Tag: اکبر الہ آبادی

  • اکبر، جن کا نام قہقہوں نے اچھالا، اور شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا!

    اکبر، جن کا نام قہقہوں نے اچھالا، اور شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا!

    لسانُ العصر اردو زبان کے نامور شاعر اکبر الہ آبادی کا لقب ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے دور میں اردو شاعری کو ایک نئی راہ دکھائی اور ان کا ظریفانہ کلام بہت مشہور ہوا۔ وہ مشرقیت کے دلدادہ تھے اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے بڑے مخالف تھے۔

    غیرمنقسم ہندوستان کے مشہور عالمِ دین، بے مثل ادیب اور شاعر عبدالماجد دریا بادی نے ‘پیامِ اکبر’ یعنی حضرت اکبر الہ آبادی کی کلیاتِ سوم پر ایک مضمون رقم کیا تھا جس سے یہ اقتباسات ہمیں اکبر کی شخصیت اور ان کے فن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "لسانُ العصرحضرت اکبر مغفور زمانۂ حال کے ان چندر بزرگوں میں تھے جن کا مثل و نظیر کہیں مدتوں میں جا کر پیدا ہوتا ہے۔

    ان کی ذات ایک طرف شوخی و زندہ دلی اور دوسری طرف حکمت و روحانیت کا ایک حیرت انگیز مجموعہ تھی یا یوں کہیے کہ یک طرفہ معجون۔ آخر آخر ان کی شاعری نہ شاعری رہی تھی، نہ ان کا فلسفہ فلسفہ۔ ان کا سب کچھ بلکہ خود ان کا وجود مجسم حکمت و معرفت کے سانچہ میں ڈھل گیا تھا۔

    ان کی گفتگو جامع تھی حکمت و ظرافت کی، ان کی صحبت ایک زندہ درس گاہ تھی تصوف و معرفت کی۔ روز مرہ کے معمولی فقروں میں وہ وہ نکتے بیان کر جاتے کہ دوسروں کو غور و فکر کے بعد بھی نہ سوجھتے اور باتوں باتوں میں ان مسائل کی گرہ کشائی کر جاتے جو سال ہا سال کے مطالعہ سے بھی نہ حل ہو پاتے۔

    خوش نصیب تھے وہ جنہیں ان کی خدمت میں نیاز مندی کا شرف حاصل تھا۔ جن کی رسائی اس چشمۂ حیات تک نہ ہو سکی، انہیں آج اپنی نارسائی و محرومی پر حسرت ہے اور جن کی ہو چکی تھی انہیں یہ حسرت ہے کہ اور زیادہ سیراب کیوں نہ ہو لیے۔”

    عبدالماجد دریا بادی نے اکبر کی ظرافت و زندہ دلی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔

    "اکبر کی شہرت و مقبولیت کی سب سے بڑی نقیب ان کی ظرافت تھی، ان کے نام کو قہقہوں نے اچھالا، ان کی شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا۔ ہندوستان میں آج جو گھر گھر ان کا نام پھیلا ہوا ہے، اس عمارت کی ساری داغ بیل ان کی شوخ نگاری و لطیفہ گوئی ہی کی ڈالی ہوئی ہے۔ قوم نے ان کو جانا مگر اس حیثیت سے کہ وہ روتے ہوئے چہروں کو ہنسا دیتے ہیں۔ ملک نے ان کو پہچانا مگر اس حیثیت سے کہ وہ مرجھائے ہوئے دلوں کو کھلا دیتے ہیں۔ اس میں ذرا کلام نہیں کہ اکبر ظریف اور بہت بڑے ظریف تھے۔ لیکن جس زمانہ کے کلام پر یہاں خصوصیت کے ساتھ تبصرہ مقصود ہے، یہ زمانہ ان کی ظرافت کے شباب کا نہ تھا۔ جب تک خود جوان رہے شوخ طبعی بھی جوان رہی۔ عمر کا آفتاب جب ڈھلنے لگا تو ظرافت کا بدرِ کامل بھی رفتہ رفتہ ہلال بنتا گیا۔ اب اس کی جگہ آفتابِ معرفت طلوع ہونے لگا۔ بالوں میں سفیدی آئی، صبحِ پیری کے آثار نمودار ہوئے، تو ظرافت نے انگڑائیاں لیں اور زندہ دلی کی شمع جھلملانے لگی۔ حکمت کی تابش اور حقیقت کی تڑپ دل میں پیدا ہوئی۔ جمال حقیقی کی جلوہ آرائیوں نے چشمِ بصیرت کو محوِ نظارہ بنایا۔ سوزِ عشق نے سینہ کو گرمایا، ذوقِ عرفان نے دل کو تڑپایا، اور نورِ معرفت کی شعاعیں خود ان کے مطلعِ قلب سے اس چمک دمک کے ساتھ پھوٹیں کہ تماشائیوں کی آنکھیں قریب تھا کہ چکا چوند میں پڑ جائیں۔

