Tag: اپریل وفیات

  • مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

    مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

    مرزا فرحت اللہ بیگ کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن وہ ایک ایسے ادیب بھی تھے جن کے قلم نے شان دار شخصی خاکے، ادبی تذکرے اور بہت واقعات سے بھی جمع کیے جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ آج مرزا صاحب کی برسی ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں طنز کا عنصر کم ہے، بلکہ انھوں نے جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں حسبِ ضرورت مزاح کا سہارا بھی لیا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے طنز میں شدت نہیں ہے۔ تقسیمِ ہند سے چند ماہ قبل 27 اپریل 1947ء کو مرزا صاحب دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انشا پرداز اور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے خالص ادبی تحریروں کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ و سوانح میں بھی طبع آزمائی کی اور ان میں بھی وہ اکثر جگہ مزاح سے کام لیتے ہیں۔ مرزا صاحب کے تین مضامین ان کی خاص پہچان ہیں جو اس دور میں بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے تھے۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ مرزا فرحت اللہ بیگ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت ظرافت نگاری ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور تھا۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی تھا اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں آنکھ کھولی تھی۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا تھا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    1905 میں بی اے کا امتحان پاس کرکے 1907 تک دہلی میں مقیم رہے۔ 1908 میں وہ حیدرآباد (دکن) چلے گئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا۔ پھر ہائیکورٹ کے مترجم ہوگئے اور اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور بہت برسوں دیکھا۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” ان سے لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، بلکہ انھوں نے حقِ شاگردی ادا کیا اور انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن و تخلیق کی داد بھی پائی۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں مرزا صاحب نے ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ یہ خاکہ ہندوستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ مولوی وحید الدین سلیم جیسے اہل قلم کو یہ خاکہ ایسا پسند آیا کہ انھوں نے بھی مرزا صاحب سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کردی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ کا نام دیا۔ فرحت اللہ بیگ نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی اور شوخی ان کی تحریر کا خاصّہ تھا۔ ادبی ناقدین کے مطابق وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس جزئیات نگاری سے قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • شیام سندر چڈھا: مقبول فلمی ہیرو جو رنگین مزاج اور دل پھینک بھی مشہور تھا

    شیام سندر چڈھا: مقبول فلمی ہیرو جو رنگین مزاج اور دل پھینک بھی مشہور تھا

    متحدہ ہندوستان کی فلمی دنیا کا ایک نام شیام سندر چڈھا بھی ہے جنھیں بطور ہیرو ہی مقبولیت نہیں ملی بلکہ وہ اپنے رومانس اور اسکینڈلز کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے تھے۔

    25 اپریل 1951ء کو شیام نے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار دی تھی۔ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تھے اور زندہ نہ بچ سکے۔ اس زمانے کے مقبول ترین فلمی جرائد نے اس افسوس ناک حادثے کی تفصیلات کے ساتھ شیام کی زندگی پر مضامین شایع کیے تھے۔ شیام کا خاندان تقسیم سے قبل راولپنڈی میں آباد تھا۔ ان کے دادا گاؤں کے پٹواری اور علاقے کے چند پڑھے لکھے اور صاحب ثروت لوگوں میں سے تھے۔ شیام نے فروری 1920 میں سیتا رام کے ہاں جنم لیا۔ والد ان کے فوج میں تھے۔ شیام کی والدہ چنن دیوی کا انتقال ہوگیا تو انھوں نے دوسری شادی کرلی جس نے شیام اور سارے بچوں کی پرورش کی۔ طالبِ علمی کے دور میں‌ ڈرامہ اور مباحث نے شیام کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا اور پھر اوائل جوانی میں وہ سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو گئے جس نے انھیں روشن خیال اور فن و ادب سے ان کا لگاؤ بھی بڑھا دیا۔ بعد میں وہ تھیٹر اور فلمی دنیا میں‌ مشغول ہوگئے۔ شیام نے اپنی 10 سالہ فلمی زندگی میں بازار، کنیز، دل لگی، رات کی کہانی، چاندنی، مینا بازار نامی فلموں میں کام کیا تھا۔

    اداکار شیام افسانہ نگار اور فلم رائٹر سعادت حسن منٹو کے گہرے دوستوں میں سے ایک تھے۔ معروف صحافی اور ادیب علی سفیان آفاقی لکھتے ہیں:‌ وہ (شیام) اپنے رومان اور اسکینڈلوں کے لیے بہت مشور تھے۔ دراز قد، کھلتا ہوا رنگ، متناسب جسم، شوخ آنکھیں اور بات بات پر مسکرانا اور قہقہہ لگانا ان کی عادت تھی۔ ہندوستانی فلموں کے اداکار شیام کے مختلف فلمی ہیروئنوں کے ساتھ دوستیوں کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔ ان کی کئی فلمیں بہت کام یاب ہوئی تھیں، اپنی دل کش شخصیت اور خوش مزاجی کی وجہ سے وہ فلمی دنیا میں بہت مقبول تھے۔ اس زمانے میں اخبارات میں فلمی دنیا کی خبریں شائع نہیں ہوتی تھیں۔ اس مقصد کے لئے بہت اچھے اور خوبصورت فلمی میگزین نکلا کرتے تھے جن سے فلمی دنیا اور فلمی لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی رہتی تھیں۔ ایک دن معلوم ہوا کہ شیام گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کیونکہ شیام بہت اچھے گھڑ سوار تھے۔ بعد میں تفصیل معلوم ہوئی کہ شیام ایک فلم "شبستان” کی شوٹنگ کے لئے گھڑ سواری کر رہے تھے۔ اچانک گھوڑا بدک گیا اور شیام گھوڑے سے نیچے گر گئے۔ گرنے سے زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان کا پیر رکاب میں پھنس گیا تھا۔ گھوڑا مسلسل بھاگتا رہا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو پکڑ کر شیام کا پیر رکاب سے نکالا۔ مگر کافی دور تک زمین پر گھسیٹنے اور سَر کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے شدید چوٹیں آئی تھیں۔ انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ اس طرح ایک ہنستا کھیلتا خوش باش اداکار چند لمحے میں زندگی سے رشتہ توڑ گیا۔

