Tag: اکتوبر انتقال

  • حکیم شمسُ اللہ قادری:‌ ایک گوہرِ‌ نایاب کا تذکرہ

    حکیم شمسُ اللہ قادری:‌ ایک گوہرِ‌ نایاب کا تذکرہ

    حکیم شمسُ اللہ قادری نے کئی نایاب اور اہم موضوعات پر کتابیں‌ یادگار چھوڑی ہیں جو انھیں ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے ممتاز کرتی ہیں۔ وہ ایک ذہین، نہایت قابل اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے جنھوں نے تصنیف و تالیف کے ساتھ اپنے ذوق و شوق کی بدولت علمی میدان میں ایک الگ پہچان بنائی۔

    تاریخ و ادب پر حکیم شمس اللہ قادری کے تحریر کردہ کئی مضامین اور مقالے ان مضامین میں بالخصوص طلبہ کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ قادری صاحب کے مقالے ’اردوئے قدیم‘ کو ان کی زبردست تحقیقی کاوش اور ایک کارنامہ کہا جاتا ہے۔ حکیم شمس اللہ قادری نے ایک سہ ماہی رسالہ ’تاریخ‘ بھی جاری کیا تھا جو اس میدان میں ان کی ازحد دل چسپی اور اس موضوع سے ان کے گہرے لگاؤ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے اور ان کے کام میں تحقیقی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا سلیمان ندوی، مولانا عبدالحق اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی جیسی شخصیات انھیں واثقہ مانتی تھیں اور مختلف موضوعات پر ان سے مشورہ اور استفادہ کیا کرتی تھیں۔

    حکیم سید محمد شمس اللہ قادری نے 5 نومبر 1885ء کو ہندوستان کی ایک مرفّہ الحال ریاست حیدر آباد دکن میں‌ آنکھ کھولی جس کے حکم راں بھی اردو زبان اور علم و ادب سے محبّت کرنے والے تھے۔ حکیم صاحب اس ریاست کے ایک علاقے لال باغ میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ذوق و شوق کی بدولت علم و ادب سے متعلق سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے اور طباعت و اشاعت کے کاموں سے تاعمر واسطہ رکھا۔

    حکیم شمسُ اللہ قادری کو ‘دکنیات’ کا پہلا محقّق بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سنہ 1913ء تک ادارہ فرانسیسی ہندی تاریخ اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی برطانیہ و آئرلینڈ کے اعزازی ممبر بھی رہے۔ 1925ء میں انھوں نے سہ ماہی رسالہ تاریخ شایع کیا تھا۔ ان کی کتاب اردوئے قدیم کو اردو زبان کی تاریخ کی ابتدائی و بنیادی کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے سیکڑوں علمی، تاریخی، تحقیقی اور ادبی مقالہ جات مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوئے۔ ہندوستان میں اسلامی ادوار پر ان کی متعدد تحقیقی کتب کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔

    حکیم شمسُ اللہ قادری نے عربوں کے ہندی تعلقات کو باریک بینی سے اجاگر کیا اور ہندوستان میں اسلامی زوال کے اسباب کو واضح کرنے کی بھرپور سعی کی۔ اردو زبان میں سب سے پہلے تاریخی ادوار کی عمدگی سے تشریح اور تحقیقی انداز سے پیش کرنے کی وجہ سے انھیں ’شمسُ المؤرخین‘ کا خطاب دیا گیا۔

    اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے محقق اور محتاط تاریخ دان تھے۔ وہ متعدد زبانوں‌ کا علم رکھتے تھے۔ اردو کے علاوہ ان کے مقالات عربی، ہندی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمن زبانوں زبانوں میں بھی شائع ہوئے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں سے عرب و فارس کے تاجروں کی آمد، ان راستوں پر انھوں نے گہرائی سے تحقیق کی جب کہ سمندری راستوں سے سری لنکا، انڈونیشیا، مالدیپ، چین اور افریقہ کے روابط پر بھی اپنی تحقیق کو کتابی شکل میں پیش کیا اور یہ اہم اور معلوماتی کام ہے۔

