Tag: اکتوبر برسی

  • یومِ وفات: صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے

    یومِ وفات: صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے

    شعروں میں مرا خونِ جگر بول رہا ہے
    الفاظ ہیں خاموش ہنر بول رہا ہے

    اس شعر کے خالق خواجہ محمد امیر المتخلص بہ صبا اکبر آبادی ہیں۔ صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے اور یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ

    محبت کے علاوہ ہے ہنر کیا
    کیا ہے اور ہم نے عمر بھر کیا

    لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔ بقول آپ کی والدہ سرفرازی بیگم ”محمد امیر تو مانگنے والوں کو اپنے جسم کے کپڑے تک دینے سے باز نہ آئے گا۔“ گویا صباؔ صاحب کے دل میں موجزن محبت کے جذبات نے اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو خوب خوب فروغ دیا۔ یہی رویہ آپ نے اپنی شعری تخلیقات میں بھی اختیار کیا اور بے اختیار کیا۔

    صبا صاحب اکبر آباد (آگرہ) میں ش 14 اگست 1908ء کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔ یہ 1920ء کی بات ہے جب ان کی محض بارہ برس تھی اور ایک مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے درمیان خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ کلام سنانے کا موقع ملا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔

    1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں، ”اگر غالبؔ بھی اپنی رباعیات کا اُردو ترجمہ کرتے تو بالکل ایسا ہی ترجمہ کرتے جیسا کہ صبا ؔصاحب نے کیا ہے۔“

    تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔

    زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ 1991ء میں صبا اکبر آبادی آج ہی کے دن اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔

    یہاں ہم ایک تعزیتی خط نقل کررہے ہیں‌ جو ڈاکٹر الیاس عشقی صبا صاحب کے سانحۂ ارتحال پر ان کے بیٹے جمیل نسیم کے نام ارسال کیا تھا۔ جمیل نسیم نے اسے اپنی کتاب میں‌ شامل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عشقی صاحب کا خط سب سے الگ سب سے منفرد جیسے کوئی گلے لگا کر تسلی دے رہا ہو۔ ملاحظہ کیجیے۔

    برادرم سلطان جمیل نسیم!

    السلام علیکم!
    ایسا خط بھی تم کو لکھنا پڑے گا اس کا خیال تک کبھی نہ آیا تھا۔ دو دن سے سوچ رہا تھا کیا لکھوں، لفظ نہیں ملتے۔ وہ لفظ جن میں اثر ہو اور جن سے تم کو اور سب گھر والوں کو سکون ملے صبر آ جائے۔ خود مجھے اپنی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمہارا حال کیا ہو گا۔ صبا صاحب میرے بزرگ تھے، تمہارے والد تھے۔ یہ خبر سنی تو اس وقت کئی لوگ موجود تھے کسی طرح ضبط کر لیا۔ تنہائی میں رویا اس محبت اور مروت کو جو اب میسر نہ ہو گی۔ جس دن کے تصور سے بھی خوف آتا تھا وہ گزر گیا۔ صبا صاحب کے چلے جانے سے والد کا غم بھی تازہ ہو گیا کہ محبت اور وضع داری میں یہ سب لوگ فردِ واحد کی طرح تھے۔

    صبا صاحب کی موت نے ہم کو غریب کر دیا ہے۔ ایک شخص کی موت، ایک بڑے شاعر کی موت نے۔ ایک غزل گو، مرثیہ اور سلام نگار، نعت گو، تضمین نگار، رباعی گو، مترجم، نثر نگار، خاکہ نگار، مدیر اور ایسے انسان کو ہم سے چھین لیا جس کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ رندِ پاکباز، مومنِ صادق، محفل آراء اب ان جیسا کون ہو گا۔ ان کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے اور چہرہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کہاں ہوتے ہیں جن سے دور رہ کر بھی قرب کا احساس رہتا تھا کیسی محرومی ہے۔ ہائے۔

    بات رسمی ہے مگر رسمی بات کی طرح نہیں کہہ رہا کہ صبر کرو اور سب کو صبر کی تلقین کرو۔ مناسب الفاظ میں تاجدار کو میری طرف سے پرسا دو کہ غم تو زندگی بھر کا ہے، یاد آتے رہیں گے مگر اب ان سے صرف دعا کا رشتہ باقی ہے۔ اس سے غافل نہ رہنا کہ اس سے دل کو سکون بھی ملتا ہے۔

    تمہارا بھائی
    الیاس عشقی 4 نومبر 1991ء

    (شائستہ زریں کی تحریر)

  • جہانِ ادب میں ممتاز، ممتاز مفتی کا تذکرہ

    جہانِ ادب میں ممتاز، ممتاز مفتی کا تذکرہ

    اردو ادب میں‌ ممتاز مفتی کی پہچان ان کی افسانہ اور ناول نگاری، خاکہ نویسی، سفر نامے اور انشائیے ہیں اور موضوعات کی سطح پر نئے امکانات اور اپنے تخیّل کی بلند پروازی سے اردو ادب کی مختلف اصناف کو ایک نئی معنویت سے آشنا کرنا ممتاز مفتی کا امتیازی وصف ہے۔ آج اردو کے اس ادیب کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی نے افسانوی اور غیر افسانوی نثر سے زبان و ادب کو مالا مال کیا اور ان کی تصانیف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی نفسیات کے مطالعے سے ممتاز مفتی کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ ممتاز مفتی نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی اور بے تکلفی سے اجاگر کیا جس کی مثال نثر کے میدان میں بہت کم ملتی ہے۔ ممتاز مفتی ایسے ادیب تھے جس نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی اور قومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور اسے خوبی سے نبھایا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ممتاز مفتی نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے جو ان کو دوسرے نثر نگاروں سے جدا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ ان کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ انھوں‌ نے متعدد سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔’’علی پور کا ایلی‘‘، ’’الکھ نگری‘‘ ان کے وہ ناول تھے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے جب کہ ان کا سفر نامہ ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ بھی قارئین نے بہت پسند کیے۔ شخصی خاکوں اور تذکروں کی بات کی جائے تو ممتاز مفتی کی تصانیف پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے جب کہ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں بھی شایع ہوا۔

