Tag: اپریل وفات

  • امینُ الملک کا خطاب پانے والے میر معصوم شاہ بکھری کا تذکرہ

    امینُ الملک کا خطاب پانے والے میر معصوم شاہ بکھری کا تذکرہ

    سندھ کے قدیم اور تاریخی حیثیت کے حامل شہر سکھر میں سب سے نمایاں عمارت میر معصوم شاہ بکھری کا مینار ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ سکھر کے ہر کونے سے نظر آتا تھا، لیکن آبادی بڑھنے کے ساتھ اس کے اطراف رہائشی اور مختلف دوسری عمارتیں بنتی چلی گئیں اور یہ مینار ان کے درمیان کہیں گم ہوگیا ہے۔ آج میر معصوم شاہ بکھری کا یومِ وفات ہے جنھوں نے یہ مشہور مینار تعمیر کروایا تھا۔

    تاریخ کے اوراق میں‌ میر معصوم شاہ بکھری کا سنِ وفات 1606ء درج ہے۔ وہ سندھ کے مشہور شہر سکھر کے ممتاز عالم، مؤرخ اور ادیب اور شاعر ہی نہیں‌ بہادر سپاہی اور فوجی افسر بھی تھے۔ معصوم شاہ اس زمانے کے مشہور علاقے بکھر میں 1528ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ جائے پیدائش کی نسبت ان کے نام کے ساتھ بکھری لکھا جاتا ہے۔ وادی سندھ کی اس نابغۂ روزگار ہستی کے کار ہائے نمایاں سے نہ صرف سندھ بلکہ ہندوستان کی تاریخ بھی روشن ہے۔ انھیں امینُ الملک کا خطاب دیا گیا تھا۔

    وہ فنونِ سپہ گری و تیغ زنی کا شوق بھی رکھتے تھے اور میدانِ جنگ میں اس کا مظاہرہ بھی خوب کیا۔ آپ کی جرأت و بہادری کے کارنامے سکھر شہر کے گرد و نواح میں مشہور تھے۔ ان کی اس بہادری اور کارناموں کی خبر کسی طرح شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر کو ہوگئی تو اس نے میر معصوم شاہ کو طلب کرکے ان کی عزّت افزائی کی اور انھیں اپنی فوج کا افسر مقرر کیا۔ فوج میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد معصوم شاہ 20 سال تک اجمیر سمیت مختلف علاقوں میں فتنوں کو کچلنے میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں کئی محاذوں پر لڑائی میں‌ حصّہ لیا۔

    میر معصوم کو شعر و ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ گجرات کی مہم کے دوران آپ نے ہندوستان کی تاریخ پر مشتمل کتاب ’’طبقاتِ اکبری ‘‘کے مصنّف اور ادبی شخصیت خواجہ نظام الدّین احمد کی معاونت کی تھی اور اسی دوران آپ نے خود بھی سندھ کی تاریخ لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔

    کئی بغاوتوں‌ کو کچلنے اور شاہی فوج کے لیے جنگی مہمّات انجام دینے کے بعد انھیں‌ ایران میں مغلیہ سلطنت کا سفیر مقرر کیا گیا۔ سفارتی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ وطن واپس آگئے تھے اور یہیں‌ انتقال کیا۔ انھوں نے اپنے شہر میں رفاہِ‌ عامّہ کے کام کروائے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تصنیف و تالیف کا شوق بھی پورا کیا۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری کی سندھ کی تاریخ پر تاریخِ معصومی نامی کتاب مشہور ہے جو بہت مستند مانی جاتی ہے۔ یہ کتاب انھوں نے فارسی زبان میں‌ تحریر کی تھی۔ ان کی چند دیگر کتب میں ’پنج گنج‘،’طب و مفردات نامی‘، فارسی شاعری کے دو دیوان، رباعیات کا دیوان شامل ہے۔ ان کا یہ علمی اور ادبی سرمایہ سندھ کی ثقافت کا درخشاں باب ہے۔

    سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر سکھر میں میر معصوم شاہ بکھری نے ایک مینار تعمیر کروایا تھا جو انہی کے نام سے موسوم ہے۔ اس مینار کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی ہی نہیں بنیادوں پر اس کا قطر بھی 84 فٹ ہے اور اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی 84 ہے۔ مینار کی چوٹی گنبد کی مانند ہے جس پر لوگ چڑھ کر دور تک نظارہ کرسکتے ہیں۔ سیڑھیوں کے درمیان مختلف جگہوں پر خوبصورت کھڑکیاں بنائی گئی ہیں تاکہ روشنی اور ہوا بھی آسکے۔ میر معصوم شاہ بکھری کی وفات کے بعد اس مینار کو ان کے بیٹے نے مکمل کروایا تھا۔

    میر محمد معصوم شاہ بکھری کا مزار ان کے تعمیر کردہ مینار سے ملحق قبرستان میں ہے۔

  • اردو اور پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر فارغ بخاری کا تذکرہ

    اردو اور پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر فارغ بخاری کا تذکرہ

    فارغ بخاری نظریاتی طور پر ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ انھوں نے موضوع، زبان اور شعری ہیئتوں کو نئے تجربات سے آشنا کیا اور اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    ان کا ایک نمایاں تجربہ غزل کی صنف میں‌ ہے۔ اپنے شعری مجموعے ’’غزلیہ‘‘ میں انھوں نے غزل کی ہیئت اور تکنیک کا نیا انداز نقّادوں‌ کے سامنے رکھا۔

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری نے 14 اپریل 1997ء کو وفات پائی۔ وہ پشاور سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے ترقّی پسند تحریک سے وابستگی کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پیدا ہوئے۔ پشتو اور اردو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے ان کی بیش بہا خدمات اور گراں قدر کام آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے رضا ہمدانی کے ساتھ کئی علمی، تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کام کیا اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ فارغ بخاری نے شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان کے عنوان سے نثر میں‌ یادگار چھوڑی ہیں۔

    انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے مشرقی زبانوں کے کئی امتحانات پاس کیے۔ عملی زندگی میں انھوں نے اردو ادبی صحافت کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ ماہنامہ ’نغمۂ حیات‘ اور ہفت روزہ ’شباب‘ کے مدیر رہے اور ’سنگ میل‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ فارغ بخاری کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    یہی ہے دورِ غم عاشقی تو کیا ہوگا
    اسی طرح سے کٹی زندگی تو کیا ہوگا

  • احمد رشدی کا تذکرہ جن کی پہچان شوخ اور چنچل گیت بنے

    احمد رشدی کا تذکرہ جن کی پہچان شوخ اور چنچل گیت بنے

    احمد رشدی کی گائیکی کے جس پہلو کا احاطہ کریں، وہ اس میں‌ باکمال نظر آتے ہیں۔ انھوں نے سولو، ڈسکو، پاپ میوزک، کلاسیکل میوزک، ہپ ہاپ میوزک جیسی تمام اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اور ہندوستان میں مقبول اصنافِ موسیقی اور شاعری جیسے غزل کو بھی نبھایا۔

    احمد رشدی نے موسیقی کی کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی گانے پر جذباتی انداز میں ایسے پرفارم کرتے تھے کہ دیکھنے والا کھو سا جاتا تھا۔

    اس گلوکار نے کئی زبانوں میں گانے گائے جن میں گجراتی، مراٹھی، تامل، تلگو، بھوجپوری شامل ہیں لیکن اردو زبان میں‌ ان کی آواز میں شوخ نغمات اور گیت زیادہ مشہور ہوئے۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر رشدی کی آواز میں تقریباً 150 گانے گائے فلمائے گئے اور سبھی مقبول ہوئے۔

    11 اپریل 1983ء کو احمد رشدی ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ احمد رشدی کی آواز میں یہ سدا بہار گیت بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی….آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ اسی طرح کوکو رینا اور آیا گول گپّے والا آیا وہ نغمات تھے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    پاکستان کے اس مشہور گلوکار نے 1935ء میں حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ فلم عبرت سے پسِ پردہ گائیکی کا آغاز کیا اور 1954ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے جہاں ریڈیو پاکستان پر بندر روڈ سے کیماڑی جیسے مقبول نغمے سے گائیکی کا سفر شروع کیا۔

