Tag: اکبر بادشاہ

  • دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    بیربل بادشاہ اکبر کا محبوب اور مشہور رتن رہا ہے جسے اکبر اعظم نے ابتداً اس کی ذہانت، شگفتہ مزاجی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے اپنے دربار میں جگہ دی تھی۔ بعد میں وہ بادشاہ کے مصاحبوں میں شامل ہوا۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں‌ پڑھیے

    1556ء میں بیربل نے دربار میں قدم رکھنے کے بعد وہ شہرت پائی کہ آج بھی اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں بیربل کی ذہانت و دانائی اور لطیفہ گوئی کے کئی واقعات، قصّے اور کہانیاں مشہور ہوئیں۔ اکبر اور بیربل سے منسوب ان قصوں میں بہت کچھ من گھڑت بھی ہے۔ مگر یہ سبق آموز اور دل چسپ ہیں۔ تاہم ان کی حقیقت اور صداقت مشکوک ہے۔ انھیں محض خوش مذاقی اور تفریحِ طبع کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی قصّہ ہے۔

    ایک بار کسی درباری نے اکبرِ اعظم سے کہا: "جہاں پناہ! بیربل اگرچہ عقل مند آدمی ہے، مگر خاکسار کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ بیربل کی جگہ اگر آپ مجھے عنایت فرمائیں تو شاید آپ کا یہ نمک خوار بیریل سے زیادہ اچھا کام کرے گا اور حضور کو اپنی حاضر جوابی اور برجستگی کا ثبوت دے گا۔

    اکبر نے اُس سے کہا: اس میں شک نہیں کہ تم ایک قابل، پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہو۔ لیکن شاید تم بیربل کا مقابلہ نہیں کر سکو۔

    لیکن وہ شخص اصرار کرتا رہا تو اکبر نے کہا: اچھا اس کا فیصلہ کل دربار میں ہو جائے گا کہ تم بیربل کی جگہ لینے کے اہل ہو یا نہیں۔ ساتھ ہی تمھاری عقل مندی، فراست اور حاضر جوابی کا امتحان بھی ہو جائے گا۔

    چنانچہ دوسرے دن دربار میں اکبر اعظم نے اس شخص سے ایک عجیب و غریب سوال کیا کہ "بتاؤ اس وقت جو لوگ دربار میں بیٹھے ہیں ان کے دلوں میں کیا ہے۔”

    وہ شخص اکبر کا یہ سوال سن کر سٹپٹا گیا اور کہنے لگا: "حضور! یہ میں کیسے جان سکتا ہوں بلکہ کوئی بھی کیسے بتا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ جاننا تو ناممکن ہے۔

    تب یہی سوال اکبر نے پیربل سے کیا۔ بیربل! کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت یہاں موجود لوگوں کے دلوں میں کیا ہے؟

    جی ہاں، کیوں نہیں۔ بیربل نے جواب دیا: ” حضور! سب لوگوں کے دلوں میں ہے کہ مہابلی کی سلطنت ہمیشہ قائم رہے۔ اگر یقین نہ ہو تو آپ ان سے دریافت کر لیجیے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ۔

    بیربل کی یہ دانش مندانہ بات سن کر تمام درباری مسکرانے لگے اور اکبر بھی مسکراتے ہوئے اس شخص کو دیکھنے لگا جو بیربل کی جگہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس نے شرمندگی سے سَر جھکا لیا۔

    (اکبر اور بیربل کی کہانیاں سے ماخوذ)

  • جودھا بائی یا ہرکا بائی : اکبر بادشاہ کی بیوی کا اصل نام کیا تھا؟

    جودھا بائی یا ہرکا بائی : اکبر بادشاہ کی بیوی کا اصل نام کیا تھا؟

    ہندوستان پر 50 سال تک حکمرانی کرنے والے مغلیہ سلطنت بادشاہ جلال الدین محمد اکبر جنہیں تاریخ ’اکبر اعظم‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان کی ملکہ کو ’جودھا بائی‘ یا ’ہرکا بائی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،

