑھنا شروع کردی۔ وہ کام سے فارغ ہو کر کتابوں میں سَر دیے بیٹھے رہتے اور پھر وہ وقت آیا جب ان کا شمار شہر کے کام یاب وکلا میں ہونے لگا۔

    ابراہم لنکن نے زندگی جینے کا گُر اپنے والد سے سیکھا تھا جو اپنی زمین سے محروم ہونے کے بعد محنت مشقّت کر کے کنبے کا پیٹ بھرتے رہے۔ انھوں نے زرعی زمین پر، جولاہے کے پاس کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور پھر لوگوں کے جوتے سیتے اور مرمت کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ اسی نے ابراہم لنکن کو جینا سکھایا۔

    1861ء میں ابراہم لنکن امریکا کے صدر بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی سینیٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا، جو سینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔

    ابراہام لنکن صدر بنے تو انھوں نے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کردیا، اور ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کر لیا، امریکی اشرافیہ ان اصلاحات سے براہِ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ سب ابراہم لنکن کے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے صدر کی کردار کشی کا سلسلہ شروع کردیا۔

    سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہم لنکن کا مذاق اڑایا جاتا اور ان کا حوصلہ پست اور ہمّت توڑنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پڑھیے۔

    وہ اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لیے سینیٹ پہنچے اور صدر کے لیے مخصوص نشست کی طرف بڑھے تو ایک سینیٹر نے اپنی نشست سے ابراہم لنکن کو مخاطب کیا اور بولا، ”لنکن صدر بن کر بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا“۔

    اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ‎لنکن نے اس سینیٹر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ‎”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے بھی جوتے سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکا میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے باپ سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لیے کہ پورے امریکا میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا باپ ایک موجد تھا، وہ اپنے بنائے ہوئے جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جوتا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جوتے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔“ ‎ابراہم لنکن کی تقریر ختم ہوئی تو پورے ہال میں خاموشی تھی۔

    امریکی صدر کو ایک شخص نے اس وقت گولی مار دی تھی جب وہ فورڈ تھیٹر میں ڈراما دیکھ رہا تھا۔

  • سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں بنانے والے ایس سلیمان

    سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں بنانے والے ایس سلیمان

    پاکستان میں فلمی صنعت کے زمانۂ عروج میں کئی ہدایت کار آئے جنہوں نے نہایت شان دار اور کام یاب ترین فلمیں شائقینِ سنیما کو دیں اور انڈسٹری میں‌ اپنی صلاحیتوں کو بھی منوایا۔ انہی میں‌ سے ایک سید سلیمان المعروف ایس سلیمان تھے۔ سینئر ہدایت کار اور پروڈیوسر ایس سلیمان پچھلے سال 14 اپریل کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    ایس سلیمان ماضی کے اداکار سنتوش کمار اور درپن کے چھوٹے بھائی تھے۔ بھارت کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والے ایس سلیمان کی پہلی فلم ’گلفام‘ 1961 میں ریلیز ہوئی۔ ایس سلیمان نے 60 سے زائد فلموں کے لیے ہدایات دیں۔ 1975ء میں فلم ’’زینت‘‘ ریلیز ہوئی تھی، جس میں نام ور اداکارہ شبنم نے زینت کا یادگار رول ادا کیا تھا۔ ایس سلیمان اس فلم کے ہدایت کار تھے، جنہوں نے سماج میں بیٹی کی پیدائش کو بُرا سمجھنے والوں کو اس فلم میں آئینہ دکھایا تھا۔ وہ ان فن کاروں میں‌ سے تھے جو معاشرتی، اصلاحی اور سماجی مسائل پر فلمیں بنانے کے حوالے سے یاد کیے گئے۔

    29 دسمبر 1938ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے اس ہدایت کار کا اصل نام سیّد سلیمان تھا۔ ان کے والدین کا تعلق بھی فنی دنیا سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی سنتوش کمار پاکستان کے پہلے سپر اسٹار اور بھابھی صبیحہ خانم پہلی سپر اسٹار فن کارہ رہی ہیں۔

    ایس سلیمان نے خود بھی چائلڈ ایکٹر کے طور پر فلموں میں کام کیا تھا۔ وہ اس صنعت سے بہ طور تدوین کار وابستہ ہوئے تھے اور 1953ء میں بننے والی فلم ’’غلام‘‘میں بہ طور اسسٹنٹ ایڈیٹر پہلی بار کام کیا۔