    شیام جس وقت دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت وہ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ تھے۔ شیام رنگین مزاج اور دل پھینک تو تھے ہی۔ اس زمانے میں ایک سوشل گرل ممتاز قریشی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات پسندیدگی اور پھر پیار میں تبدیل ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب شیام نے بمبئی میں رہائش اختیار کی تو ان کی شادی شدہ زندگی بہت خوشگوار تھی۔ شیام دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن دو بچے اور ایک بیوی چھوڑ گئے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ شیام کی ہلاکت کے بعد تاجی اپنے بچوں کو لے کر بمبئی سے لاہور آ گئی۔ ان کا ایک بیٹا شاکر اور ایک بیٹی ساحرہ ساتھ تھی، ممتاز بیگم عرف تاجی نے روالپنڈی کے ایک بڑے عہدے دار سے شادی کرلی جس نے تاجی اور شیام کے بچوں کو اپنے حقیقی بچوں کی طرح پالا پوسا، اعلی تعلیم دلوائی اور انہیں ہر وہ سہولت فراہم کی جو ایک باپ اپنے بچوں کو دے سکتا ہے۔

    شیام کا اصل نام شیام سندر چڈھا تھا۔ اس کے گھرانے کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ چڈھا پنجابی ہندو کتھری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیام کی پرورش راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ اس نے پنڈی کے مشہور گورڈن کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیام نے فلمی صنعت میں کام کرنے کا ارادہ کیا۔ شیام نے اداکاری کا آغاز ایک پنجابی فلم "گوانڈی” سے کیا۔ یہ فلم 1942ء میں بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ بمبئی چلا گیا جہاں اداکار کی حیثیت سے اس کو بہت کامیابیاں حاصل ہوئیں اور وہ ایک مقبول ہیرو بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم اور فلم آرٹسٹوں کے واقعات اور شخصی خاکے لکھے ہیں اور شیام سے بھی ان کی گہری دوستی تھی۔ منٹو نے سندر شیام چڈھا کا بھی خاکہ لکھا ہے۔

    1942ء میں جب شیام نے فلموں میں کام شروع کیا تھا تو منٹو بھی فلم کے لیے کہانیاں اور مکالمے لکھنے میں مصروف تھے اور وہیں ان کی دوستی کا آغاز بھی ہوا۔ منٹو اپنے ایک خاکے میں شیام سے متعلق لکھتے ہیں: شیام صرف بوتل اور عورت ہی کا رسیا نہیں تھا۔ زندگی میں جتنی نعمتیں موجود ہیں، وہ ان سب کا عاشق تھا۔ اچھی کتاب سے بھی وہ اسی طرح پیار کرتا تھا جس طرح ایک اچھی عورت سے کرتا تھا۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مر گئی تھی مگر اس کو اپنی سوتیلی ماں سے بھی ویسی ہی محبت تھی، جو حقیقی ماں سے ہوسکتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوتیلے بہن بھائی تھے۔ ان سب کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صرف اس کی اکیلی جان تھی۔ جو اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

    ایک عرصے تک وہ انتہائی خلوص کے ساتھ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس دوران میں تقدیر نے اسے کئی غچے دیے مگر وہ ہنستا رہا، ’’جانِ من ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تو میری بغل میں ہوگی۔‘‘ اور وہ کئی برسوں کے بعد آخر وہ دن آہی گیا کہ دولت اور شہرت دونوں اس کی جیب میں تھیں۔

    موت سے پہلے اس کی آمدنی ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ بمبے کے مضافات میں ایک خوبصورت بنگلہ اس کی ملکیت تھا اور کبھی وہ دن تھے کہ اس کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی، مگر مفلسی کے ان ایام میں بھی وہی ہنستا ہوا شیام تھا۔ دولت و شہرت آئی تو اس نے ان کا یوں استقبال نہ کیا جس طرح لوگ ڈپٹی کمشنر کا کرتے ہیں۔ یہ دونوں محترمائیں اس کے پاس آئیں تو اس نے ان کو اپنی لوہے کی چارپائی پر بٹھا لیا اور پٹاخ پٹاخ بوسے داغ دیے۔

    میں اور وہ جب ایک چھت کے نیچے رہتے تھے تو دونوں کی حالت پتلی تھی۔ فلم انڈسٹری ملک کی سیاسیات کی طرح ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ اس کا وہاں ایک پکچر کا کنٹریکٹ تھا دس ہزار روپے میں۔ عرصے کی بیکاری کے بعد اس کو یہ کام ملا تھا۔ مگر وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے۔ بہرحال ہم دونوں کا گزر کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ میاں بیوی ہوتے تو ان میں روپے پیسے کے معاملے میں ضرور چخ چخ ہوتی، مگر شیام اور مجھے کبھی محسوس تک نہ ہوا۔ ہم میں سے کون خرچ کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔

    ایک دن اسے بڑی کوششوں کے بعد موٹی سی رقم ملی (غالباً پانچ سو روپے تھے) میری جیب خالی تھی۔ ہم ملاڈ سے گھر آرہے تھے۔ راستے میں شیام کا یہ پروگرام بن گیا کہ وہ چرچ گیٹ کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ میرا اسٹیشن آیا تو اس نے جیب سے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ آنکھیں بند کر کے اس کے دو حصے کیے اور مجھ سے کہا، ’’جلدی کرو منٹو۔۔۔ ان میں سے ایک لے لو۔‘‘

    میں نے گڈی کا ایک حصہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا۔ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ شیام نے مجھے’’ٹاٹا‘‘ کہا اور کچھ نوٹ جیب سے نکال کر لہرائے، ’’تم بھی کیا یاد رکھو گے سیفٹی کی خاطر میں نے یہ نوٹ علیحدہ رکھ لیے تھے۔۔۔ ہیپ ٹلا!‘‘ شام کو جب وہ اپنے دوست سے مل آیا تو کباب ہورہا تھا۔ مشہور فلم اسٹار’’کے کے‘‘ نے اس کو بلایا تھا کہ وہ اس سے ایک پرائیویٹ بات کرنا چاہتی ہے۔ شیام نے برانڈی کی بوتلیں بغل میں سے نکال کر اور گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈال کر مجھ سے کہا، ’’پرائیویٹ بات یہ تھی۔ میں نے لاہور میں ایک دفعہ کسی سے کہا تھا کہ ’’کے کے‘‘ مجھ پر مرتی ہے۔ خدا کی قسم بہت بری طرح مرتی تھی۔ لیکن ان دنوں میرے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اس نے مجھے اپنے گھر بلا کر کہا کہ تم نے بکواس کی تھی۔ میں تم پر کبھی نہیں مری۔ میں نے کہا تو آج مر جاؤ۔ مگر اس نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور مجھے غصے میں آکر اس کے ایک گھونسہ مارنا پڑا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا؟‘‘ شیام نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا جو زخمی ہو رہا تھا، ’’کم بخت آگے سے ہٹ گئی۔ نشانہ چوکا اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسا، ’’سالی بیکار تنگ کررہی ہے۔‘‘

    میں نے اوپر روپے پیسے کا ذکر کیا ہے۔ غالباً دو برس پیچھے کی بات ہے۔ میں یہاں لاہور میں فلمی صنعت کی زبوں حالی اور اپنے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مقدمے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ عدالتِ ماتحت نے مجھے مجرم قرار دے کر تین مہینے قیدِ بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ میرا دل اس قدر کھٹا ہوگیا تھا کہ جی چاہتا تھا، اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کردوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں، کسی پر نکتہ چینی کروں نہ کسی معاملے میں اپنی رائے دوں۔

    ایک عجیب و غریب دور سے میرا دل و دماغ گزر رہا تھا۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ افسانے لکھ کر ان پر مقدمے چلوانا میرا پیشہ ہے۔ بعض کہتے تھے کہ میں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ سستی شہرت کا دلدادہ ہوں اور لوگوں کے سفلی جذبات مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں۔ ان چار الوؤں کو سیدھا کرنے میں جو خم میری کمر میں پیدا ہوا، اس کو کچھ میں ہی جانتا ہوں۔

    مالی حالت کچھ پہلے ہی کمزور تھی۔ آس پاس کے ماحول نے جب نکما کردیا تو آمدنی کے محدود ذرائع اور بھی سکڑ گئے۔ ایک صرف مکتبہ جدید، لاہور کے چودھری برادران تھے جو مقدور بھر میری امداد کررہے تھے۔ غم غلط کرنے کے لیے جب میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کی تو انہوں نے چاہا کہ اپنا ہاتھ روک لیں۔ مگر وہ اتنے مخلص تھے کہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔

    اس زمانے میں میری کسی سے خط کتابت نہیں تھی۔ دراصل میرا دل بالکل اچاٹ ہو چکا تھا۔ اکثر گھر سے باہر رہتا اور اپنے شرابی دوستوں کے گھر پڑا رہتا، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی صحبت میں رہ کر جسمانی و روحانی خود کشی کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایک دن مجھے کسی اور کے گھر کے پتے سے ایک خط ملا۔ تحسین پکچرز کے مالک کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا کہ میں فوراً ملوں۔ بمبے سے انہیں میرے بارے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہے۔ صرف یہ معلوم کرنے کے لیے یہ ہدایت بھیجنے والا کون ہے۔ میں تحسین پکچرز والوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بمبے سے شیام کے پے در پے انہیں کئی تار ملے ہیں کہ مجھے ڈھونڈ کر 500 روپے دے دیے جائیں۔ میں جب دفتر میں پہنچا تو وہ شیام کے تازہ تاکیدی تار کا جواب دے رہے تھے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود انہیں منٹو نہیں مل سکا۔ میں نے 500 روپے لے لیے اور میری مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ شیام کو خط لکھ کر اس کا شکریہ ادا کروں اور پوچھوں کہ اس نے مجھے یہ 500 روپے کیوں بھیجے تھے، کیا اس کو علم تھا کہ میری مالی حالت کمزور ہے۔ اس غرض سے میں نے کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ شیام کے اس جذبے کا منہ چڑا رہے ہیں جس کے زیرِ اثر اس نے مجھے یہ روپے روانہ کیے تھے۔