    ملکہ کا اصل نام اور ان کی شناخت کیا تھی اس حوالے سے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین میں ایک تجسس پایا جاتا ہے، جو دیرینہ معمہ بن گیا ہے۔

    مغلیہ سلطنت کی تاریخ ہمیشہ سے مؤرخین اور تاریخ کے شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ ان میں ایک دیرینہ معمہ اکبر بادشاہ کی بیوی کی شناخت کا بھی ہے، جنہیں عموماً جودھا بائی کہا جاتا ہے۔

    کچھ مؤرخین کے مطابق جودھا بائی ایک راجپوت شہزادی تھیں جو مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر سے شادی کے بعد ملکہ ہندوستان بنیں۔ وہ جے پور کی راجپوت ریاست آمیر کے راجا بھارمل کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔

    جودھا اکبر

    تاہم، تاریخی شواہد اور مؤرخین کا خیال ہے کہ ان کا اصل نام ہرکا بائی تھا اس کے علاوہ انہیں ان کے لقب ’مریم الزمانی‘ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    تاریخی شواہد

    اولین تاریخی ذرائع جیسے کہ ابوالفضل کی "اکبرنامہ” اور بدایونی کی "منتخب التواریخ” اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اکبر نے راجہ بھرمَل کی بیٹی ہرکہ بائی سے شادی کی، جو موجودہ دور کے شہر جے پور سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس رشتے نے اکبر کے راجپوتوں کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔

    "جودھا بائی” نام کی اصلیت

    "جودھا بائی” کا لفظ زیادہ تر نو آبادیاتی دور کی کتابوں اور بعد میں بالی وڈ فلموں کے ذریعے مقبول ہوا۔ تاہم، معروف مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب کا ماننا ہے کہ "جودھا بائی” ایک غلط فہمی ہے، جو غالباً یورپی سیاحوں کے بیانات سے آئی۔

    مؤرخین کا اتفاق

    ممتاز مؤرخین جیسے کہ آشربادی لال سریواستو اور ستیش چندر کا کہنا ہے کہ اکبر بادشاہ کی بیوی کا اصل نام ہرکا بائی تھا۔ مغل دور کے دستاویزات میں "جودھا بائی” کا نام کہیں موجود نہیں ہے۔

    آثار قدیمہ کے ثبوت و شواہد

    اس کے علاوہ سکندرا، آگرہ میں موجود مریم الزمانی کے مقبرے سے بھی ہرکا بائی کے بیانیے کی تصدیق ہوتی ہے۔

    نتیجہ

    اگرچہ عوامی ثقافت "جودھا بائی” کے نام کو برقرار رکھ سکتی ہے مگر تاریخی شواہد اور مؤرخین کا اتفاق یہی ہے کہ اکبر کی بیوی کا اصل نام ہرکا بائی یا مریم الزمانی تھا۔

    یہ وضاحت اس بات پر زور دیتی ہے کہ درست تاریخ کو سمجھنے کے لیے اصل ذرائع اور مستند تحقیق پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔

  • ملّا عبد القادر بدایونی: عہدِ اکبری کے ایک مشہور مؤرخ کا تذکرہ

    ملّا عبد القادر بدایونی: عہدِ اکبری کے ایک مشہور مؤرخ کا تذکرہ

    جلال الدّین اکبر کے دربار میں‌ ملّا عبد القادر بدایونی کو تصنیف و تالیف اور ترجمہ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جنھیں علومِ معقول و منقول دونوں‌ میں کامل دست گاہ تھی۔ انہی عبدالقادر بدایونی کی ایک کتاب منتخبُ التّواریخ بہت مشہور ہے جو اصلاً فارسی زبان میں ہے اور متعدد جلدوں میں اس کے اردو تراجم موجود ہیں۔

    ملّا عبد القادر بدایونی کا سنہ پیدائش 1540ء بتایا جاتا ہے۔ انھیں اپنے دور کا ایک ادیب اور انشا پرداز لکھا گیا ہے جو ہند فارسی مؤرخ اور مترجم کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے۔ ملا عبدالقادر 1605ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ملّا عبدالقادر بدایونی کی مؤلفہ فارسی کتاب بعنوان منتخب التواریخ میں سلطنتِ غزنویہ کے بانی امیر ناصر الدّین سبکتگین کی تخت نشینی سے لے کر عہدِ اکبری تک کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس کتاب کے مخطوطات برٹش میوزیم اور ہندوستان کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ملا عبدالقادر بدایونی اس کی وجہِ تصنیف بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

