Tag: اپریل وفیات

  • بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ہمہ جہت شخصیت

    بلراج ساہنی: باکمال اداکار، ہمہ جہت شخصیت

    ہندوستانی فلمی صنعت کے باکمال اداکار اور ہمہ جہت شخصیت بلراج ساہنی 13 اپریل 1973ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فن کار تھے جنھوں نے نہ صرف اداکار بلکہ اسکرین رائٹر، ڈراما اور سفر نامہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور خوب نام و مقام پیدا کیا۔

    بلراج ساہنی کا شمار ان اداکاروں‌ میں‌ کیا جاتا ہے جن کا کام دوسروں کے لیے مثال اور قابلِ تقلید بنا۔ 1913ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہونے والے بلراج ساہنی نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ 30ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے ایک جامعہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

    بعد میں لندن چلے گئے جہاں ریڈیو انائونسر کی ملازمت کی، لیکن 1943ء میں ہندوستان واپس آ گئے۔ اداکاری کا شوق انھیں شروع سے ہی تھا۔ وہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کے ڈراموں میں حصہ لیتے رہے، 1946ء میں فلم ’’انصاف‘‘ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ اسی سال خواجہ احمد عباس کی فلم ’’دھرتی کے لال‘‘ اور پھر ’’دور چلیں‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    1953ء میں ’’دو بیگھے زمین‘‘ میں کام سے خوب شہرت حاصل کی۔ کینز کے فلمی میلے میں انھیں انعام سے بھی نوازا گیا۔ ’’کابلی والا‘‘ ان کی وہ فلم تھی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور بلراج ساہنی کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔

    بلراج ساہنی نے اپنے وقت کی تمام معروف ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا جن میں پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجنتی مالا اور نرگس شامل ہیں۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں سٹہ بازار، ہم لوگ، بھابی کی چوڑیاں، کٹھ پتلی، لاجونتی، وقت، تلاش، ہلچل، ایک پھول دو مالی شامل ہیں۔ ان فلموں میں‌ بلراج ساہنی نے اپنے کرداروں میں‌ حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے۔ غریب آدمی سے لے کر مجبور کسان اور بے بس مزدور تک انھوں نے غضب کی اداکاری کی۔ انھوں نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔

    بلراج ساہنی بلاشبہ خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ وہ ادیب بھی تھے جنھوں نے انگریزی اور بعد میں پنجابی زبان میں ادب لکھا۔ وہ وسیع المطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور سے مالا مال شخص تھے۔ انھوں نے اسکرین پلے رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور خود کو منوانے میں کام یاب رہے۔

  • صحافت میں نام وَر اور علم و ادب میں ممتاز احفاظ الرّحمٰن کی برسی

    صحافت میں نام وَر اور علم و ادب میں ممتاز احفاظ الرّحمٰن کی برسی

    پاکستان میں آزادئ صحافت کے علم بَردار، ترقی پسند ادیب، شاعر، مترجم اور سینئر صحافی احفاظ الرحمٰن پچھلے سال 12 اپریل کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    احفاظ الرحمٰن 4 اپریل 1942ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے جبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    مطالعہ ان کا شوق تھا، شاعری، ناول، سیاست، فلسفہ، مصوّری، فلم اور مختلف موضوعات پر دنیا بھر کے ادیبوں اور قلم کاروں کی تخلیقات پڑھنے والے احفاظ الرحمٰن بائیں‌ بازو کے نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ عالمی ادب کے تراجم اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی ‌لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور نہایت پُراثر تھا جس میں‌ املا انشا اور صحّتِ زبان کا بہت خیال رکھتے۔ وہ شاعری اور مختلف موضوعات پر تحاریر اور تراجم کے علاوہ ایک عرصے تک سیاہ و سفید کے عنوان سے کالم بھی لکھتے رہے۔

    احفاظ الرحمٰن کالج کے زمانے میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ’’نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ (این ایس ایف) میں شامل ہوئے اور اس زمانے میں ایوب خان کی تعلیمی اصلاحات کے خلاف احتجاج میں پیش پیش رہے۔ بعد ازاں جب ایم اے صحافت کی غرض سے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تو این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے نثر اور نظم کے ذریعے ترقی پسند افکار عام کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

