Tag: اکتوبر برسی

  • ژاک دریدا:‌ مسترد کیے جانے والا فلسفی

    ژاک دریدا:‌ مسترد کیے جانے والا فلسفی

    فلسفہ، تنقید اور لسانیات کے یگانۂ روزگار کی حیثیت سے مشہور ژاک دریدا کو ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کا بانی بھی کہا جاتا ہے اور دریدا کے وطن فرانس میں اسے عظیم فلسفی اور دانش ور سارتر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دریدا کے فلسفے اور نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے ہر شعبہ کو متأثر کیا اور اسے عالمی سطح پر شہرت ملی مگر اس فلسفی نے جس دور میں‌ اپنے افکار اور خیالات کو بیان کیا، اس دور میں وہ صاحبِ علم شخصیات اور اہلِ قلم کی مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنا۔ دریدا کے خیالات کو لایعنی اور اس کے فلسفے کو بے معنی کہہ کر مسترد کیا گیا۔ لیکن بعد میں‌ دنیا نے اسے ایک دانش ور تسلیم کیا۔

    علم و ادب کی دنیا کے بعض ناقدوں اور خاص طور پر برطانوی یونیورسٹی کیمبرج کے اساتذہ اس کے بعض مباحث کو لایعنی کہہ کر مسترد کرتے رہے تھے، جس میں دریدا کا یہ فلسفہ کہ معنیٰ، متن سے ماورا ایسی تہ داری رکھتے ہیں جو تہذیبی اور تاریخی عمل سے نمو پاتی ہے، بھی شامل تھا۔ بعد میں دریدا کے اسی فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبعیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس فلسفی کے لسانیات اور ادبیات پر اثرات کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

    ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان کا فرد تھا، اس نے 1930ء میں آنکھ کھولی اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر 9 اکتوبر 2004 کو چل بسا۔ ژاک دریدا نے جس زمانے میں آنکھ کھولی اس وقت الجزائر پر فرانس کا غلبہ تھا اور وہاں ایک عرصہ تک آزادی کی تحریک بھی چلتی رہی تھی۔ ژاک دریدا کے افکار اور اس کا فلسفہ اکثر تورات کے زیرِ‌ اثر نظر آتا ہے۔ ابتدائی تعلیم تو اس نے الجزائر میں مکمل کی تھی لیکن بعد میں فرانس منتقل ہوگیا اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہاورڈ اور سوربون میں فلسفہ پڑھانے لگا اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے افکار کو جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع سمجھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ فرانس میں شہرت حاصل کرنے لگا اور اس کے افکار کو قبول کیا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمبرج ہی نے 1992ء میں دریدا کو اعزازی ڈگری دی۔ اس نے فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم بھی چلائی جب کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کا مخالف اور نیلسن منڈیلا کا بڑا حامی رہا۔

    2003ء میں دریدا کے نام ہی سے اس کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے فلسفے اور افکار کو فرانس میں در و قبول کی مشکل پیش آرہی تھی، اپنا آپ منوا چکا تھا اور اس کے فلسفے کو علم و ادب کے مختلف شعبہ میں اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے نئی نسل کو بھی متأثر کیا۔ اس کے متنوع افکار کی ہمہ گیری اور ان کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر اس کے اسلوب کی تفہیم کی کوشش کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ژاک دریدا کی ان تصانیف کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں‌ میں کیے گئے اور ان پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ Husserl’s geometry 1962 میں، Speech and phenomena 1973 میں اور اس کے بعد دو مشہور تصانیف Of Grammatology اور Writing and Difference کے عنوان سے سامنے آئیں۔

  • قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا کلام عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے مضامین سے آراستہ ہے۔ ان کی شاعری ندرت و خوش سلیقگی اور موضوعات کی رنگا رنگی کا ایسا نمونہ ہے جس نے امیر مینائی کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے جو زبان و بیان پر ان کے عبور کا مظہر ہے۔ ان کا نام امیر احمد تھا، سن 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔ امیر مینائی نے شروع گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں فیض اٹھایا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں ان کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آ لیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کر گئے۔ امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔ امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • امریکا اور اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف رکھنے والے صحافی رابرٹ فسک