    27 اکتوبر 1995ء میں ممتاز مفتی اس دارِ فانی کو خیرباد کہہ گئے تھے۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • اِکتارہ والے سائیں‌ مرنا کا تذکرہ

    اِکتارہ والے سائیں‌ مرنا کا تذکرہ

    برصغیر پاک و ہند میں قدیم اور روایتی ساز اور ان پر اپنے فن کا جادو جگانے والوں کا تذکرہ اب کتابوں میں لوک موسیقی سے متعلق ابواب تک محدود ہوگیا جب کہ قدیم ساز صرف ایک یادگار کے طور پر میوزیم میں محفوظ ہیں۔ سائیں مرنا کا نام اور ان کا اکتارہ بھی اب عہدِ رفتہ کی ایک خوب صورت یاد بن کر ہمارے ساتھ ہے۔

    لوک موسیقی کی دنیا میں سائیں مرنا اکتارہ سے سماں باندھ دینے کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے پاکستان میں لوک موسیقی اور ساز و آواز کے شائقین کو اپنے فن سے محظوظ کرنے والے سائیں مرنا 1961ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اکتارہ ایک روایتی ساز تھا جس پر اپنی مہارت سے خوب صورت دھنیں بکھیرنے والے سائیں مرنا نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ سائیں‌ مرنا کا اصل نام تاج الدّین تھا۔ وہ 1910ء میں امرتسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ مشہور ہے کہ اکتارہ کو سائیں‌ مرنا نے عشق میں ناکامی کے بعد اپنایا تھا۔ یہ ساز اور اس پر سائیں مرنا کی پُر سوز دھنیں دراصل غمِ‌ جاناں‌ اور ان کی تنہائی کو دور کرنے کا ذریعہ تھیں۔ وہ ایسے سازندے تھے جس نے اکتارہ میں اختراعات بھی کیں اور اسے وچتر وینا کی طرح بجانے لگے۔ اکتارہ بجانے میں ان کو جو کمال حاصل ہوا وہ بہت کم فن کاروں کو نصیب ہوتا ہے۔

    سائیں مرنا کی شہرت کا سبب بنا تھا ریڈیو۔ اس سے قبل وہ گلی کوچوں، میلوں ٹھیلوں اور مزارات پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ 1946ء میں سائیں‌ مرنا کو لاہور میں ریڈیو پر پہلی مرتبہ اکتارہ بجانے کے لیے بلایا گیا۔ انھیں محمود نظامی نے یہ موقع دیا تھا اور اس طرح سائیں مرنا کا فن دنیا کے سامنے آیا۔ سائیں‌ مرنا اکثر لاہور میں مزارات خصوصاً حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر اکتارا بجاتے نظر آتے تھے۔ لوگ ان کے گرد جمع ہوتے اور اکتارہ سے پھوٹنے والی مسحور کن موسیقی سے دل بہلاتے، یہ لوگ اس فن کار کو خوش ہوکر کچھ پیسے دے دیتے تھے اور یوں سائیں مرنا کا گزر بسر ہوتا تھا۔

    کسی نے نظامی صاحب سے سائیں مرنا کا ذکر کیا تو وہ انھیں ریڈیو تک لے آئے۔ اس زمانے میں ریڈیو تفریح کا واحد ذریعہ ہوتا تھا اور ملک بھر میں ریڈیو پروگرام بہت شوق سے سنے جاتے تھے۔ سامعین نے سائیں مرنا کو بہت پسند کیا، اس وقت ریڈیو پر آج کا آرٹسٹ کے نام سے نظامی صاحب نے موسیقی کا ایک پروگرام شروع کیا تھا جس میں‌ ہر مرتبہ کسی گلوکار، موسیقار یا لوک فن کار کو مدعو کیا جاتا تھا۔ انھوں نے سائیں مرنا کو بھی اس پروگرام میں بلایا، مقررہ دن پر پروگرام کا وقت قریب آرہا تھا، لیکن سائیں مرنا ریڈیو اسٹیشن نہیں‌ پہنچے تھے۔ پروڈیوسر نے وقت دیکھا تو گھبرا گیا۔ اس نے نظامی صاحب کو جا کر بتایا اور وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیوں کہ سائیں مرنا کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں‌ تھا۔ انھیں‌ کہاں‌ ڈھونڈتے اور پروگرام کے لیے پکڑ کر لاتے۔ انھوں نے کسی اور فن کار کو بلا کر پروگرام نشر کر دیا۔ دو دن بعد سائیں مرنا ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئے اور ظاہر ہے کہ اسٹیشن ڈائریکٹر نے انھیں‌ سخت باتیں‌ کہہ دیں۔ اس ڈانٹ ڈپٹ نے سائیں کو آزردہ کردیا اور وہ بھی وہاں دوبارہ نہ آنے کا عہد کر کے پلٹ گئے۔ نظامی صاحب نے بعد میں انھیں‌ کسی طرح منا لیا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ ایک فقیر منش اور سیدھے سادے انسان تھے اور یہ سمجھنا ان کے لیے مشکل تھا کہ وقت مقررہ پر پروگرام کی ریکارڈنگ یا اس کا نشر ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے۔

    لوک فن کار سائیں مرنا کو جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ سائیں مرنا کی موت کے ساتھ ہی گویا اکتارہ کے وجود سے پھوٹنے والی ترنگ بھی ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی۔

