Tag: اپریل وفیات

  • اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    برصغیر کے اردو، فارسی اور عربی کے مشہور عالم اور ماہرِ غالبیات مالک رام کی زندگی کا سفر 16 اپریل 1993ء کو تمام ہوا۔ وہ نہ صرف اردو، انگریزی کے بلند پایہ ادیب، نقّاد اور محقق تھے بلکہ انھوں نے اسلام اور اس کی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس حوالے سے مختلف موضوعات پر نہایت جامع اور مستند مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ انھیں غالب شناس کہا جاتا ہے۔

    ادب، مذہب اور تاریخ مالک رام کی دل چسپی کے موضوعات ہیں جب کہ انھوں نے 200 سے زائد مقالے اور مضامین لکھے جو پاک و ہند کے مشہور و معروف جرائد میں شایع ہوئے۔

    دہلی میں وفات پانے والے مالک رام کا تعلق متحدہ ہندوستان کے علاقے پھالیہ سے تھا جہاں انھوں نے 1906ء میں آنکھ کھولی۔ وزیر آباد میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے لاہور کے ماہانہ ادبی جریدے نیرنگِ خیال کے لیے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ انھوں نے انڈین فارن سروس میں شمولیت کے دوران ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے مختلف ممالک کے دورے کیے جہاں اپنے علمی و ادبی شوق کے سبب لائبریریوں، عجائب گھروں اور تاریخی مقامات کی سیر کی اور ان سے متعلق معلوماتی مضامین اور تذکرے لکھے۔ مالک رام مختلف اداروں اور جرائد سے منسلک رہے اور بکثرت لکھا۔

    مالک رام نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے مطالعے میں گزارا۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں غالب کے زیادہ تر کلام کی تدوین کی اور حاشیے بھی لکھے۔ ان میں سبدِ چین، دیوانِ غالب، گلِ رعنا اور خطوطِ غالب شامل ہیں۔

    ذکرِ غالب وہ کتاب تھی جو غالب کی حیات اور تخلیقات پر مالک رام کی علمی اور تحقیقی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور اسے غالب پر تحقیقی اعتبار سے سند مانا جاتا ہے۔

    مالک رام کو اسلامی ثقافت اور ادب پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اسلامی ادب، روایات اور رسومات پر کئی مضامین لکھے۔ ان کی دو کتب ہر خاص و عام کے لیے مفید ہیں جن میں ایک ‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ ہے جس کا انگریزی، عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا جب کہ اسلامیات کے حوالے سے ان کی دوسری اہم کتاب کا نام ہی ‘اسلامیات‘ تھا۔ اس میں مالک رام نے اسلام اور اسلامی روایات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

    مالک رام نے ادبی دنیا کے کئی اعزازات حاصل کرنے کے علاوہ بھارتی حکومت سے بھی اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کے اعتراف میں ایوارڈ حاصل کیے۔

  • نام وَر فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نویس ڈبلیو زیڈ احمد کی برسی

    نام وَر فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نویس ڈبلیو زیڈ احمد کی برسی

    15 اپریل 2007ء کو پاکستان کے نام وَر فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار ڈبلیو زیڈ احمد طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا جنھیں‌ ڈبلیو زیڈ احمد کے نام سے شناخت کیا جاتا تھا۔

    20 دسمبر 1915ء کو گودھرا (موجودہ بھارت) میں پیدا ہونے والے وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں انھوں نے فلم نگری میں قدم رکھا اور بطور مکالمہ نویس فلمی سفر شروع کیا۔

    1939ء میں انھوں نے پونا میں شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے ایک فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی اور پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو بے حد کام یاب رہی۔ اس کے بعد انھوں نے فلم پریم سنگیت، من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ نغمات بے حد مقبول ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ڈبلیو زیڈ احمد نے لاہور ہجرت کی اور یہاں ڈبلیو زیڈ اسٹوڈیوز قائم کیا اور فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے ایک فلم ساز ادارہ بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر کی نذر ہوگئی۔ 1957ء میں ان کی ایک اور فلم وعدہ منظر عام پر آئی جس نے کام یابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

