Tag: اکتوبر برسی

  • قبولِ اسلام کے بعد پاکستان کو اپنا وطن بنانے والی مریم جمیلہ کا تذکرہ

    قبولِ اسلام کے بعد پاکستان کو اپنا وطن بنانے والی مریم جمیلہ کا تذکرہ

    مریم جمیلہ کا نام والدین نے مارگریٹ مارکیوس رکھا تھا۔ لیکن قبولِ اسلام کے بعد نوجوان مارگریٹ مارکیوس نے اپنا نام تبدیل کرلیا۔ مریم جمیلہ کا تعلق اس یہودی خاندان سے تھا جو جرمنی سے امریکہ ہجرت کرگیا تھا، لیکن 24 مئی 1961ء کو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور پیغمبرِ اسلام کے آخری نبی ہونے کی گواہی دینے کے بعد مریم جمیلہ امریکہ سے پاکستان چلی آئیں اور یہیں 31 اکتوبر 2012ء کو وفات پائی۔ آج مریم جمیلہ کی برسی ہے۔

    22 مئی 1934ء کو امریکہ میں پیدا ہونے والی مارگریٹ مارکیوس کے آبا و اجداد کا وطن جرمنی تھا۔ ان کے بزرگ امریکہ منتقل ہوگئے اور نیوروشیل میں سکونت اختیار کی۔ یہاں ان کے والد کی شادی ہوئی اور بیٹی مارگریٹ نے جنم لیا۔ وہ اسکول میں ذہین طالبہ مشہور تھیں۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر مارگریٹ ایک بیماری کا شکار ہوگئیں اور مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی عرصہ میں‌ انھوں نے مذاہب میں دل چسپی لینا شروع کی۔ 1953ء میں مارگریٹ نے نیویارک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ مارگریٹ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ اسکالرز سے رجوع کیا اور کی مدد سے مذاہب کا تقابلی جائزہ لینا شروع کیا۔ 1956ء میں ایک مرتبہ پھر ان پر بیماری غالب آگئی اور مارگریٹ کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار طویل علالت کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کرنے کے علاوہ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن یہودیت اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے کے دوران ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ انھیں ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ مارگریٹ قرآن کے تراجم تو پہلے بھی پڑھ رہی تھیں۔ ایک موقع پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسپتال سے نکل کر وہ اپنا مذہب ترک کر دیں‌ گی۔ انھوں نے یہی کیا اور بعد میں‌ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے اسلامک سینٹر جانے لگیں۔ اپنے والدین سے یہودی تعلیمات پر الجھنے اور اسلام کی جانب جھکاؤ دکھانے پر ان کا اپنے خاندان سے اختلاف ہوگیا تھا اور 1959ء والدین نے انھیں علیحدہ کر دیا۔ نوجوان مارگریٹ کو ملازمت کرنا پڑی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اسی زمانے میں انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور مارگریٹ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ 1960ء کے آخر میں انھوں نے مولانا سے خط کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کیا۔ مارگریٹ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کے پاس گئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو مغرب میں ایک مبلغ کے طور پر پہچانا گیا۔ بعد میں مریم جمیلہ نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آنے کے بعد وہ مکمل طور پر مسلم تہذیب اور پاکستانی معاشرت میں ڈھل گئیں۔ مریم جمیلہ نے اردو زبان بھی سیکھی۔ 1963ء میں ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔ شادی کے بعد وہ لاہور میں رہیں اور لاہور ہی میں‌ انتقال ہوا۔

    مریم جمیلہ نے یہاں تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا اور ان کا موضوع اسلام اور اس کی تعلیمات تھیں، اسلام کے مختلف پہلوؤں کو انھوں نے انگریزی زبان اجاگر کیا اور دوسروں کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ مریم جمیلہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں اِز ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