  • ابراہیم جلیس:‌ ایک دل نواز اور بے تاب روح

    ابراہیم جلیس:‌ ایک دل نواز اور بے تاب روح

    ابراہیم جلیس کی عام قارئین میں وجہِ شہرت طنز و مزاح پر مبنی اُن کی تحریریں اور فکاہیہ کالم تھے لیکن بطور افسانہ نگار اور صحافی بھی ابراہیم جلیس علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ ممتاز تھے۔ آج اردو کے اس معروف ادیب اور صحافی کی برسی ہے۔

    ابراہیم جلیس کا شمار اپنے دور کی ممتاز اہلِ‌ قلم شخصیات میں‌ ہوتا تھا۔ 26 اکتوبر 1977ء کو وفات پانے والے ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ ان کی جائے پیدائش بنگلور ہے، جہاں 11 اگست 1922ء کو آنکھ کھولنے والے ابراہیم جلیس کا خاندان بعد میں‌ نقل مکانی کرکے دکن چلا آیا، اور یہاں گلبرگہ میں ابراہیم جلیس نے تعلیم و تربیت پائی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کرنے کے بعد ابراہیم جلیس نے قلم کار کی حیثیت سے خود کو متعارف کروایا۔

    1948ء میں ابراہیم جلیس پاکستان چلے آئے اور یہاں ادبی مشاغل کے ساتھ مختلف اخبارات سے منسلک رہے اور صحافت میں اداریہ نویسی کے علاوہ اپنے کالموں سے قارئین کو اپنا مداح بنا لیا۔ ابراہیم جلیس رونامہ امروز، حریت اور مساوات سے وابستہ رہے۔ بحیثیت مدیر روزنامہ مساوات میں کام کرتے ہوئے انھوں نے مارشل لاء کا دور بھی دیکھا اور اس دوران طرح‌ طرح کے جبر اور سنسر شپ کے خلاف آواز بلند کی۔

    ابراہیم جلیس کا افسانہ پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ کے شمارے میں شایع ہوا۔ وہ طنز و مزاح کی طرف آئے تو ان کی تحریریں کئی مؤقر روزناموں اور معتبر رسائل میں شایع ہوئیں اور خاص طور پر ان کے کالم قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے بیرونِ ملک سفر کیا تو وہاں‌ جو کچھ دیکھا اور واقعات پیش آئے ان کو اپنے سفر نامے کی صورت میں شایع کروایا، اس کے علاوہ ان کے مضامین، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی کتابی شکل میں سامنے آئے۔ ابراہیم جلیس نے فلم اور ریڈیو کے لیے اسکرپٹ اور ڈرامے بھی لکھے۔ مارشل لاء کے دور میں‌ انھیں مختصر عرصہ قید و بند کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور اس کی روداد بھی انھوں نے رقم کی ہے۔ ان کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس نے انشائیے بھی لکھے۔

    پاکستان کے اس ممتاز قلم کار کی وفات کے بعد ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے ان پر ایک مضمون سپردِ‌ قلم کیا جس میں وہ لکھتے ہیں:‌”ابراہیم جلیس ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔

    وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کو اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔

    اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلد باز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بے باک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چلے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔

    ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم، اس کی وراثت ہے۔ کوئی نہ کوئی بے باک صحافی اس کو اٹھا لے گا اور ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔”

    مارشل لاء کے دوران 1977ء میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے نتیجے میں‌ صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ابراہیم جلیس صحافیوں کے حق میں آواز بلند کررہے تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ملاقات کی تھی جو حالات بگڑنے کے بعد پارٹی کی جانب سے میدانِ عمل قدم رکھ رہی تھیں۔ ابراہیم جلیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں وہ دباؤ کا شکار تھے اور ایک روز دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔

    انھیں حکومتِ پاکستان نے تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ یہاں ہم ابراہیم جلیس سے متعلق ایک مشہور قصّہ نقل کررہے ہیں۔

    ایک محفل میں مشہور صحافی احمد علی اور ان کی اہلیہ ہاجرہ مسرور( جو ایک نام ور ادیبہ تھیں)، ابراہیم جلیس اور دیگر قلم کار جمع تھے۔ اچانک ایک صاحب نے ابراہیم جلیس سے سوال کیا:’’صاحب یہ بتائیے کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ اس پر جلیس مسکرائے اور احمد علی اور ان کی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’جو احمد علی اور ہاجرہ مسرور میں ہے۔‘‘

  • جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی زبان کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے عہد کی ممتاز برطانوی شخصیات میں سے ایک تھا۔ انگلستان میں ادب، سیاست اور سماج میں چاسر نے اپنی لیاقت اور فن کی بدولت بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔ مؤرخین نے اس کا سنہ پیدائش 1340ء لکھا ہے۔ چاسر کا انتقال 25 اکتوبر 1400ء میں ہوا تھا۔ یہ تاریخِ‌ وفات جیفری چاسر کے مدفن پر نصب کتبہ پر پڑھی جاسکتی ہے۔ جیفری چاسر کو فادر آف انگلش پوئٹری بھی کہا جاتا ہے۔