    ڈبلیو زیڈ احمد نے مشہور اداکارہ نینا سے دوسری شادی کی تھی جو فلمی دنیا میں ’’پراسرار نینا‘‘ کے نام سے معروف تھیں۔ پاکستان کے اس باکمال اور مشہور فلم ساز کو بیدیاں روڈ، لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    آج معروف ماہرِ تعلیم، ادیب اور متعدد علمی و تحقیقی اداروں‌ کے سربراہ پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 16 اپریل 2009ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں بے مثال خدمات انجام دینے والے پری شان خٹک نے اپنے علمی و تحقیقی کام اور ادبی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے۔ ان کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ 10 دسمبر 1932ء کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولنے والے غمی جان نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کیا اور پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔

    پری شان خٹک پشاور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات

    آج اردو کے معروف شاعر آرزو لکھنوی کا یومِ وفات ہے۔ 16 اپریل 1951ء کو کراچی میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے اس شاعر نے اپنے دور میں روایت سے ہٹ کر اپنے کلام کو نہ صرف رعایتِ لفظی، تشبیہات اور خوب صورت استعاروں سجایا بلکہ ‌نکتہ آفرینی کے سبب اپنے عہد کے منفرد اور مقبول شاعر کہلائے۔

    اردو کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا علم و ادب اور شاعری تھا۔

    آرزو نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ سخن تھی جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا، بعد میں نثر میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور ریڈیو کے لیے چند ڈرامے جب کہ فلموں کے مکالمے بھی لکھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزلیں ہیں۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • سارتر جنھوں نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا تھا

    سارتر جنھوں نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا تھا

    نوبیل جسے دنیا کا سب سے معتبر انعام سمجھا جاتا ہے، ژاں پال سارتر نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کرکے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ اس عظیم فلسفی، دانش ور، ڈراما نویس، ناول نگار اور محقق نے 1980 میں آج ہی کے روز اس دنیا کو خیرباد کہا تھا۔ سارتر کو سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں ان کے افکار اور نظریات کی وجہ سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    1905ء میں فرانس کے مشہور شہر پیرس میں پیدا ہونے والے سارتر ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ان کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارادن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے اور اسی عرصے میں انھوں نے لکھنا بھی شروع کردیا۔ سارتر کہتے تھے کہ انھیں نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق ان کا جنون بن گیا تھا۔ سارتر بہت اچھے گلوکار، پیانو نواز اور باکسر بھی تھے۔

    سارتر کو فرانس کا ضمیر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے انھیں اس بلند مقام تک پہنچایا جہاں ایک دنیا ان سے متاثر ہوئی۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگئے، لیکن انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری تھی۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

    وہ درس وتدریس سے بھی منسلک رہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران انھیں جرمن فوج نے گرفتار کر لیا اور ایک سال تک جرمنی میں نظر بند رکھا۔ سارتر کسی طرح فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور بعد میں‌ فرانس پر جرمنی کے قبضہ کے خلاف مزاحمتی تحریک میں پیش پیش رہے، جنگ کے بعد انھوں نے بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک جریدہ نکالا، جو بہت مشہور ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوئیں اور یہ جریدہ فکری انقلاب کا زینہ ثابت ہوا۔

    سارتر کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کے زبردست حامی تھے، لیکن بائیں بازو کی کسی جماعت سے وابستہ نہیں رہے۔ وہ جنگ کے خلاف تحاریک میں انتہائی سرگرم رہے۔ انھوں نے الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہروں میں پیش پیش رہے۔

  • موچی کا بیٹا جس کی ہمّت، محنت اور جدوجہد کی مثال دی جاتی ہے!

    موچی کا بیٹا جس کی ہمّت، محنت اور جدوجہد کی مثال دی جاتی ہے!