  • ستیہ جیت رے: ہندوستانی سنیما کے ایک باکمال کا تذکرہ

    ستیہ جیت رے: ہندوستانی سنیما کے ایک باکمال کا تذکرہ

    ستیہ جیت رے کو ان کے چاہنے والے ‘مانک دا’ کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ گزشتہ صدی کے اس عظیم ہندوستانی فلم ساز کو فلمی ایوارڈز کے علاوہ بھارت میں حکومتی سطح پر بھی اعزازت سے نوازا گیا۔ 1992 میں آج ہی کے دن ستیہ جیت رے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    30 مارچ کو اپنی موت سے چند ہفتے قبل ہی ستیہ جیت رے نے آسکر ایوارڈ وصول کیا تھا۔ اس کے لیے جب منتظمین نے ستیہ جیت رے سے رابطہ کیا تو انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہ ایوارڈ وہ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ آڈری ہیپ برن سے وصول کرنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش پوری ہوئی۔ ستیہ جیت رے ان دنوں کولکتہ کے ایک نرسنگ ہوم میں بستر پر تھے اور وہیں یہ ایوارڈ قبول کیا۔ اس کے بعد وہ چند ہفتے ہی زندہ رہے۔

    ستیہ جیت رے ایک عظیم فلم ساز ہی نہیں اپنی شخصیت اور عادات میں بھی دوسروں سے بہت مختلف تھے۔ وہ دھیمے لہجے میں بات کرتے اور اپنی ٹیم کا خیال رکھتے تھے۔ وہ شراب سے ہمیشہ دور رہے اور اپنی حد درجہ مصروفیت کے باوجود اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی۔ ستیہ جیت رے ایک وفا شعار شوہر اور ذمہ دار باپ تھے۔

    آسکر یافتگان کی فہرست میں شامل ہونے کے دو دن بعد ہی ان کو بھارت رتن اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2 مئی 1921ء کو ستیہ جیت رے نے کلکتہ کے ایک بنگالی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ستیہ جیت رے کو ابتدا ہی سے فلم، مغربی موسیقی اور شطرنج کھیلنے کا جنون تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ کمرشل ڈیزائننگ میں دل چسپی رکھتے تھے، انھیں 1940ء میں سائنس اور اکنامکس جیسے مضامین میں ڈگری لینا پڑی مگر یہ اس لیے عملی زندگی میں کام نہیں آسکیں‌ کہ ستیہ جیت رے سنیما کی طرف چلے آئے تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے ادارے میں تعلیم کے حصول کا فیصلہ ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ وہاں ستیہ جیت رے کو ہندوستانی آرٹ اور ماحول کو سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے مشرقی ادب بالخصوص ٹیگور کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر وہ خود بھی بہترین لکھاری بنے۔ ستیہ جیت رے کو جو زبانیں آتی تھیں، ان میں‌ بنگالی اور انگریزی شامل تھیں۔ وہ اردو سے ناآشنا تھے۔ انھوں نے فلمیں‌ بھی انہی زبانوں میں بنائیں۔ شطرنج کے کھلاڑی ان کی وہ فلم تھی جسے ہندی میں ترجمہ کیا گیا۔

    ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور (Illustrator) شروع کیا تھا اور ایک اشتہاری کمپنی میں ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کیا۔ 1947ء میں فلم ساز ستیہ جیت رے کلکتہ فلم سوسائٹی کے قیام کے لیے بھی کاوش کرتے نظر آئے۔ ان کی فلموں کی بات کریں‌ تو پتھر پنچلی (1955)، پارس پتھر (1958)، جلسہ گھر (1958)، اَپُر سنسار (1959)، دیوی (1960)، چارولتا (1964)، شطرنج کے کھلاڑی (1977)، اور گھرے باہرے (1984) سمیت متعدد شارٹ موویز اور دستاویزی فلمیں ایسی ہیں جنھوں نے ستیہ جیت رے کو اپنے وقت کے ممتاز اور باکمال فلم سازوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ستیہ جیت رے کا نوجوانی کا زمانہ سامراجی تسلط، آزادی کی جدوجہد اور بنگال کے قحط اور غربت کا تھا۔ اس دور میں انھوں نے اپنے مشاہدے اور تجربات سے جو کچھ سیکھا اور جانا، اسے بڑے پردے پر بھی خوبی سے پیش کیا۔ انھوں نے کیمرے کے پیچے بطور ہدایت کار بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    ستیہ جیت رے کو ہمہ صفت کہا جائے تو کیا غلط ہے کہ وہ صرف ایک فلم ساز ہی نہیں تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے ادیب، مصوّر، غنائی شاعر، خوش نویس، مدیر بھی تھے۔ 1961 میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے کیمرے کو ایک طرف رکھ دیا۔ دراصل یہ ان کے دادا اور والد کا شروع کردہ رسالہ تھا۔ اس پرچے میں شامل ہونے والی کہانیوں کے لیے نہ صرف اسکیچز بنائے بلکہ ستیہ جیت رے نے بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    ستیہ جیت رے کی زیادہ تر فلمیں بنگلہ ادیبوں کی تخلیقات پر مبنی ہیں۔ ان کی فلموں کو سمجھنا اس وقت آسان ہوتا ہے جب فلم بین ان کہانیوں کا قاری بھی رہا ہو۔