    جیفری چاسر جہاں اپنی متاثر کن شاعری کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا، وہیں اپنی قابلیت کی بنیاد پر شاہی دربار میں بھی جگہ بنائی۔ اس دور کی بعض کتابیں اور مختلف تذکروں سے جیفری چاسر کے بارے میں جو خاکہ بن سکا ہے وہ اسے ایک معمولی تاجر کا بیٹا ثابت کرتے ہیں۔ یہ 1349ء کی بات ہے جب برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیلی اور چاسر کا قریبی عزیز اس کا نوالہ بنا۔ اس کا فائدہ چاسر کے باپ کو پہنچا اور اسے ترکہ میں خاصی جائیداد یا پھر بڑی رقم مل گئی اور یوں یہ خاندان بیٹھے بٹھائے امیر ہوگیا، اسی دولت نے نوعمر چاسر کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ وہ ایک قابل اور ذہین لڑکا ثابت ہوا اور اپنے باپ کی طرح خرید و فروخت کے جھیملے میں‌‌ پڑ کر معمولی منافع حاصل کرنے کے بجائے سرکاری نوکری اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ایک روز شاہی دربار تک پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ اب چاسر درباری ملازم تھا۔ جیفری چاسر اپنی ذہانت اور لیاقت کے بل بوتے پر دربار میں نمایاں ہوتا گیا اور ترقی کرتے ہوئے شاہ ایڈورڈ سوم کے عہد کا ایک بااثر درباری بن گیا۔ دراصل وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اسے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، اطالوی اور لاطینی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ اسی قابلیت کی بناء پر چاسر کو دو مرتبہ اٹلی میں سفارت کار کے طور پر بھی بھیجا گیا۔ بعد میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہورِ زمانہ ‘سو سالہ جنگ’ لڑی گئی تو جیفری چاسر نے اس میں بحیثیت سپاہی بھی خدمات انجام دیں۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ سفارت کار کے طور پر اٹلی میں قیام کے دوران جیفری چاسر اُس زمانے کے مشہور اور اٹلی کے قومی شاعر کا درجہ رکھنے والے بوکیچیو سے ملا تھا۔ وہ اس شاعر کے افکار اور اس کی نظموں سے بہت متاثر ہوا۔ چاسر تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا اور انگلستان لوٹنے کے بعد اُس نے شاعری میں طبع آزمائی کی۔ اس کی نظموں کی خاص بات اپنے عہد سے مطابقت ہے۔ چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو نقادوں نے حقیقی معنوں میں چودھویں صدی عیسوی کے برطانیہ کی عکاس قرار دیا۔ چاسر کی یہ نظم ‘پکچر گیلری’ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بطور شاعر جیفری چاسر کی نظم کو وسعتِ بیان اور گہرائی کے اعتبار سے ایسی تخلیق مانا جاتا ہے کہ کوئی چودھویں صدی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ نظم ہی اس کے لیے کافی ہو گی۔ اس نظم میں چاسر نے انتیس کرداروں کے ساتھ اس دور کی نہایت پُراثر منظر کشی کی ہے اور یہ اس وقت کے لندن کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ جیفری چاسر کی اس نظم کی انفرادیت تمام نمایاں‌ شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد میں سے کم سے کم ایک اور مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی ہے جن کے ذریعے شاعر نے اپنے عہد کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز بھی ہے جو سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کی شاعری انگلستان میں بے حد مقبول ہوئی اور شاہی دربار میں بھی اسی بنیاد پر چاسر کی بڑی پذیرائی کی گئی۔ 1374ء میں انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے چاسر کو تاحیات وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔

    انگلستان کے اس مشہور شاعر نے صرف ایک درباری کی حیثیت سے داد و ستائش سمیٹتے ہوئے وقت نہیں گزارا بلکہ وہ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہا اور 1386ء میں اس دور کی پارلیمان کا رکن بنا۔ 1366ء میں شادی کرنے والے چاسر کو خدا نے چار بچّوں سے نوازا تھا۔

    جیفری چاسر کی تدفین لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں کی گئی جہاں کئی دوسرے معروف انگریز اہلِ قلم بھی آسودۂ خاک ہیں۔

  • میر حسن دہلوی:‌ سحرُالبیان کے مصنّف کا تذکرہ

    میر حسن دہلوی:‌ سحرُالبیان کے مصنّف کا تذکرہ

    میر حسن دہلوی اردو کے ایسے شاعر تھے جنھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو ترک کرکے مثنوی کو اپنایا اور اسے درجۂ کمال کو پہنچا دیا۔ وہ اس گھرانے کے فرد تھے جس سے وابستہ شعراء نے بالخصوص مرثیہ گوئی میں نام پیدا کیا۔ آج میر حسن کا یومِ‌ وفات ہے۔

    میر حسن دہلوی کا اصلی نام میر غلام حسن تھا۔ دہلی میں‌ پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے دہلوی کہلائے۔ ان کے والد میر غلام حسین ضاحک بھی اپنے زمانے کے معروف مرثیہ گو تھے۔ میر حسن کے پوتے میر ببر علی انیس کا نام اور ان کا اردو شاعری میں مقام و مرتبہ کسی حوالہ اور تعارف کا محتاج نہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں انھیں ایسا مرثیہ نگار کہا جاتا ہے جس کا اس صنف میں کوئی ثانی نہیں۔

