Tag: اپریل وفیات

  • بالی وڈ کے معروف فلم ساز کیدار شرما کا تذکرہ

    بالی وڈ کے معروف فلم ساز کیدار شرما کا تذکرہ

    کیدار شرما بولی وڈ کے باکمال اور کام یاب فلم سازوں میں سے ایک تھے جو 29 اپریل 1999ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے متعدد باصلاحیت فن کاروں کو انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔

    وہ 12 اپریل 1910ء کو ناروال (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ کیدار نے امرتسر میں تعلیم مکمل کی اور روزگار کی تلاش میں ممبئی آ گئے۔ 1933ء میں کیدار کو دیوکی بوس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”پران بھگت” دیکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انھیں بہت متاثر کیا اور کیدار نے فلم نگری میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا، اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے کولکتہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح دیوکی بوس سے ملاقات ہوگئی اور انہی کی سفارش پر نیو تھیٹر میں بطور سنیماٹوگرافر کام ملا۔

    سنیماٹوگرافر کی حیثیت سے کیدار کی پہلی فلم ‘سیتا’ تھی۔ اس کے بعد نیو تھیٹر کی فلم ‘انقلاب’ میں انھیں ایک چھوٹا سا کردار نبھانے کو ملا اور 1936ء میں فلم ”دیو داس” نے انھیں ایک باصلاحیت فن کار ثابت کرتے ہوئے فلمی کیریئر بنانے کا موقع فراہم کیا۔بعد میں‌ انھوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی شناخت بنائی۔ "چتر لیکھا” وہ فلم تھی جس نے انھیں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام یاب کیا۔ انھوں نے راج کپور کو پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ 1950ء میں کیدار نے فلم ”باورے نین” بنائی اور گیتا بالی کو پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی ایک فلم ”جوگن” سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں دلیپ کمار اور نرگس نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

    کیدار جن فن کاروں کے کام سے خوش ہوتے، انھیں انعام میں‌ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔ راج کپور، دلیپ کمار، گیتا بالی اور نرگس نے بھی ان سے انعام وصول کیا تھا۔ وہ نغمہ نگار بھی تھے اور متعدد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ تقریباً پانچ دہائیوں تک فلمی سفر جاری رکھنے والے کیدار نے سنیما کے شائقین اور ناقدین سے بھی اپنے کمالِ‌ فن اور صلاحیتوں کی داد پائی۔

  • یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    آج معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 29 اپریل2011ء کو وفات پاگئے تھے۔

    25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے قلم تھاما تو اے حمید مشہور ہوئے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید نے ناول، افسانہ اور ڈراما نگاری کے لیے اپنے مطالعے اور مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت سے موضوعات چنے اور واقعات کو کہانی میں ڈھالا، ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی طرزِ‌ تحریر اور کرشن چندر کا اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں انھیں شہرت اور ان کی کہانیوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم ادیبوں کو نصیب ہوئی، وہ نوجوانوں کے مقبول ناول نگار بنے۔ ان کی کہانیاں نوجوانوں میں تجسس، شوق اور کھوج پیدا کرنے کے ساتھ انھیں‌ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    اے حمید نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور فکشن نگار کی حیثیت سے نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے۔ انھوں نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈراما ’عینک والا جن‘ لکھا جو پی ٹی وی سے نشر ہوتا تھا۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔

    اے حمید کی کچھ مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • فلمی دنیا کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف کی برسی

    فلمی دنیا کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف کی برسی

    29 اپریل 1976ء کو پاکستان کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف وفات پاگئے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا فلمی سفر بہت کام یاب رہا اور منور ظریف نے اپنی بے ساختگی، چہرے کے تاثرات اور انداز سے بہت جلد شائقین کی توجہ اور فلم سازوں کی نظر میں‌ اہمیت اور مقام حاصل کرلیا۔

    وہ 2 فروری 1940ء کو لاہور کے گنجان آباد علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے فلم اونچے محل میں مزاحیہ اداکاری سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن اس فلم کی نمائش سے پہلے ایک اور فلم ڈنڈیاں ریلیز ہوگئی اور یوں اس فلم کی بدولت وہ پہلی بار بڑے پردے شائقین کے سامنے آئے۔ منور ظریف کا شمار باصلاحیت اداکاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی عمدہ پرفارمنس نے انھیں اردو اور پنجابی فلموں کا مصروف اداکار بنا دیا۔

