Tag: اکتوبر برسی

  • فاروق لغاری جنھیں نواز شریف کے دورِ حکومت میں صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا

    فاروق لغاری جنھیں نواز شریف کے دورِ حکومت میں صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا

    سردار فاروق احمد خان لغاری نے سول سرول سے قومی سیاست تک پاکستان کے لیے کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں اور سیاسی میدان میں ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ان کے تنازع نے آئینی اور عدالتی تاریخ میں ہنگامہ خیز باب رقم کیا۔ سابق صدرِ ممکلت فاروق احمد خان لغاری 2010ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    سردار فاروق احمد لغاری کا تعلق ایک جاگیر دار بلوچ گھرانے سے تھا۔ انھوں نے 1940ء میں ڈیرہ غازی میں آنکھ کھولی اور لاہور سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرونِ ملک پڑھنے چلے گئے اور بعد سول سروس کا حصّہ بنے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان میں فرائض انجام دیے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انھوں نے سول سروس کو خیر باد کہا اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی سفر شروع کیا، ان کا شمار پارٹی کے سرکردہ راہ نماؤں میں‌ ہوتا تھا۔

    وہ پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکرٹری خزانہ اور مرکزی سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ فاروق لغاری ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں سینیٹ کے رکن بنے اور پھر وفاقی کابینہ میں پیداوار کی وزارت کا قلم دان سنبھالا۔ 1988ء میں فاروق لغاری بیک وقت قومی اور پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وہ اس وقت پنجاب سے وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر ایک مضبوط امیدوار سمجھے جاتے تھے لیکن پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بن سکی جس کی وجہ فاروق لغاری نے صوبائی نشست چھوڑی دی اور وفاقی کابینہ میں بجلی کے وزیر بنے۔ 1990ء میں پیپلز پارٹی نے انھیں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے طور پر قومی اسمبلی میں کردار سونپا اور بعد میں مختصر عرصے کے لیے بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت میں وہ وزیرِ خزانہ بھی رہے۔ 1993ء ہی وہ سال تھا جب فاروق لغاری سب سے زیادہ ووٹ لے کر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور بے نظیر بھٹو نے اپنی کابینہ میں بحیثیت وزیرِ خارجہ انھیں شامل کیا۔ صدرِ پاکستان بننے تک فاروق لغاری اس عہدے پر فائز رہے۔

    1993ء میں فاروق لغاری پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت ہی سے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ اس وقت تک فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کے سرکردہ راہ نما سمجھے جاتے تھے، لیکن صدارت کے دوران ان کی پیپلز پارٹی سے دوریاں بڑھ گئیں اور وہ وقت بھی آیا جب صدر لغاری ہی نے اپنے صوابیدی اختیارات سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ پی پی پی کی حکومت پر کرپشن اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگائے گئے تھے۔

    پی پی پی کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد جب ن لیگ کے قائد نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو انھوں نے صدر کے صوابیدی اختیارات کو ختم کرنے کی ٹھانی، کیوں کہ ماقبل صدر اسحٰق خان ان کی حکومت کو برطرف کرچکے تھے اور اس مرتبہ صدر لغاری سامنے تھے جن کو استعفٰی دینا پڑا۔ فاروق لغاری نے نواز شریف حکومت اور جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان تنازع کے بعد صدرِ مملکت کا عہدہ چھوڑ دیا۔ 1997 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں جب پاکستان کے آئین میں تیرھویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدرِ مملکت کے قومی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات ختم کر دیے گئے تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت نے ان اختیارات کو بحال کردیا، لیکن اس فیصلے کے ساتھ ہی ایک آئینی اور عدالتی تنازع کھڑا ہوگیا اور صدر کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ نواز شریف کو حزب اختلاف کی قائد بے نظیر بھٹو کی حمایت بھی حاصل تھی۔

    فاروق احمد لغاری نے صدارت چھوڑنے کے بعد ملّت پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن جلد ہی اسے مسلم لیگ ق میں ضم کردیا۔ سردار فاروق لغاری کھیلوں کے بھی شوقین تھے۔ انھوں نے 1970ء میں بنکاک اور پھر 1974ء میں تہران میں منعقدہ ایشین گیمز میں شوٹنگ کے مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ فاروق لغاری نے پسٹل ایونٹ میں حصّہ لیا تھا۔