    لیکن ہے یہ کہ قسّامِ ازل نے ذہانت و فطانت، شوخی و زندہ دلی کی تقسیم میں ان کے لیے بڑی فیاضی سے کام لیا تھا۔ اس لیے پیرانہ سالی میں بھی ایک طرف ذاتی صدمات و خانگی مصائب کا ہجوم، اور دوسری طرف مشاغلِ دین و تصوف کے غلبہ کے باوجود یہ جذبات فنا ہرگز نہیں ہونے پائے۔ شمع جھلملا ضرور رہی تھی مگر بجھی نہ تھی یا آفتاب ڈھل ضرور چکا تھا مگر غروب تو نہیں ہوا تھا۔ بدر، ہلال بننے لگا تھا لیکن بے نور نہیں ہوا تھا، چمن سے بہار رخصت ہونے کو تھی تاہم خزاں کا سایہ بھی ابھی نہیں پڑنے پایا تھا۔ زندہ دلی نہ صرف قائم تھی بلکہ اس وقت کے ساتھ اس شدت کے ساتھ کہ دیوان پڑھنے والے متحیر اور کلام سننے والے ششدر رہ گئے۔”

    اکبر کے کلیات پر تبصرہ کرتے ہوئے مضمون نگار آگے لکھتے ہیں۔

    "اکبر ظریف تھے۔ ’’ہزال‘‘ و فحاش نہ تھے۔ دلوں کو خوش کرتے تھے۔ چہروں پر تبسم لاتے تھے۔ جذباتِ سفلی کے بھڑکانے کی کوشش نہ کرتے۔ ان کی ظرافت ہزل گوئی کے مترادف نہ تھی۔ اکثر صورتو ں میں معنویت سے لبریز ہوتی تھی، کہیں کہیں زبانی محاورہ، لفظی مناسبت، ترکیب کی ندرت قافیہ کی جدت کے زور سے شعر کو لطیفہ بنا دیتے تھے۔ سیاسی مسائل میں رائے بڑی آزاد رکھتے تھے لیکن جتنا کہہ جانے میں جری تھے، اتنا ہی سنانے میں چھاپنے میں پھیلانے میں محتاط تھے۔ قدم اتنا پھونک پھونک کر رکھتے کہ مخلصوں اور نیاز مندوں تک کو حیرت کی ہنسی آ جاتی۔ اور جو اتنے معتقد و باادب تھے وہ تو جھنجھلاہٹ میں خدا جانے کیا کچھ کہہ سن ڈالتے۔”

  • اکبر الہ آبادی کا آم نامہ

    اکبر الہ آبادی کا آم نامہ

    غالب کی طرح اکبر الہ آبادی کو بھی پھلوں میں آم بہت پسند تھے۔ مرزا غالب کا آم نہ کھانے والوں پر طنز اور اس سے متعلق قصّہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا اکبر نے بھی اپنے بے تکلف دوست منشی نثار حسین سے آم منگوانے کے لیے ایک نظم اپنے خط میں لکھی تھی۔