    امریکا اور اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف رکھنے والے صحافی رابرٹ فسک

    دنیا رابرٹ ولیم فسک کو ایک جرأت مند اور نڈر صحافی مانتی ہے۔ رابرٹ فسک امریکا اور اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے تھے۔ اپنے قلم کی طاقت کو ہتھیار بنانے اور ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دینے والے رابرٹ فسک ایک بہترین رپورٹر اور عمدہ تجزیہ کار تھے۔

    رابرٹ فسک کے والد پہلی جنگِ عظیم میں شریک رہے تھے۔ وہ جنگ کی خوف ناک ساعتوں اور جیتے جاگتے انسانوں کی گولہ بارود سے ہلاکتوں کے واقعات اکثر اپنے اکلوتے بیٹے رابرٹ ولیم فسک کو سناتے تھے۔ یوں رابرٹ فسک کو کم عمری ہی میں جنگ کی ہولناکی کا ادراک ہوگیا تھا۔ وہ بڑے تو الفرڈ ہچکاک کی فلم ’’فارن کارسپانڈنٹ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا جس نے رابرٹ فسک کو بہت متاثر کیا اور وہ بھی غیر ملکی نمائندہ بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ رابرٹ فسک اس فلم کے ہیرو جونی جونز کو اپنا آئیڈیل بنا چکے تھے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کی اور اپنے خواب کی تکمیل کے لیے کوچۂ صحافت میں قدم رکھ دیا اور بڑا نام پیدا کیا۔ رابرٹ فسک 30 اکتوبر 2020ء کو چل بسے تھے۔

    رابرٹ نے مقامی اخبارات سے صحافت کا آغاز کیا اور پھر وہ ‘سنڈے ایکسپریس’ سے بطور کالم نویس منسلک ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلفاسٹ میں شورش اپنے عروج پر تھی۔ وہ 1972ء میں شمالی آئرلینڈ کے شہر بالفاسٹ اس وقت منتقل ہوئے جب وہاں نسلی اور قوم پرست فسادات جاری تھے۔ ان واقعات پر لکھتے ہوئے 1976ء میں رابرٹ فسک دی ٹائمز کے مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار بن گئے۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے تین بار اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا جب کہ نائن الیون کے بعد رابرٹ فسک اگلی دو دہائیوں تک مشرق وسطیٰ میں مقیم رہے اور وہاں‌ جنگوں سے متعلق رپورٹنگ کی۔ اس دور میں انھوں نے افغانستان، عراق اور شام سے بھی کام کیا۔ وہ عربی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے پرتگال کی شورش پر لکھنے کے ساتھ ’’انقلابِ ایران‘‘ پر بھی متعدد کالم لکھے۔ فسک ایک ایسے صحافی تھے جو کسی واقعے اور سانحے پر پوری ذمہ داری کے ساتھ اور تحقیق کر کے اپنی رپورٹ فائل کرتے تھے۔ گویا وہ ایک ‘کھوجی’ کی طرح معاملے کی تہ تک پہنچنے اور حقائق سامنے لانے کے لیے پہچانے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں فسک کے تجزیے اور تبصرے بہت توجہ سے پڑھے جاتے تھے اور ان کے کالم سرکاری افسران کی میز پر اور مختلف سنجیدہ اور باشعور طبقہ ہائے عوام تک بھی پہنچتے تھے۔ 1989ء میں فسک ’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے اور آخری سانس تک اسی ادارے سے جڑے رہے۔ اپنے صحافتی کیریئر کے دوران فسک نے اسرائیل، فلسطین، لبنان، مصر اور دیگر ممالک میں اہم اور عالمی سطح کے واقعات، جنگیں، جھڑپیں، تنازع اور اُن بین الاقوامی سطح کے معاہدوں کی رپورٹنگ کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ‌ کے امور پر رائے زنی اور تجزیہ پیش کیا جن کے اثرات خطّے اور دنیا پر پڑے۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ کے علاوہ شمالی افریقہ اور بلقان خطّے کے بارے میں برطانوی اخبارات کے لیے پانچ دہائیوں تک رپورٹنگ کی۔