    شمس اللہ قادری نے کئی نایاب اور فراموش کردہ کتب پر مضامین و مقالے اپنے سہ ماہی رسالے تاریخ میں شایع کیے۔ حیدرآباد دکن کے نظام میر عثمان علی خان کے فرمان پر ان کا بہت سا کام سرکاری سطح پر کتابی شکل میں شایع کروایا گیا جب کہ 1930ء میں ان کی ادبی و علمی خدمات کے عوض خطیر رقم سے بھی نوازے گئے اور ڈیڑھ سو روپے ماہانہ وظیفہ تاحیات پایا۔ بلاشبہ اس گوہرِ‌ نایاب کی خوب خوب قدر دکن میں ہوئی اور ان کا کام بھی شایع ہوتا رہا۔

    22 اکتوبر 1953ء کو حکیم شمس اللہ قادری نے وفات پائی تھی۔ ان کی کتابوں میں‌ تاریخ مشاہیرِ ہند، جواہرُ العجائب، سکہ جاتِ اودھ، النقود الاسلامیہ، ملیبار، ملیبار سے عربوں کے تعلقات، مسکوکاتِ قدیمہ، پرتگیزان مالابار، قاموس الاعلام اور تاریخ دکن شامل ہیں۔

  • ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو کی کہانیاں فنی تراش اور تکمیل کا نمونہ ہیں۔ اس امریکی ادیب کو مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ پو ایک عمدہ شاعر اور تنقید نگار بھی تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ڈراؤنی اور دہشت انگیز کہانیاں‌ تھیں‌۔ اس نے جرم و سزا اور سنسنی خیز واقعات کو بھی کہانیوں میں سمویا جو بہت مقبول ہوئیں۔ وہ مختصر نویسی میں‌ کمال رکھتا تھا۔ 7 اکتوبر 1849ء کو ایلن پو ابدی نیند سوگیا۔

    نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں‌ نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس نے مختصر افسانہ کا ادبی اور فنی روپ نکھارا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی پو اپنے پیروں‌ پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اس کنبے کو چھوڑ دیا اور اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا اور حصولِ تعلیم‌ کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے جامعہ میں‌ یونیورسٹی آف ورجینیا میں‌ داخلہ لیا تاہم یہاں‌ تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ گھریلو ناچاقیوں اور بدمزگیوں کے علاوہ پو اپنے غصّے، عجیب و غریب عادات، بدمزاجی اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ایڈگر ایلن پو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی نے ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔

    اپنے ایسے ہی افسانوں اور مختصر کہانیوں کی بدولت وہ مشہور بھی ہوا اور اپنے موضوعات میں زبردست قوّتِ تخلیق اور خاص تکنیک کے سبب ناقدین سے داد بھی پائی۔

    ایڈگر ایلن پو کو شہرت تو بہت ملی، لیکن بیوی کی اچانک موت اور دوسرے مسائل کے علاوہ بچپن میں‌ والدین سے دوری جیسے معاملات نے اس کے دماغ پر اثرات مرتب کیے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ شراب نوشی وہ مسئلہ تھا جس نے اسے لوگوں اور بیرونی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا اور وہ ڈپریشن کی وجہ سے‌ موت کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ وہ ایک گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔

    پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں‌ نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔

  • جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    بدر منیر کراچی میں رکشہ چلاتے تھے۔ وہ صرف سنیما اور فلم کے دیوانے نہیں تھے، خود بھی اداکار بننا چاہتے تھے۔ یہ ان کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر ملنا آسان نہ تھا۔