    اکبر الہ آبادی نے شاعری میں اپنا الگ انداز اور رنگ پیدا کیا۔ ان کی وجہِ شہرت ان کے ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار ہیں۔ وہ مشرقیت کے دلدادہ تھے اور ایسے شاعر اور واعظ تھے جنھوں نے مغربی تہذیب اور ثقافت کو اپنانے والوں پر اپنے کلام میں خوب چوٹ کی۔ منشی نثار حسین کو ارسال کردہ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    آم نامہ

    نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے
    اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے

    ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
    پختہ اگرچہ بیس تو دس خام بھیجیے

    معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
    سیدھے الہ آباد مرے نام بھیجیے

    ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
    تعمیل ہوگی، پہلے مگر دام بھیجیے

  • چھپن چُھری کون تھیں؟

    چھپن چُھری کون تھیں؟

    بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ذکر ہے کہ اکبر الہٰ آبادی کی رہائش گاہ “عشرت منزل، الہٰ آباد” میں ایک محفلِ موسیقی برپا ہے۔ ایک مغنّیہ اپنی مدھر آواز میں کچھ یوں گا رہی ہے؛ “بھک بھک بھک دھوئیں کی گاڑی اُڑائے لیے جائے۔”

    اس گیت کے باقی اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ریل گاڑی مذہب و ملت اور ذات پات کی پروا کیے بغیر ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، امیر و غریب سب کو ہی ساتھ اُڑائے لیے جاتی ہے۔ اُس مغنّیہ کی آواز، میں ایسا اعجاز تھا کہ جو بھی سنے وہ گرویدہ ہو جائے۔

    یہ اُس زمانے کی اتنی ماہر و مقبول گانے والی تھی کہ عوامی گیتوں اور غزلوں کے علاوہ ٹھمری، دادرا اور راگنیاں بھی اس درجہ کمال سے گاتی تھی کہ ان کے گراموفونک ریکارڈ گھر گھر سنے جاتے تھے لیکن بدقسمتی سے بہ مثلِ کوئل وہ آواز کی تو ملکہ تھی مگر چہرے پر نشانات اور داغ ایسے تھے کہ وہ کسی کے سامنے آنے سے کتراتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مہاراجہ اس گائیکہ کا مکمل نام جانکی بائی تھا اور مشہور تھیں‌ چھپن چُھری الہٰ آباد والی۔ موسیقی کی وہ محفل تمام ہوئی تو اکبر الہٰ آبادی خواجہ حسن نظامی کے ساتھ اپنی بیٹھک میں چلے گئے۔ اس اثناء میں زنان خانے سے آواز آئی کہ جانکی بائی آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی زنان خانے کی طرف چل دیے اور تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے اور خواجہ صاحب سے گویا ہوئے کہ جانکی بائی اپنی لکھی ہوئی غزل لے کر آئی تھیں اور اصلاح کی فرمائش کر رہی تھیں اور پھر فرمانے لگے کہ

    “شاعری کا شوق اور نظر اور نذر کے تلفظ کا فرق نہیں جانتی۔ اب میں اس کو صحیح کیا کروں۔”

    ان کی یہ بات سُن کر خواجہ صاحب نے کہا کہ “گانے والی کی غزل میں صحیح زبان کی کس کو توقع ہو گی۔ آپ یوں ہی چھوڑ دیں۔”

    یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ اکبر الہٰ آبادی ان کی شاعری اور کلام کی اصلاح کرتے رہے یا نہیں لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ جانکی بائی نے اپنی شاعری کا دیوان بھی چھپوایا تھا۔