    رابرٹ فسک کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ وہ 1946ء میں برطانیہ کے علاقے کینٹ میں پیدا ہوئے۔ رابرٹ فسک کے پاس آئرلینڈ کی شہریت بھی تھی۔ 90 کی دہائی ختم ہونے تک رابرٹ فکس برطانیہ میں ایک نہایت قابل اور باصلاحیت صحافی مشہور ہوچکے تھے۔ رابرٹ فسک نے سنہ 1994 میں امریکی صحافی لارا مارلو سے شادی کی لیکن سنہ 2006 میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ یہ جوڑا بے اولاد رہا۔

    1976ء سے فسک بیروت میں رہے اور اس دوران خانہ جنگی دیکھی۔ وہ کئی لرزہ خیز واقعات اور لبنان میں سنگین صورتِ حال کے چشم دید گواہ تھے۔ رابرٹ فسک نے اس دوران عالمی سیاست کے مکروفریب اور تضادات کو بھی دیکھا اور اپنے کالموں میں مفاد کی بساط پر کھیلی جانے والی چالوں کو دنیا کے سامنے لائے۔ ان کی یہ بیباک صحافت مغربی دنیا میں ناپسندیدہ رہی۔ فسک نے ایک جگہ لکھا تھا کہ لبنان کے خلاف اسرائیل نے جس نوعیت کی جارحیت کی اس میں ہم مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ ملک بھی شامل ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکی صدر کی جنگی کار گزاریوں میں شریک تھے۔ آج ایک مرتبہ پھر فلسطین کے نہتے اور بے بس مسلمانوں اور غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری ہے اور یہ خونی تماشا عشروں سے جاری ہے۔ اس سے قبل جب یہ سب ہوا تھا تو رابرٹ فسک نے لکھا تھا کہ بمباری سے ہلاک ہونے والے بچے امریکا کے تمام اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل نہیں، آپ ہلاک کر رہے ہیں۔ ہمارا قاتل اسرائیل نہیں امریکا ہے، مغربی طاقتیں ہیں جو مظلوم کے نہیں، ظالم کے ساتھ ہیں۔

    امریکا، اسرائیل اور مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی اور دنیا میں جنگ اور خانہ جنگی پر تنقید اور اپنی اسی صاف گوئی کی وجہ سے فسک مختلف ممالک کی حکومتوں اور اداروں کے نزدیک متنازع بھی رہے۔

    رابرٹ فسک متعدد کتابوں کے مصنّف بھی تھے جن پر انھیں عالمی سطح پر سراہا گیا اور صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد اعزازات سے بھی نوازا۔ مشہور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے سنہ 2005 میں اس صحافی کے بارے میں لکھا کہ ’رابرٹ فسک برطانیہ کے سب سے مشہور غیر ملکی نامہ نگار ہیں۔‘

    سنہ 2010ء میں رابرٹ فسک پاکستان بھی آئے تھے۔

  • ایس ڈی برمن: ایک عظیم سنگیت کار

    ایس ڈی برمن: ایک عظیم سنگیت کار

    سچن دیو برمن کو ہندوستانی فلم انڈسٹری میں‌ ایس ڈی برمن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ اپنے وقت کے ایک عظیم سنگیت کار تھے۔ 31 اکتوبر 1975ء کو ایس ڈی برمن نے اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔

    فلمی گیتوں کو اپنی بے مثال دھنوں سے امر کردینے والے ایس ڈی برمن نے کئی فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا اور بہت سے بڑے شعراء اور گلوکاروں‌ کی مقبولیت کا باعث انہی کی دھنیں بنیں۔ اس موسیقار کی دھنوں میں کئی گیت آج بھی مقبول ہیں۔ ایس ڈی برمن کو بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون بھی سمجھا جاتا ہے۔ موسیقار ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہونے والے ایس ڈی برمن تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ انھوں نے 1937ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 100 ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ایس ڈی برمن ایک ورسٹائل موسیقار مشہور تھے۔ انھوں نے بنگالی لوک موسیقی میں کئی گیت بھی گائے۔ ان کی دھنوں‌ پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، منّا ڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی حاصل کی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر گلوکار کی حیثیت سے کام کیا اور ان کا ریکارڈ 1932ء میں ریلیز ہوا۔ بعد کی دہائی میں وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور بنگالی گانے گائے۔