    کچھ عرصے تک تدریس سے وابستہ رہے اور پھر پیشہ ورانہ صحافت میں قدم رکھا۔ وہ ’’کراچی یونین آف جرنلسٹس‘‘ کے سرگرم رکن اور عہدے دار رہے جنھوں نے صحافیوں کو منظّم رکھنے اور ان کی تربیت کرنے کے ساتھ مختلف ادوار میں احتجاجی مظاہروں اور تحریکوں میں‌ صحافیوں کی قیادت اور راہ نمائی کی۔

    ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ان پر پابندیاں عائد کی گئیں جن کی وجہ سے وہ طویل عرصے تک بیروزگار رہے۔ تاہم 1985 میں چین کی ’’فارن لینگویج پریس‘‘ سے وابستہ ہوگئے اور چین میں قیام کیا، جہاں سے 1993ء میں واپس آئے اور ملک کے دو بڑے روزناموں سے بطور میگزین ایڈیٹر وابستہ ہوئے۔

    گلے کے کینسر کے باعث احفاظ الرحمٰن کی صحّت ان کی زندگی کے آخری چند برسوں میں بتدریج گرتی چلی گئی، اور 2018ء میں انھوں نے صحافت کو مکمل طور پر خیرباد کہہ دیا تھا۔

    احفاظ الرحمٰن نے کبھی اصولوں اور معیار پر سمجھوتا نہیں کیا، ان کی علمی و ادبی خدمات کے ساتھ آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ان کی متعدد کتابیں شایع ہوئیں جن میں‌ نثر و نظم پر طبع زاد، تراجم اور تالیف شامل ہیں۔ چین کی تاریخ، سیاست اور چینی ادبیات کے موضوع پر ان کے تراجم بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے چیئر مین مائو کے ساتھ لانگ مارچ، چو این لائی کی سوانح کا اردو ترجمہ، متعدد چینی ناولوں، افسانوں کے علاوہ بچّوں کی کہانیوں، نظموں کے تراجم بھی کیے۔ جنگ جاری رہے گی ان کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں‌ انھوں‌ نے انسان دوست شخصیات، ظلم و جبر کے خلاف لڑ جانے والوں کی زندگی کے اوراق اکٹھے کیے ہیں، اُن کی معرکہ آرا تصنیف ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ ہے جو ملک میں مختلف سیاسی ادوار اور صحافت کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔

  • نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار رفیع پیر کا یومِ وفات

    نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار رفیع پیر کا یومِ وفات

    پاکستان کے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار رفیع پیر 11 اپریل 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے اپنے فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کے لیے خدمات انجام دیں۔

    رفیع پیر نے 1900ء میں‌ متحدہ ہندوستان میں‌ آنکھ کھولی۔ رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں نشوونما پائی اور فنونِ لطیفہ میں اوائلِ عمری ہی میں دل چسپی لینے لگے تھے۔

    رفیع پیر کی تعلیم کا سلسلہ گورنمنٹ کالج لاہور تک پہنچا تو اس وقت تحریکِ عدم تعاون، تحریکِ خلافت کا شور تھا اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا تھا، جس نے انھیں کالج چھوڑ کر سیاست میں حصّہ لینے پر آمادہ کیا۔ ایک موقع پر جب ان کی گرفتاری کے وارنٹ نکلے تو اہلِ خانہ نے انھیں لندن بھجوا دیا، لیکن ان کے دل میں انگریزوں سے نفرت بھری ہوئی تھی اور انھوں نے وہاں سے جرمنی کا رخ کرلیا۔

    جرمنی اس زمانے میں فن و ثقافت کا مرکز تھا جہاں رفیع پیر کو تھیٹر پر کھیل تماشے اور ناٹک دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ وہاں مختلف علمی اور ادبی رجحانات نے انھیں متاثر کیا اور یوں ہندوستان واپسی پر رفیع پیر نے جدید رجحانات کو یہاں‌ فنونِ لطیفہ اور ثقافت کے میدان میں آزمایا اور ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس سے تربیت یافتہ فن کار سامنے آئے جو فلم اور تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوئے۔ رفیع پیر نے آل انڈیا ریڈیو، لاہور اسٹیشن پر قسمت آزمائی، انھوں نے ریڈیو کے لیے درجنوں ڈرامے تحریر کیے۔ وہ ڈراما نگار بھی تھے اور صداکار اور اداکار بھی۔ لاہور اور دہلی ریڈیو اسٹیشنوں سے طویل عرصے تک وابستہ رہے اور نام و مقام بنایا۔