    پاکستان میں احمد رشدی کی بطور پسِ پردہ گلوکار پہلی فلم کارنامہ تھی۔ تاہم اس کی ریلیز سے پہلے فلم انوکھی ریلیز ہوگئی جس کے گیت بھی انھوں نے گائے تھے۔ ان کی آواز میں اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم کے بعد احمد رشدی کی کام یابیوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وہ فلم انڈسٹری میں‌ مصروف ہوگئے۔ ان کی آواز میں گیتوں کو پاکستان اور سرحد پار بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    وہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ورسٹائل اور مقبول ترین گلوکار تھے۔ اس زمانے میں‌ گویا ان کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ انھوں نے شوخ اور رومانوی نغمات کے علاوہ المیہ اور طربیہ شاعری کو بھی اپنی آواز میں اس طرح سمویا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔ احمد رشدی دھیمے سُروں، چنچل اور شوخ موسیقی کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے میں کمال رکھتے تھے۔

    انھیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا جن میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے بعد از مرگ دیا جانے والا ستارۂ امتیاز بھی شامل ہے۔

  • فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے مختلف اہم شعبوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والی ممتاز ترین شخصیت رفیع پیرزادہ کی ہے اور بعد میں اسی گھرانے کی شخصیات تھیٹر اور فلم، ڈراما، رقص، موسیقی اور پتلی تماشے کے فن میں نمایاں ہوئیں۔

    رفیع پیرزادہ 1898ء میں بنّوں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان کے بزرگ کشمیر سے گجرات میں آ کر آباد ہوئے اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے گئے۔ وہ علاّمہ اقبال کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور اُن کے صاحب زادے، پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک برطانوی خاتون سے شادی کر لی تھی۔ یوں رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی اور فنونِ لطیفہ سے اوائلِ عمری ہی میں واقف ہوگئے۔

    کہتے ہیں کہ جب رفیع پیرزادہ اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر پیش کرنے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا، اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچے اور معلوم ہوا کہ تھیٹر کا یہ آخری دن ہے اور اب یہ لوگ دلّی روانہ ہو رہے ہیں۔ کم عمر رفیع پیرزادہ کے دل میں کیا آیا کہ کچھ نہ دیکھا اور کمپنی کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ ادھر اہلِ خانہ ان کی گُم شدگی پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ دلّی پہنچ کر جب وہاں تھیٹر کے منتظمین نے شو کا آغاز کیا تو جس مہمانِ خصوصی کو مدعو کیا، وہ رفیع پیر کے دادا کے دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑ گئی اور اسے پہچان لیا، پوچھنے پر آگاہ ہوئے کہ رفیع پیر نے تھیٹر کے شوق میں کیسی حرکت کی ہے۔ فوراً اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور یوں وہ چند روز بعد لاہور پہنچا دیے گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رفیع پیر اداکاری کے کس قدر دیوانے تھے۔

    رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور وہ اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ ان کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے اور رفیع ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔ اکثر جلسوں میں آگے آگے رہتے اور قائدین کے ساتھ ساتھ وہ بھی پولیس کی نظروں میں آ گئے۔ تب اہلِ خانہ نے رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1916ء میں وہ قانون کی تعلیم کی غرض سے اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ برلن گئے جو پورے یورپ میں فن و ثقافت کا مرکز تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے اور یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا تھی۔انھوں نے کسی طرح برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کی توجہ حاصل کر لی تھی جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں خاصا کام کیا اور اس عرصے میں معروف فن کاروں کے درمیان رہنے اور سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جرمنی میں‌ قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

    اسی زمانے میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے اور ہٹلر سے نفرت اور کچھ معاملات کے سبب چند سال بعد رفیع پیر وہاں سے ہندوستان پہنچ گئے، لیکن خطرات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں جب کہ بیٹی بچ گئی اور طویل عمر پائی۔

    رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے اور وہ تھیٹر کی جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے واحد ہندوستانی فن کار تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس کے تربیت یافتہ فن کار آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دُنیا کے نام وَر اداکار ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں رفیع پیر زادہ نے پنجابی کا مشہور ڈراما، ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسٹیج کیا اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اُسی زمانے میں ان کے نظر ثانی شُدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    ہندوستان آنے کے بعد رفیع پیر کی لاہور بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک بار لاہور آئے، تو والدہ نے ان کی شادی کروا دی۔ 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

    برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی صلاحیتوں اور فن کی دھوم مچ گئی تھی۔ انھوں نے تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ رفیع پیر نے لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

    رفیع پیر پاکستان کے ایسے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی علمی و ادبی حلقوں اور فن و ثقافت کی دنیا کے بڑے ناموں نے افسوس کا اظہار کیا اور اسے فن کی دنیا کا بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کی یاد میں مختلف پروگرام پیش کیے گئے اور ان کے فن کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

    رفیع پیر 1974ء کو آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

  • صوفی شاعر سچل سرمست ؒ  کا تذکرہ

    صوفی شاعر سچل سرمست ؒ کا تذکرہ

    وادیٔ سندھ میں جن بزرگانِ دین کی تعلیمات کے ماننے والوں اور صوفیا کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ان میں سچل سرمست ؒ کا نام بھی نمایاں ہے۔ انھیں شاعرِ ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کے جدِ امجد میاں صاحب ڈنو فاروقی کی سندھ کی قدیم ریاست خیر پور میں اپنی خانقاہ سے رشد و ہدایت عام کرنے میں‌ مصروف تھے۔ اسی زمانے میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بعد میں سندھ پر یورش کر دی۔ اس دورِ پرآشوب میں 1739ء میں ریاست خیر پور کے علاقے رانی پور کے قریب کے ایک چھوٹے سے گاؤں درازا شریف کے ایک مذہبی گھرانے میں سچل سرمست کی پیدائش ہوئی جن کا اصل نام عبد الوہاب تھا، جو بعد میں وہ اپنی صاف گوئی اور روشن کردار کی وجہ سے سچل یعنی سچ بولنے والے مشہور ہوگئے۔ انھیں تاریخ میں سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سچل سرمست ؒ کے دادا میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ بھی اپنے زمانے کے معروف بزرگ اور شاعر تھے۔

    سچل سرمست کے والد کے بعد ان کی پرورش چچا کے زیرِ سایہ ہوئی۔ سچل سرمست نے عربی، فارسی اور تصوف کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں قرآن بھی حفظ کرلیا۔ ابھی سچل سرمست کی عمر چھے سال ہی تھی کہ اپنے زمانے کے بزرگ اور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ خیر پور تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ یہاں انھوں نے سچل سرمست کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ لڑکا معرفت کی منازل طے کرے گا۔سچل سرمست اس کے بعد ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ فقہ و تفسیر کی کتابیں پڑھیں اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعر بھی کہنے لگے۔

    سچل سرمست اکثر تنہائی میں غور و فکر میں ڈوبے رہتے۔ جوانی ہی سے عبادت گزار اور روزے، نماز کے پابند تھے اور درود و وظائف میں وقت گزارتے تھے۔ ان کا کلام سات زبانوں عربی ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، فارسی اور اردو میں ملتا ہے جس کی بنا پر وہ ہفت زبان شاعر بھی کہلائے۔ انھوں نے اپنے صوفیانہ کلام سے فقہی اختلافات دور کرنے اور درباری عالموں کو جواب دینے کی کوشش کی جو اس دور میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں لوگوں نے پسند کیا اور ان کی شاعری بہت جلد مقبولیت حاصل کرگئی۔ ان کے وحدت الوجود کے فلسفے نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا تھا اور وہ روحانی بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

    سچل سرمست نے 11 اپریل 1827 عیسوی یعنی 14 رمضان 1242ھ میں وفات پائی اور اپنی آبائی خانقاہ درازا شریف میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ حضرت سچل سرمستؒ نے جس بی بی سے نکاح کیا تھا، وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں جب کہ خدا نے اولاد بھی نہیں دی تھی۔

    مرزا علی قلی بیگ حضرت سچل سرمست کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’وہ سفید ریش مبارک رکھتے تھے، جوتا کبھی پہنتے، کبھی ننگے پاؤں ہی گھر سے نکل جاتے، ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی، سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے، چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے، اکثر طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے۔‘‘

