Tag: اپریل وفیات

  • ریڈیو اور فلمی دنیا کی معروف گلوکارہ نگہت سیما کی برسی

    ریڈیو اور فلمی دنیا کی معروف گلوکارہ نگہت سیما کی برسی

    ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلمی دنیا کی مشہور گلوکارہ نگہت سیما 4 اپریل 2006ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ اجمیر سے تعلق رکھنے والی نگہت سیما کا گایا ہوا فلمی گیت میرا چن ماہی کپتان اپنے زمانے کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

    نگہت سیما کی گلوکاری اور ان کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے گیتوں کی فہرست طویل نہیں اور یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے کس فلم کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے، کہا جاتا ہے کہ انھیں 1963ء میں فلم چھوٹی بہن کے ذریعے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے فلم آزادی یا موت کے نغمات ریکارڈ کروائے تھے جن میں میرا چن ماہی کپتان بہت مقبول ہوا جب کہ بعض تذکروں میں آیا ہے کہ نگہت سیما کا فلم گائیکی کا سفر 1963ء کی فلم جب سے دیکھا ہے تمہیں سے شروع ہوا تھا، لیکن ریکارڈ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔

    ان کی آواز ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن کی بدولت ملک بھر میں سنی گئی اور ان کے گائے ہوئے متعدد نغمات پسند کیے گئے۔ ریڈیو کے لیے انھوں نے زیادہ تر کلاسیکی غزلیں اور گیت گائے۔

    انھوں نے دو گانے بھی گائے اور انفرادی حیثیت میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ نگہت سیما نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گیت ریکارڈ کروائے۔ گیت گاتی ہیں خوابوں کی پرچھائیاں ، پیار لینے لگا انگڑائیاں..، کلی حسرتوں کی نہ کھل سکی، تیرا پیار راس نہ آ سکا..، کے علاوہ ان کے متعدد گیت آج بھی پاکستان فلم انڈسٹری کے اُس سنہرے دور کی یادگار ہیں۔

  • آج مشہور فلمی موسیقار سلیم حسین کی برسی ہے

    آج مشہور فلمی موسیقار سلیم حسین کی برسی ہے

    پاکستان کی فلمی صنعت کی ایک موسیقار جوڑی سلیم حسین اور اقبال حسین کی تھی جنھوں نے کئی فلموں کے لیے خوب صورت دھنیں تخلیق کیں۔‌ یہ جوڑی انڈسٹری میں ‘سلیم اقبال’ کے نام سے مشہور تھی۔ 2 اپریل 1996ء کو سلیم حسین اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ وہ عمر میں اقبال حسین سے چھوٹے تھے۔

    سلیم حسین 1933ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ کلاسیکی موسیقی کی تعلیم خان صاحب سردار خان سے حاصل کی۔ بعدازاں فیروز نظامی کے اسسٹنٹ کے طور پر دوپٹہ اور چن وے کی موسیقی میں معاونت کی۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب ترین فلمیں ثابت ہوئیں۔ اس کام یابی کے بعد ان بھائیوں نے سلیم اقبال نے خود کو بطور موسیقار منوانے کا فیصلہ کیا۔ یوں ان کی پہلی فلم شیخ چلّی تھی جس کے نغمات نے انھیں‌ گویا راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان بھائیوں کی دیگر فلموں میں گھر جوائی، کرتار سنگھ، جادوگر، دروازہ، باجی، اک پردیسی ایک مٹیار، پاکیزہ، پیا ملن کی آس اور دکھ سجناں دے شامل ہیں۔

    اس جوڑی کی بنائی ہوئی دھن میں ایک نغمہ پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ یہ فلم کرتار سنگھ کا نغمہ تھا جس کے بول تھے،’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔‘‘