    1946ء میں انھیں فلم نیچا نگر میں اہم کردار نبھانے کا موقع ملا۔ یہ وہ فلم تھی جسے فرانس کے مشہور فلمی میلے میں انعام بھی ملا تھا۔ رفیع پیر کا ریڈیو کے لیے لکھا گیا ڈراما ’’اکھیاں‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پہلا پنجابی تھا۔ جس کے بعد انھوں‌ نے پنجابی زبان میں مزید ڈرامے تحریر کیے۔ ان کا آخری ڈراما ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔

  • مایہ ناز گلوکار احمد رشدی کی برسی

    مایہ ناز گلوکار احمد رشدی کی برسی

    11 اپریل 1983ء کو احمد رشدی ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج اس نام وَر گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔ احمد رشدی کی آواز میں یہ سدا بہار گیت بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی….آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ اسی طرح کوکو رینا اور آیا گول گپّے والا آیا وہ نغمات تھے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔ احمد رشدی نے ٹیلی وژن اور فلم کے لیے کئی نغمات ریکارڈ کرائے اور اپنی آواز ہی نہیں اپنے منفرد انداز کے سبب بھی خوب شہرت حاصل کی۔

    احمد رشدی 1935ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ فلم عبرت سے پسِ پردہ گائیکی کا آغاز کرنے والے احمد رشدی 1954ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے جہاں ریڈیو پاکستان پر بندر روڈ سے کیماڑی جیسے مقبول نغمے سے گائیکی کا سفر شروع کیا۔

    پاکستان میں احمد رشدی کی بطور پسِ پردہ گلوکار پہلی فلم کارنامہ تھی۔ تاہم اس کی ریلیز سے پہلے فلم انوکھی ریلیز ہوگئی جس کے گیت بھی انھوں نے گائے تھے۔ ان کی آواز میں اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم کے بعد احمد رشدی کی کام یابیوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وہ فلم انڈسٹری میں‌ مصروف ہوگئے۔ ان کی آواز میں گیتوں کو پاکستان اور سرحد پار بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    وہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ورسٹائل اور مقبول ترین گلوکار تھے جنھوں نے اپنے کیرئیر کے دوران اپنی مترنم اور پرتاثر آواز سے لاکھوں دلوں میں‌ جگہ پائی اور اپنے انداز کے سبب مقبول ہوئے۔ اس زمانے میں‌ گویا ان کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ انھوں نے شوخ اور رومانوی نغمات کے علاوہ المیہ اور طربیہ شاعری کو بھی اپنی آواز میں اس طرح سمویا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔ احمد رشدی دھیمے سُروں، چنچل اور شوخ موسیقی کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے میں کمال رکھتے تھے۔

    پاکستان کے اس نام وَر گلوکار کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں بعد از وفات ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    جنوبی بحرِ اوقیانوس میں ارجنٹائن کے ساحل سے 480 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جزائر کا مجموعہ فاک لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں 776 چھوٹے جزائر اور دو بڑے جزیرے مشرقی فاک لینڈ اور مغربی فاک لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ رقبے کے اعتبار سے 12,000 مربع کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں اور یہاں کی‌ آبادی 3 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

    ان جزائر کا انتظام 1833ء سے برطانیہ نے سنبھال رکھا ہے، لیکن ارجنٹائن بھی ان پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان 1982ء میں ان جزائر پر قبضے کے لیے جنگ بھی ہوچکی ہے جس میں ارجنٹائن کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

    1982ء میں‌ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی حکم راں تھیں اور جب ان جزائر پر قبضے کے لیے ارجنٹائن کی جانب سے فوجی کارروائی کی گئی تو مارگریٹ تھیچر نے طاقت ہی سے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر 2013ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی موت سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 10 مارچ 2013ء کو فاک لینڈ میں‌ عوامی ریفرنڈم میں‌ وہاں کے باسیوں‌ نے برطانیہ کی عمل داری قبول کی تھی۔ ارجنٹائن کے حق میں‌ صرف 3 ووٹ آئے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ میں ‘آئرن لیڈی’ کہا جاتا ہے۔ وہ مضبوط اعصاب کی مالک اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے والی خاتون تھیں۔ 3 اپریل 1982ء کو ارجنٹائن نے ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج اتاری تو انھوں نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے جنگ کے لیے ایک سو جنگی بحری جہاز اور 27 ہزار فوجی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپریل میں شروع ہونے والی فاک لینڈ جنگ 74 دنوں تک جاری رہی اور جون کے مہینے میں‌ ارجنٹائن کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