    "بنی نوع انسان کے اِس دعاگو عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی نے 999ھ کے اوائل میں حضرت خلیفہ زماں ظل اِلہٰی اکبر بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں انتخابِ تاریخ کشمیر کا ہندی سے فارسی زبان میں ترجمہ کرنے سے فراغت پائی۔ مجھے چوں کہ بچپن سے بڑھاپے تک اِس علم تاریخ سے انسیت رہی ہے، اِس لیے اِس عرصہ میں کوئی وقت ایسا نہیں گزرا کہ میں اِس علم کے مطالعہ یا تحریر میں مشغول نہیں رہا، خواہ اپنی رغبت سے تھا یا کسی دوسرے کے حکم کی تعمیل میں، چنانچہ بارہا میرے دل میں آیا کہ دارالسلطنت دہلی کے بادشاہوں کے بارے میں اِختصار سے کچھ لکھا جائے یعنی ابتدائے اسلام کے زمانہ سے لے کر اِس زمانِ تحریر تک مختصراً لکھا جائے تاکہ ہر بادشاہ کے احوال کی وہ ایک ایسی اجمالی یادداشت ہو جو احباب کے لیے تذکرہ کا کام دے اور اربابِ بصیرت کی نظر میں اُسے تبصرہ کی حیثیت حاصل ہو۔”

    یہ سطور کتاب کے موضوع و ابواب کی وضاحت کرتی ہیں۔ کتاب کے تیسرے حصہ میں اُن مشاہیر کا تذکرہ کیا گیا ہے جو عہدِ اکبری میں گزرے۔ ان میں علمائے کرام، شعرا و ادبا، اُمرائے وقت اور دانا و بیدار مغز لوگ شامل ہیں جو مشہور بھی تھے۔ لیکن کہتے ہیں‌ کہ پانچ سال میں‌ پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی اس کتاب کا کوئی نسخہ اکبر بادشاہ کے دور میں سامنے نہیں آیا جس کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ عہدِ جہانگیری میں 1616ء تک محققین و مؤرخین اِس کتاب سے لاعلم رہے۔

    محققین کے مطابق عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی شاعر بھی اور فنِ تاریخ نویسی میں نام و مرتبہ پایا۔ وہ کئی علوم جانتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تربیت کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھا اور عربی کی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی۔ اس دور میں رسمی تعلیم کے طریقے کے مطابق قصیدہ بردہ شریف اور فقہ کے چند اسباق بھی پڑھے۔ بعد ازاں استاد مبارک ناگوری سے مختلف علوم کی تعلیم لی۔

    ملّا عبدالقادر نے اپنے علم و فن کے سبب جلال الدّین اکبر کے دربار میں‌ جگہ پائی اور علمی کام میں مشغول رہے۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے کئی کتب کا فارسی ہندی ترجمہ کیا۔ وہ عربی پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ ملّا عبدالقادر بدایونی نجوم اور ریاضی جیسے علوم کے علاوہ راگ راگنیوں سے بھی واقف تھے۔

  • اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    جلال الدّین محمد اکبر ہندوستان کے وہ مغل بادشاہ ہیں جو تاریخ میں ’اکبرِ اعظم‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ جلال الدّین اکبر کا عہد حکومت علم و فنون کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور ہے۔ اکبر کے دربار میں کئی اہلِ‌ علم اور فن کار موجود رہے اور بادشاہ نے ان کی بڑی قدر اور عزّت افزائی کی۔