    1963ء میں ایس سلیمان نے ’’باجی‘‘ نامی ایک بہت ہی لاجواب فلم بنائی تھی۔ اس فلم کے گانے بھی بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’دل کے افسانے‘‘ ’’چندا توری چاندنی‘‘ ’’سجن لاگے توری‘‘ ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘‘شامل تھے۔ ایس سلیمان نے دو پنجابی فلمیں بھی بنائیں۔

    ایس سلیمان کو پہلا نگار ایوارڈ فلم ’’آج اور کل‘‘ کے لیے دیا گیا تھا۔ یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی جو جہیز کی فضول اور غیر اسلامی رسم کے خلاف عوام کو زبردست پیغام تھی۔ بہ طور ہدایت کار ان کی آخری ریلیز شدہ فلم ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ تھی، جو 1998ء میں ریلیز ہوئی۔

    پاکستان کے اس معروف ہدایت کار نے 80 برس کی عمر پائی۔ ان کی چند کام یاب ترین فلموں میں ’’اُف یہ بیویاں، آج اور کل، اناڑی، منزل، گلفام، آگ، سبق، زینت، انتظار، ابھی تو میں جوان ہوں شامل ہیں۔

  • ممتاز پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی کی برسی

    ممتاز پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر سائنس دان اور استاد ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی نے 1994ء میں‌ آج ہی کے دن دارِ بقا کی جانب کوچ کیا تھا۔ سائنس اور بالخصوص کیمسڑی کے میدان میں‌ انھوں نے دنیا بھر میں‌ پاکستان کا نام روشن کیا جس کے اعتراف میں ملک اور بیرونِ ملک کئی اعزازات سے نوازے گئے۔

    1966ء میں ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی نے جامعہ کراچی میں حسین ابراہیم جمال پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری قائم کیا تھا اور زندگی بھر یہاں‌ خدمات انجام دیتے رہے۔

    ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ 1919ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا، بعد میں انگلستان اور جرمنی سے کیمسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1927ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے بعد ہندوستان لوٹ آئے جہاں مشہور حکیم اجمل خان کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوئے۔ یہ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کا ایک بڑا مرکز اور مستند ادارہ تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی پاکستان کراچی چلے آئے۔ 1983ء میں انھوں نے پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور بانی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    اپنے طویل علمی و تحقیقی سفر میں انھوں نے تین سے زائد ریسرچ پیپرز لکھے اور چالیس سے زائد پیٹنٹس اپنے نام کیں جو زیادہ تر نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری سے تعلق رکھتی ہیں۔

    ڈاکٹر صدیقی کا ایک اہم کام چاند بوٹی یا راوولفیا سرپنٹینا نامی پودے پر ہے جو پاک و ہند میں عام پایا جاتا ہے۔ ایک عرصے سے اسے مختلف امراض کے علاج میں استعمال کیا جارہا ہے۔

    حکیم اجمل خان کے قائم کردہ ایک نئے طبی کالج کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد آیورویدک اور یونانی طب پر تحقیق کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے انھوں نے راوولفیا سرپنٹینا پودے سے نو اہم الکلائیڈز کشید کیے۔ الکلائیڈز وہ کیمیکل ہوتے ہیں جو پودوں اور درختوں میں عام پائے جاتے ہیں۔ مارفین، کونین اور کیفین وغیرہ مشہور الکلائیڈز ہیں۔ سلیم الزماں صدیقی کا یہ کام دنیا میں امراضِ قلب، بلڈ پریشر اور دماغی بیماریوں کے علاج کے لیے کارآمد اور مفید ثابت ہوا۔

    ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی ایک اچھے مصوّر بھی تھے۔ ان کی تصاویر کی باقاعدہ نمائشیں بھی منعقد ہوتی رہیں۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا جب کہ بیرونِ ممالک سے جو اعزازات ان کے حصّے میں آئے، ان میں سوویت سائنس اکیڈمی اور کویت فائونڈیشن کے طلائی تمغے اور برطانیہ کی رائل اکیڈمی آف سائنسز اور ویٹیکن اکیڈمی آف سائنسز کی رکنیت سرفہرست ہیں۔