  • ونود مہرا: چائلڈ آرٹسٹ سے بولی وڈ ہیرو بننے تک

    ونود مہرا: چائلڈ آرٹسٹ سے بولی وڈ ہیرو بننے تک

    بھارتی فلم انڈسٹری میں ونود مہرا کو ان کی متاثر کن اداکاری کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کرنے والے ونود مہرا نے دو دہائیوں بعد فلم بینوں کو ہیرو کے روپ میں بھی اپنی اداکاری سے محظوظ کیا اور کام یابیاں سمیٹیں۔

    ونود مہرہ 13 فروری 1945ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ سو سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے ونود مہرہ کی بطور چائلڈ آرٹسٹ پہلی فلم 1958ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کا نام ’’راگنی‘‘ تھا اور ونود مہرہ نے کشور کمار کے بیٹے کا رول نبھایا تھا۔ یہ رول انھوں نے نہایت عمدگی سے نبھایا تھا اور فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے تھے۔ ونود مہرا نے اپنی پہلی فلم کے بعد اپنی حوصلہ افزائی سے وہ اعتماد حاصل کیا جس نے انھیں بعد میں ایک کام یاب ہیرو بنا دیا۔ 1971ء میں ونود مہرا نے فلم ’ایک تھی ریٹا‘ میں تنوجا کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا۔ اس جوڑی کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور ونود مہرا اپنی عمدہ اداکاری کی وجہ سے مزید آفرز حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ ان کی چند کام یاب فلموں میں ’پردے کے پیچھے‘،’امر پریم‘ اور’ لال پتھر‘ شامل ہیں۔ فلم ’لال پتھر‘ میں راج کمار، ہیما مالنی اور راکھی جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ ونود مہرا نے خوب کام کیا۔1972ء میں فلم ’’انوراگ‘‘ کو زبردست کام یابی ملی اور یہی وہ فلم تھی جس نے ونود مہرا کو فلم اسٹار بنا دیا۔ اداکار ونود مہرا نے ہیرو اور کبھی سائیڈ ہیرو کا بھی رول نبھایا اور ہر مرتبہ فلم بینوں‌ سے داد سمیٹی۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی کام یاب ترین فلموں پر اداکار ونود مہرا کو کئی ایوارڈز بھی دیے گئے۔

    بالی وڈ اداکار ونود مہرا نے تین شادیاں‌ کی تھیں۔ ان کا اپنے وقت کی سپراسٹار اداکارہ ریکھا کے ساتھ بھی نام لیا جاتا رہا اور مشہور ہوگیا تھا کہ دونوں نے شادی کی تھی، مگر بعد میں اداکارہ ریکھا نے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کی تھی۔ ونود مہرا 30 اکتوبر 1990ء کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔

  • وی شانتا رام: وہ باکمال ہدایت کار جس نے ایک عہد کو متاثر کیا

    وی شانتا رام: وہ باکمال ہدایت کار جس نے ایک عہد کو متاثر کیا

    مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ہندوستانی سنیما کو کئی بے مثال اور یادگار فلمیں دیں۔ ہندوستانی فلمی صنعت میں ان کا نام ایک عظیم ہدایت کار کے طور پر زندہ ہے۔

    فلمی دنیا میں اپنی فنی عظمت کے نقوش ثبت کرنے والے شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ وی شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔

    پروڈیوسر اور ہدایت کار وی شانتا رام نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں‌ سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں‌ بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں‌ سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں‌ میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔

    1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    تین شادیاں کرنے والے وی شانتا رام بیس برس کی عمر میں‌ ویملا بائی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جو ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں۔ یملا بائی کی عمر شادی کے وقت 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، جو بے اولاد رہی۔ وی شانتا رام تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں‌ کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔ سندھیا کو شانتا رام نے اپنی اس فلم میں کاسٹ کیا تھا۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ یہ ایک انتہائی شان دار فلم تھی، جس نے فلم بینوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

    وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔ وی شانتا رام کو 1985ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1992ء میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • دلدار پرویز بھٹی: ایک قابل استاد اور مقبول ترین آرٹسٹ