    اکبر کے عہدِ حکومت پر بہت سے کتابیں لکھی گئیں، جن میں ابوالفضل کی اکبر نامہ، محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری اور سرسید احمد خان کی آئینِ اکبری سرِفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ غیرملکی مؤرخین اور سیّاحوں نے بھی اکبر کی شخصیت اور اس کے دربار کا احوال رقم کیا ہے۔ عبدالمجید سالک نے سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی کتاب کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ اکبر اَن پڑھ تھے، لیکن ان کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔ یہاں‌ ہم پاکستان کے ممتاز مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے ایک مضمون بعنوان "مصّوری” سے یہ پارہ نقل کررہے ہیں‌ جو بادشاہ اکبر کی اس فن میں دل چسپی اور سرپرستی کا عکاس ہے۔ چغتائی صاحب لکھتے ہیں:

    "اکبر کی عمر ابھی قریب چودہ برس کی تھی کہ تیموری تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔ اس کے اتالیق منعم خاں اور بیرم خاں تھے۔ اس کی عملداری کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کی۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اکبر کے نازک شانے تنہا حکومت کے بارِ گراں کو نہ اٹھا سکتے۔ انہوں نے اپنے آقا کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیا۔ اکبر نے ابتدائی مہموں سے فرصت حاصل کر کے فوراً علوم و فنون کی طرف توجہ کی۔ بچپن ہی سے اسے مصوری اور قصے سننے کی طرف رغبت تھی۔ اور میر سید علی تبریزی اور خواجہ عبدالصمد شیریں قلم برابر اپنا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ ابتدا میں کچھ ملول تھے مگر نوجوان بادشاہ کو ان کے فن سے دلچسپی نے ان کی ہمتیں بڑھا دیں۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے داستانِ امیر حمزہ کو مصور کیا، جس کی پوری تفصیل اس عہد کی تاریخ میں ملتی ہے۔ بلکہ اکبر کی اکیڈمی مصوری میں ان دو ایرانی مصوروں کے علاوہ کئی ہندو مصور بھی بطور تلمیذ شریک ہوئے۔”

    "اکبر کو جمالیاتی کیفیات کا صحیح اندازہ کرنے اور ان سے حظ اٹھانے میں قدرت نے کامل طور پر ملکہ عطا کیا تھا اور دینی معاملات اور ملکی مصلحتوں کی بنا پر نہایت درجہ وسیع۔ اس نے اپنے اس رویہ سے ہر فرقہ کو اپنی کم عمری سے مسخر کر لیا تھا اور خاص کر راجپوتوں کو قرب حاصل ہوا۔ آرٹ اکیڈمی میں سب قسم کے لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ ابوالفضل نے ایک ہندو مصور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک کہار کا لڑکا تھا۔ اکبرؔ نے اپنی دور رس جمالیاتی نگاہ سے اس کو دیکھا، جب کہ وہ ابھی کمسن بچہ ہی تھا اور ایک دیوار نقش و نگار کر رہا تھا، جیسا عام طور پر بچے تیار کرتے ہیں لیکن اکبر کی مردم شناسی تاڑ گئی کہ اس لڑکے میں اعلیٰ مصور بننے کے جوہر موجود ہیں۔”

    "چنانچہ اس نے اسے خواجہ عبدالصمد کے سپرد کیا تو اس کی تعلیم سے وہ بے مثال مصور نکلا مگر وہ اپنے فطری جذبۂ مصوری میں اس قدر پیش پیش آیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دماغی توازن کھو کر ختم ہوگیا۔ اس کے کارنامے بجائے خود اس کے اعلیٰ فن کار ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اکبر کو مصوری کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے فتح پور سیکری میں دیواروں پر ان مصوروں سے تصاویر بنوائیں، جن کے نشان آج تک باقی ہیں اور اکبر، مصوّری کے جمالیاتی پہلو سے اس قدر متاثر ہوا کہ دلائل کے ذریعہ ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ مصوری اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے جہاں اور دوسرے طریقے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے۔

    چنانچہ ایک مرتبہ اس نے جب کہ سعادت مند لوگ انجمن خاص میں موجود تھے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مصوری کے پیشے کو برا بتلاتے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں، میرے خیال میں مصور خدا شناسی میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ جب وہ کبھی جانور کی تصویر بناتا ہے اور حصّے کو الگ الگ کھینچتا ہے مگر روح اور جسم میں رابطہ پیدا کرنے سے عاجز ہے تو وہ خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے عجز سے معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ یعنی اللہ کو ہی واحد خالق سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔”

