Tag: اکبر اعظم

  • دربارِ اکبری وہ تصنیف جس پر مولانا آزاد "اکبر پرست” مشہور ہوگئے

    دربارِ اکبری وہ تصنیف جس پر مولانا آزاد "اکبر پرست” مشہور ہوگئے

    دربارِ اکبری اردو کے نام وَر ادیب، انشا پرداز اور شاعر محمد حسین آزاد کی تصنیف ہے جس میں انھوں شہنشاہ اکبرِ اعظم کی زندگی، دربار کے حالات، اراکینِ سلطنت کا احوال اور اُس زمانے کی تہذیب و ثقافت کو نقش کیا ہے۔

    یہ کتاب آزاد کے سحر انگیز اسلوب کا خوب صورت نمونہ ہے۔ دربارِ اکبری کی اشاعت کے بعد آزاد پر سخت نکتہ چینی کی گئی اور کتاب پر کڑی تنقید ہوئی۔ اس زمانے کے محققین نے اس تصنیف کو آزاد کی اکبر پرستی کا ثبوت بھی کہا ہے۔

    اس کتاب میں شامل مولانا محمد حسین آزاد کے قلم سے نکلا ہوا ایک پارہ یہاں‌ نقل کیا جارہا ہے۔

    وہ لکھتے ہیں: "میرے باکمال دوستو۔ میں نے خود دیکھا اور اکثر دیکھا کہ بے لیاقت شیطان جب حریف کی لیاقت اپنی طاقت سے باہر دیکھتے ہیں تو اپنا جتھا بڑھانے کو مذہب کا جھگڑا بیچ میں ڈال دیتے ہیں، کیوں کہ اس میں فقط دشمنی ہی نہیں بڑھتی بلکہ کیسا ہی بالیاقت حریف ہو اس کی جمعیت ٹوٹ جاتی ہے اور ان شیطانوں کی جمعیت بڑھ جاتی ہے۔

    دنیا میں ایسے نافہم بے خبر بہت ہیں کہ بات تو نہیں سمجھتے، مذہب کا نام آیا اور آپے سے باہر ہو گئے۔ بھلا دنیا کے معاملات میں مذہب کا کیا کام؟ ہم سب ایک ہی منزلِ مقصود کے مسافر ہیں۔ اتفاقاً گزر گاہ دنیا میں یکجا ہو گئے ہیں۔ رستہ کا ساتھ ہے۔ بنا بنایا کارواں چلا جاتا ہے۔

    اتفاق اور ملن ساری کے ساتھ چلو گے۔ مل جل کر چلو گے۔ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھاتے چلو گے۔ ہم دردی سے کام بٹاتے چلو گے تو ہنستے کھیلتے رستہ کٹ جائے گا۔

    اگر ایسا نہ کرو گے اور ان جھگڑالوؤں کے جھگڑے تم بھی پیدا کرو گے تو نقصان اٹھائو گے۔ آپ بھی تکلیف پاؤ گے۔ ساتھیوں کو بھی تکلیف دو گے۔ جو مزے کی زندگی خدا نے دی ہے، بدمزہ ہو جائے گی۔”

    اکبر کی شخصیت، خاص طور پر اس کے مذہبی عقائد، اس دور کی ثقافت اور مولانا کی تصنیف کے حق و رد میں متعدد کتب سامنے آئیں‌ جن میں محققین نے اپنی رائے اور‌ اپنے مؤقف کے حق میں دلائل پیش کیے ہیں، لیکن آزاد کی علمیت اور قابلیت، ان کی قلمی کاوشوں اور ان کے خلوصِ فکر سے کسی کو انکار نہیں۔

  • کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    ہر دور میں بادشاہوں اور حکم رانوں کے دربار میں مشیر، علما اور مختلف شعبوں کے قابل اور باصلاحیت لوگ اور دانا شخصیات موجود رہے ہیں جن سے یہ حکم راں مختلف امور اور عوامی مسائل پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فرمان جاری کرتے تھے۔

    مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی بات کی جائے تو تاریخ میں اکبر کے "نو رتن” بہت مشہور ہیں۔ یہ نو لوگ انتہائی ذہین، دانا اور اپنے علم و کمال کی وجہ سے اکبر کو پسند تھے۔

    انہی میں ایک "بیربل” بھی تھا جسے تاریخ کی کتابوں میں ذہین اور حاضر جواب لکھا گیا ہے۔ یہ واقعہ جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں اکبر اور بیربل سے منسوب ہے۔

    کہتے ہیں ایک روز بادشاہ چاقو سے سیب چھیل رہا تھا۔ ذرا توجہ بٹی اور چاقو کی نوک اس کی کلائی پر لگ گئی اور وہ زخمی ہو گیا۔ بیربل کے منہ سے بے اختیار شکر الحمدللہ نکل گیا۔

    بادشاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں زخمی ہوا ہوں اور تم شکر ادا کر رہے ہو۔

    بیربل نے عرض کیا، حضور میں نے سیانوں سے سنا تھا انسان کو چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے بچاتی ہے۔ آپ کی کلائی زخمی ہو گئی، میرا خیال ہے خدا نے آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ اس نے بیربل کو جیل میں ڈلوا دیا اور اگلے روز شکار پر چلا گیا۔ شکار کے دوران وہ اور اس کے چند درباری اپنے لشکر سے بچھڑ گئے اور جنگل میں ایک قبیلے کے وحشی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    انھوں نے اکبر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی دیوی پر قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ درباریوں کی گردن اتارنے کے بعد جب اکبر کی باری تو اس کی کلائی پر پٹی بندھی تھی، قبیلے کے سردار کے دریافت کرنے پر اکبر نے بتایا کہ وہ زخمی ہو گیا تھا، تو اس نے مایوسی سے سر ہلایا اور اسے جانے کی اجازت دے دی، سردار نے کہا کہ ہم دیوی کو کسی زخمی کی قربانی پیش نہیں کرسکتے۔

    کہتے ہیں یوں اکبر کی جان بچی اور تب اسے بیربل کی بات یاد آئی۔ اس نے واپس آکر بیربل کو جیل سے نکالا اور اس سے معذرت اور اس کی دل جوئی کی۔