    دلدار پرویز بھٹی: ایک قابل استاد اور مقبول ترین آرٹسٹ

    ایک دور تھا جب دلدار پرویز بھٹی بطور میزبان ریڈیو، اسٹیج اور ٹی وی پروگراموں پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ حاضر جواب، بذلہ سنج بھی تھے اور اپنے شستہ لب و لہجے میں معیاری مزاح کی وجہ سے لوگوں میں بے حد مقبول تھے۔ آج دلدار پرویز بھٹی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    دلدار پرویز بھٹی نے اپنی عملی زندگی آغاز بطور استاد کیا۔ انگریزی زبان و ادب پر ان کی گہری نظر تھی اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مصنّف اور ایک مقبول کالم نگار بھی تھے۔ انھوں نے ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں۔ اور پھر لاہور ریڈیو اسٹیشن سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ دلدار پرویز بھٹی 30 نومبر 1948ء کو پیدا ہوئے۔ وہ اپنے کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ فلاحی کاموں میں‌ بھی مصروف رہے۔ 30 اکتوبر 1994ء کو دلدار پرویز بھٹی دماغ کی شریان پھٹنے کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ اس وقت وہ امریکا میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔ دوست احباب کی نظر میں‌ وہ انوکھے، پیارے اور سچّے انسان تھے۔

    دلدار پرویز بھٹی کا شمار ان آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پی ٹی وی پر مختصرعرصے میں اپنی منفرد میزبانی کے سبب عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ پُروقار انداز اور پروگرام کے دوران موقع کی مناسبت سے دلدار پرویز بھٹی اپنے دل چسپ اور شگفتہ جملوں سے اپنے مہمانوں اور ناظرین کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کردیتے۔ ان کا برجستہ مذاق ناظرین میں بہت مقبول ہوا۔ دلدار پرویز بھٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے، اور اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انہی کی تجویز پر پی ٹی وی نے پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کیا تھا اور "ٹاکرا” نامی اس پروگرام سے دلدار بھٹی نے اپنے فنی سفر کو بھی مہمیز دی۔ "میلہ”، "یادش بخیر”،” جواں فکر ” جیسے مقبول عام پروگرام بھی دلدار پرویز بھٹی کا کارنامہ ہیں۔ ان کا پی ٹی وی سے وابستگی کا سفر 1974ء سے شروع ہوا تھا جو 1994ء میں ان کی وفات تک جاری رہا۔

    دلدار پرویز بھٹی نے تین کتابیں بھی تحریر کیں جن کے نام دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر ہیں۔ دلدار پرویز بھٹی وحدت کالونی لاہور کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • صبا اکبر آبادی: اردو زبان کے قادرُالکلام شاعر کا تذکرہ

    صبا اکبر آبادی: اردو زبان کے قادرُالکلام شاعر کا تذکرہ

    صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔

    صبا صاحب اکبر آباد (آگرہ) میں 14 اگست 1908ء کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔ یہ 1920ء کی بات ہے جب ان کی محض بارہ برس تھی اور ایک مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے درمیان خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ کلام سنانے کا موقع ملا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔ 1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔ زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ 1991ء میں صبا اکبر آبادی آج ہی کے روز اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    (تحریر:‌ شائستہ زریں)

  • قاضی عبدالستّار: اردو افسانہ اور تاریخی ناول نگاری کا ایک بڑا نام

    قاضی عبدالستّار: اردو افسانہ اور تاریخی ناول نگاری کا ایک بڑا نام

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ قاضی عبدالستار نے ان بڑے ناموں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا اور افسانہ و تاریخی ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔

    معروف بھارتی ادیب قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں خوبی سے سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش کے علاقہ سیتا پور سے تھا۔ وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد قاضی عبدالستار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بطور ریسرچ اسکالر وابستہ ہوگئے۔ یہ 1954ء کی بات ہے۔ بعد ازاں قاضی عبدالستار اسی جامعہ کے شعبۂ اردو میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ قاضی عبدالستار کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا تھا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953ء میں بھارت میں شائع ہوا۔ جب کہ 1961ء میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962ء میں ’پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    قاضی عبدالستار چند ہفتوں سے بغرضِ‌ علاج دہلی کے سر گنگا رام اسپتال میں داخل تھے اور وہیں 29 اکتوبر 2018ء کو انتقال ہوا۔

  • شاہدہ قاضی: عملی اور تدریسی صحافت کا بڑا نام

    شاہدہ قاضی: عملی اور تدریسی صحافت کا بڑا نام

    شاہدہ قاضی پاکستان کی ایک سینئر صحافی، استاد اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے شہرت رکھتی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 28 اکتوبر 2023 کو وفات پانے والی پروفیسر شاہدہ قاضی کی پاکستان میں شعبۂ صحافت اور شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کی پہلی طالبہ، صحافت میں پہلی خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون پروڈیوسر اور جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کی پہلی خاتون استاد تھیں۔

    عملی اور تدریسی؛ دونوں ہی طرز کی صحافت میں پروفیسر شاہدہ قاضی نے منفرد اور مثالی کام کیا۔ سینئر صحافی اور ناول نگار اقبال خورشید کے ایک انٹرویو سے یہاں چند اقتباسات نقل کررہے ہیں، جو پروفیسر شاہد قاضی کی ذاتی زندگی، ان کے افکار و خیالات اور ان کی اپنے شعبہ میں خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ اقبال خورشید لکھتے ہیں: پوری ایک نسل نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ اُن کے سیکڑوں شاگرد میدان صحافت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اُن کے افکار کا ماخذ وہ علمی و ادبی گھرانا ہے، جہاں اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ وہاں کتابوں کی فراوانی تھی۔ خواتین کی تعلیم کا تصور سانس لیتا تھا۔ یہ ممتاز اسکالر، علامہ آئی آئی قاضی کا خاندان تھا۔ دادو کے قریب واقع گاؤں ”پاٹ” اُن کا آبائی وطن ہے۔ 1944 میں کراچی میں پیدا ہونے والی شاہدہ قاضی کے بہ قول؛ تقسیم کے وقت پاٹ میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔

    والد، قاضی محمد حسن تاجر تھے۔ سماجی سطح پر انتہائی سرگرم۔ وسیع المشرب۔ حلقۂ یاراں میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل۔ چار بہنوں، ایک بھائی میں وہ چوتھی ہیں۔ بڑی بہن، خاندان میں ایم اے کرنے والی پہلی خاتون۔ باقی دو ڈاکٹر۔ بچپن میں خاصی کم گو اور شرمیلی ہوا کرتی تھیں۔ اوائل عمری میں کتابوں سے تعلق قائم ہوگیا۔ پریوں کی کہانیوں، الف لیلہ کے قصّوں سے ابتدا ہوئی۔ تیزی سے سفر طے کیا۔ ڈکنز اور جین آسٹن کو کم سنی میں پڑھ ڈالا۔ اگاتھا کرسٹی کے ناول توجہ کا محور رہے۔ مطالعے نے لکھنے پر اُکسایا۔ پانچویں جماعت میں جب پسندیدہ شخصیت پر مضمون لکھا، تو پنڈت جواہر لعل نہرو کا چناؤ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

    سینٹ لورنس کانونٹ اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹ جوزف کالج سے 63ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ شوق مطالعہ کراچی یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ لے گیا۔ وہاں شریف المجاہد، انعام الرحمان، محسن علی اور زکریا ساجد جیسے اساتذہ کی سرپرستی میسر آئی۔ ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے ”بیج” کا حصہ تھیں۔ اکلوتی طالبہ۔ مشکلات پیش آئی، البتہ اساتذہ کی شفقت نے حوصلہ دیا۔ 65ء میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا۔