    سردار فاروق احمد خان لغاری کی تدفین ڈیرہ غازی خان میں چوٹی زیریں کے مقام پر کی گئی۔

  • سلیم ناصر:‌ پی ٹی وی کے سنہرے دور کا ناقابلِ فراموش اداکار

    سلیم ناصر:‌ پی ٹی وی کے سنہرے دور کا ناقابلِ فراموش اداکار

    سلیم ناصر نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ڈرامہ ‘آنگن ٹیڑھا’ میں ‘اکبر’ کا کردار ادا کر کے ناظرین میں مقبول ہی نہیں ہوئے بلکہ بہت پیار اور عزّت بھی پائی۔ اداکار سلیم ناصر 19 اکتوبر 1989ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر ناگپور میں سلیم ناصر نے 15 نومبر 1944ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ یہیں سلیم ناصر نے تعلیم اور تربیت کے مراحل طے کیے۔ اداکار سلیم ناصر نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور مرکز کے ایک ڈرامے ’’لیمپ پوسٹ‘‘ سے کیا تھا۔ کراچی میں انھوں نے چھوٹی اسکرین پر مختلف ڈراموں میں کردار نبھائے اور اپنے بیک وقت سنجیدہ اور مزاحیہ انداز کے سبب ناظرین کے دلوں میں بَس گئے۔ سلیم ناصر نے اپنے وقت کے مقبول ڈراموں دستک، نشان حیدر، آخری چٹان، یانصیب کلینک، بندش اور ان کہی میں کام کیا جب کہ انور مقصود کا تحریر کردہ آنگن ٹیڑھا وہ ڈرامہ تھا جس نے انھیں بے مثال شہرت دی۔ اس ڈرامے میں سلیم ناصر نے اکبر کا وہ کردار نبھایا تھا جو نسوانیت سے بھرپور انداز کے ساتھ اپنے مزاحیہ مکالموں کی وجہ سے ناظرین کو بہت بھایا۔ سلیم ناصر اس زمانے کے فن کار تھے جب پی ٹی وی کے ڈرامے نہایت معیاری اور سبق آموز ہوا کرتے تھے اور آج تک ان کی مثال دی جاتی ہے۔ کہانی سے لے کر پروڈکشن تک اور اداکاری کے اعتبار سے وہ پی ٹی وی کا سنہرا دور تھا۔ سلیم ناصر اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھر دیتے تھے۔

    سلیم ناصر نے فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انھیں حسن کارکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ اداکارہ سلیم ناصر کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • زبیدہ خانم: پاکستانی فلم انڈسٹری کی سدا بہار آواز

    زبیدہ خانم: پاکستانی فلم انڈسٹری کی سدا بہار آواز

    پسِ پردہ گائیکی میں زبیدہ خانم پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک مقبول نام تھا۔ خوش شکل زبیدہ خانم اداکاری کا شوق بھی رکھتی تھیں، لیکن بطور گلوکارہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہ شوق جاری نہ رکھ سکیں۔ اپنے کیریئر کے عروج پر فلمی دنیا سے دوری اختیار کرنے والی زبیدہ خانم نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں‌ ڈھائی سو نغمات گائے جن میں‌ سے کئی آج بھی مقبول ہیں۔

    سیف الدین سیف کی کام یاب فلموں‌ میں‌ سے ایک ’’سات لاکھ‘‘ بھی تھی جو اداکارہ نیلو کی پہلی فلم تھی۔ اس میں زبیدہ خانم کی آواز میں ایک گانا نیلو پر عکس بند ہوا تھا جو دہائیوں تک ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نشر ہوتا رہا۔ اس کے بول تھے: ’’آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے، تُو چھٹی لے کے آجا بالما۔‘‘ 1960 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’رات کے راہی‘‘ باکس آفس پر بہت کام یاب ہوئی تھی جس کے تمام گیت زبیدہ خانم اور احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ زبیدہ خانم کی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں‌ یہ نغمہ اسی فلم کا تھا جس کے بول ہیں ’’کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘۔

    یہ گیت بھی زبیدہ خانم کی آواز میں بہت مقبول ہوا….روتے ہیں چھم چھم نین، اجڑ گیا چین، میں نے دیکھ لیا تیرا پیار۔

    فلمی تاریخ بتاتی ہے کہ پاٹے خان 1955ء کی وہ واحد فلم ہے جس میں زبیدہ خانم نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ چند مزید فلموں‌ میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئیں۔ گلوکارہ زبیدہ خانم کو سنیما بینوں نے 1961ء کی فلم آبرو میں شادی کی تقریب کے ایک منظر میں اپنا ہی گیت سنتے ہوئے دیکھا تھا۔

    گلوکارہ زبیدہ خانم 78 برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئی تھیں۔ 19 اکتوبر 2013ء کو وفات پانے والی زبیدہ خانم لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگر کے طور پر مقام بنانے والی زبیدہ خانم 1935ء میں امرتسر میں پیدا ہوئیں اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئیں۔ دورانِ تعلیم ہی وہ فنِ‌ گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگی تھیں‌۔ ان کے ایک استاد نے جب ان کا شوق دیکھا تو ریڈیو پاکستان میں متعارف کروا دیا اور وہاں سے زبیدہ خانم کے فنی سفر کا آغاز ہوا۔پاکستان میں فلم انڈسٹری سے ان کا تعلق 1951ء میں قائم ہوا اور وہ فلم ’بلّو‘ میں بطور اداکارہ نظر آئیں۔ اپنے فلمی کیریئر کے ابتدائی برسوں میں زبیدہ خانم نے اداکاری کے میدان میں‌ قسمت آزمائی کی۔ تاہم صرف دو سال بعد 1953ء میں بطور پلے بیک سنگر ان کی آواز فلم ’شہری بابو‘ کے گیتوں کی صورت شائقینِ موسیقی تک پہنچی۔ ان کی دلکش آواز اور خوش اسلوب گائیکی نے چند ہی سالوں میں انہیں صفِ اوّل کی گلوکارہ بنا دیا۔

    گلوکارہ زبیدہ خانم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ گھر والے موسیقی کو بطور کیریئر اپنانے پر ان سے ناخوش تھے لیکن ’مجھے ہمیشہ سے گائیکی کا شوق تھا اور میں جب بھی اسٹوڈیو جاتی تھی تو بہت خوشی محسوس کرتی تھی۔‘

    زبیدہ خانم نے اپنے کیریئر کے عروج پر پاکستانی فلمی صنعت کے معروف کیمرہ مین ریاض بخاری سے شادی کر لی تھی اور اس کے بعد وہ فلم اور موسیقی کی دنیا سے دور ہوگئیں۔ وہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں‌ تھیں۔ گلوکارہ اور اداکارہ زبیدہ خانم کا گائیکی کا سفر صرف آٹھ برس تک جاری رہا لیکن ان کے گائے ہوئے نغمات آج بھی بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔ زبیدہ خانم نے اس دور کے تمام بڑے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں بابا جی اے چشتی، رشید عطرے، صفدر حسین، سلیم اقبال، خواجہ خورشید انور اور اے حمید شامل ہیں۔

    زبیدہ خانم کا تعلق موسیقی کے کسی روایتی گھرانے سے نہیں تھا اور نہ ہی انھوں‌ نے موسیقی کی رسمی تعلیم حاصل کی تھی بلکہ آواز اور انداز وہ خداداد صلاحیت تھی جس نے انھیں‌ کم عمری ہی میں‌ لاہور کے ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا تھا۔

    زبیدہ خانم کے مقبول ترین پنجابی گیتوں میں فلم ہیر کا اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے، شیخ چلی کا گیت سیونی میرا دل دھڑکے، فلم مکھڑا کا دلا ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے اور چھو منتر کا نغمہ بُرے نصیب میرے ویری ہویا شامل ہیں۔