  • مصطفٰی علی ہمدانی: آزادی کا مژدہ سنانے والا

    مصطفٰی علی ہمدانی: آزادی کا مژدہ سنانے والا

    یہ 1947ء کی بات ہے جب گھڑی کی سوئیوں کے 12 کے ہندسے پر آنے کے ساتھ کلینڈر پر تاریخ 14 اگست ہوئی تو ریڈیو پر ایک اعلان نشر ہوا، ‘السلامُ علیکم، پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں، 13 اور 14 اگست سنہ 47 عیسوی کی درمیانی شب ہے، 12 بجے ہیں، طلوعِ صبح آزادی۔ قیامِ پاکستان کی نوید سناتی یہ آواز صدا کار مصطفٰی علی ہمدانی کی تھی۔

    نئی مملکت کے قیام کا اعلان سننے والے مسلمانوں‌ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ ہجرت بھی شروع ہوئی جس میں‌ لاکھوں افراد جانوں سے گئے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والے اب آل انڈیا ریڈیو کی جگہ ریڈیو پاکستان پر مزید خبریں، ترانے اور ضروری اعلانات سماعت کررہے تھے۔

    پاکستان کی آزادی کا ریڈیو پر اعلان کرنے والے مصطفیٰ علی ہمدانی 1969 تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور چیف اناؤنسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے لیکن 1971 میں بھارت سے غیر علانیہ جنگ کے دوران رضا ہمدانی رضاکارانہ طور پر ریڈیو پاکستان پر قوم کا جذبہ بڑھاتے رہے لیکن سانحہ ہوگیا۔ بعد میں اس وقت کے وزیراطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی کے بے حد اصرار پر انہوں نے ایک معاہدے کے تحت 1975 تک اناؤنسر کی تربیت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔

    آج مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ مصطفیٰ علی ہمدانی 29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا اور ایک علمی و ادبی ماحول میں رہتے ہوئے 0ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق کیسے پیدا نہ ہوتا۔ 1939ء میں وہ تقسیم سے قبل لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے تھے۔

    مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔

    مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تلفظ اور الفاظ کی درست ادائی کے حوالے سے سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جو دنیا بھر میں مشہور ہوا

    ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جو دنیا بھر میں مشہور ہوا

    ابراہم لنکن کو امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر ہی نہیں بلکہ اس ملک کا غریب صدر بھی کہا جاتا ہے جو غربت اور تنگ دستی کے باوجود حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے اور دنیا بھر میں شہرت پائی۔ ابراہم لنکن کو 1865ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کر دیا گیا تھا۔

    سیاسیات کے طالبِ علم اور اہم شخصیات کے سوانح عمریوں میں دل چسپی رکھنے والے ضرور ابراہم لنکن کے نام و مرتبے سے واقف ہوں گے۔ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر تھے جن کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے۔

    امریکی قوم کے نزدیک ان کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ سیاہ فام افراد کی آزادی اور اس معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی سے ملک کو ٹوٹنے سے بچانا تھا۔ ابراہم لنکن نے ذاتی زندگی کے نشیب و فراز اور سیاست کے میدان میں اپنی مخالفت کے باوجود زبردست کام یابیاں سمیٹیں۔ وہ 12 فروری 1809ء کو کینٹکی، امریکا کے ایک چھوٹے کاشت کار کے گھر پیدا ہوئے۔ ابراہم لنکن دو سال کے تھے جب ان کے والد ایک مقدمہ میں اپنی زمین ہار گئے اور اس گھرانے کے لیے مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ یہ خاندان ریاست انڈیانا منتقل ہوگیا جہاں وہ ایک سرکاری زمین پر کیبن بنا کر اس میں رہنے لگے۔ اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ وہ صرف ایک سال ہی اسکول جاسکے اور بعد میں اپنی سوتیلی ماں سے پڑھا۔

    لنکن کا بچپن اور نوجوانی کا عرصہ بھی غربت اور تکالیف جھیلتے اور محنت کرتے ہوئے گزرا۔ انھوں نے نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، مگر نوجوان لنکن نے مشکلوں سے لڑنا سیکھ لیا تھا۔ انھوں نے معاش کے لیے بھاگ دوڑ کے ساتھ وکالت بھی پڑھنا شروع کر دی۔ ابراہم لنکن کام سے فارغ ہو کر کتابوں میں سَر دیے بیٹھے رہتے اور پھر وہ وقت آیا جب ان کا شمار شہر کے کام یاب وکلا میں ہونے لگا۔

    ابراہم لنکن نے زندگی جینے کا گُر اپنے والد سے سیکھا تھا جو اپنی زمین سے محروم ہونے کے بعد محنت مشقّت کر کے کنبے کا پیٹ بھرتے رہے۔ انھوں نے زرعی زمین پر، جولاہے کے پاس کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور پھر لوگوں کے جوتے سیتے اور مرمت کر کے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ اسی نے ابراہم لنکن کو جینا سکھایا۔ 1861ء میں ابراہم لنکن امریکا کے صدر بنے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی سینیٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا، جو سینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہام لنکن نے صدر بننے کے بعد امریکا میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا، اور ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کر لیا، امریکی اشرافیہ ان اصلاحات سے براہِ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ سب ابراہم لنکن کے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے صدر کی کردار کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہم لنکن کا مذاق اڑایا جاتا اور ان کا حوصلہ پست اور ہمّت توڑنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پڑھیے۔