    "اکبر نے اپنی سرپرستی میں علاوہ داستانِ امیر حمزہ کے سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کروا کر ان کو مصوّر بھی کرایا جس کے اکثر مصوّر نسخے آج بھی ملتے ہیں۔ اور دیگر کتب بابر نامہ، انوار سہیلی وغیرہ جیسی کتابوں کو مصوّر کرایا۔ اس عہد کے امراء میں عبدالرحیم خان خاناں خاص طور پرقابلِ ذکر ہے جس نے اپنے ہاں الگ ایک شعبہ قلمی اور مصور کتابوں کے تیار کرنے کا قائم کیا ہوا تھا اور اکثر فن کار اس کے ہاں کام کرتے تھے، جن میں میاں قدیم اور عبدالرحیم عنبرین قلم قابلِ ذکر ہیں۔”

  • اکبر بادشاہ کے اتالیق اور مغل خاندان کے وفادار بیرم خان کا تذکرہ

    اکبر بادشاہ کے اتالیق اور مغل خاندان کے وفادار بیرم خان کا تذکرہ

    مغلیہ دور کی مشہور شخصیت بیرم خان کو تاریخ‌ ایک ایسے سپاہ سالار کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے مغلوں کے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا جب مغل بادشاہ ہمایوں آگرہ سے فرار ہو گیا تھا۔ بیرم بیگ یا بیرم خان کو اکبر کے اتالیق ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بیرم خان ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ اس نے ان دونوں زبانوں میں شاعری بھی کی۔ وہ علم کا رسیا بھی تھا اور اس کے دربار میں عالم اور اہلِ قلم موجود تھے۔

    ترک نسل کے بیرم بیگ نے وسطیٰ بدخشاں کے علاقے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سیفالی بیگ بہارلو اور دادا جنبالی بیگ شہنشاہ بابر کی فوج میں تھے۔ مغل بادشاہ ہمایوں نے اسے’’خانِ خاناں‘‘ کا لقب دیا جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، اور اسی کے بعد وہ بیرم خان کے نام سے مشہور ہوا۔ بیرم خان 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوا تھا اور ایک عرصہ تک مغلوں کی فتوحات میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ مؤرخین کے مطابق جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔

    بادشاہ اکبر کے دور میں‌ بھی بیرم خان نے حکومت کے استحکام کے لیے ناقابلِ‌ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ اکبر کو سازشوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے اکبر کے خلاف اکثر مہم جوئی ناکام بنائی۔ بیرم خان کا سنہ پیدائش تاریخ کی کتابوں میں‌ 1501ء درج ہے جسے 31 جنوری 1561ء میں قتل کر دیا گیا۔

    مؤرخ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی، لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے بے مثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ بادشاہت پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہمیشہ ایک وفادار سرپرست کی حیثیت سے امورِ سلطنت چلاتا رہا۔ اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان نے امورِ مملکت سے خود کو الگ کر لیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت بھی کی۔ یہ 1556ء کی بات ہے۔

    شاہانِ وقت سے قربت کے سبب درباری بیرم خان سے حسد کرتے تھے۔ لیکن بیرم خان سے بھی کچھ غلطیاں‌ بھی سرزد ہوئی تھیں‌ جس نے اس کی وفاداری کو مشکوک اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک 1560ء میں اس کا زوال شروع ہوگیا اور اس کی وجہ اپنے اعزاء کو نوازنا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان نے اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کردیا اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کر دی جس میں اسے شکست ہوئی۔ لیکن اس کی مغل خاندان سے وفاداری اور طویل رفاقت کی بنا پر اکبر نے اس کو بخش دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو دربار سے رخصت لے کر باقی زندگی عیش سے گزار دے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج پر جانے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکا قصد کیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ وہ راستے میں پٹن میں‌ چند دن ٹھیرا۔ ایک روز وہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا۔ وہ جس علاقہ میں تھا، وہاں ایک مبارک خان لوحانی نامی شخص بھی موجود تھا جس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے کسی سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اپنے چالیس افغان ساتھیوں کے ہمراہ اسی مقام پر سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ مبارک خان کو جب علم ہوا کہ بیرم خان یہا‌ں موجود ہے تو اس نے ملاقات کا پیغام بھجوایا اور جب وہ بیرم خان کی اجازت سے اس کے پاس پہنچا تو موقع پاکر اس کی پشت پر خنجر مار دیا۔ اس کا یہ وار ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ خنجر سینے کے آر پار ہوچکا تھا۔ بیرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کو مقبرۂ شیخ حسام الدّین کے احاطہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔میر علی شیر قانع کا بیان ہے کہ بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کو مشہد لے جایا گیا اور وہاں‌ تدفین کی گئی۔

