Tag: اپریل وفات

  • صادق ہدایت: ممتاز ایرانی ادیب کا تذکرہ جس نے خود کشی کرلی تھی

    صادق ہدایت: ممتاز ایرانی ادیب کا تذکرہ جس نے خود کشی کرلی تھی

    ایران میں سیاسی تبدیلیوں کے اثرات ادب پر بھی پڑے اور بادشاہت کا زمانہ رہا ہو یا اس کے بعد کی حکومت اور پھر انقلاب کا دور ہو، آزادیِ اظہار کے لیے ماحول سازگار نہیں رہا۔ فارسی ادب اور افسانہ بھی ان ادوار میں متاثر ہوتا رہا، لیکن صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاسکتا ہے۔

    وہ مصنّف و مترجم ہی نہیں‌ ایک ایسے دانش وَر کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے جس نے ایرانی ادب میں جدید تکنیک متعارف کرائی۔ صادق ہدایت کو بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ عظمت و مرتبہ اس کے افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ہے۔

    صادق ہدایت کی زبان بظاہر مزید سادہ اور واضح تھی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کردیتا کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    4 اپریل 1951ء کو ایران کے معروف تخلیق کار نے فرانس میں قیام کے دوران خود بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول ہوا۔ اسے فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔

    بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوا اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ اس نے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

    صادق ہدایت 1903ء کو تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے لیے فرانس چلا گیا جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کا اسے موقع ملا۔ بعد میں ایران لوٹ آیا، مگر یہاں کے حالات نے مجبور کردیا کہ وہ ہندوستان منتقل ہوجائے۔ اس زمانے میں وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکا تھا اور بمبئی میں رہتے ہوئے صادق نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ اس کی کہانیوں کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی اور بعد میں صادق ہدایت نے ڈرامہ نویسی اور سفرنامے بھی رقم کیے۔

    ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے جو جدید ایرانی ادب میں منفرد اور ممتاز تخلیقات ہیں۔ ہدایت نے فارسی افسانے کو ایک نیا شعور اور مزاج دیتے ہوئے عوام کی ترجمانی کی اور ان کے لیے انہی کی زبان کو اپنایا۔

  • فنِ خطّاطی میں موجد و مجتہد کا مقام پانے والے عبدالمجید پرویں رقم کا تذکرہ

    فنِ خطّاطی میں موجد و مجتہد کا مقام پانے والے عبدالمجید پرویں رقم کا تذکرہ

    نستعلیق کے خطاطوں میں خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قیامِ پاکستان سے ایک برس پہلے 1946ء میں آج ہی کے دن دارِ بقا کو چل دیے تھے لیکن ان کی ایجاد و طرز اور ان کا کام برسوں بعد بھی ہر خطاط کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

    عبدالمجید پرویں رقم کا شمار نادرِ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ بیسویں صدی میں فنِ‌ خطّاطی اور خوش نویسی میں‌ جن شخصیات نے نام و مرتبہ پیدا کیا، ان میں عبدالمجید پروین رقم بھی شامل ہیں جنھوں نے صرف 45 برس کی عمر پائی، لیکن اس فنِ لطیف میں ان کے کار ہائے نمایاں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    ان کا سب سے بڑا کارنامہ فارسی رسمُ الخط میں الف سے لے کر ی تک تمام حروف میں خوب صورت ترامیم تھا جسے اس زمانے میں سبھی نے سراہا اور تسلیم کیا۔ عبدالمجید پروین رقم نے نہ صرف انفرادی حروف کے حسن کو دوبالا کیا بلکہ حروف کے پیوند اور جوڑ بھی اُن کی مشّاق انگلیوں سے مستفید ہوئے اور انھوں نے اردو میں حروف کے ایک ایک شوشے کو نزاکتوں اور لطافتوں سے مزین کیا۔

    پرویں رقم 1901ء میں پنجاب کے ایک ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو پشت در پشت اس فن سے وابستہ تھا۔ ان کے والد مولوی عبد العزیز بھی ایک مشہور خطاط تھے۔

    فنِ کتابت سے محبّت انھیں ورثہ میں ملی تھی۔ لڑکپن ہی سے حروف کی نوک پلک سنوارنے میں دل چسپی لینے لگے اور ساتھ ہی دینی تعلیم بھی مکمل کی۔ فارسی کا درس بھی لیا اور شمسی رسمُ الخط میں وہ کمال پیدا کیا جو آپ ہی کا خاصہ ہے۔ اسی عرصۂ تربیت میں‌ شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی سے ملاقات ہوئی، جو حاذق طبیب ہونے کے ساتھ صاحب طرزِ ادیب، مصوّر اور نستعلیق طرزِ کتابت میں باکمال تھے۔ انھوں نے نہ صرف پرویں رقم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی کتابت میں‌ راہ نمائی بھی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرویں رقم قدیم و جدید رسمُ الخط میں پختہ و مشاق ہوگئے، یہاں تک کہ بعد کے برسوں میں نئی طرز کے موجد بنے جو بہت مقبول ہوا۔ ان کے خطاطی کے فن میں ایجاد و مہارت کو اساتذہ اور ہم عصر کاتبوں نے تسلیم کیا۔

    پرویں رقم باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ طبیعت میں بناوٹ اور تکلف نہ تھا، سبھی سے بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ کسرِ نفسی سے کام لیتے تھے۔

    انھوں نے خطِ نستعلیق کو ایک جدید اور دل کش طرزِ نگارش سے آراستہ کیا تھا اور اس فن میں‌ مجتہد کہلائے اور یہی سبب تھا کہ ان کی وفات پر اس زمانے کے اخبارات اور ریڈیو پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان میں خطاطی اور کتابت کے میدان میں پرویں رقم کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ پرویں رقم نے کلامِ اقبال کی خطاطی بھی کی جس پر خود شاعرِ مشرق نے انھیں سراہا تھا۔

  • یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    آج معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 29 اپریل2011ء کو وفات پاگئے تھے۔

    25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے قلم تھاما تو اے حمید مشہور ہوئے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید نے ناول، افسانہ اور ڈراما نگاری کے لیے اپنے مطالعے اور مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت سے موضوعات چنے اور واقعات کو کہانی میں ڈھالا، ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی طرزِ‌ تحریر اور کرشن چندر کا اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں انھیں شہرت اور ان کی کہانیوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم ادیبوں کو نصیب ہوئی، وہ نوجوانوں کے مقبول ناول نگار بنے۔ ان کی کہانیاں نوجوانوں میں تجسس، شوق اور کھوج پیدا کرنے کے ساتھ انھیں‌ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    اے حمید نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور فکشن نگار کی حیثیت سے نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے۔ انھوں نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈراما ’عینک والا جن‘ لکھا جو پی ٹی وی سے نشر ہوتا تھا۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔

    اے حمید کی کچھ مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • خوش شکل اور دراز قد شیام جس نے فلم کی عکس بندی کے دوران زندگی ہار دی

    خوش شکل اور دراز قد شیام جس نے فلم کی عکس بندی کے دوران زندگی ہار دی

    شیام کا نام آج شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جن کا بطور ہیرو فلمی سفر بہت مختصر رہا اور وہ 26 اپریل 1951ء میں ایک حادثے میں اپنی زندگی سے محروم ہوگئے۔ شیام کا اصل نام شیام سندر چڈھا تھا جنھوں نے 1920ء میں سیالکوت کے کتھری ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی اور راولپنڈی میں پرورش پائی۔ یہیں‌ تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد شیام فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔

    شیام نے اداکاری کا آغاز ایک پنجابی فلم”گوانڈی” سے کیا۔ یہ فلم 1942ء میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور تقسیم کے بعد وہیں رہے، بمبئی میں انھوں نے ایک اداکار کی حیثیت سے متعدد کام یابیاں سمیٹیں۔ لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور بطور ہیرو ان کی شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع ہوا تو زندگی ان سے روٹھ گئی۔

    شیام خوش شکل اور دراز قد تھے۔ وہ رومان پرور مشہور تھے۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اداکاراؤں کے ساتھ ان کی دوستیوں کا چرچا ہونے لگا۔ اس زمانے کے فلمی میگزین شیام سے متعلق خبریں اور فلم نگری میں ان کی قربتوں اور دوستیوں پر مضامین شایع کرتے رہتے تھے۔ ایک دن یہ خبر آئی کہ شیام گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے ہیں۔

    ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھے گھڑ سوار بھی تھے، لیکن فلم "شبستان” کی شوٹنگ کے دوران ایک سین کی عکس بندی کے دوران ان کا گھوڑا بدک گیا اور شیام زمین پر آرہے، لیکن پیر رکاب میں پھنس جانے اور گھوڑے کے مسلسل دوڑتے رہنے سے شیام کو سَر اور جسم پر شدید چوٹیں آئیں اور جب تک لوگوں نے گھوڑے کو قابو کیا، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شیام کو اسپتال لے جایا گیا مگر وہ زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔

    شیام کی فلموں کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہے۔ بازار ان کی کام یاب ترین فلم تھی جسے 1949ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ من کی جیت، پتنگا، مینا بازار میں‌ بھی شیام نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    شیام محض 31 سال کے تھے جب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے گہرے دوست بھی تھے۔

  • پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    26 اپریل 2005ء کو فلمی صنعت کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر انتقال کرگئے تھے۔ ان کا شمار ایسے فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جو انڈسٹری میں‌ اپنے کام کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے بھی سرگرم رہے اور اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ آج پنجابی فلموں‌ کے اس مشہور اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے لگ بھگ 150 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، خلیفہ نذیر کی اداکاری میں بے ساختگی ہوتی تھی جو فلم بینوں کو محظوظ کرتی تھی۔ خلیفہ نذیر نے پنجابی فلموں میں مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے رنگیلا اور منور ظریف کے بعد بڑی مقبولیت حاصل کی۔

    ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1963ء میں اردو فلم خون کی پیاس سے ہوا تھا تاہم ان کی شہرت کا آغاز 1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم زمیندار سے ہوا جس میں وہ ایک منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کے طور سامنے آئے۔ انھوں نے اس فلم کے ولن الیاس کاشمیری کے منشی کے طور پر اردو، پنجابی مکس زبان میں مکالمے بول کر جہاں شائقین کو اس انداز سے محفوظ ہونے کا موقع دیا، وہیں متاثر کن اداکاری بھی کی تھی۔

    خلیفہ نذیر نے زیادہ تر پنجابی فلموں میں ہی کردار نبھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں بھائیاں دی جوڑی، انورا، اصغرا، دولت اور دنیا، انتقام، غلام، اک دھی پنجاب دی، بے تاب اور ماں پتر کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے فلم مستانہ میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔

  • یومِ وفات: تھیٹر سے سماج تک ہمہ جہات مدیحہ گوہر کا تذکرہ

    یومِ وفات: تھیٹر سے سماج تک ہمہ جہات مدیحہ گوہر کا تذکرہ

    مدیحہ گوہر پاکستان میں فنونِ لطیفہ کا معتبر حوالہ اور اسٹیج اور ٹیلی ویژن کی دنیا کی معروف فن کار تھیں جو 25 اپريل 2018ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں پاکستان میں حقوقِ انسانی کی سرگرم کارکن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ وہ سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھیں۔

    مدیحہ گوہر نے 1956ء میں کراچی میں آنکھ کھولی اور بعد میں‌ لاہور منتقل ہوگئیں، ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا، والدہ خدیجہ گوہر بھی قلم کار تھیں، جب کہ ایک بہن فریال گوہر بھی اداکاری اور آرٹ اور ثقافت میں نام ور ہوئیں۔ مدیحہ گوہر کی شادی معروف ڈراما نویس اور پروڈیوسر شاہد محمود ندیم سے ہوئی اور انھوں نے مل کر 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی جو ملک کی صفِ اول کی تھیٹر کمپنی شمار ہوئی۔

    وہ زمانہ طالب علمی ہی سے اداکاری اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگی تھیں۔ علم و ادب کے شوق نے 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کروایا، اور وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئیں جہاں یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر کے فن میں ماسٹرز کیا۔

    1983ء میں وطن لوٹنے پر انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ اس تھیٹر کے تحت مقامی مسائل کو اجاگر کیا گیا اور اس کے لیے نوٹنکی کا تجربہ کیا جسے دیسی اور مغربی روایت کی آمیزش نے قبولیت کے درجے پر پہنچایا اور ان کے اس تھیٹر نے پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے علاوہ یورپ میں بھی شہرت اور داد پائی۔

    ان کے ڈراموں میں انسان دوستی اور صنفی مساوات کا موضوع نمایاں رہا جسے انھوں نے نہایت پُراثر اور معیاری انداز سے مقامی مزاج اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا۔

    مدیحہ گوہر نے پاکستان میں‌ ٹیلی ویژن کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں تھیٹر پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ حقوقِ‌ نسواں‌ کی علم بردار اور ایک سماجی کارکن بھی تھیں۔

    2006ء میں انھیں نیدرلینڈ میں ‘پرنس کلوڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا اور 2007ء میں انھوں نے "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ” اپنے نام کیا۔

    مدیحہ گوہر کا شمار پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے ان آرٹسٹوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند رکھا اور دوسروں سے بھی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں‌ کی، وہ اس حوالے سخت گیر مشہور تھیں۔