    میر حسن کے جد امجد مغل دور میں‌ عہد شاہجہانی کے اواخر میں ہرات سے آ کر دہلی میں بس گئے تھے۔ یہیں 1727 ء میں میر حسن پیدا ہوئے۔ ان کے والد کی طبیعت ہزل اور ہجو کی طرف مائل تھی اور اپنے زمانے کے معروف شاعر سودا سے ان کی خوب نوک جھونک چلتی تھی۔ میر حسن کی ابتدائی تعلیم گھر پر والد سے ہوئی۔ شعر و شاعری کا شوق لڑکپن سے ہوگیا تھا اور وہ خواجہ میر درد کی صحبت میں رہنے لگے۔ نوجوان میر حسن نے دہلی میں سخت ابتلاء کا زمانہ دیکھا۔ لوٹ مار مچی ہوئی تھی اور شرفاء دہلی چھوڑنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ خود ان کے معاشی حالات ابتر تھے۔ تب میر ضاحک نے بھی اہل و عیال کے ساتھ دہلی کو خیر باد کہا۔ میر حسن خاصے رنگین مزاج اور حسن پرست تھے۔میر حسن دہلی سے فیض آباد پہنچے اور پہلے آصف الدّولہ کے ماموں سالار جنگ اور پھر ان کے بیٹے سردار جنگ مرزا نوازش علی خان کے ملازم ہو گئے۔ 1770ء میں جب آصف الدّولہ نے لکھنؤ کو پایۂ تخت بنایا تو سالار جنگ بھی اپنے متعلقین کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے جن کے ساتھ میر حسن کو بھی جانا پڑا۔ فیض آباد اس زمانہ میں میر حسن کی جمالیاتی حس کی تسکین کا سبب بنا جب کہ لکھنؤ میں نواب کے دربار میں پہنچنے تک ایک واقعہ بھی پیش آیا جس کے بعد میر حسن ڈیڑھ دو سال ہی زندہ رہے تھے اور 1785ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    محمد حسین آزاد کے الفاظ میں: ’’زمانے نے اس کی سحر بیانی پر تمام شعراء اور تذکرہ نویسوں سے محض شہادت لکھوایا۔ اس کی صفائی بیان، لطفِ محاورہ، شوخیٔ مضمون اور طرزِ ادا کی نزاکت اور جواب و سوال کی نوک جھونک حدِ توصیف سے باہر ہے۔ زبان چٹخارے بھرتی ہے اور نہیں کہہ سکتی کہ یہ کون سا میوہ ہے۔‘‘

    میر حسن نے سحرالبیان، گلزارِ ارم اور رموز العارفین کے علاوہ کئی دوسری مثنویاں بھی لکھیں۔ لیکن جو مقبولیت ان کی آخری مثنوی سحرالبیان کو ملی ویسی کسی مثنوی کو نہیں ملی۔ مثنوی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں، یہ سمجھ لیں کہ نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات سمیٹے جاتے ہیں اور اردو ادب کے کلاسیکی دور میں کئی نام ور شعرا نے خوب صورت مثنویاں کہی ہیں لیکن اس میں شک نہیں میر حسن دہلوی نے اپنی مثنوی سحرالبیان میں محاکات اور جزئیات نگاری کو درجۂ کمال پر پہنچایا۔ میر حسن کے چار بیٹے تھے اور سبھی شاعر تھے جن میں انیس کے والد میر مستحسن خلیق بھی مرثیہ گوئی میں مشہور ہیں۔

  • عظیم گلوکار منّا ڈے کا تذکرہ جن کا طرزِ‌ گائیکی اپنی مثال آپ ہے

    عظیم گلوکار منّا ڈے کا تذکرہ جن کا طرزِ‌ گائیکی اپنی مثال آپ ہے

    منّا ڈے ہندوستان کی فلمی دنیا کے عظیم گلوکاروں میں سے ایک تھے۔ وہ ایسی آواز کے مالک تھے جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ انڈین فلموں‌ کے اس پسِ‌ پردہ گائیک نے اپنے کیریئر کا آغاز اس وقت کیا تھا جب محمد رفیع، کشور کمار، مکیش جیسے گلوکاروں نے بھی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا۔ لیکن منّا ڈے کو انڈین کلاسیکل میوزک میں نئی قسم کے موجد ہونے کے علاوہ اپنی طرزِ گائیگی کی وجہ سے انفرادیت حاصل ہے۔ وہ سات زبانوں میں گانا جانتے تھے۔

    لیجنڈری گلوکار منّا ڈے ہر طرح کے نغمات کو آسانی کے ساتھ گانے میں‌ ماہر سمجھے جاتے تھے۔ بولی وڈ کا یہ عظیم گلوکار 24 اکتوبر 2013ء کو چل بسا تھا۔ وہ 94 سال کے تھے۔ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ یافتہ منّا ڈے کو فلم اور گلوکاری کی دنیا کے دوسرے کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

    منّا ڈے یکم جنوری 1919ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ گانے کا شوق انھیں‌ شروع ہی سے تھا۔ کالج کے دنوں میں وہ اپنے دوستوں کی فرمائش پر گانے سناتے تھے۔ وہ وقت بھی آیا جب منّا ڈے نے فلم کی دنیا میں قدم رکھا اور ہندی، اردو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، کنّڑ، آسامی فلموں کے لیے گیت گائے۔ انھیں کلاسیکی موسیقی سے رغبت تھی۔ اسی شوق نے انھیں‌ استاد امان علی خان اور استاد عبدالرحمٰن خان سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کیا، لیکن اس سے پہلے وہ اپنے ایک قریبی عزیز کرشنا چندرا ڈے سے گائیکی کی ابتدائی تعلیم لے چکے تھے۔

    کرشنا چندرا کے ساتھ ہی سنہ 1942ء میں منّا ڈے نے ممبئی کا پہلا سفر کیا۔ یہاں آکر وہ چندرا کے معاون کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ اسی عرصہ میں ان کی ملاقات اس وقت کے عظیم موسیقار سچن دیو برمن سے ہوئی اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ منّا‌‌ ڈے نے 1943ء میں فلم ’تمنا‘ سے بطور پلے بیک سنگر اپنا کریئر شروع کیا اور اس گانے کو راتوں رات شہرت مل گئی۔ ساتھ ہی منّا ڈے اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے۔

    منّا ڈے کولکتہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی عمر کے پچاس سے زائد سال ممبئی میں گزرے جب کہ باقی ماندہ زندگی بنگلور میں بسر کی۔ ان کی شادی کیرالا کی ایک لڑکی سلوچنا سے ہوئی تھی جو 2012ء میں وفات پاگئی تھیں۔

