Tag: اکبر شاہ ثانی

  • نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    نجانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا، ایک کماتا، دَس کھاتے!

    مرزا غالب نے کہا ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔ یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہُوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔

    یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشّان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری اور بیر اکھیری پھیلی کہ بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے۔ محمد شاہ رنگیلے ’’پیا‘‘ کہلائے۔ ان کے عہد میں در و دیوار سے نغمے برستے اور شعر و شاعری کے اکھاڑے جمتے۔ نعمت خاں سدا رنگ انہی کے دربار کا بین کار اور کلاونت تھا جس نے دھرپد کے مقابلے میں خیال کی گائیکی کو فروغ دیا۔ آج تک گویے اس کے نام پر کان پکڑتے ہیں، ولیؔ اپنا دیوان لے کر انہی کے زمانے میں دلّی آئے تھے اور ان ہی کے دربار میں انہوں نے اپنے طالع چمکائے تھے۔

    گھر گھر شعر اور موسیقی کا چرچا تھا۔ بادشاہ کو دوم ڈھاڑیوں نے باور کرا دیا تھا کہ آدمی تیر تلوار کا مارا بھی مرتا ہے اور تان تلوار کا بھی۔ لہٰذا ایک فوج گویوں کی بھی تیار کر لی گئی تھی۔ ان رنگ رلیوں میں تلواریں لہو چاٹنا بھول گئیں اور نیاموں میں پڑے پڑے سو گئیں۔ نادر شاہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور قہر و غضب کی آندھی بن کر دلّی کی طرف جھپٹا۔ پرچہ لگا کہ نادر شاہ دلی کے قریب آ پہنچا۔ گویوں کی فوج مقابلے کے لیے بھیج دی گئی۔ نادر شاہ کے جانگلو محمد شاہی فوجیوں کی بغلوں میں بڑے بڑے طنبورے دیکھ کر پہلے تو ڈرے کہ خدا جانے یہ کیا ہتھیار ہے مگر جب جاسوسوں نے بھانڈا پھوڑا کہ یہ ہتھیار نہیں، ایک ساز ہے، تو دَم کے دَم میں انہوں نے محمد شاہی فوج کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر ڈال دیا۔ نادر شاہ نے دھڑی دھڑی کر کے دلّی کو لوٹا اور دلّی کھک ہو گئی۔ قتلِ عام کیا تو ایسا کہ گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے۔ آخر وزیر با تدبیر بوڑھے نظامُ الملک کو نادری جلال فرو کرنے کے لیے نادر شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا پڑا کہ

    کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغِ ناز کشی
    مگر تو زندہ کنی خلق را و باز کشی

    نادر شاہ لوٹ لاٹ کابل چلا گیا، اور اپنے ساتھ شاہجہانی تخت طاؤس بھی لے گیا۔ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں روہیلے نے نکالیں۔ بادشاہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی اندھے ہو گئے۔ ان کے درباریوں نے انہیں یقین دلایا کہ حضور والا بیٹھے بیٹھے ایک دم سے غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں دلّی سے مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہ سلامت بھی یہ سمجھنے لگے کہ واقعی میں مجھ میں یہ کرامت سما گئی ہے۔ پیری مریدی کرنے لگے اور مریدوں کے وظائف مقرر ہونے لگے۔ حکومت تباہ اور خزانے ویران ہو گئے۔ مثل مشہور ہوئی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی۔ سودا نے اپنے شہر آشوب میں ان کے زمانے کا خاکہ اڑایا۔

    اکبر شاہ ثانی جاٹوں کے حملے سے ایسے ناچار ہوئے کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہو گئے۔ یہی لیل ونہار تھے کہ بہادر شاہ عالم وجود میں آئے۔ بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمر تخت و تاج کی راہ تکتے بیت گئی۔ اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم تھیں ممتاز محل۔ ان بیگم کے ایک چہیتے بیٹے تھے مرزا جہانگیر۔ بادشاہ بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور انہی کو ولی عہد مقرر کرنا چاہتے تھے مگر مرزا جہانگیر اپنی بے ہودہ حرکتوں سے باز نہ آتے۔ انگریز حاکم اعلیٰ سیٹن کو لولو کہہ دیا۔ اس کی پاداش میں مرزا نظر بند کر کے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔

    ہاں تو بہادر شاہ ہی ولی عہد رہے اور ایک نہ دو، پورے باسٹھ سال تک ولی عہد رہے۔ جب کسی بادشاہ کا انتقال ہو جاتا تھا تو اس کے مرنے کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے، یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ ’’گھی کا کپا لنڈھ گیا۔‘‘ خاموشی کے ساتھ میت کو نہلا دھلا کفنا کر قلعہ کے طلاقی دروازے سے جنازہ دفن کرنے بھیج دیا جاتا۔ نوبت نقارے الٹے کر دیے جاتے اور چولہوں پر سے کڑہائیاں اتار دی جاتیں۔ اکبر شاہ ثانی کے وقت تک یہ رسم چلی آتی تھی کہ بادشاہ کے جنازے کو تخت کے آگے لا کے رکھتے تھے۔ دوسرا بادشاہ جو کوئی ہوتا تھا، مردے کے منہ پر پاؤں رکھ کر تخت پر بیٹھتا تھا۔ دوسرے بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی شادیانے بجنے لگتے۔ سلامی کی توپیں چلنے لگتیں۔ تب کہیں سب کو معلوم ہوتا کہ بادشاہ مر گیا اور دوسرا بادشاہ تخت پر بیٹھ گیا۔