    40 ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے میوزک دیا اور مستقل طور پر ممبئی چلے گئے اور موسیقی پر توجہ دینے لگے لیکن حقیقی معنوں میں 1947ء میں ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت ہر زبان پر تھا، ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں-

    ایس ڈی برمن کے بیٹے آر ڈی برمن کو بھی دنیائے موسیقی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ ایس ڈی برمن 69 برس کی عمر میں ممبئی میں چل بسے تھے۔

  • یومِ وفات:‌ قبولِ‌ اسلام کے بعد مارگریٹ امریکہ سے پاکستان آگئی تھیں

    یومِ وفات:‌ قبولِ‌ اسلام کے بعد مارگریٹ امریکہ سے پاکستان آگئی تھیں

    مریم جمیلہ کو ان کے والدین نے مارگریٹ مارکیوس کا نام دیا تھا۔ یہ یہودی خاندان جرمنی سے امریکہ منتقل ہوا تھا، لیکن 24 مئی 1961ء کو اسلام قبول کرنے کے بعد مریم جمیلہ امریکہ سے پاکستان چلی آئیں اور یہیں وفات پائی۔ آج مریم جمیلہ کی برسی ہے۔

    مارگریٹ نے 22 مئی 1934ء کو امریکہ میں آنکھ کھولی۔ ان کے آباء و اجداد کا وطن جرمنی تھا۔ 1848ء میں ان کا کنبہ امریکہ آگیا اور نیوروشیل میں سکونت اختیار کی۔ مارگریٹ نے اسکول میں داخلہ لیا اور ذہین طالبہ کے طور پر اساتذہ میں مقبول ہوئیں۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر مارگریٹ ایک بیماری کا شکار ہوگئیں اور مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی عرصہ میں‌ انھوں نے مذہب میں دل چسپی لینا شروع کیا۔

    1953ء میں انھوں نے نیویارک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ مارگریٹ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ اسکالرز سے رجوع کیا اور کی مدد سے مذاہب کا تقابلی جائزہ لینا شروع کیا۔ 1956ء میں ایک مرتبہ پھر ان پر بیماری غالب آگئی اور مارگریٹ کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار طویل علالت کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کرنے کے علاوہ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن یہودیت اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے کے دوران ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ انھیں ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ مارگریٹ قرآن کے تراجم تو پہلے بھی پڑھ رہی تھیں۔ ایک موقع پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسپتال سے نکل کر وہ اپنا مذہب ترک کر دیں‌ گی۔ انھوں نے یہی کیا اور بعد میں‌ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے اسلامک سینٹر جانے لگیں۔ اپنے والدین سے یہودی تعلیمات پر الجھنے اور اسلام کی جانب جھکاؤ دکھانے پر ان کا اپنے خاندان سے اختلاف ہوگیا تھا اور 1959ء والدین نے انھیں علیحدہ کر دیا۔ نوجوان مارگریٹ کو ملازمت کرنا پڑی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اسی زمانے میں انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور مارگریٹ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ 1960ء کے آخر میں انھوں نے مولانا سے خط کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کیا۔ مارگریٹ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کے پاس گئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ ایمان ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    اسلام لانے کے بعد مریم جمیلہ کو مغرب میں ایک مبلغ کے طور پر پہچانا گیا۔ بعد میں مریم جمیلہ نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آنے کے بعد وہ مکمل طور پر مسلم تہذیب اور پاکستانی معاشرت میں ڈھل گئیں۔ مریم جمیلہ نے اردو زبان بھی سیکھی۔ 1963ء میں ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔

    مریم جمیلہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں اِز ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