    ابراہم لنکن اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لیے سینیٹ پہنچے اور صدر کے لیے مخصوص نشست کی طرف بڑھے تو ایک سینیٹر نے اپنی نشست سے ابراہم لنکن کو مخاطب کیا اور بولا، ”لنکن صدر بن کر بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا۔ “ اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ‎لنکن نے اس سینیٹر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ‎”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے بھی جوتے سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکا میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے باپ سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لیے کہ پورے امریکا میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا باپ ایک موجد تھا، وہ اپنے بنائے ہوئے جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جوتا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جوتے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔“ ‎ابراہم لنکن کی تقریر ختم ہوئی تو پورے ہال میں خاموشی تھی۔

    امریکی صدر ابراہم لنکن کو ایک شخص نے اس وقت گولی مار دی تھی جب وہ فورڈ تھیٹر میں ڈراما دیکھ رہا تھے۔ ابراہم لنکن کی زندگی سے دنیا کے دوسرے لوگ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی سے ہمیں ایک بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ مفلسی کسی کے لیے نام و مرتبہ پانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور محنت، لگن اور نیک ارادے کے ساتھ اپنی منزل کا تعین کرکے آگے بڑھتے رہنے سے کام یابی ضرور ملتی ہے۔

  • ارنسٹ ٹرمپ:  ہندوستان میں زبان و ادب کے لیے خدمات انجام دینے والا جرمن مستشرق

    ارنسٹ ٹرمپ: ہندوستان میں زبان و ادب کے لیے خدمات انجام دینے والا جرمن مستشرق

    متحدہ ہندوستان میں‌ قیام کے دوران ارنسٹ ٹرمپ نے فارسی، عربی اور متعدد مقامی زبانیں ہی نہیں سیکھیں بلکہ مقامی ادب اور ثقافت کے شعبے میں بھی خدمات انجام دیں۔ مشہور ہے کہ ارنسٹ ٹرمپ پہلا غیرملکی تھا جس نے سب سے پہلے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی کتاب شاہ جو رسالو کی تدوین اور اس کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔

    ارنسٹ ٹرمپ ایک جرمن مستشرق تھا۔ اس نے ہندوستان میں‌ ایک مشنری کی حیثیت سے قدم رکھا اور برطانوی راج میں وہ پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں کے علاوہ پشاور میں قیام پذیر رہا۔ ارنسٹ ٹرمپ نے اس عرصہ میں گراں قدر علمی اور ادبی کام کیا اور کئی کتابیں اس کے ذوق و شوق اور محنت و لگن کا نتیجہ ہیں۔

    جرمن مستشرق ارنسٹ ٹرمپ نے 1828ء میں آنکھ کھولی۔ اس کا باپ جارج تھامس کار پینٹر اور ایک کاشت کار تھا۔ ارنسٹ ٹرمپ کو نوعمری ہی میں مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہوگیا۔ اس نے لاطینی، یونانی، عبرانی زبانیں سیکھنے کے بعد جب ایک مبلّغ کی حیثیت سے ہندوستان کا رخ کیا تو یہاں‌ عربی اور فارسی کے علاوہ سنسکرت اور متعدد دوسری یورپی زبانیں بھی سیکھیں۔ اس سے قبل ارنسٹ ٹرمپ جرمنی سے لندن گیا تھا اور وہاں ایسٹ انڈیا ہاؤس میں اسٹنٹ لائبریرین کی ملازمت کے دوران جب وہ 30 سال کا تھا، تو اسے ہندوستان جانے کا موقع ملا۔ ارنسٹ ٹرمپ پہلے بمبئی میں کچھ عرصہ رہا اور بعد میں کراچی منتقل ہوگیا۔ اس شہر میں ارنسٹ کو مقامی زبانوں نے اپنی جانب متوجہ کیا اور سب سے پہلے اس نے سندھی زبان سیکھنا شروع کی۔ بہت قلیل مدت میں ارنسٹ سندھی بولنے اور لکھنے کے قابل ہوگیا۔ وہ سیر و سیاحت کا دلدادہ تھا جس کا ایک مقصد تبلیغ اور دوسرا یہاں کی ثقافت کا مطالعہ کرنا تھا۔ ارنسٹ ٹرمپ نے سندھ کے مختلف علاقوں میں سیاحت کے دوران شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوا۔ اسے صوفیانہ کلام میں غیر معمولی کشش محسوس ہوئی۔ ارنسٹ ٹرمپ اندرونِ سندھ عام لوگوں سے میل جول کے ساتھ شاہ عبداللطیف کے ارادت مندوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات کے ساتھ وقت گزارنے لگا جہاں سندھ کے معروف اور غیرمعروف گائیک شاہ صاحب کا کلام گاتے نظر آتے تھے۔ ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا کلام جمع کرنا شروع کیا۔ لوگوں سے سن کر ان کے اشعار لکھنے کے علاوہ اس نے مختلف رسائل کا مطالعہ کرکے اچھا خاصا کلام اکٹھا کرلیا۔ بعد میں وہ سندھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ 1866ء میں اس نے ایک مضمون کے ساتھ شاہ لطیف بھٹائی کا کلام شاہ جو رسالو کے نام سے چھپوایا۔ ارنسٹ ٹرمپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کا جائزہ لیتے وقت اس وقت کے معروضی حالات، سیاسی واقعات، معاشی و معاشرتی کیفیت، عام لوگوں کی مشکلات، حکم رانوں کی کوتاہیوں اور اس وقت کی معاشرتی اخلاقی حالت کو بھی پیشِ نظر رکھا تھا۔

    ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کو قدیم مروجہ رسمُ الخط میں شائع کیا تھا۔ کراچی کے بعد پشاور میں سکونت اختیار کرنے کے دوران اس نے پشتو زبان بھی سیکھی۔ 1870ء میں برطانوی سرکار نے ارنسٹ ٹرمپ سے سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کا ترجمہ بھی کروایا جس نے مقامی سکھوں میں بھی اسے شہرت دی۔ 1873ء میں وہ میونخ یونیورسٹی میں سامی زبانوں کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ عربی اور دیگر سامی زبانوں میں ارنسٹ ٹرمپ کو ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ آخر عمر میں ارنسٹ ٹرمپ کی بینائی جاتی رہی اور اس کی زندگی تکلیف دہ ثابت ہوئی۔

    ارنسٹ ٹرمپ کئی کتابوں کا مصنف تھا جن کا تعلق زبان اور قواعد سے تھا۔ سندھی حروف اور گرامر کی پہلی کتاب لکھنے کے علاوہ ارنسٹ ٹرمپ نے پشتو زبان کی تفہیم کے لیے بھی کتاب تحریر کی اور یہ سب اس نے اپنی صلاحیتوں اور لگن کی بنیاد پر کیا تھا۔

    5 اپریل 1885ء کو انتقال کرنے والے ارنسٹ ٹرمپ کو آج بھی زبانوں کے تاریخی اور تقابلی مطالعہ کے ماہر اور اس کے علمی کارناموں کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔

  • معین اختر: ایک عہد جو تمام ہوا، ایک نام جو دلوں میں‌ زندہ ہے!

    معین اختر: ایک عہد جو تمام ہوا، ایک نام جو دلوں میں‌ زندہ ہے!

    ہر دل عزیز معین اختر نے اسٹیج سے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پھر فلم تک کئی روپ بدلے اور سیکڑوں ایسے کردار نبھائے جو لازوال ثابت ہوئے اور مداحوں کا دل جیتا۔ معین اختر 2011ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    وہ ایک ایسے ورسٹائل اور باکمال فن کار تھے جس نے اپنے فن کا شان دار مظاہرہ کیا اور اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی ہی نہیں سنجیدہ کردار بھی اس عمدگی سے نبھائے کہ وہ ذہن پر نقش ہوگئے۔ صدا کار، ادا کار، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کے ساتھ وہ میزبان کے طور پر اپنی برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی کے سبب مقبول ہوئے اور مہمان سمیت حاضرین و ناظرین کی دل چسپی اور توجہ حاصل کی۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا۔ انھوں نے 24 دسمبر، 1950 کو یہیں آنکھ کھولی۔ والد کی وفات کے بعد نوعمری میں معاش کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی اور جلد وہ وقت آیا جب معین اختر کو ملک بھر میں پہچان مل گئی۔

    سولہ برس کی عمر میں‌ اسٹیج پر پہلی پرفارمنس سے حاضرین کے دل جیتنے والے معین اختر نے جب ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا تو گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں مقبول ہو چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت پسند کیا گیا۔ معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن رہا۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے۔ انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ہندوستان ہی نہیں‌ معین اختر بیرونِ ملک بھی اپنے اسٹیج شوز کی وجہ سے پہچانے گئے اور اردو داں طبقے میں انھیں بہت شہرت ملی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر نقالی کے فن میں طاق تھے۔ انھوں نے کئی فن کاروں اور مشہور شخصیات کی آواز اور ان کے انداز کو اپنا حاضرین کو محظوظ کیا۔ ان کے مداحوں کی طویل فہرست میں پاکستان، بھارت کے علاوہ دنیا بھر کے نام وَر فن کار اور کئی مشہور شخصیات شامل ہیں۔

  • بیگم حمیدہ اختر حسین کا تذکرہ

    بیگم حمیدہ اختر حسین کا تذکرہ

    بیگم حمیدہ اختر حسین نے مختلف اقسام کے پکوان کی تراکیب "پکاؤ اور کھلاؤ” کے عنوان سے اپنی ایک کتاب میں‌ پیش کی تھیں اور ان کا ایک ناول "وہ کون تھی؟” بھی منظرِ عام پر آیا تھا۔ انھوں نے بچّوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ آئیے بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی کے اوراق پلٹتے ہیں۔

    وہ معروف ترقّی پسند ادیب اختر حسین رائے پوری کی شریکِ سفر تھیں۔ ان کی رفاقت میں اور ان کے طفیل اپنے وقت کے جیّد اور باکمال لکھاریوں سے ملنے، ان سے گفتگو اور صاحبِ طرز ادیبوں اور شعرا کو پڑھنے کا موقع ملا تو بیگم صاحبہ کو بھی لکھنے کی تحریک ملی۔ ادب کے مطالعے کا شوق انھیں بہت پہلے سے تھا، کیوں کہ ان کے معروف والد بھی جاسوسی ناول نگار تھے۔ گھر کی فضا علمی و ادبی تھی اور ہر طرف کتابیں نظر آتی تھیں۔ شادی ہوئی تو ایک ایسے شخص سے جو اردو ادب کی دنیا میں معروف تھا۔ یہ تھے اختر حسین رائے پوری۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی جس کا مرکزی موضوع، ان کے شوہر اختر حسین رائے پوری ہیں، سامنے آئی تو اسے سبھی نے منفرد قرار دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بیگم صاحبہ کی ہر قدم پر راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی جس نے انھیں‌ اپنا تخلیقی سفر جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔

    بیگم حمیدہ کا سنِ پیدائش 1918 ہے۔ وہ 1935 میں اختر حسین رائے پوری کی رفیقِ حیات بنی تھیں جو نام ور نقاد، محقق اور ادیب تھے۔ ان کے اتنقال کے بعد بیگم حمیدہ اختر حسین کا ادبی سفر شروع ہوا۔ جلد ہی وہ اپنے اسلوب کے سبب پہچانی گئیں۔ انھوں نے خود نوشت سوانح عمری اور خاکوں کے دو مجموعے بھی یادگار چھوڑے۔

    20 اپریل 2009 کو بیگم حمیدہ اختر حسین کراچی میں وفات پا گئی تھیں۔

  • غلام فرید صابری اور مشہورِ زمانہ قوالی "بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ”

    غلام فرید صابری اور مشہورِ زمانہ قوالی "بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ”

    قوالی گائیکی کی وہ صنف ہے جو برصغیر پاک و ہند میں ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ یہ ایسا فن ہے جس نے اسی سرزمین پر جنم لیا اور یہیں پروان چڑھا۔ وقت کے ساتھ قوالیوں میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں اور حمد و ثنا کے ساتھ اس فن کے ذریعے منقبت کو بھی فروغ دیا گیا۔

    پاکستان میں غلام فرید صابری نے فنِ قوالی میں بڑا نام و مقام پایا اور ان کی گائی ہوئی قوالیاں آج بھی مقبول ہیں۔ آج غلام فرید صابری کی برسی منائی جارہی ہے۔

    لفظ ’’قوالی‘‘ عربی کے لفظ ’’قول‘‘ سے مشتق ہے۔ قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘ یا ’’بیان کرنا۔‘‘ قوالی کا لفظ برصغیر میں گانے کی ایک خاص صنف کے لیے برتا جاتا ہے جس میں موسیقی کے مخصوص آلات بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی بات کی جائے تو یہاں‌ صوفیائے کرام نے حمد و نعت اور بزرگانِ‌ دین کی مدح سرائی پر مبنی اشعار کو اس انداز سے پسند کیا اور یوں خانقاہوں سے یہ فن عوام تک پہنچا اور اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔

    پاکستان اور بھارت میں کئی برسوں کے دوران بڑی تعداد میں قوال موجود تھے جن میں صابری برادران کو بڑی پذیرائی اور شہرت حاصل ہوئی۔ غلام فرید صابری اپنے چھوٹے بھائی مقبول احمد صابری کے ساتھ مل کر قوالی گاتے تھے۔ غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے مشرقی پنجاب سے تھا۔ یہ خاندان تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر گیا اور یہیں غلام فرید صابری کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ وہ کراچی ہی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ‘تاجدارِ حرم’ اور اس جیسی دیگر کئی مقبول قوالیوں سے لوگوں پر وجد طاری کردینے والے غلام فرید صابری نہ صرف پاکستان کے مقبول ترین قوال تھے بلکہ دنیا بھر میں ان کی شہرت تھی اور انھوں نے کئی ممالک میں اپنے بھائی کے ساتھ قوالی گا کر سامعین کے دل جیتے۔ تاجدار حرم وہ مقبولِ‌ زمانہ کلام تھا جسے غلام فرید صابری نے پہلی مرتبہ 1946 میں مبارک شاہ کے عرس کے موقع پر پیش کیا تھا۔

    ان کا پہلا البم 1958 میں ریلیز ہوا تھا، جس کی قوالی ‘میرا کوئی نہیں تیرے سوا’ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور آج بھی یہ قوالی سننے والا بے اختیار جھومنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

    غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی جوڑی 70 اور 80 کی دہائی میں اپنی شہرت اور مقبولیت کے عروج پر تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ‘بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی’ جیسا خوب صورت کلام قوالی کی شکل میں‌ پیش کرکے دنیا بھر میں شہرت پائی۔

    ان کی متعدد قوالیوں کو فلموں میں بھی شامل کیا گیا۔ غلام فرید صابری نے اردو کے علاوہ پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبان میں بھی قوالیاں پیش کیں۔

  • شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی اردو کے معروف شاعر تھے جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1925ء کو ہوا تھا۔ شوق قدوائی کا اصل نام شیخ احمد علی قدوائی تھا اور شوق تخلّص۔ وہ اپنی ملازمت اور سرکاری منصب کی وجہ سے منشی احمد علی کے نام سے بھی مشہور تھے۔

    شوق قدوائی ضلع لکھنؤ کے قصبہ جگور میں 1852ء میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اور رائج زبانیں‌ سیکھیں‌۔ وہ فارسی اور عربی جانتے تھے اور انگریزی بھی پڑھی تھی۔

    شوق قدوائی نے مظفر علی اسیر کی شاگردی اختیار کی جو رشتے میں ان کے دادا تھے۔ کچھ مدّت فیض آباد میں تحصیل دار کے فرائض انجام دیے۔ بعد میں ملازمت ترک کرکے صحافت شروع کی۔ انھوں نے لکھنؤ سے اخبار ’’آزاد‘‘ جاری کیا۔ شوق نے ریاست بھوپال میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی تھیں اور وہیں سے پنشن بھی پاتے تھے۔

    آخر عمر میں رام پور چلے گئے تھے جہاں کتب خانہ سرکاری سے وابستہ رہے۔ انھوں نے غزل کے علاوہ مثنویاں لکھیں‌ اور انھیں شایع کروایا۔ شوق قدوائی کا دیوان ’’فیضانِ شوق‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے گونڈہ میں وفات پائی۔