    گلوکار منّا ڈے سنہ 1950ء سے 1970ء تک محمد رفیع، مکیش اور کشور کمارکے بعد ہندی میوزک انڈسٹری کے چوتھے اور آخری ستون سمجھتے جاتے ہیں۔ ان کا فنی کیریئر پانچ دہائیوں پر مشتمل ہے جس میں‌ آخری مرتبہ 1991ء میں فلم ’پرہار‘ کے لیے منّا ڈے نے پسِ پردہ گلوکاری کی تھی۔ وہ پیچیدہ راگوں پر مشتمل گانے بہت آسانی سے گانے کے لیے مشہور تھے اور اس میں‌ کوئی بھی گلوکار ان کے مقابلے پر نہ آسکا۔

    ’دل کا حال سنے دل والا‘، ’پیار ہوا اقرار ہوا‘، ’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘ یہ تمام سپر ہٹ گیت منّا ڈے کی یاد دلاتے ہیں اور آج بھی ان کو بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ فلم ’آنند‘ کا گانا ’زندگی کیسی ہے پہیلی‘ گلوکاری کی دنیا میں منّا ڈے کو امر کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    اس کے علاوہ اے مری زہرہ جبیں، لاگا چنری میں داغ، یہ رات بھیگی بھیگی، یہ مست ہوائیں، قسمیں وعدے نبھائیں گے ہم اور یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی وہ فلمی گیت ہیں جو بہت مقبول ہوئے اور منّا ڈے کو ہمیشہ زندہ رکھیں‌ گے۔

    منّا ڈے نے اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں‌ کے ساتھ کام کیا اور بہت عزّت پائی۔ گلوکار منّا ڈے کی یادداشتوں پر مشتمل تحریریں کتابی صورت میں شایع ہوچکی ہیں۔

  • عنایت اللہ دہلوی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    عنایت اللہ دہلوی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    عنایت اللہ دہلوی اردو زبان کے بلند پایہ مصنّف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں اردو زبان و ادب کے ایک محسن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو ڈیرہ دون میں وفات پائی۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    عنایت اللہ دہلوی کا سنہ پیدائش 1869ء ہے۔ ان کا تعلق دہلی کے محلہ قاضی واڑہ کے ایک مشہور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اردو زبان و ادب میں اپنے علم و فضل اور تخلیقات کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ ان کا نام مولوی ذکاء اللہ تھا جو اس دور کے ایک انشا پرداز، مؤرخ اور مترجم تھے۔ عنایت اللہ نے ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ اسکول اور عربک اسکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت میں تھے جب والد انھیں اپنے ساتھ الٰہ آباد لے گئے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو ان کے والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

    الٰہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل لیا۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور دہلی لوٹ آئے۔

    علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور ان کی راہ نمائی اور شفقت حاصل رہی جس نے انھیں پڑھنے اور لکھنے پر آمادہ کیے رکھا۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔

    1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے جہاں سر سید کے ماہنامہ تہذیبُ الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1897ء میں سر سید کی ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔

    1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ اس ملازمت کے طفیل متعدد شہروں میں تبادلہ اور وہاں قیام کا موقع ملا۔

    دار الترجمہ حیدرآباد(دکن) کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے دکن آ گئے اور ناظم دارُ الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس عہدے پر تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔

    عنایت اللہ دہلوی کی تصانیف اور تراجم پر مبنی کتب کی تعداد 57 ہے۔ ان کی کتابوں‌ میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی، خوابِ پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوتِ اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخِ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔

  • ڈبلیو جی گریس:‌ کرکٹ کی دنیا کا پہلا ‘سپر اسٹار’

    ڈبلیو جی گریس:‌ کرکٹ کی دنیا کا پہلا ‘سپر اسٹار’

    ڈبلیو جی گریس کو ‘بابائے کرکٹ’ اور اس کھیل کی دنیا میں پہلا سپر اسٹار بھی کہا جاتا ہے۔ ڈبلیو جی گریس ہی تھے جنھوں نے کرکٹ کو جدید اور زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے اختراعی کوششیں کیں اور اس کھیل کے لیے مختلف تکنیکیں متعارف کروائیں جو کارگر ثابت ہوئیں۔ اس کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ ناقدین ڈبلیو جی گریس کو ‘اسپورٹس مین اسپرٹ’ سے عاری کھلاڑی کہتے ہیں۔

    ڈبلیو جی گریس کی شخصیت کے مختلف دل چسپ پہلوؤں کے علاوہ اُن کے کھیلنے کا انداز، کارکردگی اور کرکٹ کے لیے اُن کی کاوشیں کئی اعتبار سے قابلِ‌ ذکر ہیں۔ یہ اب سے ڈیڑھ صدی پہلے کی بات ہے جب نوجوان ڈبلیو جی گریس نے کرکٹ کی دنیا میں خود کو ایک باصلاحیت کھلاڑی اور قابل کرکٹر کے طور پر منوایا۔ اُن کے وضع کردہ قوانین آج بھی زیرِ بحث آتے ہیں اور باوثوق طور پر گریس کو کرکٹ کے بڑے کھلاڑیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

    ڈبلیو جی گریس انگریز تھے اور شوقیہ کرکٹ کھیلتے تھے۔ کھیل کے میدان میں دراز قامتی اور گریس کی لمبی داڑھی بھی ان کی پہچان تھی۔ ڈبلیو جی گریس کرکٹ کے شیدائی خاندان کے فرد تھے۔ ان کے والدین کو کرکٹ کا گویا جنون تھا اور اس کنبے کا ہر فرد اس کھیل سے وابستہ رہا۔ ڈبلیو جی گریس کے علاوہ ان کے دو بھائیوں نے بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی اور ان کی اگلی نسل میں بھی پانچ افراد نے فرسٹ کلاس کرکٹر کے طور پر جگہ بنائی۔ گریس کے ماموں، چچا اور اُن کی اولادیں بھی کرکٹ سے وابستہ رہیں۔