    سینئر صحافی اقبال خورشید پروفیسر صاحبہ کے بارے میں مزید لکھتے ہیں، ابتدا میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے نے اپنی سمت کھینچا۔ چند اداروں میں انٹر شپ بھی کی، مگر خود کو ماحول سے ہم آہنگ نہیں کرسکیں۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں گزرا۔ اس دوران انگریزی اخبارات و رسائل میں مضامین شایع ہوتے رہے۔ ایک روز ”ڈان” میں اپنا مضمون دینے گئیں، تو سٹی ایڈیٹر، شمیم احمد نے بہ طور رپورٹر کام کرنے کی پیش کش کردی۔ خواتین کا رپورٹنگ میں آنے کا تصور ناپید تھا۔ تھوڑا گھبرا گئیں، مگر والد کی حوصلہ افزائی نے مشکل آسان کردی۔ 65ء میں ”ڈان” سے منسلک ہوگئیں۔ دو برس بعد پی ٹی وی میں اسامیوں کا اعلان ہوا۔ قسمت آزمائی۔ بہ طور نیوز پروڈیوسر انتخاب ہوگیا۔ پی ٹی وی کے ذیلی ادارے ”ایشین ٹیلی ویژن سروس” سے سفر شروع کیا۔ پھر نیوز روم کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی وی میں اٹھارہ برس گزرے۔ علیحدگی کے سمے سینئر نیوز ایڈیٹر تھیں۔

    ٹیچنگ کی جانب آنے کا فیصلہ تدریسی صحافت کے جگت گرو، زکریا ساجد کے اصرار پر کیا۔ 85ء میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر ذمے داریاں سنبھالیں۔ 97ء میں چیئرپرسن بنیں۔ 2004 میں جامعہ کراچی سے ریٹائر ہونے کے بعد جناح یونیورسٹی فور ویمن، ناظم آباد میں ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن ہوگئیں۔ وہاں یہ شعبہ نیا نیا تھا۔ اُسے مستحکم کیا۔ جامعہ کراچی میں بھی شام کے اوقات میں کلاسیں لیتی رہیں۔ 2010 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کا حصہ بن گئیں۔ 2014 میں جامعہ کراچی لوٹ آئیں۔ تدریسی صحافت کا وسیع تجربہ رکھنے والی شاہدہ صاحبہ کے مطابق صحافت کے طلبا کی نظری تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ کلیہ اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی باعث شعبۂ ابلاغ عامہ کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد اُن ہی افراد کو تدریس کے لیے چُنا، جو عملی تجربے کے حامل تھے۔ جرنلزم کے استاد کے لیے وہ کم از کم دس برس کا تجربہ لازمی ٹھہراتی ہیں۔

    حقوق نسواں کی وہ الم بردار، مگر شکایت ہے کہ آج اِن سرگرمیوں نے فیشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امیرکبیر گھرانوں کی خواتین، منہگے ہوٹلز میں اکٹھی ہوتی ہیں، مسائل پر بات کرتی ہیں، اور لنچ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ جس طبقے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں جانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک خواتین سے زیادہ سماج کے مردوں میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔

    پروفیسر صاحبہ نے اپنی پہلی کتاب میں ”ٹیلی ویژن جرنلزم” کا احاطہ کیا۔ وہ اِس موضوع پر کسی پاکستانی کے قلم سے نکلی اولین نصابی کتاب تھی۔ "Pakistan Studies in Focus” اگلی کتاب، جو ایک نجی ادارے کے طلبا کے لیے لکھی گئی۔ "Black White and Grey” مطبوعہ مضامین کا مجموعہ۔

    زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے، جن کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ مثبت سوچ اُن کا اصول۔ کینہ، بغض اور حسد سے خود کو دُور رکھتی ہیں۔ تلخ واقعات بھول جانے پر یقین رکھتی ہیں۔ لمحۂ موجود سے محظوظ ہونے کا طریقہ کھوج نکالا ہے۔ شعرا میں غالب، فیض اور راشد کی مداح۔ قرۃ العین حیدر کی معترف۔ روسی ادب کی دل دادہ۔ دوستوفسکی کا ”جرم و سزا” پسندیدہ ناول۔ پاؤلو کوئلیو کی ابتدائی تحریریں اچھی لگیں، مگر اُن کے نزدیک اب وہ فقط پیسے کے لیے لکھ رہے ہیں۔ کشور کی آواز بھاتی ہے۔ ”پیاسا” اور ”کاغذ کے پھول” پسندیدہ فلمیں۔ گرودت کو سراہتی ہیں۔ پاکستانی صحافیوں میں ضمیر نیازی اور منہاج برنا کا نام لیتی ہیں۔

  • علّامہ دمیری کا تذکرہ جن کی کتاب حیات الحیوان دنیا بھر میں مشہور ہے

    علّامہ دمیری کا تذکرہ جن کی کتاب حیات الحیوان دنیا بھر میں مشہور ہے

    “حیاتُ الحیوان” علّامہ کمال الدّین دمیری کی شہرۂ آفاق تصنیف ہے۔ علّامہ دمیری کی اس تصنیف کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں، مگر دنیا بھر میں‌ علمی تحقیق اور مشاہدات کی بنیاد پر لکھی گئی کتابوں میں یہ کتاب آج بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ علم و فضل میں اپنے زمانے کی اس ممتاز شخصیت کو دنیا ماہرِ حیوانات کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

    مصر کے دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جن کا آبائی علاقہ دمیرہ تھا۔ اسی نسبت سے وہ دمیری مشہور ہیں۔ علامہ دمیری 1349ء میں پیدا ہوئے۔ شعبۂ تاریخ سے متعلق محققین نے علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر جو معلومات اکٹھی کیں، ان کے مطابق علّامہ نے قاہرہ میں‌ تعلیم مکمل کی اور جامعہ ازہر میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ انھیں اپنے وقت کے ایک پرہیزگار اور عالم فاضل شخص کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ دمیری کو کسبِ علم و شوقِ تحقیق نے وہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ کچھ عرصہ مکّہ میں بھی رہے اور وہاں‌ درس و تدریس میں وقت گزارا۔

    علامہ دمیری نے اپنے وقت کی باکمال علمی شخصیات استفادہ کیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین طالبِ علم تھے جس نے غور و فکر اور مشاہدے کی پختہ عادت کے سبب ایک زبردست تصنیف یادگار چھوڑی جو جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی اس میں بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب علّامہ کی تحقیق و ریاضت بہترین نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل اور جامع کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کے بارے میں علّامہ دمیری نے علمی و تحقیقی مباحث چھیڑے ہیں۔

    اپنے وقت کے اس عظیم محقق کی تاریخِ وفات 27 اکتوبر 1405ء ہے۔ علّامہ دمیری کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور وہ مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • مرزا ہادی رسوا کا تذکرہ جن کا ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک ادبی شاہکار ہے

    مرزا ہادی رسوا کا تذکرہ جن کا ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک ادبی شاہکار ہے

    برصغیر پاک و ہند میں اردو ناول نگاری کی تاریخ ڈیڑھ سو برس پرانی ہے، اور اردو میں ناول نگاری کے ابتدائی دور میں، جن چند مصنّفوں کو عوامی سطح پر خاصی شہرت ملی، ان میں مرزا ہادی رسوا بھی شامل ہیں۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ ان کا وہ ناول ہے جسے ہندوستان بھر میں‌ مقبولیت ملی اور اس کا برصغیر کی علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ بشمول انگریزی دنیا کی چند دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔

    مرزا ہادی رسوا نے کئی ناول لکھے، جن میں ذات شریف، شریف زادہ اور اختری بیگم شامل ہیں، لیکن 1899ء میں شائع ہونے والے ناول’’امراؤ جان ادا‘‘ لازوال ثابت ہوا۔ ہادی رسوا کا ایک اور منفرد علمی پہلو مذہبی تحقیق و تدوین بھی ہے، انھوں نے متعدد مقالے لکھے اور کتابیں مرتب کیں لیکن اس حوالے سے بہت کم بات کی گئی ہے۔

    ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک طوائف کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، جو تہذیب یافتہ اور زبان و ادب کے حوالے سے بھی مشہور تھی۔ یہ طوائف جو ایک عورت بھی ہے، اس کے جذبات و احساسات اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز پر یہ ناول اردو کی مقبول کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس مشہورِ زمانہ ناول پر کئی فلمیں بنیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس ناول پر سب سے پہلی فلم 1972 میں پاکستان میں بنی۔ پاکستان کے معروف ہدایت کار حسن طارق نے اس میں امراؤ جان ادا کا کردار اداکارہ رانی سے کروایا، اور اس کے بعد بھارت میں 1981 میں اسی ناول پر ایک فلم بنائی گئی۔ مظفر علی کی اس فلم میں مرکزی کردار بھارت کی مقبول اداکارہ ریکھا نے ادا کیا۔

    ناول نگار کا نام محمد ہادی، اور قلمی شہرت رسوا کے نام سے ہوئی۔ وہ لکھنؤ کے محلّہ ’’بگٹولہ‘‘میں 1858ء میں پیدا ہوئے۔ والدین کا سایہ سولہ سال کی عمر میں ہی سر سے اٹھ گیا۔ رشتے کے ایک ماموں نے پرورش کی لیکن تمام خاندانی ترکے پر قابض ہوگئے۔ فارسی کی درسیات اور ریاضی و نجوم کا علم اپنے والد سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد عربی اور مذہبی علوم کی جانب متوجہ ہوئے۔ بعد ازاں انگریزی پڑھنی شروع کی۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور امریکہ کی اورینٹل یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ متعدد درسگاہوں سے وابستہ رہے اور پھر 1919 ء کے آس پاس عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے۔ وہاں بہت سی کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ کئی زبانیں جانتے تھے جن میں عربی، عبرانی، یونانی، انگریزی، فارسی، ہندی، سنسکرت شامل ہیں۔ مختلف مشرقی و دنیوی علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔

    مرزا صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن بحیثیت ناول نگار ہی ان کی شہرت ہوئی۔ 21 اکتوبر 1931ء کو حیدرآباد دکن میں مرزا ہادی رسوا کا انتقال ہوگیا اور وہیں قبرستان باغ راجہ مرلی دھر تڑپ بازار میں دفن ہوئے۔

  • خلیق انجم:‌ اردو کے سفیر، نام ور محقق اور ماہرِ‌ غالبیات

    خلیق انجم:‌ اردو کے سفیر، نام ور محقق اور ماہرِ‌ غالبیات

    ڈاکٹر خلیق انجم کا شمار ہندوستان اور اردو زبان و ادب کے صفِ اوّل کے محققین میں ہوتا تھا۔ وہ نقاد اور ماہرِ غالبیات مشہور تھے جنھوں نے مختلف اصنافِ ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر خلیق انجم سے متعلق رفعت سروش لکھتے ہیں: ’’انجمن تعمیر اردو کے جلسے ہی میں ڈاکٹر خلیق انجم سے تعارف ہوا۔ درمیانہ قد و قامت سوچتی ہوئی آنکھیں، فراخ دل چہرہ کے کشادہ خدوخال سے نمایاں آواز میں دل گداز کھوج، تیکھا لب و لہجہ مگر اس تیکھے لب و لہجے میں ہلکی سی ظرافت کی آمیزش کہ سننے والے کو ناگواری نہ ہو اور کہنے والا اپنی بات مزے سے کہہ جائے۔”

