Tag: اکبر کے نورتن

  • بیوقوفوں کی فہرست میں اکبر بادشاہ کا نام سب سے اوپر کیوں؟

    بیوقوفوں کی فہرست میں اکبر بادشاہ کا نام سب سے اوپر کیوں؟

    ہندوستان میں بادشاہوں اور والیانِ سلطنت کے درباروں سے مختلف ادوار میں جہاں علم و فضل میں‌ ممتاز شخصیات وابستہ رہی ہیں، وہیں مختلف ذہین اور طبّاع لوگوں کا تذکرہ بھی تاریخی کتب میں ملتا ہے جن میں‌ سے ایک ابو الحسن المعروف ملّا دوپیازہ بھی ہیں۔

    یہ اکبر کے دور میں‌ ذہین اور حاضر دماغ مشہور تھے اور دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ان کی سوانح عمری‘‘ اور ان سے متعلق مختلف قصّے اور تذکرے ہمیں کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ملّا دوپیازہ کی حاضر دماغی کا ایک واقعہ منشی محمد الدین فوق کی مرتب کردہ کتاب ’’ابو الحسن ملّا دوپیازہ کی سوانح عمری‘‘ میں‌ موجود ہے جسے ہم یہاں آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کررہے ہیں۔

    ایک دن کوئی سوداگر اکبر بادشاہ کے پاس چند عمدہ گھوڑے لایا۔ بادشاہ نے گھوڑوں کو پسند کیا اور حکم دیا کہ اسی قسم کے گھوڑے اور لاؤ، اور اس کے واسطے اس سوداگر کو ایک لاکھ روپیہ پیشگی دلوا دیا۔

    اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز بادشاہ نے ملّا صاحب کو حکم دیا کہ ملک کے بیوقوفوں کی ایک فہرست تیار کر کے دکھلاؤ۔

    ملاّ دوپیازہ نے چند ایک نام لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیے، جن میں بادشاہ کا نام سب سے پہلے لکھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران ہوا اور اس کی وجہ دریافت کی۔

    ملّا صاحب نے یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے بے سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ سوداگروں کو دلوا دیا اور وہ اب شکل بھی نہیں دکھلائیں گے۔

    بادشاہ نے کہا اگر وہ لے آئے تو؟ ملّا نے جواب دیا، اگر لے آئے تو آپ کا نام کاٹ کر ان کا لکھ دوں گا۔ بادشاہ یہ سن کر لاجواب ہو گیا۔

  • اکبر بادشاہ اور حجام

    اکبر بادشاہ اور حجام

    ہندوستان میں‌ بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتنوں کا خوب شہرہ ہوا اور بعد میں ان سے جڑے واقعات افسانوی رنگ میں‌ ڈھل گئے۔

    بیربل بھی اکبر کے دور کا ایک مشہور کردار ہے جسے بادشاہ نے اس کی ذہانت حاضر جوابی سے متاثر ہو کر اپنے نو رتنوں‌ میں‌ شامل کیا۔ بیربل سے کئی قصّے کہانیاں اور لطیفے منسوب ہیں جن میں‌ بعض‌ اس کے دانش مند ہونے کا ثبوت ہیں۔ تاہم ان میں سے اکثر فرضی ہیں یا ان کا کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں‌۔ اکبر اور بیربل سے متعلق ایک مشہور واقعہ ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    کہتے ہیں ایک رات بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا: بھائی یہ بتاوٴ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے۔

    حجام نے فوراً جواب دیا: ہمارے اکبر بادشاہ کے راج میں ہر طرف امن، چین اور خوش حالی ہے، لوگ عیش سے زندگی گزار رہے ہیں، ہر دن عید ہے، ہر رات دیوالی۔

    اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا آگے جاکر اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا: دیکھا تم نے، ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بے شک جہاں پناہ، آپ کا اقبال بلند ہے۔ چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا:

    حال کیا پوچھتے ہو بھائی، ہر طرف تباہی بربادی ہے، اکبر کی حکومت میں ہر آدمی دکھی ہے، ستیاناس ہو، اس منحوس بادشاہ کا۔ یہ سن کر اکبر حیران رہ گیا۔ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور اب ایسا کیا ہو گیا؟

    اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا کہ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہے، لیکن وہ بادشاہ اور اس کے وزرا کو برا بھلا کہتا رہا اور اکبر کا سوال سنتا ہی نہ تھا۔

    اب بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں بیربل سے پوچھا: آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ شخص چند ہی روز میں‌ ہمارے خلاف ہوگیا؟

    بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں 10 اشرفیاں ہیں، میں نے دو روز پہلے اس کی جھونپڑی سے اسے چوری کروا لیا تھا۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا، اسے بادشاہ اور حکومت سب اچھا لگتا تھا اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ جب اس کی دولت لٹ گئی تو اسے شدید رنج ہوا اور اس غم میں اسے سارے لوگ تباہ حال اور برباد نظر آتے ہیں۔

    اکبر اس کی بات سن کر چونکا۔ بیربل نے مزید کہا: جہاں پناہ، اس سے آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک فرد اپنی خوش حالی کو دوسروں کی خوش حالی سمجھ لیتا ہے، جب کہ ایسا ہوتا نہیں‌ ہے۔ سب کے اپنے مسائل اور دکھ سکھ ہیں جنھیں وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ درد جسے ہوتا ہے، وہی اس کی شدت کا حقیقی احساس کرسکتا ہے۔ بادشاہوں اور حکم رانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنا ہو تو اپنی ذات سے باہر نکلنا اور دور تک دیکھنا چاہیے۔