    انھوں نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکم رانوں‌ کا دور دیکھا اور تمام عمر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں پیار محبّت، بھائی چارہ اور امن کا پیغام عام کرتے رہے۔

  • مفکّر اور مقبول ترین شاعر خلیل جبران کا تذکرہ

    مفکّر اور مقبول ترین شاعر خلیل جبران کا تذکرہ

    لبنان کے خلیل جبران کا نام ایک مقبول ترین شاعر، مصنّف اور مفکر کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے اپنے افکار کی بدولت دنیا بھر میں پہچان بنائی اور اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا۔ آج خلیل جبران کا یومِ‌ وفات ہے۔ عربی ادب میں‌ اس کا نام ایک باغی تخلیق کار کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔

    1923ء میں‌ خلیل جبران کی کتاب ’پیغمبر‘ شائع ہوئی تھی جس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی اور دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ اس کتاب کو امریکا میں بیسویں صدی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کہا جاتا ہے۔ خلیل جبران شاعر ہی نہیں‌ مصوّر بھی تھا اور یہی فن ان کا ذریعۂ روزگار تھا۔ پیرس میں ایک آرٹ اسکول سے مصوّری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے خلیل جبران نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ادب تخلیق کیا اور روایتی اصنافِ سخن کو بھی اپنے افکارِ تازہ سے سجاتے ہوئے اس میں تبدیلیاں بھی کیں‌۔ اسے کلاسیکی جمالیات کے مقابلے میں جدیدیت کو اپنانے والا اسلوب ساز تخلیق کار کہا جاتا ہے۔

    خلیل جبران 6 جنوری 1883 کو لبنان میں پیدا ہوا، اور نوجوانی میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ ہجرت کر گیا۔ یہ خاندان مالی طور پر آسودہ نہ تھا اور والد مسیحی پادری تھے۔ دیارِ غیر میں اس نے اپنی والدہ کو سخت محنت اور چھوٹے موٹے کام کرکے گھر کے اخراجات اور اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے کوشش کرتے دیکھا۔ اس کے ایک بھائی اور والدہ نے ایک مرض میں وفات پائی۔ جبران مغربی ثقافت سے متاثر تھا اور یہ دیکھ کر اس کے گھر والوں نے اسے لبنان بھیج دیا تھا جہاں تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن ساتھ ہی ادب اور لکھنے لکھانے کا بھی آغاز ہو گیا تھا اور لبنان میں‌ اس نے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ وہ کالج میں شاعر کے طور پر مشہور ہوگیا اور بعد میں پہلی کتاب ’پاگل‘ کے نام سے شائع کروائی۔

    بیروت میں قیام کے دوران وہ عالمی ادب بھی پڑھتا رہا اور پچھلی صدی عیسوی میں ساٹھ کی دہائی میں‌ خلیل جبران کی شاعری اور اس کے افکار کی مقبولیت امریکا اور عرب ممالک تک پھیل گئی۔

    خلیل جبران 48 برس کی عمر میں 10 اپریل 1931ء کو ٹی بی کے مرض کے باعث دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وفات کے وقت وہ نیویارک میں‌ تھا اور اس کی وصیت کے مطابق موت کے ایک سال بعد اس کا جسدِ‌خاکی لبنان لایا گیا جہاں‌ اس کی تدفین کی گئی۔ آج بھی اس فلسفی، شاعر اور مصوّر کے یادگاری مجسمے اس کے وطن لبنان کے علاوہ امریکا اور یورپ بھر میں‌ دیکھے جاسکتے ہیں۔

  • تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    تُم بِن ساجن یہ نگری سنسان….گلوکار اسد امانت علی کا تذکرہ

    پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسد امانت علی کی آواز میں‌ کئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھول رہے ہیں۔ وہ کلاسیکی موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے۔ اس فن کار کی آواز کو دنیا بھر میں سنا گیا اور ان کے فن کو بہت سراہا گیا۔ آج اسد امانت علی کی برسی ہے۔

    راگ اور کلاسیکی موسیقی سے شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور و معروف گلوکار استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ یہ وہ نام ہیں‌ جن کا ذکر نہ ہو تو پاکستان میں کلاسیکی گلوکاری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔

    اسد امانت علی نے آنکھ کھولی تو راگ راگنیوں، سُر تال اور ساز و انداز کے ساتھ آلاتِ‌ موسیقی کو دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ دس برس کی عمر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور بعد کے برسوں میں اس فن کار کی آواز لوگوں کی سماعتوں میں‌ رس گھولتی رہی۔ اسد امانت علی نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور ان کے گائے ہوئے مشہور گیت اور غزلیں محافل میں‌ پیش کرکے خوب داد پائی۔

    انہیں اصل شہرت "گھر واپس جب آؤ گے تم…کون کہے گا، تم بِن ساجن یہ نگری سنسان…” جیسے کلام سے ملی۔ اس گلوکار کی آواز میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے کئی مشہور شعرا کا کلام ریکارڈ کرکے پیش کیا گیا جب کہ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں‌ 8 اپریل 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال ہوگیا۔

  • ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    ملکۂ اودھ بیگم حضرت محل جنھیں انگریزوں کی غلامی کسی قیمت پر قبول نہ تھی

    برصغیر کی تاریخ کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکر و فریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا تھا۔ انھیں ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    اس دور اندیش، بہادر اور غیّور خاتون نے انگریز کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر ہر مذہب کے پیروکاروں کو متحد ہونے کی تلقین کی اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

    بیگم حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ وہ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    ہندوستان پر قبضہ کرتے ہوئے انگریز اودھ کے دربار پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے، لیکن انھیں یہ معلوم نہیں‌ تھا کہ ایک لڑکی راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو جائے گی۔

    تاریخ نے اس لڑکی کو کئی نام دیے مثلاً محمدی خانم، مہک پری، افتخار النساء، راج ماتا، جنابِ عالیہ، لیکن اس لڑکی کا سب سے مشہور نام بیگم حضرت محل تھا۔

    انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ہندوستانی ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کیا اور وہ کلکتہ چلے گئے تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔

    بیگم حضرت محل نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں انگریزوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم اور باحوصلہ ثابت ہوئیں، کیوں کہ وہ پالیسی سازی اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کرتے ہوئے ایک عورت ہونے کے باوجود میدانِ جنگ میں عزم و ہمّت کی مثال قائم کی۔ وہ دو سال تک لڑائی جاری رکھتے ہوئے اپنی افواج کو منظّم اور ان کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کرتی رہیں۔ ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات بڑھ گئیں، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ انگریزوں نے انھیں وظیفہ و شاہانہ طرزِ زندگی اور دوسری مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محروم ہوجانے کے بعد ان کا آزادی کا خواب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور وہیں ان کا مدفن بنا۔

  • "نہ جنوں رہا نہ پری رہی….” سراج اورنگ آبادی کا تذکرہ

    "نہ جنوں رہا نہ پری رہی….” سراج اورنگ آبادی کا تذکرہ

    اردو شاعری کے کلاسیکی دور کا ایک نام سراج اورنگ آبادی کا ہے جنھیں‌ صوفی شاعر بھی کہا جاتا ہے ان کی ایک غزل کا مطلع دیکھیے

    خبرِ تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
    نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

    اردو زبان کے ادیبوں اور شعرا نے اپنی کتابوں کے نام اس شعر سے مستعار لیے اور ٹیلی وژن ڈراموں کے لیے بھی ان دو مصرعوں سے نام چنا گیا۔ سراج اورنگ آبادی کی یہ غزل کئی مشہور اور بڑے گلوکاروں نے گائی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    سراج اورنگ آبادی ایک بڑے اور منفرد شاعر تھے جن کے کلام کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہے اور اس کی زبان برسوں بیت جانے کے باوجود تازہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کا سنِ پیدائش 1712ء اور یومِ‌ وفات 6 اپریل 1764ء ہے۔