  • نام وَر ادیب، محقق اور دانش وَر پیر حسام الدّین راشدی کی برسی

    نام وَر ادیب، محقق اور دانش وَر پیر حسام الدّین راشدی کی برسی

    پاکستان کے نام ور محقق، ادیب، تاریخ داں اور دانش وَر پیر حسام الدّین راشدی یکم اپریل 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ علم و ادب، تاریخ اور تحقیق کے میدان میں تنِ تنہا انھوں نے وہ کام انجام دیا جو کسی ادارے کے تحت ہی ممکن ہوسکتا تھا۔ سندھ کی تاریخ اور دیگر علمی و ادبی موضوعات پر ان کی کتب بیش بہا خزانہ ہیں۔

    حسام الدّین راشدی کا تعلق سندھ کے ممتاز روحانی گھرانے سے تھا، وہ 20 ستمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے اور چوتھے درجے تک پڑھنے کے بعد مطالعہ کا شوق اپنایا اور کتب و جرائد سے اکتساب کیا۔ صحافت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ کئی اخبارات سے منسلک رہے، لیکن پھر علم و ادب، تاریخ کے موضوعات پر تحقیق اور جمع و تدوین میں‌ مگن ہو گئے۔ انھوں نے کئی مخطوطات اور نایاب کتابوں کو اکٹھا کیا اور اپنے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ فارسی مخطوطوں اور سندھ کی تاریخ کو مدوّن کرنے میں‌ مشغول ہوگئے۔

    ان کے حواشی کو معلومات اور تحقیق کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے۔ مقالاتُ الشّعرا، تکملہ مقالاتُ الشعرا، تحفۃُ الکرام، مکلی نامہ اور مظہر شاہجہانی ان کی مدوّن کردہ وہ کتب ہیں جن پر ان کے حواشی سے تاریخِ سندھ کی کئی گتھیوں کو سلجھانے میں‌ مدد ملتی ہے۔ ان کی دیگر مختلف کتابوں میں روضۃُ السّلاطین و جواہر العجائب، دودِ چراغ محفل، تذکرہ شعرائے کشمیر، میر محمد معصوم بکھری، تذکرہ امیر خانی، حدیقۃُ الاولیا (تصحیح و حواشی)، تذکره مشاہیرِ سندھ ( مقدمہ و حواشی) شامل ہیں۔ پیر حسام الدّین راشدی کی تدفین مکلی کے تاریخی قبرستان میں کی گئی۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    سدا بہار فلمی گیتوں اور قومی نغمات کے خالق مسرور انور کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف شاعر مسرور انور یکم اپریل 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ فلمی گیتوں کے علاوہ مسرور انور کئی لازوال اور یادگار قومی نغمات کے بھی خالق ہیں۔

    مسرور انور کا اصل نام انور علی تھا۔ 6 جنوری 1944ء کو شملہ میں پیدا ہونے والے انور علی نے قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں سے میٹرک کے بعد انھوں نے پی آئی اے میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن ادبی رجحان اور شاعری کا شوق انھیں ریڈیو پاکستان لے آیا جہاں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    ریڈیو پاکستان پر معروف اداکار اور صداکار ابراہیم نفیس کے توسط سے انھیں فلم ساز اور ہدایت کار اقبال شہزاد سے ملاقات کا موقع ملا جنھوں نے مسرور انور کو فلم بنجارن کے نغمات لکھنے کی پیش کش کی۔ یہ فلم کام یاب رہی اور مسرور انور کا فلمی شاعر کی حیثیت سے سفر شروع ہوا، بعد میں انھوں نے فلم شرارت اور بدنام کے گیت لکھے۔ فلم انڈسٹری میں‌ ان سے ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان اور دوراہا جیسی فلموں کے نغمات لکھوائے گئے جنھوں نے مسرور انور کو بھی شہرت دی۔ ان کام یابیوں کے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں نثار بزمی کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے سرحد پار بھی مقبولیت حاصل کی۔

    مسرور انور نے شاعری کے ساتھ متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے اور چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ ایسی ہی فلم سوغات ہے جو پاکستان کی شاہ کار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے، اپنی جاں نذر کروں، وطن کی مٹّی گواہ رہنا، جگ جگ جیے مرا پیارا وطن اور ہم سب لہریں، کنارا پاکستان مسرور انور ہی کے تخلیق کردہ قومی نغمات ہیں۔ انھیں سات نگار ایوارڈز ملے جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