  • بیوقوفوں کی فہرست میں اکبر بادشاہ کا نام سب سے اوپر کیوں؟

    بیوقوفوں کی فہرست میں اکبر بادشاہ کا نام سب سے اوپر کیوں؟

    ہندوستان میں بادشاہوں اور والیانِ سلطنت کے درباروں سے مختلف ادوار میں جہاں علم و فضل میں‌ ممتاز شخصیات وابستہ رہی ہیں، وہیں مختلف ذہین اور طبّاع لوگوں کا تذکرہ بھی تاریخی کتب میں ملتا ہے جن میں‌ سے ایک ابو الحسن المعروف ملّا دوپیازہ بھی ہیں۔

    یہ اکبر کے دور میں‌ ذہین اور حاضر دماغ مشہور تھے اور دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ان کی سوانح عمری‘‘ اور ان سے متعلق مختلف قصّے اور تذکرے ہمیں کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ملّا دوپیازہ کی حاضر دماغی کا ایک واقعہ منشی محمد الدین فوق کی مرتب کردہ کتاب ’’ابو الحسن ملّا دوپیازہ کی سوانح عمری‘‘ میں‌ موجود ہے جسے ہم یہاں آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کررہے ہیں۔

    ایک دن کوئی سوداگر اکبر بادشاہ کے پاس چند عمدہ گھوڑے لایا۔ بادشاہ نے گھوڑوں کو پسند کیا اور حکم دیا کہ اسی قسم کے گھوڑے اور لاؤ، اور اس کے واسطے اس سوداگر کو ایک لاکھ روپیہ پیشگی دلوا دیا۔

    اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز بادشاہ نے ملّا صاحب کو حکم دیا کہ ملک کے بیوقوفوں کی ایک فہرست تیار کر کے دکھلاؤ۔

    ملاّ دوپیازہ نے چند ایک نام لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیے، جن میں بادشاہ کا نام سب سے پہلے لکھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران ہوا اور اس کی وجہ دریافت کی۔

    ملّا صاحب نے یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے بے سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ سوداگروں کو دلوا دیا اور وہ اب شکل بھی نہیں دکھلائیں گے۔

    بادشاہ نے کہا اگر وہ لے آئے تو؟ ملّا نے جواب دیا، اگر لے آئے تو آپ کا نام کاٹ کر ان کا لکھ دوں گا۔ بادشاہ یہ سن کر لاجواب ہو گیا۔

  • اکبر بادشاہ اور حجام

    اکبر بادشاہ اور حجام

    ہندوستان میں‌ بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتنوں کا خوب شہرہ ہوا اور بعد میں ان سے جڑے واقعات افسانوی رنگ میں‌ ڈھل گئے۔

    بیربل بھی اکبر کے دور کا ایک مشہور کردار ہے جسے بادشاہ نے اس کی ذہانت حاضر جوابی سے متاثر ہو کر اپنے نو رتنوں‌ میں‌ شامل کیا۔ بیربل سے کئی قصّے کہانیاں اور لطیفے منسوب ہیں جن میں‌ بعض‌ اس کے دانش مند ہونے کا ثبوت ہیں۔ تاہم ان میں سے اکثر فرضی ہیں یا ان کا کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں‌۔ اکبر اور بیربل سے متعلق ایک مشہور واقعہ ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    کہتے ہیں ایک رات بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا: بھائی یہ بتاوٴ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے۔