    سراج کا پورا نام میر سراج الدّین تھا۔ والد نے ان کی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی تھی۔ بارہ سال کی عمر تک سراج متداول علوم کی تحصیل میں مصرف رہے۔ اور تمام فارسی اساتذہ کا کلام پڑھ ڈالا۔ مشہور ہے کہ اسی زمانے میں وہ صوفی بزرگ برہان الدّین کے مزار پر جانے لگے اور رفتہ رفتہ ان کی حالت ایک مجذوب کی سی ہوگئی۔ انھیں گھر میں قید رکھنا پڑا اور یہ حالت سات سال تک رہی۔ بعد میں انھوں نے اس دور کے ایک جیّد بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسی زمانے میں شاعری کا آغاز کیا۔ سراج کی کلیات میں غزلیں، قصیدے، رباعیات اور مثنوی شامل ہیں۔ لیکن وہ اپنی مثنوی’بوستانِ خیال’ اور اپنی غزلوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

    سراج کی شاعری اردو میں عشقیہ شاعری کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ سراج کا معاملہ رہا کہ وہ ایک صوفی اور درویش بن گئے تھے اور اسی لیے ان کے ہاں وارفتگی، سوز و گداز، کیف و سرمستی اور وجد کا عالم نظر آتا ہے جس میں عشق اور پاکیزگی اپنی انتہا پر ہے۔

    سراج کی شاعری میں زبان اور اسلوب، رنگِ تغزل، بے تکلفی، بے ساختگی اور سلاست پائی جاتی ہے۔ سراج کی زبان اپنے تمام ہم عصروں کے مقابلے میں‌ آج بھی زیادہ تازہ نظر آتی ہے۔

    سراج اورنگ آبادی کی مشہور غزل پیشِ خدمت ہے۔

    خبرِ تحیّرِ عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
    نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

    شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباسِ برہنگی
    نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

    چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
    مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہو سو ہری رہی

    نظرِ تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
    کہ شراب صد قدح آرزو خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

    وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
    کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

    کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراجؔ کوں
    نہ خطر رہا نہ حذر رہا، مگر ایک بے خطری رہی

  • مہدی ظہیر کا تذکرہ جن کی پُرسوز آواز میں قصیدہ بردہ شریف آپ نے بھی سنا ہو گا!

    مہدی ظہیر کا تذکرہ جن کی پُرسوز آواز میں قصیدہ بردہ شریف آپ نے بھی سنا ہو گا!

    شہرۂ آفاق نعتیہ کلام جسے قصیدہ بردہ شریف بھی کہتے ہیں، ہم سبھی نے سنا اور پڑھا بھی ہے۔

    امام بوصیری کا لکھا ہوا یہ قصیدہ صدیوں سے اسلامی دنیا میں مقبول ہے اور آج بھی نہایت عقیدت اور احترام سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبّت کے اس اظہار میں وارفتگی اور رقّت انگیزی اس کلام کا امتیازی وصف ہے۔

    اسلامی ممالک کے نعت خوانوں کی طرح پاکستان میں بھی قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کو نعت خواں اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں اور گلوکاروں نے بھی نہایت عقیدت سے یہ کلام گایا ہے، لیکن یہاں ہم صرف مہدی ظہیر کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب مہدی ظہیر نے قصیدہ بردہ شریف کو اپنے پُرسوز لحن میں‌ سامعین تک پہنچایا تو اسے بہت پسند کیا گیا۔

    مہدی ظہیر 5 اپریل 1988ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ شاعر، موسیقار اور ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر تھے اور گلوکاری کا شوق بھی رکھتے تھے۔ مہدی ظہیر 1927ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام افتخار مہدی تھا۔ 1974ء میں جب لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو شرکا اور ملک بھر میں سامعین نے ان کی آواز میں "ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی مصطفویٰ ہیں” جیسا نغمہ بھی سنا جس نے مسلمانوں میں جذبہ و شوق بھڑکایا اور امتِ مسلمہ کے تصوّر کو زندہ کر دیا۔

    مہدی ظہیر ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے تھے اور اسی زمانے میں احمد رشدی کی وجہ شہرت بننے والا مشہور گیت ’’بندر روڈ سے کیماڑی، مری چلی رے گھوڑا گاڑی‘‘ بھی تحریر اور کمپوز کیا تھا۔ فیض احمد فیض کی مشہور نظم "دشتِ تنہائی” کی موسیقی بھی مہدی ظہیر ہی نے ترتیب دی تھی۔