    باسٹھ سال کی عمر میں بہادر شاہ کو تخت نصیب ہوا تو مغلوں کا جلال رخصت ہو رہا تھا اور آفتابِ اقبال لبِ بام آ چکا تھا۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے، لیکن بالکل بے دست و پا تھے۔ فرنگی سرکار کے نمک خوار تھے۔ انہیں اس شرط پر ایک لاکھ روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا کہ ان کے بعد دلّی کی شاہی ختم ہو جائے گی اور دلّی بھی انگریزی عمل داری میں شامل ہو جائے گی۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا اور اگر شہر والوں میں سے کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بادشاہ اپنی مجبوری ظاہر کر دیتے اور کہتے، ’’بھئی انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘

    لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ شہر کی بیشتر آبادی لال قلعہ کے متوسلین پر مشتمل تھی۔ شہزادوں اور سلاطین زادوں کے علاوہ امیر امراء اور رؤسا کا خدم و حشم کیا کم تھا؟ دلّی میں، لٹتے لٹتے بھی الغاروں دولت بھری پڑی تھی۔ ڈیوڑھیوں پر ہاتھی جھولتے، تخت رواں، ہوا دار، پالکی، نالکی، تام جھام، ہر حویلی میں موجود۔ لاؤ لشکر کا کیا ٹھکانہ! چوب دار، عصا بردار، پیادے، مردھے، کہار، لونڈیاں، باندیاں، ودّائیں، چھوچھوئیں، مغلانیاں، ترکنیں، حبشنیں، جسولنیاں، قلماقنیاں، خواجہ سرا، دربان، پاسبان، ہر امیر کے ہاں آخور کی بھرتی کی طرح بھرے پڑے تھے۔

    سستا سمے، کاروبار خوب چمکے ہوئے، نہ جانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا تھا۔ ایک کماتا اور دس کھاتے۔ اجلے پوشوں تک کے خرچ اجلے تھے۔ رعایا خوش حال اور فارغ البال تھی۔ رہن سہن، ادب آداب، نشست و برخاست، بول چال، رسم و رواج، تیج تہوار، میلے ٹھیلے، سیر تماشے، ان سب میں کچھ ایسا سلیقہ اور قرینہ تھا کہ دلّی کی تہذیب ایک مثالی نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ یہاں کے ہیروں کی چمک دمک تو آنکھوں میں کبھی کبھی ہی جاتی تھی، باہر سے جو بھی کھڑ آتی یا انگھڑ جواہر پارے آتے، یہاں ان کی تراش خراش کچھ اس انداز سے ہوتی اور اس پر ایسی جلا چڑھتی کہ اس کی چھوٹ سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں۔ یہاں آکر گونگوں کو زبان مل جاتی، جن کی منقار زیر پَر ہوتی وہ ہزار داستاں بن جاتے، جو پر شکستہ ہوتے وہ فلک الافلاک پر، پَر مارنے لگتے۔ علوم و فنون کے چشمے اس سرزمین سے پھوٹتے اور حکمت و دانش یہاں کی فضا میں گھلتی رہتی۔ غرض ہندوستان کا دلّی ایک عجیب پُرکیف مقام تھا جو بہت کچھ برباد ہو جانے پر بھی جنّت بنا ہوا تھا۔

    (ماخذ: دلّی جو ایک شہر تھا، از شاہد احمد دہلوی)

  • اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اٹھارہویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کو برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہونے والے اکبر شاہ ثانی کا زمانہ ہر لحاظ سے ابتری اور انتشار کا زمانہ تھا اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئی تھیں۔ بادشاہت دہلی تک محدود ہوگئی تھی جسے اب انگریز مٹانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

    اکبر شاہ ثانی نے 1837ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز بظاہر سہی بادشاہت کا احترام اور تخت و تاج کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت تک بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا، لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کو ایک سال بیت چکا تھا، اور 1807ء تک یہ حالات پیدا ہوچکے تھے جس کی طرف مولوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنا وظیفہ بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے منظور کرلیا۔ لیکن اتنی بڑا دربار پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا اور اسی لیے بادشاہ نے اب مزید اضافہ چاہا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرماں روائے اودھ سے بھی مدد چاہی تھی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کار گزاری کے جواب میں کہا کہ اس وقت تک اضافہ کی امید نہ رکھی جائے جب تک بادشاہ انگریز کی تمام شرائط کو نہیں‌ مان لیتے۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ انھیں اپنے ولی عہد یا جانشین کی تقرری کا اختیار بھی نہیں‌ رہا تھا۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے انگریز سرکار سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر اس بار جوں تک نہیں رینگی۔ آخرکار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماج لیڈر رام موہن رائے کو اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا تاکہ وہ ان کا مقدمہ لڑ سکیں۔ رام موہن رائے انگلستان تو گئے، لیکن مقصد میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ بادشاہ کو باقی ماندہ زندگی لال قلعے میں بے یارو مددگار انسان کی طرح گزارنا پڑی۔

    دہلی کے تخت پر ان کا ‘راج’ 31 برس رہا اور مرضِ اسہال کے سبب ان کی زندگی تمام ہوئی۔ وہ درگاہ خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کے ساتھ مہراؤلی (دہلی) میں پیوندِ خاک ہوئے۔

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