    حجام نے فوراً جواب دیا: ہمارے اکبر بادشاہ کے راج میں ہر طرف امن، چین اور خوش حالی ہے، لوگ عیش سے زندگی گزار رہے ہیں، ہر دن عید ہے، ہر رات دیوالی۔

    اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا آگے جاکر اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا: دیکھا تم نے، ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بے شک جہاں پناہ، آپ کا اقبال بلند ہے۔ چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا:

    حال کیا پوچھتے ہو بھائی، ہر طرف تباہی بربادی ہے، اکبر کی حکومت میں ہر آدمی دکھی ہے، ستیاناس ہو، اس منحوس بادشاہ کا۔ یہ سن کر اکبر حیران رہ گیا۔ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور اب ایسا کیا ہو گیا؟

    اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا کہ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہے، لیکن وہ بادشاہ اور اس کے وزرا کو برا بھلا کہتا رہا اور اکبر کا سوال سنتا ہی نہ تھا۔

    اب بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں بیربل سے پوچھا: آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ شخص چند ہی روز میں‌ ہمارے خلاف ہوگیا؟

    بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں 10 اشرفیاں ہیں، میں نے دو روز پہلے اس کی جھونپڑی سے اسے چوری کروا لیا تھا۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا، اسے بادشاہ اور حکومت سب اچھا لگتا تھا اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ جب اس کی دولت لٹ گئی تو اسے شدید رنج ہوا اور اس غم میں اسے سارے لوگ تباہ حال اور برباد نظر آتے ہیں۔

    اکبر اس کی بات سن کر چونکا۔ بیربل نے مزید کہا: جہاں پناہ، اس سے آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک فرد اپنی خوش حالی کو دوسروں کی خوش حالی سمجھ لیتا ہے، جب کہ ایسا ہوتا نہیں‌ ہے۔ سب کے اپنے مسائل اور دکھ سکھ ہیں جنھیں وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ درد جسے ہوتا ہے، وہی اس کی شدت کا حقیقی احساس کرسکتا ہے۔ بادشاہوں اور حکم رانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنا ہو تو اپنی ذات سے باہر نکلنا اور دور تک دیکھنا چاہیے۔

  • کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    کلائی کے زخم نے اکبر کی جان بچالی

    ہر دور میں بادشاہوں اور حکم رانوں کے دربار میں مشیر، علما اور مختلف شعبوں کے قابل اور باصلاحیت لوگ اور دانا شخصیات موجود رہے ہیں جن سے یہ حکم راں مختلف امور اور عوامی مسائل پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فرمان جاری کرتے تھے۔

    مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی بات کی جائے تو تاریخ میں اکبر کے "نو رتن” بہت مشہور ہیں۔ یہ نو لوگ انتہائی ذہین، دانا اور اپنے علم و کمال کی وجہ سے اکبر کو پسند تھے۔

    انہی میں ایک "بیربل” بھی تھا جسے تاریخ کی کتابوں میں ذہین اور حاضر جواب لکھا گیا ہے۔ یہ واقعہ جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں اکبر اور بیربل سے منسوب ہے۔

    کہتے ہیں ایک روز بادشاہ چاقو سے سیب چھیل رہا تھا۔ ذرا توجہ بٹی اور چاقو کی نوک اس کی کلائی پر لگ گئی اور وہ زخمی ہو گیا۔ بیربل کے منہ سے بے اختیار شکر الحمدللہ نکل گیا۔

    بادشاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں زخمی ہوا ہوں اور تم شکر ادا کر رہے ہو۔

    بیربل نے عرض کیا، حضور میں نے سیانوں سے سنا تھا انسان کو چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت سے بچاتی ہے۔ آپ کی کلائی زخمی ہو گئی، میرا خیال ہے خدا نے آپ کو کسی بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ اس نے بیربل کو جیل میں ڈلوا دیا اور اگلے روز شکار پر چلا گیا۔ شکار کے دوران وہ اور اس کے چند درباری اپنے لشکر سے بچھڑ گئے اور جنگل میں ایک قبیلے کے وحشی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    انھوں نے اکبر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی دیوی پر قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ درباریوں کی گردن اتارنے کے بعد جب اکبر کی باری تو اس کی کلائی پر پٹی بندھی تھی، قبیلے کے سردار کے دریافت کرنے پر اکبر نے بتایا کہ وہ زخمی ہو گیا تھا، تو اس نے مایوسی سے سر ہلایا اور اسے جانے کی اجازت دے دی، سردار نے کہا کہ ہم دیوی کو کسی زخمی کی قربانی پیش نہیں کرسکتے۔