    1848ء ولیم گلبرٹ گریس کا سنہ پیدائش ہے جنھیں خاندان میں صرف گلبرٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ 23 اکتوبر 1915ء میں اپنی وفات تک انھیں مداحوں نے مختلف القابات سے یاد کیا۔ ڈبلیو جی گریس پیشے کے اعتبار سے معالج تھے اور اسی مناسبت سے انھیں‌ ڈاکٹر بھی کہا جاتا تھا۔ طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور کرکٹ کھیلنے کے دور میں بھی وہ مریضوں کا معائنہ کرتے تھے، لیکن اکثر وہ اپنے مطب سے غائب رہتے تھے جس کی وجہ کھیل تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اکثر مریض اُن سے نالاں رہتے تھے۔

    گریس نے اپنے تین بھائیوں کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں بیک وقت میچ کھیلا۔ یہ ٹیسٹ میچ میں‌ پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ یہ بات ہے سنہ 1880 کی۔ اوول میں ٹیسٹ میچ کے لیے میدان میں ڈبلیو جی گریس، ان کے بڑے بھائی ای ایم گریس اور چھوٹے بھائی فریڈ گریس ایک ساتھ اترے تھے۔ انگلینڈ کی سرزمین پر یہ پہلا ٹیسٹ میچ بھی تھا۔

    ڈبلیو جی گریس کی والدہ کا نام مارتھا تھا اور ان کا ذکر بھی برطانیہ میں کرکٹ کی تاریخ پر مبنی کتابوں میں موجود ہے۔ وہ ایک ایسی خاتون تھیں‌ جو کرکٹ کے کھیل کی مکمل معلومات رکھتی تھیں اور اسے خوب سمجھتی ہیں۔ مارتھا کا تحریر کردہ ایک خط بھی تاریخی شہرت رکھتا ہے جو اس زمانے میں انگلینڈ کے کرکٹر ولیئم کلارک کو ارسال کیا گیا تھا۔ کلارک نے آل انگلینڈ الیون کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے کپتان بھی تھے۔ مارتھا گریس نے اس خط میں اپنے بیٹے ڈبلیو جی گریس کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اگرچہ اس وقت صرف بارہ سال کے ہیں لیکن انھیں یقین ہے کہ وقت آنے پر وہ اپنے بڑے بھائی سے بھی اچھے کھلاڑی ثابت ہوں گے کیونکہ وہ سیدھے بلّے سے کھیلتے ہیں اور ان کے اسٹروکس بہت عمدہ ہوتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈبلیو جی گریس کی والدہ بطور کرکٹر اپنے بیٹے پر کتنا بھروسہ کرتی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ گریس انگلینڈ کی نمائندگی کریں۔

    ڈبلیو جی گریس پروفیشنل کرکٹر نہیں تھے لیکن برطانیہ کی جانب سے کرکٹ میچوں میں ان کی پرفارمنس یادگار رہی اور کرکٹ کے لیے اپنی کاوشوں کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ کرکٹ کی دنیا میں ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس سے متعلق کئی واقعات بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ آؤٹ ہونا پسند نہیں‌ کرتے تھے، اور امپائر فیصلے پر جرح کے لیے بھی تیّار رہتے تھے۔

    ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کا کریئر سنہ 1865 سے 1908 پر محیط ہے۔ انھوں نے کئی میچ کھیلے اور شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھیں ایک آل راؤنڈر مانا جاتا ہے۔ ڈبلیو جی گریس نے انگلینڈ کی ٹیم کی قیادت کرنے کے علاوہ مقامی سطح پر بھی ٹیموں کی کپتانی کی۔ ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے کھلاڑی ہیں جنھوں نے بیٹنگ کو ایک انداز دیا۔ وہ پہلے بیٹسمین تھے جنھوں نے بیک فٹ اور فرنٹ فٹ دونوں پر یکساں مہارت کے ساتھ کھیل پیش کیا۔ ماہرین کے مطابق آن اور آف دونوں اطراف اعتماد سے کھیلنے کا پہلا عملی مظاہرہ بھی ڈبلیو جی گریس کی طرف سے دیکھنے میں آیا۔

    ڈبلیو جی گریس کرکٹ میں انقلاب لائے۔ انھوں نے جدید بیٹنگ کی کئی تکنیکوں پر کام کیا اور اس زمانے میں بیٹنگ کے حوالے سے جو تبدیلیاں کی گئیں وہ ڈبلیو جی گریس کی سوچ کا نتیجہ تھیں۔

    اس برطانوی کھلاڑی کی شخصیت کے کچھ دل چسپ پہلو بھی سامنے آئے اور وہ چند تنازعات کے لیے مشہور ہیں‌ جن کی بنیاد پر ناقدین کہتے ہیں کہ ان میں اسپورٹس مین اسپرٹ کا فقدان تھا۔ اس ضمن میں‌ ایک متنازع رن آؤٹ کی مثال دی جاتی ہے۔ یہیں سے ایشیز کی بھی ابتدا ہوئی تھی اور یہ کہانی بھی خاصی دل چسپ اور تاریخی ہے۔

    واقعہ یہ ہے کہ سنہ 1882 کے اوول ٹیسٹ میں ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس نے آسٹریلوی بیٹسمین سیمی جونز کو اس وقت رن آؤٹ کر دیا جب کھلاڑی یہ سمجھ رہا تھا کہ گیند ڈیڈ ہوچکی ہے اور وہ کریز سے باہر تھا۔ اس پر کھیل کے میدان میں اختلاف اور بحث نے جنم لیا اور حریف ٹیم کے کھلاڑیوں میں غم و غصّہ پایا گیا۔