    مارگریٹ تھیچر کے فوجی کارروائی کے فیصلے کی برطانوی عوام نے بھی کھل کر تائید اور حمایت کی تھی اور اسی فیصلے نے انھیں‌ برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں بھی کام یاب کروایا۔

    اگلی بار بھاری کام یابی کے بعد مارگریٹ تھیچر نے اپنے ایک مشکل ترین فیصلے سے خود کو پھر آئرن لیڈی ثابت کیا، ان کے اس دورِ حکومت میں برطانیہ میں نمایاں اقتصادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

    وہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں، ان کا پورا نام مارگریٹ ہلڈا تھیچر تھا۔ وہ اپنے ارادوں کی پختگی اور سخت گیر مؤقف کے لیے ہی مشہور نہیں‌ تھیں‌ بلکہ ناقدین انھیں‌ سخت اور مفاہمت نہ کرنے والی خاتون بھی کہتے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ ملکی سیاست اور اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں انھوں‌ نے کئی سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے کیے جو نہایت مشکل تھے، لیکن انھوں نے اس پر اپنی سخت مخالفت اور تنقید کی بھی پروا نہ کی۔

    انھیں تین بار اپنے ملک کے اہم ترین منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔

    مارگریٹ تھیچر کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ گرانتھم، لنکاشائر میں پیدا ہوئی تھیں۔
    ان کے والد سبزی فروش تھے۔ وہ ایک جُزوقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے جن کا ان کی بیٹی کی زندگی پر اثر تھا۔

    وہ کہتی تھیں کہ ’میرے والد نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں ہر اس چیز پر یقین کروں جس پر مجھے یقین ہو۔‘

    آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے والی مارگریٹ تھیچر کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری لینے کے بعد 1947ء سے لے کر1951ء تک ایک ادارے میں تحقیق میں مصروف رہیں۔

    1951ء میں شادی کے بعد بھی مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953ء میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔

    مارگریٹ تھیچر 1959ء میں اپنی جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا اور ایک روز وہ برطانیہ کی وزیراعظم بنیں۔

    مارگریٹ تھیچر کے دور میں برطانیہ میں کئی شعبوں میں اصلاحات کے سبب وہاں عوام کو کئی مشکلات پیش آئیں اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن بعد میں‌ ان اصلاحات اور بطور وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کے فیصلوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونے لگے۔ ان کی پالیسیوں کے باعث برطانیہ میں بے روز گاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہی پالیسیوں کی وجہ سے برطانوی معیشت میں دیرپا ترقّی دیکھنے میں آئی۔

    ان کی پالیسیوں کے تحت برطانیہ میں نجکاری کا عمل تیز ہوا۔ انھوں نے اپنے ملک میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کی ترقّی کے لیے کام کیا۔ ان کے دور میں مزدور یونین تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے اور نجکاری کے لیے قوانین متعارف کرانے کے علاوہ کونسل کے گھروں میں رہنے والوں کو وہی گھر خریدنے کی اجازت جیسے اہم فیصلے کیے گئے تھے۔

    برطانیہ اور ارجنٹائن جنگ کے دوران ان کی کام یاب خارجہ پالیسی کو بھی بہت سراہا جاتا ہے۔

    بعض ناقدین کی نظر میں سخت مزاج اور اپنا مؤقف تبدیل نہ کرنے والی مارگریٹ تھیچر کے بارے میں ان کے بعد وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سَر جان میجر نے کہا تھا، ’ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ جزیروں پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانے کے اقدامات نے انھیں ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ثابت کیا۔ یہ ایسی کام یابیاں تھیں جو شاید کوئی اور راہ نما حاصل نہیں کر سکتا تھا۔‘

    مارگریٹ تھیچر بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں جنھوں‌ نے 1979ء، 1983ء، اور 1987ء کے عام انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی۔

    برطانیہ کی آئرن لیڈی 1992ء میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں ریٹائر ہوئیں۔ ان کی سیاست کا بعد میں بھی آنے والے راہ نماؤں کی پالیسیوں پر گہرا اثر رہا۔

  • 8 اپریل: ’’گورنیکا‘‘ کے خالق نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں

    8 اپریل: ’’گورنیکا‘‘ کے خالق نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں

    بیسویں صدی کے مشہور مصوّر پابلو پکاسو 8 اپریل 1973ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج بھی دنیا بھر میں‌ اس ہسپانوی مصوّر کے فن پاروں کی نہ صرف نمائش کی جاتی ہے بلکہ مشہور میوزیموں میں پکاسو کے فن پاروں کے لیے ایک گوشہ مخصوص ہے۔

    پابلو پکاسو 1881ء میں ملاگا، اسپین میں ایک آرٹ ٹیچر کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ غیر معمولی ذہین تھا۔ اس کا خاندان بارسلونا منتقل ہو گیا جہاں فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ اور اس فن میں‌ نئے تصورات پر مباحث شروع ہوچکے تھے۔ پکاسو نے کم عمری ہی میں ڈرائنگ میں‌ اپنی دل چسپی ظاہر کردی تھی اور والد نے بھی اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کا خوب موقع دیا۔

    وہ اس کی مدد کرتے، سکھاتے اور سمجھاتے جس کے بعد اس نے اکیڈمی میں داخلہ لے کر آرٹ سیکھا اور تصویریں بنانے لگا۔ بعد میں اس کے حصّے میں‌ وہ شہرت آئی جو اس زمانے کے کسی اور مصوّر کو نہیں ملی، اسے تجرید کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

    1900ء میں پکاسو پیرس گیا۔ اس زمانے میں اس نے پیرس کی زندگی کو کینوس پر اتارا۔ وہ اس وقت تک فن کی بعض باریکیوں اور رنگوں کے استعمال کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا اور 1907ء میں پکاسو کی ملاقات ایک اور مصوّر براک سے ہوئی۔ دونوں نے مل کر ایک طرز ایجاد کی، یہ سفر جاری رہا، جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ مختلف سیاسی نظریات، سماجی تبدیلیوں اور بہت کچھ سہنے اور دیکھنے والے پکاسو نے اپنی تصویروں میں اس کا اظہار کیا۔

    1937ء میں اس کا شاہ کار فن پارہ ’’گورنیکا‘‘ سامنے آیا جس میں کٹے ہوئے سر والے بیل، کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کی ایک شکل کے ذریعے اس نے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اس فن پارے کو دنیا بھر میں شہرت ملی۔ وہ امن کا داعی تھا، وہ ہٹلر کی مخالف طاقتوں کی مدد کرتا رہا۔ اس نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی۔ غرض یہ کہ پکاسو نے ہر سطح پر اپنی فکر اور زاویہ نگاہ سے دنیا کو متاثر کیا، اس نے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے جو دنیا کی بڑی اور مشہور گیلریوں میں موجود ہیں۔

    اس نے اپنی امن پسندی اور اس کے لیے عملی جدوجہد پر لینن پرائز بھی حاصل کیا، اس نے رنگوں کے علاوہ شاعری کو اپنے افکار اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آرٹ کی دنیا اسے باکمال آرٹسٹ اور اس کے فن پاروں کو لازوال مانتی ہے۔

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ اسد امانت علی خان 8 اپریل 2007ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    وہ 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اسد امانت علی خان نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ اس جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔

    اسد امانت علی خان نے اپنے والد کے گائے ہوئے کلام کو ان کی وفات کے بعد اپنے انداز میں دوبارہ گا کر شائقین و سامعین سے خوب داد وصول کی۔ خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے انھیں بہت شہرت اور پذیرائی ملی۔

    اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ہر خاص و عام میں‌ پسند کیے گئے۔

    انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ وہ ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    نام وَر سارنگی نواز استاد نتھو خان کا یومِ وفات

    سارنگی وہ ساز ہے جس کی روایتی دھنوں پر عوامی شاعری برصغیر میں مقبول رہی ہے۔ یہ ساز ہندوستان میں کلاسیکی سنگیت کا اہم حصّہ رہا ہے۔ آج اس فن میں اپنے کمال اور مہارت کو منوانے والے استاد نتھو خان کی برسی ہے۔ وہ 7 اپریل 1971ء کو جرمنی میں قیام کے دوران وفات پاگئے تھے۔

    استاد نتھو خان 1924ء میں موضع جنڈیالہ گورو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا موسیقی کے فن سے وابستہ تھا اور والد میاں مولا بخش بھی اپنے عہد کے معروف سارنگی نواز تھے۔ استاد نتھو خان نے اپنے والد ہی سے موسیقی کے ابتدائی رموز سیکھے اور بعد میں اپنے چچا فیروز خان، استاد احمدی خاں اور استاد ظہوری خان کی شاگردی اختیار کی۔