    کہتے ہیں یوں اکبر کی جان بچی اور تب اسے بیربل کی بات یاد آئی۔ اس نے واپس آکر بیربل کو جیل سے نکالا اور اس سے معذرت اور اس کی دل جوئی کی۔

  • مغل دور کے مزارکا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت کا شکار

    مغل دور کے مزارکا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت کا شکار

    پشاور: مغل دور میں تعمیر ہونے والے تاریخی مزار کا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت سے رو بہ زوال ہے، گنبد کے اوپر اگے درخت کی جڑیں اسے شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    مغل دور کا بنا ہوا ہوا تاریخی گنبد جو دلہ زاک روڈ پر گنبد گاؤں میں واقع ہے وہ حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے اپنی اصلیت کھو رہی ہے۔ یہ گنبد اکبر بادشاہ کے دور میں شاہ قطب زین العابدین نے بنا یا تھا جو ایک بزرگ صوفی کا مزار تھا۔ یہ گنبد باریک اینٹوں سے بنا ہوا ہے جس کے ساتھ اوپر منزل کو چڑھنے کیلئے سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔

    چترال یونین آف پروفیشنل جرنلسٹ زاک کے صدر، پشاور یونیورسٹی کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سابق چئیرمین پروفیسر ڈاکٹرعبد الرشید، باٹنی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ اور باٹنی کے بی ایس کے طالب علم عبد الرب نے اس گنبد کا دورہ کیا جہاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ گنبد کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ گنبد کے اوپر ایک درخت بھی اگا ہوا ہے، جو  تقریباً پانچ سال کا ہے۔ ڈاکٹر عبد الرشید نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ یہ درخت اس تاریخی گنبد کی وجود کے لیے  نہایت خطرناک ہے اور اس کی جڑیں گنبد کے اندرونی  حصے کو کسی بھی وقت گراسکتی ہیں۔

    باٹنی کے پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ اس درخت کی جڑوں سے جو کیمیاوی مواد نکلتا ہے، وہ اس گنبد کی عمارت کیلئے نہایت خطرناک ہے اور اسے بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر نواز الدین کا نمبر دیا جن سے فون پر بات ہوئی۔ اور اس گنبد کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئی تاہم ماہرین کے دورے کے دوران نہ تو کوئی چوکیدار تھا نہ کوئی اور سٹاف۔

    یہاں تک کہ اس تاریخی گنبد کے ساتھ کوئی بورڈ بھی نہیں لگا ہوا ہے جس پر آنے والے سیاحوں، طلباء اور تحقیق کاروں کیلئے معلومات درج ہوں۔

    مقامی لوگوں سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بھی شکایت کی کہ ہمارا گاؤں اس گنبد کی وجہ سے مشہور ہے مگر عملہ کے لوگ تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر اپنی ڈیوٹی نہیں کرتی۔ نہ تو کوئی اس کے معائنہ کیلئے آتا ہے نہ اس درخت کا ابھی تک کسی نے سدباب کیا۔

    مقامی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اس گنبد میں جو مزار ہے اس کے چاروں طرف تالے لگے ہوئے ہیں اور گندی  نالی کی بدبو سے بھی اس عمارت کی سیر کرنے والے کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔

     مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس گنبد پر مامور تمام عملہ اور اس کے نام پر نکلی ہوئی فنڈ کے بابت تحقیقات کی جائے کہ عملہ اپنا فرائض کیوں انجام نہیں دیتے اور اس کی حفاظت کیلئے چاردیواری تعمیر کی جائے،  نیز اس پر بورڈ بھی نصب کیا جائے جس پر تمام معلومات درج ہو۔