    ریاست ہائے متحدہ امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن 1865ء میں آج ہی کے روز ایک قاتلانہ حملے میں اپنی زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

    ابراہم لنکن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سیاست اور بین الاقوامی تعلقاتِ عامّہ کے ادنیٰ طالبِ علم سے لے کر دنیا کی اہم اور کام یاب شخصیات کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والے ہر فرد نے ابراہم لنکن کا نام سنا اور ان کے بارے میں پڑھا ہوگا۔

    ابراہم لنکن کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ قانون کی حکم رانی سے غلامی کے خاتمے کی کوششوں اور عوام کے لیے سہولیات کی فراہمی، قانون سازی اور اپنے اہم فیصلوں کی وجہ سے انھیں امریکا میں‌ بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    ابراہم لنکن کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ایک عام گھرانے میں‌ آنکھ کھولنے والے اس بچّے نے محنت مزدوری کرکے، سخت حالات اور بیماریوں سے لڑ کر، عملی زندگی کی ناکامیوں کو جھیلتے ہوئے اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت کی بدولت خود کو امریکا کے منصبِ صدرات کا اہل ثابت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ابراہم لنکن کی زندگی اور جہدِ مسلسل سے سبق حاصل کرتی ہے اور باہمّت و بلند حوصلہ شخصیت کے طور پر ان کی مثال دی جاتی ہے۔

    امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر بھی ابراہم لنکن کو کہا جاتا ہے۔ امریکا میں سیاہ فام افراد کی آزادی اور خانہ جنگی کا خاتمہ ان کا بڑا کارنامہ ہیں۔ 1809 میں پیدا ہونے والے اسی ابراہم لنکن کا بچپن غربت میں گزرا۔ ان کے والد ایک چھوٹے کاشت کار تھے جو اپنی زمین کے حوالے سے ایک مقدمہ ہارنے کے بعد مشکل اور تنگ دستی کا شکار ہوگئے تھے۔

    لنکن اپنے والد کے ساتھ محنت مزدوری کرتے تھے۔ انھوں نے نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ مگر انھوں نے ہمّت نہ ہاری۔ لنکن نے وکالت پڑھنا شروع کی اور خود کو غربت سے نکالا۔ وہ سیاست میں‌ حصّہ لینے لگے اور یہاں‌ بھی انتخابی میدان میں ناکامیوں کے بعد بالآخر امریکا کے صدر بنے۔

  • انفرادیت پسند اور جدّت طراز موسیقار امجد بوبی کی برسی

    انفرادیت پسند اور جدّت طراز موسیقار امجد بوبی کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت میں امجد بوبی سریلی اور مدھر دھنیں ترتیب دینے کی وجہ ہی سے یاد نہیں‌ کیے جاتے بلکہ انھیں ایک ایسا موسیقار مانا جاتا ہے جس نے اس فن میں‌ نت نئے تجربات کیے اور خود کو جدّت پسند ثابت کیا۔

    فلمی صنعت کے لیے کئی لازوال دھنیں ترتیب دینے والے امجد بوبی 15 اپریل 2005 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    امجد بوبی 1942 میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ 1960 میں انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی جس کی نمائش 1976 میں ہوئی۔ اس کے گیت بہت پسند کیے گئے۔ بعد میں گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی کام یاب فلموں کے لیے امجد بوبی نے لازوال دھنیں تخلیق کرکے شہرت حاصل کی۔ امجد بوبی کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

    امجد بوبی ان موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ممبئی کے گلوکاروں کو متعارف کروایا اور اپنے فن میں انفرادیت اور جدّت کی بدولت مقبول ہوئے۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے اپنی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر بھارتی گلوکاروں کی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔

  • فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    فارغ بخاری، ‘یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے’

    اردو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے فارغ بخاری ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    فارغ بخاری کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ وہ 11 نومبر 1917ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔

    فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

    فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
    جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

    دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
    راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

    سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
    منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

    شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
    اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے

  • نام وَر مؤرخ، شاعر اور ادیب میر معصوم شاہ بکھری کا یومِ وفات

    نام وَر مؤرخ، شاعر اور ادیب میر معصوم شاہ بکھری کا یومِ وفات

    14 اپریل کو میر محمد معصوم شاہ بکھری اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں صوبۂ سندھ کی ایک عالم فاضل شخصیت، مؤرخ، شاعر اور ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    تاریخ کے اوراق میں ان کی وفات کا سنہ 1606ء درج ہے۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری سندھ کے قدیم شہر بکھر میں 1528ء میں‌ پیدا ہوئے۔ وادیٔ سندھ کی اس نابغۂ روزگار ہستی نے نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کی تاریخ مزّین کی اور ان کی تصانیف معلومات کا خزانہ ہیں۔ معصوم شاہ بکھری کو نظام الدین کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سندھ کی تاریخی کتابوں میں‌ لکھا ہے کہ میر معصوم شاہ بکھری اکبرِاعظم کے دربار سے وابستہ رہے تھے جس نے ان کو اس زمانے کے ایران میں مغلیہ سلطنت کی جانب سے سفیر مقرر کیا تھا۔ اکبر کے دربار میں پذیرائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو امینُ الملک کا خطاب عطا کیا۔ میر محمد معصوم شاہ بکھری ایک بلند پایہ مؤرخ اور سندھ کی تاریخ پر مشہور کتاب، تاریخِ معصومی تحریر کی جو نہایت وقیع اور مستند کتاب مانی جاتی ہے۔ شعروادب اور مختلف علوم میں ان کی گہری دل چسپی نے انھیں‌ درباروں اور اپنے وقت کے علما کی مجالس میں بڑی عزّت اور توقیر عطا کی۔ ان کی چند کتب میں ’پنج گنج‘،’طب و مفردات نامی‘، فارسی شاعری کے دو دیوان، رباعیات کا دیوان شامل ہے۔ ان کا یہ علمی اور ادبی سرمایہ سندھ کی ثقافت کا درخشاں باب ہے۔

    سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر سکھر میں میر معصوم شاہ بکھری نے ایک مینار تعمیر کروایا تھا جو انہی کے نام سے موسوم ہے۔ اس مینار کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی ہی نہیں بنیادوں پر اس کا قطر بھی 84 فٹ ہے اور اس کی سیڑھیوں کی تعداد بھی 84 ہے۔ اس مینار کی بنیاد میر محمد شاہ معصوم شاہ بکھری نے رکھی تھی جسے بعد میں ان کے بیٹے نے مکمل کروایا۔

    میر محمد معصوم شاہ بکھری کا مزار ان کے تعمیر کردہ مینار سے ملحق قبرستان میں واقع ہے۔

  • نام وَر سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا یومَ وفات

    نام وَر سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا یومَ وفات

    14 اپریل 1994ء کو پاکستان کے نام وَر سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ سائنس کے میدان میں‌ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ملک اور بیرونِ ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ 1966ء میں ڈاکٹر سلیم الزّماں نے جامعہ کراچی میں حسین ابراہیم جمال پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری قائم کیا اور زندگی بھر اس مرکز سے وابستہ رہے۔

    ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی 19 اکتوبر 1897ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1919ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا، بعد میں نگلستان اور جرمنی سے کیمسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

    1927ء میں انھوں نے فرینکفرٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور ہندوستان لوٹے جہاں مشہور حکیم اجمل خان کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوگئے۔ یہ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کا ایک بڑا مرکز اور مستند ادارہ تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی پاکستان کراچی چلے آئے۔ یہاں 1983ء میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور بانی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد میں حسین ابراہیم جمال پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے تحت علمی و تحقیقی کام کیا اور سائنس کی دنیا میں‌ معروف ہوئے۔

    ڈاکٹر سلیم الزّماں صدیقی ایک اچھے مصوّر بھی تھے۔ ان کی تصاویر کی باقاعدہ نمائشیں بھی منعقد ہوئی تھیں۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا جب کہ بیرونِ ممالک سے جو اعزازات ان کے حصّے میں آئے، ان میں سوویت سائنس اکیڈمی اور کویت فائونڈیشن کے طلائی تمغے اور برطانیہ کی رائل اکیڈمی آف سائنسز اور ویٹیکن اکیڈمی آف سائنسز کی رکنیت سرفہرست تھیں۔