    منور ظریف کا فلمی کیریئر 15 سال پر محیط ہے جس میں انھوں نے 321 فلموں میں کام کیا۔ ہر سال ان کی دو درجن کے قریب فلمیں پردے پر پیش کی جاتی رہیں۔ منور ظریف کی پہلی سپر ہٹ فلم ہتھ جوڑی تھی۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جنھوں‌ نے اکثر فلموں میں اپنے بے ساختہ فقروں اور لطیف مکالموں سے شائقین کو لبھایا اور خود کو باصلاحیت ثابت کیا۔ انھیں‌ فلمی جگتوں کی وجہ سے پنجابی فلموں کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ فلم سازوں نے ان کی شخصیت کے مطابق فلمی سین رکھے اور مکالمے لکھوانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام ان کی کام یاب ترین فلموں میں سے ایک ہیں۔ منور ظریف کی آخری فلم لہو دے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اس معروف و مقبول مزاحیہ اداکار نے متعدد نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ وہ لاہور میں بی بی پاک دامناں کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • فیروز خان: ہمہ جہت فن کار جو اپنے شاہانہ طرزِ‌ زندگی کے لیے مشہور تھا

    فیروز خان: ہمہ جہت فن کار جو اپنے شاہانہ طرزِ‌ زندگی کے لیے مشہور تھا

    بولی وڈ میں فیروز خان ایک ‘اسٹائل آئیکون’ کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور اپنے شاہانہ طرزِ‌ زندگی کے لیے مشہور تھے۔ انھیں ہمہ جہت فن کار کہا جاتا ہے جس نے فلم نگری میں اپنے سفر کے دوران کئی کام یابیاں سمیٹیں۔ انھوں نے 27 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔

    فیروز خان نے فلمی کیریئر کا آغاز تو دوسرے درجے کی فلموں سے بطور معاون اداکار شروع کیا تھا، لیکن فلم اونچے لوگ میں ان کی لاجواب اداکاری انھیں اوّل درجے کی فلموں تک لے آئی اور وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ فیروز خان خود کو اداکاری تک محدود نہ رکھ سکے۔ وہ فلمیں پروڈیوس کرنے لگے اور بعد میں ہدایت کاری کے شعبے میں قسمت آزمائی۔ فلم سازی سے ہدایت کاری تک فیروز خان نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور بہ طور فلم ساز و ہدایت کار زیادہ کام یاب ہوئے۔

    ان کی بنائی ہوئی فلم جانباز 1986ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی اور کام یاب رہی، اس کے بعد دیا وان ایک مقبول فلم ثابت ہوئی اور قربانی نے بھی دھوم مچائی۔ یہ وہ فلم تھی جس کا ایک گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے…‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت پاکستانی پاپ سنگر نازیہ حسن نے گایا تھا، اس گیت کی بدولت پندرہ سالہ نازیہ حسن پاکستان اور بھارت میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگیں جب کہ فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی۔

    فیروز خان کی آخری کامیڈی فلم کا نام ‘ویلکم ‘ تھا۔ 69 سال کی عمر میں وفات پانے والے اس فن کار کو کینسر کا مرض لاحق تھا۔

  • سر عبداللہ ہارون: تحریکِ آزادی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار

    سر عبداللہ ہارون: تحریکِ آزادی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار

    تحریکِ آزادی اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں‌ کی سیاسی اور معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بے دریغ مالی مدد کرنے والے حاجی سر عبداللہ ہارون 27 اپریل 1942ء کو وفات پاگئے تھے۔

    سر عبداللہ ہارون نے اقتصادی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں مسلمانوں کے لیے جو خدمات انجام دیں انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سندھ میں تحریکِ آزادی کے لیے فعال و متحرک کردار ادا کرنے کے ساتھ قائدِ اعظم کے ایک وفادار اور بڑے مددگار کی حیثیت سے اپنا سرمایہ اور دولت خرچ کرتے رہے اور ہر محاذ پر آگے رہے۔

    سر عبداللہ ہارون 1872ء میں ایک میمن گھرانے میں پیدا ہوئے اور شروع ہی سے غربت اور تنگ دستی دیکھی۔ وہ محنتی اور مستقل مزاج تھے اور کم عمری میں کاروبار شروع کردیا۔ ان کی اسی محنت اور لگن نے انھیں کراچی کے مشہور اور امیر تاجروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔

    سادگی اور کفایت شعاری ان کا شعار رہا، لیکن دوسری طرف جب بھی سیاسی سرگرمیوں اور تحریکی کاموں کے لیے رقم کی ضرورت پڑی، وہ سب سے آگے نظر آئے۔ درد مند اور مسلمانوں کے خیر خواہ سر حاجی عبداللہ ہارون نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر دل کھول کر اپنا مال خرچ کیا۔ سیاست کے علاوہ انھوں نے رفاہِ عامہ کے بھی کام کیے اور متعدد مدراس، کالج، مساجد اور یتیم خانے بنوائے۔ وہ مسلم لیگ کا فخر تھے اور جنگِ آزادی و تحریکِ آزادی میں تا دمِ‌ آخر بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔

    کراچی میں عبداللہ ہارون کالج ان کی یادگار ہے جب کہ شہر کے قلب اور اہم تجارتی مرکز میں ایک سڑک بھی ان سے موسوم ہے۔

  • یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    آج تحریکِ آزادی کے ایک جرأت مند اور بے باک راہ نما اور شیرِ بنگال کے لقب سے یاد کیے جانے والے مولوی فضل الحق کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 27 اپریل 1962ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انہیں 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

    مولوی ابوالقاسم فضل الحق 26 اکتوبر 1873ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1895ء میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ 1912ء میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1935ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ 1937ء میں انہوں نے بنگال کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا اور 1943ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    اس دوران لاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تو مولوی فضل الحق کو وہ تاریخی اہمیت کی حامل قرارداد پیش کرنے کا موقع ملا جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا اور متحدہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک میں‌ نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر اور بعد میں مرکز میں وزیرِ داخلہ کے عہدے پر فرائض انجام دیے۔

    1958ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد وہ عملی سیاست سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوگئے۔ 1960ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلالِ پاکستان کا اعزاز عطا کیا۔ مولوی فضل الحق ڈھاکا میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • خوش شکل اور دراز قد شیام جس نے فلم کی عکس بندی کے دوران زندگی ہار دی

    خوش شکل اور دراز قد شیام جس نے فلم کی عکس بندی کے دوران زندگی ہار دی

    شیام کا نام آج شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جن کا بطور ہیرو فلمی سفر بہت مختصر رہا اور وہ 26 اپریل 1951ء میں ایک حادثے میں اپنی زندگی سے محروم ہوگئے۔ شیام کا اصل نام شیام سندر چڈھا تھا جنھوں نے 1920ء میں سیالکوت کے کتھری ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی اور راولپنڈی میں پرورش پائی۔ یہیں‌ تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد شیام فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔

    شیام نے اداکاری کا آغاز ایک پنجابی فلم”گوانڈی” سے کیا۔ یہ فلم 1942ء میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور تقسیم کے بعد وہیں رہے، بمبئی میں انھوں نے ایک اداکار کی حیثیت سے متعدد کام یابیاں سمیٹیں۔ لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور بطور ہیرو ان کی شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع ہوا تو زندگی ان سے روٹھ گئی۔

    شیام خوش شکل اور دراز قد تھے۔ وہ رومان پرور مشہور تھے۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اداکاراؤں کے ساتھ ان کی دوستیوں کا چرچا ہونے لگا۔ اس زمانے کے فلمی میگزین شیام سے متعلق خبریں اور فلم نگری میں ان کی قربتوں اور دوستیوں پر مضامین شایع کرتے رہتے تھے۔ ایک دن یہ خبر آئی کہ شیام گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے ہیں۔

    ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھے گھڑ سوار بھی تھے، لیکن فلم "شبستان” کی شوٹنگ کے دوران ایک سین کی عکس بندی کے دوران ان کا گھوڑا بدک گیا اور شیام زمین پر آرہے، لیکن پیر رکاب میں پھنس جانے اور گھوڑے کے مسلسل دوڑتے رہنے سے شیام کو سَر اور جسم پر شدید چوٹیں آئیں اور جب تک لوگوں نے گھوڑے کو قابو کیا، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شیام کو اسپتال لے جایا گیا مگر وہ زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔

    شیام کی فلموں کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہے۔ بازار ان کی کام یاب ترین فلم تھی جسے 1949ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ من کی جیت، پتنگا، مینا بازار میں‌ بھی شیام نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    شیام محض 31 سال کے تھے جب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے گہرے دوست بھی تھے۔

  • پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    26 اپریل 2005ء کو فلمی صنعت کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر انتقال کرگئے تھے۔ ان کا شمار ایسے فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جو انڈسٹری میں‌ اپنے کام کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے بھی سرگرم رہے اور اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ آج پنجابی فلموں‌ کے اس مشہور اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے لگ بھگ 150 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، خلیفہ نذیر کی اداکاری میں بے ساختگی ہوتی تھی جو فلم بینوں کو محظوظ کرتی تھی۔ خلیفہ نذیر نے پنجابی فلموں میں مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے رنگیلا اور منور ظریف کے بعد بڑی مقبولیت حاصل کی۔

    ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1963ء میں اردو فلم خون کی پیاس سے ہوا تھا تاہم ان کی شہرت کا آغاز 1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم زمیندار سے ہوا جس میں وہ ایک منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کے طور سامنے آئے۔ انھوں نے اس فلم کے ولن الیاس کاشمیری کے منشی کے طور پر اردو، پنجابی مکس زبان میں مکالمے بول کر جہاں شائقین کو اس انداز سے محفوظ ہونے کا موقع دیا، وہیں متاثر کن اداکاری بھی کی تھی۔