    سارنگی وہ ساز ہے جسے سیکھنے میں محنت بہت لگتی ہے اور جدید آلاتِ موسیقی میں اس کے مقابلے میں وائلن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے۔ استاد نتھو خان کی خوبی اور کمال یہ تھا کہ وہ کلاسیکی گانا بھی جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں اپنے وقت کے نام ور اور مشہور کلاسیکی گلوکاروں نے سنگت کے لیے منتخب کیا اور ان کے فن کے معترف رہے۔

    روشن آرا بیگم جیسی برصغیر کی عظیم گلوکارہ استاد نتھو خان کی مداح تھیں۔ اپنے وقت کے ایک معروف ساز کے ماہر اور اپنے فن میں یکتا استاد نتھو خان فقط 46 برس کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

  • مقبولِ عام نعتیہ کلام کے خالق منوّر بدایونی کی برسی

    مقبولِ عام نعتیہ کلام کے خالق منوّر بدایونی کی برسی

    اردو زبان کے معروف شاعر حضرت منور بدایونی 6 اپریل 1984ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا حمدیہ و نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا اور آج بھی مذہبی اور روحانی محافل میں مشہور نعت خواں ان کا کلام پڑھتے ہیں۔

    منوّر بدایونی کا اصل نام ثقلین احمد تھا۔ وہ 2 دسمبر1908ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت اپنے نام میں بدایونی کا اضافہ کیا۔ ان کے شعری مجموعے منوّر نعتیں، منوّر غزلیں، منوّر نغمات اور منوّر قطعات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کے نعتیہ کلام کی کلیات بھی شایع ہوئی۔

    منوّر بدایونی کی غزلیں، قطعات اور نغمات بھی مشہور ہیں۔ محشر بدایونی ان کے چھوٹے بھائی تھے جن کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    منور بدایونی نے عنفوانِ شباب میں غزلیں بھی خوب کہیں، لیکن بعد میں طبیعت حمد و نعت، سلام و منقبت کی طرف مائل ہو گئی۔ منوّر بدایونی وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کا نعتیہ کلام بہت ذوق و شوق سے پڑھا گیا اور ان کے اشعار زباں زدِ عام ہوئے۔

    پیشِ‌ نظر شعر نے منور بدایونی کا نام گویا ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔

    نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے
    جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیب کی بات ہے
    جسے چاہا در پہ بلالیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا
    یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے

    کراچی میں وفات پاجانے والے منوّر بدایونی عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    نئی دہلی: بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر افتخار امام صدیقی ممبئی میں انتقال کرگئے۔

    اطلاعات کے مطابق کئی برس سے علیل افتخار امام صدیقی نے آج صبح ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انھیں پاک و ہند میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں ترنم اور مخصوص انداز کے سبب بہت پسند کیا جاتا تھا، 2002 ء میں ایک حادثے میں اپاہج ہوجانے والے افتخار امام صدیقی نے ضعیف العمری اور معذوری کے باوجود علم و ادب سے تعلق برقرار رکھا اور آخر وقت تک ماہ نامہ ‘شاعر’ کا اجرا بھی یقینی بناتے رہے۔

    افتخار امام صدیقی کے دادا سیماب اکبر آبادی بھی اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر تھے۔ انھوں نے 1930ء میں ماہ نامہ شاعر کا اجرا کیا تھا جسے بعد میں افتخار امام صدیقی نے جاری رکھا اور علالت کے باوجود یہ ماہ نامہ پابندی سے شایع ہوتا رہا۔

    افتخار امام صدیقی کا شمار بھی بھارت کے نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا کلام مشہور گلوکاروں نے گایا، وہ غزلوں کے علاوہ اپنے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے بھی مشہور تھے، 19 نومبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے افتخار امام صدیقی کے والد کا نام اعجاز صدیقی تھا جو سیماب اکبر آبادی کے بیٹے تھے۔ ان کی تدفین بعد نمازِ ظہر ناریل واڑی قبرستان رے روڈ، ممبئی میں کی گئی۔

    افتخار امام صدیقی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
    برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں

    وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
    مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

    پھر اس کے بعد تعلق میں فاصلے ہوں گے
    مجھے سنبھال کے رکھنا بچھڑ نہ جاؤں میں