    31 اکتوبر 2012ء کو مریم جمیلہ انتقال کرگئی تھیں۔

  • زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں فائن آرٹ کی دنیا میں جو نام تجریدی مصوّری اور ماڈرن پینٹگ کے لیے مشہور ہوئے، زبیدہ آغا ان میں سے ایک تھیں۔ وہ پہلی پاکستانی مصوّر ہیں‌ جن کے فن پاروں‌ کی نمائش ہوئی تھی۔

    پاکستان نے اپنی اوّلین دہائی ہی میں فنِ مصوّری میں آرٹسٹوں کی کہکشاں دیکھی جس میں شامل نام عالمی سطح پر فنِ‌ مصوّری میں وطنِ عزیز کی پہچان بنے اور ملک کی آرٹ گیلریوں کے علاوہ بیرونِ ملک بھی ان کے فن پاروں‌ کی نمائش منعقد ہوئی۔ ان عالمی شہرت یافتہ فن کاروں میں زبیدہ آغا کے علاوہ صادقین، عبدالرحمٰن چغتائی، اسماعیل گل جی، استاد اللّٰہ بخش، اینا مولکا احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں زبیدہ آغا کو تجریدی آرٹ کی بانی اور ماڈرن پینٹنگ کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ 1997ء میں زبیدہ آغا آج ہی کے دن لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

    مصوّرہ زبیدہ آغا کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔ فنِ‌ مصوّری میں‌ ان کی انفرادیت اور مہارت کلرسٹ پینٹنگ تھی۔

    زبیدہ آغا نے لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کی اور اپنے شوق سے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور صرف 1944ء سے 1946ء تک ہی انھیں اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے تھے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں زبیدہ آغا ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کرچکی تھیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد انھیں پاکستانی فن کار کی حیثیت سے بیرون ملک اس فن کی مزید تعلیم اور تربیت کے علاوہ اپنے فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت مہارت سے منتقل کیا۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا اور وہ ماڈرن آرٹ کی بانی خاتون فن کار کہلائیں۔ ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے ہم وطن معاصرین ہی نہیں غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو خوب سراہا۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ وہ فنِ‌ مصوّری میں گہرے رنگوں کے بامعنی اور لائقِ توجہ استعمال کے سبب کلرسٹ پینٹر مشہور ہوئیں۔ یہ فن پارے دیکھنے والوں پر گہرا اثر قائم کرتے ہیں۔ 2006ء میں زبیدہ آغا کے فن کے اعتراف میں اور ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • بامقصد تفریح کے قائل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے

    بامقصد تفریح کے قائل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے

    مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ان کی فلمیں‌ ہندوستانی سنیما کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔

    شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ بیس برس کی عمر میں‌ جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تو ویملا بائی ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں اور شادی کے وقت ان کی عمر 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کرلی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، لیکن وہ بے اولاد رہی۔

    اس فلم ساز اور پروڈیوسر نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں‌ سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں‌ بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں‌ سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں‌ میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔

    1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    وی شانتا رام نے تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں‌ کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

  • یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

    یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

    پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی، گلوکاری اور فلم بینی کا شوق رکھنے والے خواجہ خورشید انور کے نام اور مقام و مرتبے سے بھی واقف ہیں۔ موسیقار کی حیثیت سے خواجہ خورشید انور نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

    آج برصغیر کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں انڈین سول سروس کا تحریری امتحان دیا اور شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، لیکن جلد ہی رہائی مل گئی، تاہم انھیں انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

    خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

    30 اکتوبر 1984ء کو وفات پانے والے خواجہ خورشید انور نے 21 مارچ 1912 میں پنجاب کے مشہور شہر میانوالی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے بھی اعلیٰ‌ تعلیمی مدارج طے کیے اور فن کی دنیا میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں اس وقت کے بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

    موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔

  • دلدار پرویز بھٹی: انوکھا، پیارا اور سچّا انسان

    دلدار پرویز بھٹی: انوکھا، پیارا اور سچّا انسان

    حاضر جواب، بذلہ سنج اور اپنے خوب صورت طرزِ‌ گفتگو سے لوگوں کے دل جیتنے والے دلدار پرویز بھٹی کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں کی میزبانی نے پاکستان بھر میں پہچان دی، وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ اس کی وجہ ان کا شائستہ انداز اور شستہ و معیاری مذاق تھا۔ آج دلدار پرویز بھٹی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    دلدار پرویز بھٹی نے اپنی عملی زندگی آغاز بطور استاد کیا۔ انگریزی ادبیات کے علاوہ وہ مصنّف اور کالم نگار بھی تھے، انھوں نے ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں اور لاہور ریڈیو اسٹیشن سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ دلدار پرویز بھٹی 30 نومبر 1948ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک دردمند اور حساس انسان تھے جو اپنے کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ انسانیت کی خدمت اور فلاحی کاموں میں‌ بھی مصروف رہے۔ 30 اکتوبر 1994ء کو دلدار پرویز بھٹی دماغ کی شریان پھٹنے کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ اس وقت وہ امریکا میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔ دوست احباب کی نظر میں‌ وہ انوکھے، پیارے اور سچّے انسان تھے۔

    دلدار پرویز بھٹی کا شمار ان آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پی ٹی وی پر مختصرعرصے میں اپنی منفرد میزبانی کے سبب عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ پُروقار انداز اور پروگرام کے دوران موقع کی مناسبت سے دلدار پرویز بھٹی اپنے دل چسپ اور شگفتہ جملوں سے اپنے مہمانوں اور ناظرین کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کردیتے۔ ان کا برجستہ مذاق ناظرین میں بہت مقبول ہوا۔ دلدار پرویز بھٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے، اور اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انہی کی تجویز پر پی ٹی وی نے پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کیا تھا اور "ٹاکرا” نامی اس پروگرام سے دلدار بھٹی نے اپنے فنی سفر کو بھی مہمیز دی۔ "میلہ”، "یادش بخیر”،” جواں فکر ” جیسے مقبول عام پروگرام بھی دلدار پرویز بھٹی کا کارنامہ ہیں۔ ان کا پی ٹی وی سے وابستگی کا سفر 1974ء سے شروع ہوا تھا جو 1994ء میں ان کی وفات تک جاری رہا۔

    دلدار پرویز بھٹی نے تین کتابیں بھی تحریر کیں جن کے نام دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر ہیں۔ ان کی تدفین وحدت کالونی لاہور کے قبرستان میں ہوئی۔ وہ اسی کالونی کے ایک سرکاری مکان میں وہ رہائش پذیر رہے تھے۔

  • تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالسّتار کا تذکرہ

    تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالسّتار کا تذکرہ

    1947ء میں جس وقت ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی، قاضی عبدالستار نے بھی لکھنا شروع کیا اور اپنے تخلیقی وفور اور انفرادیت کے سبب اردو ادب کے بڑے ناموں‌ کے درمیان پہچان بنانے میں کام یاب رہے۔

    یہ وہ دور تھا جب راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کی تحریریں نہ صرف بڑے ادبی پرچوں‌ میں شایع ہوتی تھیں‌ بلکہ قارئین کی بڑی تعداد ان کی مداح تھی۔ قاضی عبدالستار نے اسی دور میں‌ تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی ناول لکھے اور قارئین کی توجہ حاصل کی۔ معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں سمیٹنے والے قاضی عبدالستّار کو آج بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ انھوں نے غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا تھا۔

    اردو ادب میں انھیں ایک افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو اتر پردیش کے ایک شہر میں 1933ء میں پیدا ہوئے۔ قاضی صاحب نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ریسرچ اسکالر کے طور پر ناتا جوڑا اور بعد ازاں اسی کے شعبہ اردو میں تدریس سے منسلک ہوئے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت نے قاضی صاحب کو پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اپنے اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953 میں شائع ہوا۔جب کہ 1961 میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962 ’ پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا تھا۔

    پروفیسر قاضی عبدالستار 29 اکتوبر 2018ء کو دہلی میں وفات پاگئے تھے۔