    انجمن ترقّیِ اردو (ہند) دہلی کے سابق سیکریٹری اور نائب صدر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر خلیق انجم 18 اکتوبر2016ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    خلیق انجم کے والد محمد احمد مرحوم ریلوے انجینئر تھے۔ ان کے نانا انگریزوں فارسی اور اردو کے عالم تھے اور کالج میں انگریزوں کو اردو سکھاتے تھے۔ ڈاکٹر خلیق انجم کی والدہ نے دہلی کے فرانسیسی گرلز ہائی اسکول میں اس زمانے میں تعلیم پائی جب مسلمان لڑکی کو تعلیم کے لیے گھر سے باہر بھیجنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خلیق انجم کی والدہ قیصرہ سلطانہ غیر معمولی ذہین خاتون تھیں۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شادی ہوگئی۔ خلیق انجم کی والدہ قیصرہ سلطانہ عزیزی کے نام سے اردو رسالوں میں عورتوں کے سماجی مسائل پر مضامین لکھا کرتی تھیں۔ خلیق انجم کے والد کے انتقال کے بعد والدہ نے لکھنا چھوڑ کر ملازمت شروع کر دی اور چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو کھینچنے لگیں۔ ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پہلے استانی اور پھر ہیڈ مسٹریس بن گئیں۔

    خلیق انجم کو اسکول کے زمانے سے ہی شاعری، افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول کے میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے اور علی گڑھ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’جھلک‘‘ میں ان کے افسانے شایع ہونے لگے۔ ایم اے اردو کرنے کے بعد خلیق انجم کالج میں لیکچرر ہوگئے۔ خلیق انجم کی سب سے پہلی کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ تھی۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ’’مرزا مظہر جان جاناں‘‘ تھا۔ پھر انھوں نے رفیع سوداؔ اپنا تحقیقی مواد انجمن ترقی اردو ہند سے شائع کروایا۔ خلیق انجم کے رشحاتِ قلم پر مشتمل 80 کتابیں اور کئی علمی و ادبی مضامین منظر عام پر آئے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے خلیق انجم 1935ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ اصل نام خلیق احمد خان تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایم اے (اردو) دہلی یونیورسٹی سے کیا۔

    رضا علی عابدی نے ان کی وفات کے بعد اپنے کالم میں لکھا:
    اور خلیق انجم کے کام کا کوئی شمار ہے؟ عمر بھر لکھتے رہے اور وہ بھی تحقیق کے جابجا بکھرے ہوئے موتی بٹور کر۔ اوپر سے یہ کہ اپنی اس ساری مشقت کو اتنے سلیقے اور ہنر مندی سے کتاب کے ورق پر بکھیر گئے کہ علم کی آنکھیں بھی منور ہوتی ہیں اور ذہن کے دریچے بھی۔ ان علم و حکمت کے جواہر کی بات ذرا دیر بعد، پہلے ان لمحات کو یاد کرلیا جائے جو میں نے خلیق انجم کے ساتھ گزارے۔

    بلا شبہ خلیق انجم اردو کی تہذیبی و ثقافتی اقدار اور روایات کے علم بردار تھے۔ ان کی معروف تصانیف میں ذکر آثار الصّنادید، انتخاب خطوطِ غالبؔ، غالبؔ کا سفر کلکتہ اور ادبی معرکہ اور حسرت موہانی، مولوی عبدالحق۔ ادبی و لسانی خدمات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ غالبؔ کے مکاتیب پر انھوں نے معیاری تحقیقی کام کیا۔ اس موضوع پر ان کی اوّلین کاوش ’’غالب کی نادر تحریریں ‘‘ تھی، اس کے بعد ’’غالب اور شاہان تیموریہ‘‘ اور’ ’ غالب کچھ مضامین‘‘ منظر عام پر آئیں۔ مکاتیبِ غالبؔ پر ڈاکٹر خلیق انجم کی قابل قدر تحقیق پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔

    ڈاکٹر خلیق انجم ہندوستان کے شہر دہلی میں ضرور رہتے تھے لیکن وہ اصل میں اردو زبان و ادب کے سفیر تھے اور وہ جہاں بھی گئے اردو کی ترقّی، بقا اور فروغ کے لیے بات کی اور اس حوالے سے اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا۔