    بدر منیر نے ایک روز رکشہ چھوڑ کر کار ڈرائیور بننے کی ٹھانی، لیکن یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ فلم اسٹار وحید مراد کے فلمی دفتر پہنچ گئے۔ وہاں‌ بدر منیر نے ڈرائیور کے طور پر ادارے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، لیکن اس وقت ڈرائیور کی ضرورت نہیں‌ تھی۔ بدر منیر کو دفتر میں چائے بنانے اور چھوٹے موٹے کام انجام دینے کے لیے رکھ لیا گیا۔

    1966ء کی بات ہے جب وحید مراد کی فلم ’ارمان‘ سُپر ہٹ ہوئی تو بدر منیر نے مالک کو اس کی کام یابی پر خوش دیکھ کر اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اور وحید مراد نے کچھ عرصے بعد انھیں فلم ’جہاں ہم وہاں تم‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دِلوا دیا۔

    اس فلم کے بعد دو تین برس تک بدر منیر نے مزید فلموں‌ میں‌ چھوٹے موٹے کردار نبھائے اور 1970ء میں ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ انھیں‌ پشتو فلموں‌ کے ہیرو کے طور پر بے مثال شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ انھوں نے اس سال پشتو فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ میں‌ مرکزی کردار نبھایا جو پاکستان میں اس زبان میں‌ بننے والی اوّلین فلم تھی۔

    بدر منیر نے ساڑھے چار سو سے زیادہ پشتو اور اردو فلموں میں کام کیا۔ وہ پشتو فلم کی معروف ہیروئنوں کے ساتھ پردے پر نظر آئے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ اگرچہ بدر منیر پشتو اداکار کی حیثیت سے مشہور ہیں‌ ہے، لیکن اردو فلموں کے شائقین نے بھی انھیں پسند کیا۔

  • اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے درمیان قاضی عبدالستار نے جہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا وہیں اپنی انفرادیت کو بھی منوایا۔

    قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    اردو کے مشہور افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش سے تھا جہاں وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ریسرچ اسکالر کے طور پر ناتا جوڑا اور بعد ازاں اسی کے شعبہ اردو میں تدریس سے منسلک ہوئے۔

    انھیں ہندوستان میں ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953 میں شائع ہوا۔جب کہ 1961 میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962 ’ پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    29 اکتوبر 2018ء کو پروفیسر قاضی عبدالستار نے دہلی میں وفات پائی۔

  • اردو کے قادرُِ الکلام شاعر صبا اکبر آبادی کی برسی

    اردو کے قادرُِ الکلام شاعر صبا اکبر آبادی کی برسی

    آج اردو کے قادرُالکلام شاعر صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1991ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے ایک ناول بھی لکھا جب کہ فارسی ادب سے تراجم بھی ان کا ادبی کارنامہ ہیں۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے صبا اکبر آبادی نے ایک برس تک محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    صبا اکبر آبادی نے 1920ء میں اپنا شعری سفر شروع کیا تھا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کے شاگرد رہے۔ 1930ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے اور پاکستان میں جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ انھوں نے غزل، رباعی، نظم، مرثیہ جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔

    صبا اکبر آبادی کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ وہ 14 اگست 1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1928ء میں ادبی ماہ نامہ ’’آزاد‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

    صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراقِ گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغِ بہار، خوں ناب، حرزِ جاں، ثبات اور دستِ دعا شامل ہیں۔ مرثیہ نگاری بھی صبا اکبر آبادی کا ایک مستند حوالہ ہے اور ان کے لکھے ہوئے مرثیوں‌ کے مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاسِ الم شائع ہوئے۔

    انھوں نے فارسی ادب سے عمر خیام، غالب، حافظ اور امیر خسرو کا کلام منتخب کر کے اردو میں‌ منظوم ترجمہ کیا۔ صبا اکبر آبادی نے ایک ناول بھی لکھا جو ’’زندہ لاش‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

    یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
    کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

    اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
    عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں

    اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
    رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

    سونا تھا جتنا عہدِ جوانی میں سو لیے
    اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے