Tag: اپریل وفات

  • امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    دنیا بھر میں مارک ٹوین کی وجہِ شہرت ان کی طنز نگاری ہے۔ انھیں ایک ناول نگار اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مارک ٹوین کی زندگی کا سفر 21 اپریل 1910ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ آج علم و ادب کے شیدا اور مارک ٹوین کے جوہرِ تخلیق کے معترف ان کی یاد منا رہے ہیں۔

    1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہونے والے سیموئل لینگ ہارن کلیمنز کو جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے جن کے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کو بہت پذیرائی ملی اور یہ شائقینِ ادب میں مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے انھیں توڑ کر رکھ دیا اور دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

  • مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    20 اپریل 1980ء کو پاکستان کے مشہور مصور استاد شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔

    استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں‌ مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

    شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں‌ وفات پائی۔

    استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔

  • انفرادیت پسند اور جدّت طراز موسیقار امجد بوبی کی برسی

    انفرادیت پسند اور جدّت طراز موسیقار امجد بوبی کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت میں امجد بوبی سریلی اور مدھر دھنیں ترتیب دینے کی وجہ ہی سے یاد نہیں‌ کیے جاتے بلکہ انھیں ایک ایسا موسیقار مانا جاتا ہے جس نے اس فن میں‌ نت نئے تجربات کیے اور خود کو جدّت پسند ثابت کیا۔

    فلمی صنعت کے لیے کئی لازوال دھنیں ترتیب دینے والے امجد بوبی 15 اپریل 2005 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    امجد بوبی 1942 میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ 1960 میں انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ بعد میں گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی کام یاب فلموں کے لیے امجد بوبی نے لازوال دھنیں تخلیق کرکے شہرت حاصل کی۔ امجد بوبی کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

    امجد بوبی ان موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ممبئی کے گلوکاروں کو متعارف کروایا اور اپنے فن میں انفرادیت اور جدّت کی بدولت مقبول ہوئے۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے اپنی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر بھارتی گلوکاروں کی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔

  • نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    سارنگی وہ ساز ہے جس کی روایتی دھنوں پر عوامی شاعری برصغیر میں مقبول رہی ہے۔ یہ ساز ہندوستان میں کلاسیکی سنگیت کا اہم حصّہ رہا ہے۔ آج اس فن میں اپنے کمال اور مہارت کو منوانے والے استاد نتھو خان کی برسی ہے۔ وہ 7 اپریل 1971ء کو جرمنی میں قیام کے دوران وفات پاگئے تھے۔

    استاد نتھو خان 1924ء میں موضع جنڈیالہ گورو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا موسیقی کے فن سے وابستہ تھا اور والد میاں مولا بخش بھی اپنے عہد کے معروف سارنگی نواز تھے۔ استاد نتھو خان نے اپنے والد ہی سے موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھے اور بعد میں اپنے چچا فیروز خان، استاد احمدی خاں اور استاد ظہوری خان کی شاگردی اختیار کی۔

    سارنگی وہ ساز ہے جسے سیکھنے میں محنت بہت لگتی ہے اور جدید آلاتِ موسیقی میں اس کے مقابلے میں وائلن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ استاد نتھو خان کی خوبی اور کمال یہ تھا کہ وہ کلاسیکی گانا بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے وقت کے نام ور اور مشہور کلاسیکی گلوکاروں نے سنگت کے لیے منتخب کیا اور ان کے فن کے معترف رہے۔

    روشن آرا بیگم جیسی برصغیر کی عظیم گلوکارہ استاد نتھو خان کی مداح تھیں۔ اپنے وقت کے ایک معروف ساز کے ماہر اور اپنے فن میں یکتا استاد نتھو خان فقط 46 برس کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    نئی دہلی: بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر افتخار امام صدیقی ممبئی میں انتقال کرگئے۔

    اطلاعات کے مطابق کئی برس سے علیل افتخار امام صدیقی نے آج صبح ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انھیں پاک و ہند میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں ترنم اور مخصوص انداز کے سبب بہت پسند کیا جاتا تھا، 2002 ء میں ایک حادثے میں اپاہج ہوجانے والے افتخار امام صدیقی نے ضعیف العمری اور معذوری کے باوجود علم و ادب سے تعلق برقرار رکھا اور آخر وقت تک ماہ نامہ ‘شاعر’ کا اجرا بھی یقینی بناتے رہے۔

    افتخار امام صدیقی کے دادا سیماب اکبر آبادی بھی اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر تھے۔ انھوں نے 1930ء میں ماہ نامہ شاعر کا اجرا کیا تھا جسے بعد میں افتخار امام صدیقی نے جاری رکھا اور علالت کے باوجود یہ ماہ نامہ پابندی سے شایع ہوتا رہا۔

    افتخار امام صدیقی کا شمار بھی بھارت کے نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا کلام مشہور گلوکاروں نے گایا، وہ غزلوں کے علاوہ اپنے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے بھی مشہور تھے، 19 نومبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے افتخار امام صدیقی کے والد کا نام اعجاز صدیقی تھا جو سیماب اکبر آبادی کے بیٹے تھے۔ ان کی تدفین بعد نمازِ ظہر ناریل واڑی قبرستان رے روڈ، ممبئی میں کی گئی۔

    افتخار امام صدیقی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
    برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں

    وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
    مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

    پھر اس کے بعد تعلق میں فاصلے ہوں گے
    مجھے سنبھال کے رکھنا بچھڑ نہ جاؤں میں

  • آج مشہور فلمی موسیقار سلیم حسین کی برسی ہے

    آج مشہور فلمی موسیقار سلیم حسین کی برسی ہے

    پاکستان کی فلمی صنعت کی ایک موسیقار جوڑی سلیم حسین اور اقبال حسین کی تھی جنھوں نے کئی فلموں کے لیے خوب صورت دھنیں تخلیق کیں۔‌ یہ جوڑی انڈسٹری میں ‘سلیم اقبال’ کے نام سے مشہور تھی۔ 2 اپریل 1996ء کو سلیم حسین اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ وہ عمر میں اقبال حسین سے چھوٹے تھے۔

    سلیم حسین 1933ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ کلاسیکی موسیقی کی تعلیم خان صاحب سردار خان سے حاصل کی۔ بعدازاں فیروز نظامی کے اسسٹنٹ کے طور پر دوپٹہ اور چن وے کی موسیقی میں معاونت کی۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب ترین فلمیں ثابت ہوئیں۔ اس کام یابی کے بعد ان بھائیوں نے سلیم اقبال نے خود کو بطور موسیقار منوانے کا فیصلہ کیا۔ یوں ان کی پہلی فلم شیخ چلّی تھی جس کے نغمات نے انھیں‌ گویا راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان بھائیوں کی دیگر فلموں میں گھر جوائی، کرتار سنگھ، جادوگر، دروازہ، باجی، اک پردیسی ایک مٹیار، پاکیزہ، پیا ملن کی آس اور دکھ سجناں دے شامل ہیں۔

    اس جوڑی کی بنائی ہوئی دھن میں ایک نغمہ پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ یہ فلم کرتار سنگھ کا نغمہ تھا جس کے بول تھے،’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔‘‘