    آخر یہ جانکی بائی کون تھیں؟
    آواز کی ملکہ جانکی بائی کے داغ دار چہرے سے متعلق کئی کہانیاں زبان زدِ عام تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ریوا کے نواب کو انہیں سننے کا موقع ملا اور ساتھ ہی یہ معلوم ہوا کہ وہ پردے کے پیچھے رہ کر آواز کا جادو جگاتی ہیں تو نواب کو تجسس ہوا اور بعد میں جانکی بائی سے اس کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے نواب کو بتایا کہ جوانی میں کسی نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے چہرے پر چھپّن زخم لگے تھے جس سے چہرہ مسخ ہو کر خاصی حد تک دہشت ناک ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ لوگوں کا سامنا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

    جانکی بائی کا آبائی تعلق بنارس سے تھا۔ ان کے والد حلوائی تھے لیکن بدقسمتی سے جانکی بائی کے والدین میں علیحدگی ہوگئی اور ماں بیٹی دونوں بے یارومددگار رہ گئیں جس بنا پر یہ دونوں الہٰ آباد میں آکر بس گئی تھیں۔ یہیں پر انہوں نے رقص، موسیقی اور شاعری میں کمال حاصل کیا اور بے پناہ شہرت حاصل کی۔

    ولیم گسبرگ جو گراموفون ریکارڈنگ کے ابتدائی زمانے کا ایک ماہر ریکارڈسٹ تھا۔ وہ نومبر 1902 میں ہندوستان آیا اور کلکتہ میں اُس زمانے کی دوسری مشہور گائیکہ گوہر جان کے ساتھ ساتھ جانکی بائی کی آواز میں بھی کلاسیکی گانے ریکارڈ کیے۔ گراموفون کمپنی کی بدولت ان کے گائے گئے ریکارڈڈ گیتوں نے انہیں سپراسٹار بنا دیا تھا۔ ان کی ہم عصر اور دوست گائیکہ گوہر جان کے علاوہ انہیں بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سن 1911 میں متحدہ ہندوستان کے تمام شاہی خاندانوں کی موجودگی میں شہنشاہ جارج پنجم کی رسم تاجپوشی میں گانا گانے کے لیے منتخب کیا گیا۔

    انہوں نے خصوصی طور پر شہنشاہ کی تاجپوشی کی تقریب میں گیت “یہ جلسہ تاجپوشی کا مبارک ہو” گا کر سامعین سے خوب داد سمیٹی۔ 1920 کی دہائی میں جانکی بائی اپنے فنی کیریئر کے عروج پر تھیں۔ اس زمانے میں ان کی لائیو پرفارمنس کا معاوضہ دو ہزار روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر انہوں نے کمپنی سے مزید معاوضے کا مطالبہ بھی کیا جو بالآخر سخت مذاکرات کے بعد منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر جارج والٹر اور رابرٹ ایڈورڈ بیکٹ جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ صوتی ریکارڈنگ ٹیکنالوجی کے تحت گیت ریکارڈ کروائے اور بعدازاں جیکٹ اور آرتھر جیمز ٹوائن کے ساتھ نئی الیکٹریکل ریکارڈنگ کو بھی اپنایا تھا۔

    جانکی بائی نے اپنی محنت کے بل بوتے پر خوب شہرت و دولت کمائی۔ آپ نے الہٰ باد کے ایک وکیل شیخ عبدالحق سے شادی کی۔ شومئی قسمت یہ شادی کام یاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ ان کے شوہر کی بے راہ روی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں جب انہیں احساس ہوا کہ وہ آنہیں دھوکہ دے رہے ہیں تو فوراً ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر خود کو مکمل طور پر فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے اپنی تمام جائیداد، ریکارڈ اور پرفارمنس کے ذریعے کمائی گئی بے پناہ دولت کو مستحق طلباء و طالبات کو مالی مدد فراہم کرنے، غریبوں میں کمبل تقسیم کرنے، مندروں اور مساجد کو عطیہ کرنے اور مفت کچن چلانے کی غرض سے اپنے ٹرسٹ کو عطیہ کر دی۔ ان کا انتقال 18 مئی 1934 کو الہٰ آباد میں ہی ہوا۔

    (مترجم: انور اقبال)

  • مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    اکبر الٰہ ابادی اردو شاعری میں اپنے طنز و مزاح پر مبنی کلام کی بدولت ہی مشہور نہیں تھے بلکہ انھیں اپنے زمانے کا ایک مفکّر، مدبّر اور مصلح بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی کے دور میں نہ صرف مشرقیت پر بلکہ اسلامیت پر بھی مغربی رنگ غلبہ پا رہا تھا۔ اس دور میں قوم و ملّت کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی، اکابرین چاہتے تھے کہ لوگ اپنی اسلامی روایات پر قائم رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو اہمیت دیں۔ انہی میں اکبر بھی شامل تھے۔ مغربیت کے اس غلبے کے خلاف اکبر الٰہ آبادی نے شاعری سے مدد لی۔

    آج اردو زبان کے اس مشہور شاعر کا یومَِ وفات ہے۔ وہ 1921ء کو آج ہی دن دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اکبر کی شاعری اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی۔ انھیں ان کی روایت اور جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    اکبر کو اس دور کے خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی۔ اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی گویا خبر لی، اور کسی سے مرعوب ہوئے۔ وہ حق بات کہنے سے نہ گھبرائے اور اس معاملے میں کسی کے عہدے مرتبے کا لحاظ بھی نہ کیا۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

    آج بھی جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں تو مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اکبر الہ آبادی کا اصل نام سیّد اکبر حسین تھا۔ انھوں نے 16 نومبر 1846ء کو آنکھ کھولی۔ اپنے وطن کی نسبت نام سے لاحقہ جوڑا اور اکبر الٰہ آبادی کہلائے۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد وکالت پڑھی اور امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ مقدمات لڑے اور پھر جج کے منصب تک پہنچے۔ اس دوران انھوں نے سماج کے مختلف روپ بھی دیکھے اور ہندوستان میں‌ انگریزوں کی آمد کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور تہذیب و ثقافت پر مغربیت کا غلبہ تو دیکھ ہی رہے تھے۔ سو، ان کی شاعری نے اصلاح اور طنز کا انداز اپنا لیا۔

    انھوں‌ نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ کا وہی کام لیا جو اس دور میں سر سیّد احمد خان اور علاّمہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اور نئی تہذیب یا مغربیت کے دلدادگان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ان کی اس طرزِ شاعری میں کوشش یہ تھی کہ لوگوں کا وقار اور انا مجروح نہ ہو اور وہ اپنا محاسبہ بھی کریں‌۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور آج بھی ہماری اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کرتے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
    شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

  • اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الٰہ ابادی اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شاعری ان کے عہد کی اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی اور روایت و جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر تھے۔

    انھیں خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی تھی۔ کہتے ہیں اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی خبر لی ہے، اور کسی سے مرعوب ہوئے نہ کہیں اپنی بات کہنے سے ڈرے۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچّ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

  • سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

    سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

    مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئیں‌ جہاں‌ وہ جانکی بائی کی مہمان بنیں۔

    انھوں‌ نے اپنی میزبان سے کہا کہ وہ خان بہادر سید اکبر حسین ( اکبر الٰہ آبادی) سے ملنا چاہتی ہیں۔ میزبان انھیں‌ لے کر دوسرے ہی دن اکبر کے ہاں پہنچ گئیں، تعارف کرواتے ہوئے جانکی بائی نے کہا کہ یہ کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ہیں، آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔

    اکبر نے کہا، ’’زہے نصیب، ورنہ نہ میں امام، نہ غوث، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابلِ زیارت خیال کیا جاؤں، پہلے جج تھا، اب ریٹائر ہو کر صرف اکبر رہ گیا ہوں، حیراں ہوں کہ آپ کی خدمت میں‌ کیا تحفہ پیش کروں‌۔‘‘

    گوہر نے کہا، ’’ کوئی شعر لکھ دیجیے کہ یادگار رہے۔‘‘ اکبر نے ایک کاغذ لیا اور شعر لکھ کر گوہر جان کی طرف بڑھا دیا۔ شعر یہ تھا:

    خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
    سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

  • وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وحید الدین وحید کا تعلق الہٰ آباد سے تھا۔ ان کا شمار اپنے دور کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ ہوتا ہے۔

    ان سے شاعری میں اصلاح لینے والوں میں اکبرؔ الہٰ آبادی نے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ بھی ہندوستان کے متعدد شعرا ان سے اصلاح‌ لیتے تھے۔

    کہتے ہیں ایک روز ان کے گھر کو آگ لگی تو انھوں نے باہر نکلنے کے بجائے اپنے کلام کو سمیٹنے کی کوشش کی اور اس دوران دَم گھٹ جانے سے انتقال کر گئے۔

    وحید الہ آبادی اردو کے واحد شاعر ہیں جو اپنا تخلیقی سرمایہ بچاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کے یہ دو اشعار دیکھیے۔

    میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
    دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو

    سب کی ہے اس عہد میں مٹی خراب
    ذلتیں باقی ہیں توقیریں گئیں

    وحید الہ آبادی نے اپنے تخلیقی جوہر اور شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث اس دور میں سب کی توجہ حاصل کی اور شناخت بنائی جب ہندوستان میں استاد شعرا میں‌ شاہ نصیر، آتش، ذوق اور داغ جیسی شخصیات کا نام لیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خود وحید الہ آبادی نے مرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورۂ سخن کیا۔

  • ادبی دنیا میں‌ مشہور لِب لی اور المامون کا قصہ

    ادبی دنیا میں‌ مشہور لِب لی اور المامون کا قصہ

    علامہ شبلی نعمانی اور اکبر الہ آبادی کسی دعوت میں اکٹھے ہوئے تو اکبر نے شبلی کو دعوتِ طعام دیتے ہوئے ایک شعر پڑھا۔
    بات یہ ہے کہ بھائی شبلی
    آتا نہیں مجھے قبلہ قبلی
    جواب میں شبلی نے کہا، کیا خوب قافیہ نکالا ہے آپ نے قبلی کے علاوہ شبلی کا اور کوئی قافیہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پر اکبر کچھ سوچنے لگے۔ چند لمحوں بعد بولے۔ کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔
    شبلی نے کہا، تو فرمائیے۔ اکبر بولے، ‘‘لِب لی’’ ہو سکتا ہے۔ اس پر شبلی نے تعجب کا اظہار کیا اور ان سے کہا، یہ کیا ہے؟
    اکبر خاصے موڈ میں تھے۔ بولے سند پیش کروں؟ شبلی نے کہا ضرور، ضرور۔
    تب اکبر الہ آبادی نے یہ شعر پڑھا۔
    تم بھی اس راہ پر چلے شبلی
    عشق نے آبروئے غالبؔ لی

    ایک اور ادبی واقعہ ہے کہ اکبر الہ آبادی کی موجودگی میں کوئی صاحب علامہ شبلی سے ملنے آئے اور نانا فرنویس کی تعریفوں کے پُل باندھنے لگے۔

    اس مدح سرائی کا سلسلہ تھا کہ ختم ہی نہیں ہو کر دے رہا تھا۔ اکبر سے رہا نہ گیا۔ تنگ آکر بولے، جناب میرا مشورہ ہے کہ آپ نانا فرنویس پر ایک کتاب لکھیں، میں اس پر بڑا عمدہ تبصرہ قلم بند کروں گا۔ وہ اکبر کی طرف متوجہ ہوئے تو اکبر نے کہا، آپ اپنی کتاب کا نام ‘‘النانا’’ رکھیں، میں تبصرے میں لکھوں گا کہ خوبیوں کے اعتبار سے النانا تو ‘‘المامون’’ کا بھی باپ ہے۔ اس پر شبلی بے اختیار ہنس دیے۔ یہ علامہ کی مشہور تصنیف کا نام ہے۔