Tag: اپریل وفیات

  • ریڈیو پر قیامِ پاکستان کا اعلان کرنے والے مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی

    ریڈیو پر قیامِ پاکستان کا اعلان کرنے والے مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی

    برصغیر کے مسلمانوں کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب آزادی کی نوید سنانے والے پاکستان کے نام وَر براڈ کاسٹر اور شاعر مصطفٰی علی ہمدانی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ وہ 21 اپریل 1980ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    29 جولائی 1909ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے مصطفیٰ علی ہمدانی نے قیامِ پاکستان کے موقع پر ان الفاظ میں تاریخی اعلان کیا تھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلامُ علیکم 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب، رات کے 12 بجے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس طلوعِ صبح آزادی۔‘‘

    ان کا بچپن اردو کے مایہ ناز انشا پرداز مولانا محمد حسین آزاد کے گھر میں گزرا تھا جس نے ان کے اندر مطالعہ اور علم و ادب کا شوق پیدا کردیا۔ 1939ء میں وہ لاہور ریڈیو اسٹیشن سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ ہوئے اور 1969ء میں ریٹائر ہوگئے۔

    مصطفٰی علی ہمدانی ہی نے لاہور اسٹیشن سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کی جانکاہ خبر بھی سنائی تھی۔ انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لاہور اسٹیشن سے خصوصی نشریات کے دوران قوم اور سرحدوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ بڑھایا۔

    مصطفٰی علی ہمدانی اردو کے علاوہ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور انھیں تلفظ و ادائی میں سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ تلفظ اور ادائی ہی نہیں انھیں شعر کا بھی خوب فہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا گایا ہوا کلام سامعین کے دل میں اتر جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور باکمال گلوکارہ نے 21 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج اقبال بانو کی برسی ہے۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    انھوں نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کی زندگی کے چند اوراق

    شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کی زندگی کے چند اوراق

    حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری سے دنیا واقف ہے اور ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علّامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں مصوّرِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

    علّامہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں عظیم مفکر، مدبّر، قانون دان بھی تھے جس نے برصغیر کے مسلمانوں، خصوصاً نوجوانوں کی راہ نمائی کی اور انھیں ایک سمت میں آگے بڑھتے ہوئے منزل تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔

    9 نومبر 1877ء کو شیخ نور محمد کے گھر آنکھ کھولنے والے محمد اقبال عہد شناس اور عہد ساز شاعر مشہور ہوئے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور پھر مشرق کو اس کی بدحالی اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو ان کی کم زوریوں اور خامیوں پر خبردار کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کی اصلاح کرتے ہوئے علم و عمل کی جانب راغب کیا۔

    اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان نوجوان کو حیات و کائنات کو مسخر کرنے اور اسلاف کے فراموش کردہ کردار اور ورثے کو پانے اور اس کا احیا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔

    اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے محض 17 سال کی عمر میں اپنے کلام سے اس وقت کے جیّد شعراء کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔

    اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔

    علّامہ اقبال کا کلام دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے کلام کے کئی مجموعے شایع ہوئے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے ایک آفاقی پیغام دیا ہے:

    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

  • معروف افسانہ نگار، شاعرہ اور فلم ساز تبسّم فاطمہ راہیِ ملکِ عدم ہوئیں

    معروف افسانہ نگار، شاعرہ اور فلم ساز تبسّم فاطمہ راہیِ ملکِ عدم ہوئیں

    ہندوستان کی معروف شاعرہ، افسانہ نگار، نقّاد، صحافی، مترجم اور فلم ساز تبسّم فاطمہ انتقال کر گئیں۔ گزشتہ روز ان کے شوہر اور معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی مختصر علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ہندوستان کے معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کی اہلیہ تبسّم فاطمہ اپنے شوہر کی اچانک موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور ان کے انتقال کے ایک روز بعد انھوں نے بھی ہمیشہ کے لیے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ وہ اپنے شوہر اور اکلوتے بیٹے کے ساتھ دہلی میں مقیم تھیں۔

    تبسّم فاطمہ نے نفسیات میں ایم اے کیا تھا۔ وہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں افسانے، کہانیاں‌ اور مضامین لکھتی رہی ہیں جو معروف ادبی رسائل اور اخبار کی زینت بنے۔ اردو میں ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ’لیکن جزیرہ نہیں‘ ،’ستاروں کی آخری منزل‘، ’سیاہ لباس‘ کہانیوں کے مجموعے ہیں جب کہ ’میں پناہ تلاش کرتی ہوں‘، ’ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے‘، ’تمہارے خیال کی آخری دھوپ‘ ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ ہندی زبان میں ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ 2018ء میں شایع ہوا تھا۔