    آسٹریلوی ٹیم نے اسے ڈبلیو جی گریس کی دھوکہ دہی سے تعبیر کیا اور کہا کہ بیٹسمین کو غلط آؤٹ کیا ہے۔ امپائر اور تماشائیوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کا غصّہ کتنا شدید تھا۔ اس متنازع رن آؤٹ کے بعد برطانوی کھلاڑیوں نے فریڈ اسپورفرتھ کی بولنگ کا سامنا کیا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک جارح اور جوشیلے بولر کا سامنا کررہے ہیں جس کا یہ انداز انھیں شکست سے دوچار کر دے گا۔ اس میچ میں فریڈ اسپورفرتھ کی بولنگ نے آسٹریلیا کو سات رنز کی ڈرامائی جیت سے ہمکنار کر دیا۔ اس شکست نے انگلینڈ میں‌ تہلکہ مچا دیا۔

    روایتی حریف کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر پہلی شکست کو اخبار کی شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ سپورٹنگ ٹائمز نے طنزیہ پیرائے میں لکھا کہ انگلش کرکٹ کی اوول میں موت واقع ہو گئی ہے، اسے جلایا جائے گا اور اس کی راکھ آسٹریلیا بھیجی جائے گی۔ یہ بیانیہ ایشیز سیریز کی بنیاد بنا اور انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ کی تاریخ کی سب سے پرانی سیریز کا آغاز ہوا۔

    ایشیز دراصل پانچ انچ کی ایک گلدان نما ٹرافی ہے جس میں کرکٹ کی گیند یا وکٹوں پر رکھی جانے والی ’بیلز‘ کی راکھ ہوتی ہے۔ آسٹریلیا سے اوول میں انگلینڈ کی شکست کے بعد اخبار نے لکھا تھا کہ اس شکست کے جنازے کی راکھ کو اب آسٹریلیا لے جایا جائے گا۔ اور واقعی جب انگلینڈ نے 83-1882 میں سڈنی میں 69 رن سے تیسرا ٹیسٹ جیتا تو ملبورن کی چند عورتوں نے انگلینڈ کی ٹیم کے کپتان کو ایک گل دان میں راکھ رکھ کر پیش کی۔ یوں یہ سیریز افسانوی حیثیت رکھتی ہے۔

    ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کرکٹر کے ساتھ ساتھ ایتھلیٹ بھی تھے۔ ایک کرکٹ میچ کے دوسرے دن انھیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ کرسٹل پیلس میں ہونے والے نیشنل گیمز میں حصہ لے سکیں۔ اس کرکٹر نے وہاں چار سو میٹرز ہرڈلز ریس جیتی۔ ڈبلیو جی گریس نے فٹبال اور گالف بھی کھیلی۔

  • معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں کرنل محمد خان نے اپنی تخلیق کو جس طرح ظ‌رافت کے ساتھ افادی بنایا ہے، وہ بہت مزاح نگار کرسکے ہیں۔ ان کا فن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ آج کرنل محمد خان کی برسی ہے۔

    کرنل محمد خان کے اسلوب کی خصوصیات اس کی خیال آفرینی، فکر انگیزی اور لطافت و شگفتگی ہے جو مزاح نگاری میں ان کا امتیازی وصف بھی ہے۔ کرنل محمد خان کی ادبی شہرت کا سفر ان کی ایک تصنیف بجنگ آمد سے شروع ہوا جو قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔ اردو زبان کے اس معروف مزاح نگار نے 23 اکتوبر 1999 کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع چکوال کے چھوٹے سے علاقے بلکسر میں پیدا ہونے والے کرنل محمد خان کا سنہ پیدائش 1910 ہے۔ 1966 میں کی پہلی تصنیف بجنگ آمد کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس کتاب کی مقبولیت کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے قارئین کو مزید دو کتابیں بسلامت روی اور بزم آرائیاں پڑھنے کو دیں۔ کرنل محمد خان کی ایک کتاب تراجم پر مشتمل تھی جو بدیسی مزاح کے نام سے منظرِ‌عام پر آئی۔

    کرنل محمد خان تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانوی فوج سے وابستہ ہوگئے اور بجنگ آمد اسی زمانے کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے مزاح کے پیرائے میں سوانح رقم کی اور یہ کتاب فوج میں اُن کی شمولیت اور مختلف واقعات کے علاوہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہونے والی صورتِ حال اور مصنّف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا پُر لطف بیان ہے۔ یہ کتاب ان کے زورِ قلم کی عمدہ مثال ہے۔ اس کتاب میں کرنل محمد خان نے چھٹیوں‌ پر اپنے گاؤں لوٹنے پر اپنے استقبال اور اپنی والدہ سے بولے گئے ایک جھوٹ کو نہایت پُراثر انداز میں کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

    ”خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، “سرگٹ” بھی پیتا ہے، مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    “بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    “جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟“

    کرنل محمد خان قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج سے منسلک رہے، وہ شعبۂ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور اسی عہدے سے ریٹائر‌ ہوئے۔

    بطور مزاح نگار کرنل محمد خان نے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کو نشانہ بنایا ہے، مگر ان کا وصف یہ ہے کہ وہ زندگی کو بالعموم خندہ پیشانی سے دیکھتے ہیں اور ناہمواریوں کو بھی خوش مزاجی سے قبول کرتے ہیں۔ کرنل محمد خان نے سفر نامے بھی لکھے اور اس میں بھی وہ اشیا اور مظاہر کو شوخ و شنگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے سفر کی روداد کو انشائی لطافت سے پیش کرتے ہیں۔