    خلیفہ نذیر نے زیادہ تر پنجابی فلموں میں ہی کردار نبھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں بھائیاں دی جوڑی، انورا، اصغرا، دولت اور دنیا، انتقام، غلام، اک دھی پنجاب دی، بے تاب اور ماں پتر کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے فلم مستانہ میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔

  • یومِ وفات: ایم ای زیڈ غزالی نے کرکٹ کی دنیا میں‌ کون سا منفرد ریکارڈ بنایا؟

    یومِ وفات: ایم ای زیڈ غزالی نے کرکٹ کی دنیا میں‌ کون سا منفرد ریکارڈ بنایا؟

    محمد ابراہیم زین الدّین غزالی پاکستان کے سابق مڈل آرڈر بیٹسمین اور آف بریک بائولر تھے جو ایم ای زیڈ غزالی کے نام سے مشہور ہیں۔

    کرکٹ کے کھیل کی تاریخ میں وہ اپنے ایک منفرد اعزاز کی وجہ سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل رہا کہ وہ اولڈ ٹریفرڈ (مانچسٹر) میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیلتے ہوئے دونوں اننگز میں صفر کے اسکور پر آئوٹ ہوئے۔ یوں ایم ای زیڈ غزالی پاکستانی ٹیم کے وہ کھلاڑی بنے جس نے اپنے ملک کی جانب سے پہلا ’’پیئر‘‘ بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ میچ 24 جولائی 1954ء کو کھیلا گیا تھا۔

    ایم ای زیڈ غزالی 26 اپریل 2003ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ آج کرکٹ کے کھیل میں پیئر بنانے کا ریکارڈ قائم کرنے والے اس کھلاڑی کا یومِ وفات ہے۔

    ایم ای زیڈ غزالی 15 جون 1924ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ انھوں نے 1954ء میں پاکستانی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ کُل دو ٹیسٹ میچز کھیلنے والے اس کھلاڑی کے منفرد ریکارڈ میں دونوں صفروں میں صرف دو گھنٹے کا وقفہ تھا جو کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے ٹیسٹ میچ میں سب سے تیز رفتار پیئر بنانے کا عالمی ریکارڈ ہے۔

  • یومِ وفات: تھیٹر سے سماج تک ہمہ جہات مدیحہ گوہر کا تذکرہ

    یومِ وفات: تھیٹر سے سماج تک ہمہ جہات مدیحہ گوہر کا تذکرہ

    مدیحہ گوہر پاکستان میں فنونِ لطیفہ کا معتبر حوالہ اور اسٹیج اور ٹیلی ویژن کی دنیا کی معروف فن کار تھیں جو 25 اپريل 2018ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں پاکستان میں حقوقِ انسانی کی سرگرم کارکن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ وہ سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھیں۔

    مدیحہ گوہر نے 1956ء میں کراچی میں آنکھ کھولی اور بعد میں‌ لاہور منتقل ہوگئیں، ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا، والدہ خدیجہ گوہر بھی قلم کار تھیں، جب کہ ایک بہن فریال گوہر بھی اداکاری اور آرٹ اور ثقافت میں نام ور ہوئیں۔ مدیحہ گوہر کی شادی معروف ڈراما نویس اور پروڈیوسر شاہد محمود ندیم سے ہوئی اور انھوں نے مل کر 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی جو ملک کی صفِ اول کی تھیٹر کمپنی شمار ہوئی۔

    وہ زمانہ طالب علمی ہی سے اداکاری اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگی تھیں۔ علم و ادب کے شوق نے 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کروایا، اور وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئیں جہاں یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر کے فن میں ماسٹرز کیا۔

    1983ء میں وطن لوٹنے پر انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ اس تھیٹر کے تحت مقامی مسائل کو اجاگر کیا گیا اور اس کے لیے نوٹنکی کا تجربہ کیا جسے دیسی اور مغربی روایت کی آمیزش نے قبولیت کے درجے پر پہنچایا اور ان کے اس تھیٹر نے پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے علاوہ یورپ میں بھی شہرت اور داد پائی۔

    ان کے ڈراموں میں انسان دوستی اور صنفی مساوات کا موضوع نمایاں رہا جسے انھوں نے نہایت پُراثر اور معیاری انداز سے مقامی مزاج اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا۔

    مدیحہ گوہر نے پاکستان میں‌ ٹیلی ویژن کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں تھیٹر پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ حقوقِ‌ نسواں‌ کی علم بردار اور ایک سماجی کارکن بھی تھیں۔

    2006ء میں انھیں نیدرلینڈ میں ‘پرنس کلوڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا اور 2007ء میں انھوں نے "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ” اپنے نام کیا۔

    مدیحہ گوہر کا شمار پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے ان آرٹسٹوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند رکھا اور دوسروں سے بھی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں‌ کی، وہ اس حوالے سخت گیر مشہور تھیں۔