    انھوں نے اردو سے ہندی میں بیس سے زائد کتب کا ترجمہ کیا۔ ان میں کہانیاں اور شاعری بھی شامل ہے۔

    تبسّم فاطمہ نے بھارتی ٹی وی چینلوں پر ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کی جب کہ فلم کے میدان میں انھوں نے پچاس سے زائد ادیبوں کے فن اور ان کی زندگی پر فلمیں بنائیں۔ تبسم فاطمہ کا شمار ان ادبی شخصیات میں کیا جاسکتا ہے جو فنونِ لطیفہ اور ادب کے مختلف شعبوں میں نہایت فعال و متحرک رہیں اور خاصا کام کیا۔ انھیں کئی ادبی ایوارڈوں سے نوازا گیا اور پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اپنی تخلیقات کی وجہ سے مقبول ہیں۔

  • معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    پاکستان میں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم و تربیت اور فنِ مصوّری کے فروغ کے لیے اینا مولکا احمد کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اس نام ور مصوّرہ کی برسی ہے۔ وہ 20 اپریل 2005ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اینا مولکا نے 1917ء میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا تو وہاں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی ایک اچھے مصوّر تھے۔ یہ 1935ء کی بات ہے۔ شیخ احمد سے دوستی محبت میں بدل گئی اور انھوں نے عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کی رفاقت قبول کرلی۔ اینا مولکا نے اسلام قبول کیا اور 1939ء میں شیخ احمد سے شادی کے بعد تمام عمر پاکستان میں گزرا دی۔

    یہاں لاہور میں قیام کے دوران اینا مولکا نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940ء سے 1972ء تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے ناقدین اور باذوق شخصیات نے اینا مولکا کے فن پاروں اور مصوّری کے شعبے میں ان کی‌ خدمات کو بہت سراہا اور ان کی شہرت ایک ایسی فن کار کے طور پر ہوئی جو یورپی طرزِ مصوّری میں ماہر تھیں، اس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوّری کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ اینا مولکا لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    پاکستان میں‌ ترقّی پسند فکر اور ادب تخلیق کرنے والوں میں سید سبطِ حسن ایک بڑا نام ہیں‌ جو 20 اپریل 1986ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے سبطِ‌ حسن نے ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلابِ ایران، کارل مارکس اور نویدِ فکر جیسی تصانیف سے علمی و ادبی حلقوں اور اہلِ دانش کو متاثر کیا۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 31 جولائی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم مکمل کی۔ وہاں انھیں ترقّی پسند دانش وروں، ادبا اور شعرا کا ساتھ نصیب ہوا جن میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری و دیگر شامل تھے۔ یہ وہ نام تھے جنھوں نے سیّد سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقّی پسند تحریک کا آغاز کیا جو مقبول اور ہمہ گیر ثابت ہوئی۔

    سید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے پہلے لاہور اور بعد میں کراچی کو اپنایا تھا۔ سید سبطِ حسن نے خالص علمی اور فکری موضوعات پر کام کیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔

    ان کا انتقال بھارت کے شہر دہلی میں ہوا جہاں وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سبطِ حسن کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • ‘وہ کون تھی؟’ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا تذکرہ

    ‘وہ کون تھی؟’ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا تذکرہ

    نام وَر ادیب بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری 20 اپریل 2009ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ ان کے والد ظفر عمر اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں جب کہ شوہر اختر حسین رائے پوری اردو کے نام ور نقّاد، محقق اور ادیب تھے۔

    بیگم حمیدہ حسین رائے پوری نے گھر کے علمی و ادبی ماحول میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئیں تو اعلیٰ اور معیاری رسائل و جرائد اور مختلف موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بھی لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ تاہم انھوں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد باقاعدہ لکھنا شروع کیا تھا۔

    22 نومبر 1918ء کو ہردوئی میں پیدا ہونے والی بیگم حمیدہ اختر حسین نے اپنے بے ساختہ اور سادہ اسلوبِ بیان سے سبھی کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک خودنوشت سوانح عمری ہم سفر کے نام سے لکھی جسے بہت پسند کیا گیا۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں کے دو مجموعے نایاب ہیں ہم اور چہرے مہرے بھی شایع ہوئے۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین نے بچّوں کے لیے بھی کہانیاں تخلیق کیں اور ایک مجموعہ سدا بہار بھی شایع کروایا جب کہ کھانے پکانے کی تراکیب کا مجموعہ پکائو اور کھلائو بھی منظرِ عام پر آیا، ان کا ایک ناول وہ کون تھی کے نام سے شایع ہوا۔ وہ کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار اور حساس سماجی و سیاسی موضوعات پر اپنی کہانیوں کے ذریعے اردو ادب میں نام اور پہچان بنانے والے مشرف عالم ذوقی 58 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

    مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہوئے۔ بھارت کے سماجی اور سیاسی حالات پر خصوصا چند برسوں کے دوران بھارت میں افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔

    مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ شامل ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔

    چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دلی میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • بیسویں صدی کے عظیم ماہرِ طبیعیات آئن اسٹائن کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے عظیم ماہرِ طبیعیات آئن اسٹائن کا تذکرہ

    البرٹ آئن سٹائن کے نام سے کون واقف نہیں۔ انھیں انسانی تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں سے ایک اور بیسویں صدی کا سب سے بڑا ماہرِ طبیعیات مانا جاتا ہے جو 18 اپریل 1955ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آئن اسٹائن کی وجہِ شہرت ان کا عمومی اضافیت کا وہ نظریہ ہے جسے دنیا عمومی نظریۂ اضافت کہتی ہے۔ اس سائنس دان نے کششِ ثقل کے بارے میں 1915ء میں اپنا مقالہ پیش کیا تھا جسے آج جدید طبیعیات میں کششِ ثقل کی قابلِ اعتماد وضاحت مانا جاتا ہے۔

    آئن اسٹائن کی پیدائش ایک یہودی جوڑے کے گھر ہوئی تھی جو جرمنی کے شہر اُولم میں مقیم تھا۔ 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہونے اس بچّے نے ایک کیتھولک عیسائی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ والد اپنے کاروبار کے سبب اٹلی چلے گئے اور 16 سال کی عمر میں‌ آئن اسٹائن بھی اٹلی پہنچ گیا جہاں اس نے خاصا وقت گزارا اور تعلیم کے ساتھ ملازمت کے لیے بھی کوشاں رہا۔

    فزکس میں دل چسپی اور سائنسی تحقیق نے اسے 1906ء میں زیورخ یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی میں کام یاب کروایا، اور سائنسی مقالات کی وجہ سے اسے شناخت ملنے لگی، اس کے علمی و تحقیقی کام کو دیکھتے ہوئے زیورخ یونیوسٹی نے نظریاتی طیبیعیات میں اسے ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔

    بعد ازاں پراگ یونیوسٹی سے پروفیسر کے درجے میں‌ ملازمت کی پیشکش ہوئی، تو وہ پراگ چلا گیا۔ اگلے برسوں میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کروایا جس کے سبب اسے بہت شہرت اور اہمیت حاصل ہوگئی اور پھر برلن یونیورسٹی سے پروفیسر اور ایک نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر کے لیے پیشکش کردی گئی اور یوں وہ جرمنی چلا آیا اور پھر جنگِ عظیم چھڑ گئی جس کے بعد ہٹلر اقتدار میں آگیا اور تب آئن اسٹائن نے ایک موقع پر امریکا جانے کا فیصلہ کیا اور وہیں انتقال کیا۔ آئن اسٹائن کو 1922 میں‌ نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • ڈاکٹر جمیل جالبی:‌ اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت

    ڈاکٹر جمیل جالبی:‌ اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت

    معروف ادیب، نقّاد، محقق اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی 18 اپریل 2019ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اردو زبان و ادب کو مختلف موضوعات پر وقیع اور جامع کتب سے مالا مال کرنے والے اس ادیب کی دوسری برسی منائی جارہی ہے۔

    جمیل جالبی علم و ادب میں ایک ہمہ جہت اور ایسے قلم کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جنھوں نے کئی اہم اور ادق موضوعات پر بھی لکھا اور اپنی قابلیت اور علمی استعداد کو منواتے ہوئے کئی اہم تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    انھیں ایک نقّاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور ایسے محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جس نے ایک قابلِ قدر اور لائقِ مطالعہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے تصنیف و تالیف سے لے کر تدوین و ترجمہ تک خوب کام کیا۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 12 جون، 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہا‌ں انھوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور امتحانات میں کام یابیاں سمیٹتے رہے۔ بعد میں انھوں نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو کہانی سے ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوا اور ان کی تحاریر دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہوئیں۔

    ان کی کتابوں میں جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب میں نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ شامل ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا۔