  • شطرنج کے ماہر کھلاڑی میر سلطان خان کا تذکرہ

    شطرنج کے ماہر کھلاڑی میر سلطان خان کا تذکرہ

    شطرنج کے ماہر اور چیمپین میر سلطان خان 25 اپریل 1966ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ اپنے زمانے میں شطرنج کے کھیل کے ایک ماہر کھلاڑی مانے جاتے تھے جنھوں نے کئی اہم مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور یورپ کے مشہور کھلاڑیوں‌ کو مقابلے میں‌ شکست دے کر فتح اور شہرت اپنے نام کی۔

    میر سلطان خان 1905ء میں مٹھاٹوانہ، ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے اور سرگودھا ہی میں‌ انتقال کیا۔ انھوں نے شطرنج میں دل چسپی لینا شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں مہارت بڑھی تو شہر میں بھی ان کا شہرہ ہونے لگا، مقامی اور ہندوستان کی سطح پر کھلاڑیوں کو شکست دینے کے بعد جب ملک عمر حیات خان ٹوانہ نے ان کے بارے میں‌ سنا تو 1929ء میں اپنے ساتھ انگلستان چلنے کی دعوت دی اور وہاں جاکر انھوں نے شطرنج کے مقابلوں‌ میں‌ خوب نام کمایا۔

    برطانیہ میں‌ قیام کے دوران 1930ء، 1931ء اور 1933ء میں میر سلطان خان نے برٹش اوپن چیس چیمپین شپ جیتی۔ وہ کئی برس وہاں‌ مقیم رہے اور اس دوران یورپی کھلاڑیوں کا بساط پر مقابلہ کیا، لیکن کوئی انہیں شکست نہ دے سکا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد میر سلطان خان کی زندگی گم نامی میں بسر ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس دور میں بھی شطرنج کے بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ساتھ کھیلنے سے کتراتے تھے۔

  • شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    23 اپریل 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر، مصنّف اور صحافی تاج سعید کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تاج سعید کا اصل نام تاج محمد تھا۔ وہ 16 ستمبر 1933ء کو پشاور میں‌ پیدا ہوئے۔ علم و ادب سے وابستگی کے دوران جہاں‌ انھوں نے غزل اور نظم جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں پشتو ادب اور دیگر موضوعات پر علمی اور ادبی کام بھی کتابی شکل میں‌ پیش کیا۔

    تاج سعید کے شعری مجموعوں میں سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ اور شہرِ ہفت رنگ اور ان کی مرتب کردہ نثری کتب میں کرشن نگر، جہانِ فراق، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز: فن اور شخصیت، خوش حال شناسی، شکیل بدایونی: فن و شخصیت اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انھوں‌ نے علاقائی ادب سے متعدد تخلیقات کا اردو ترجمہ کیا تھا۔

    تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے۔ ان میں ’’قند‘‘ مردان، ’’ارژنگ‘‘ پشاور اور ’’جریدہ‘‘ پشاور شامل ہیں۔

    تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    اردو کے اس ادیب اور شاعر کو وفات کے بعد پشاور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: استاد بڑے غلام علی خان کو ‘سُر دیوتا’ کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: استاد بڑے غلام علی خان کو ‘سُر دیوتا’ کہا جاتا ہے

    آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی میں‌ ممتاز پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ استاد بڑے غلام علی 23 اپریل 1968ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    استاد بڑے غلام علی خان 4 اپریل 1902ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ اور اس کے رتنوں میں شامل تھے۔ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔

    استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوگئے۔ ان کے فن کی شہرت جلد ہی ہندوستان بھر میں پھیل گئی جس کے بعد انھیں موسیقی کی محافل میں مدعو کیا جانے لگا۔ انھوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور اپنے فن کا مظاہرہ کرکے کلاسیکی موسیقی کے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

    استاد بڑے غلام علی کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے تجربے کو اہمیت دی اور گائیکی میں بعض ایسی ترامیم کیں جو اس کی خوبی اور اس کا حُسن بن گئیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر یہاں ریڈیو پر افسران کے بعض رویوں سے دل برداشتہ ہوکر انھوں نے 1954ء میں وطن چھوڑ دیا۔ ہجرت کرنے کے بعد استاد بڑے غلام علی خان کو بھارت میں بڑی پذیرائی ملی اور وہاں پدم بھوشن کے علاوہ سُر دیوتا، سنگیت سمراٹ اور شہنشاہِ موسیقی جیسے خطاب اور القاب کے علاوہ انھیں‌ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