  • چارلس ببیج جس نے دنیا کو جدید کمپیوٹر کا ‘تصوّر’ دیا

    چارلس ببیج جس نے دنیا کو جدید کمپیوٹر کا ‘تصوّر’ دیا

    دنیا چارلس ببیج (Charles Babbage) کو ایک موجد اور میکانی مہندس کے علاوہ ریاضی داں اور فلسفی کے طور پر جانتی ہے۔ اسے فادر آف کمپیوٹر بھی کہا جاتا ہے۔

    چارلس ببیج 26 دسمبر 1791ء لندن کے ایک قصبے میں‌ پیدا ہوا اور 18 اکتوبر 1871ء کو انتقال کرگیا۔ وہ اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ اور نہایت قابل شخص تھا جس نے ڈیجیٹل پروگرام ایبل کمپیوٹر(programmable computer) كا تصوّر پیش کیا اور یہی اس کی وجہِ شہرت ہے۔ چارلس ببیج ہی نے پہلا میکانی کمپیوٹر ایجاد کیا تھا جس کی بنیاد پر آگے چل کر الیکٹرونک کمپیوٹر ایجاد کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ جدید کمپیوٹر کا تصوّر دراصل چارلس ببیج کے اینالیٹکل انجن کے مطابق ہے۔

    چارلس کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہو گا کہ وہ لندن کے ایک امیر بینک کار کا بیٹا تھا جس کی ابتدائی تعلیم اعلیٰ‌ درجے کے اسکولوں میں ہوئی۔ وہ آٹھ سال کا تھا جب ایک خطرناک بخار کی وجہ سے اس کی تدریس کا عمل متاثر ہوا۔ اسے گھر پر پڑھنے کا مشورہ دیا گیا۔ اس عرصہ میں چارلس ببیج کا وقت ایک بڑی لائبریری میں گزرا جہاں اس کی توجہ اور دل چسپی ریاضی کے مضمون میں بڑھ گئی۔ اس نے رفتہ رفتہ اس مضمون میں مہارت حاصل کرلی اور ایک زبردست ریاضی دان بن گیا، لیکن اس کے پاس سند نہیں تھی۔ 1814ء میں چارلس ببیج نے بغیر امتحان دیے، اپنی ذہانت اور علمی قابلیت کی بنیاد پر ایک اعزازی ڈگری حاصل کی۔

    چارلس ببیج اپنے مضمون میں‌ غور و فکر کرتا رہا اور وہ وقت آیا جب اس نے اختراع کار اور موجد کے طور پر خود کو منوا لیا۔ اب اس نے ریاضی اور اعداد و شمار کے جدولوں كی تیّاری کا کام شروع کیا تو اس کے لیے معاوضے پر لوگوں کو رکھنا پڑا۔ لیکن ان جدولوں کی جانچ پڑتال پر کئی گھنٹے لگ جاتے اور تب بھی انسانی غلطیاں ختم کرنا آسان نہیں‌ ہوتا تھا، وہ جدول بنانے كے کام سے اکتا گیا اور ایک ایسی مشین بنانے کے بارے میں سوچنے لگا جو غلطی کے بغیر جدولوں كا حساب كرے۔

    1822ء میں اس سائنس دان نے ڈفرینشل انجن تیّار کر لیا جو قابلِ اعتماد جدول بنا سکتا تھا۔ 1842ء میں چارلس ببیج نے اینالیٹکل انجن کا خیال پیش کیا، جو فی منٹ 60 اضافے کی اوسط رفتار سے ریاضی کے کسی بھی مسئلے کے لیے حساب کے افعال کو مکمل طور پر خود کار طریقے سے انجام دے سکے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس مشین کا قابلِ عمل نمونہ تیار نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم اس کے ان مفروضوں اور تصوّرات کو اہم مانا جاتا ہے۔

  • حکیم محمد سعید: ایک جوہرِ قابل جسے ہم نے گنوا دیا

    حکیم محمد سعید: ایک جوہرِ قابل جسے ہم نے گنوا دیا

    حکیم محمد سعید نے وطنِ عزیز میں مستقبل کے معماروں کی تربیت، راہ نمائی اور کردار سازی کو اپنا فرض جانا اور اس کے لیے دن رات محنت کی اور ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے اجراء کے علاوہ مختلف ادارے قائم کیے۔ بدقسمتی سے 1998ء میں کراچی میں‌ دہشت گردی کے عفریت نے اس شجرِ سایہ دار کو نگل لیا۔ 17 اکتوبر کو حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔

    پاکستان کے نام وَر طبیب اور ادویّہ سازی کے مستند اور مشہور ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ اور نونہال جیسے بچّوں‌ کے مقبول رسالے کے بانی حکیم محمد سعید گورنر سندھ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

    انھوں نے 9 جنوری 1920ء کو دلّی میں آنکھ کھولی، حکیم سعید طبِ مشرق سے وابستہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد نے 1906ء میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا تھا۔ حکیم سعید نے ابتدائی تعلیم کے دوران عربی، فارسی، اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انھوں نے فارمیسی میں گریجویشن اور علم الادویّہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ء میں اپنا خاندانی کام سنبھالا اور ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

    1945ء میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ اسی برس ان کی شادی نعمت بیگم سے ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنے کنبے کے ساتھ کراچی چلے آئے اور یہاں ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے 1952ء میں انقرہ یونیورسٹی، ترکی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی اور وطن واپس آکر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں وہ مستعفی ہو گئے۔

    ان کے قائم کردہ ادارے کے زیرِ اہتمام 1985ء میں یونیورسٹی قائم کی گئی جس کے وہ پہلے چانسلر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے مدینۃُ الحکمت کی بنیاد رکھی۔ طبّ و حکمت کے ساتھ وہ ان تعلیمی اداروں کے معاملات دیکھتے ہوئے علم و ادب سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں طب و حکمت سے متعلق تعلیمی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لیا اور پروگراموں میں‌ شرکت کرتے رہے۔ حکیم سعید اردو اور انگریزی کی دو سو کے قریب کتابوں کے مصنّف تھے جب کہ نونہال بچّوں کا وہ مقبول رسالہ تھا جس کے بانی حکیم سعید نے بلاشبہ دو نسلوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا، بلکہ ان کو غور و فکر کی عادت ڈالی، دین و دنیا کی تعلیم کا ذوق و شوق پروان چڑھایا، اخلاق و آدابِ معاشرت سکھائے اور اس رسالے نے ادبِ‌ اطفال کے ساتھ اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    ان کی بیٹی سعدیہ راشد کے ایک انٹرویو سے ماخوذ یہ پارہ ہمیں حکیم سعید کے معمولات اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں‌ مدد دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں:

    "شروع میں ابّا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔

    میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابّا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابّا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ”وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلّی کی طرح ہو گئے ہیں۔“

    ابّا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارہ ’ہمدرد‘ کی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طبِ یونانی جسے ابّا جان کہتے تھے کہ یہ طبِّ اسلامی ہے۔ اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔

    آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔ وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔

    وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔”

    حکومتِ پاکستان نے حکیم سعید کو 1966ء میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از مرگ ’نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔

  • "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹنے والے حمید اختر

    "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹنے والے حمید اختر

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اپنی شخصیت کے اس پہلو کا خوب احساس تھا یا پھر وہ اپنے اداکاری کے شوق اور صلاحیتوں کا ادراک کرچکے تھے کہ قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں‌ نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح‌ سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔

    حمید اختر کو شہرت اور نام و مقام تو ملا مگر بطور اداکار نہیں‌ بلکہ ایک صحافی، کالم نویس، ادیب اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے۔ وہ 2011ء میں کینسر کے مرض سے ہار گئے۔ حمید اختر کا انتقال 17 اکتوبر کو ہوا تھا۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں حمید اختر نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے۔ اردو زبان کے مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے اور اردو کے مشہور مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء سے بھی اسکول کے زمانہ میں ہی دوستی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے یہ دوست اور خود حمید اختر بھی علم و فنون میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ وہ زمانہ ہندوستان میں ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کے عروج کا تھا جب ساحر اور انشاء نے تخلیقی سفر شروع کیا اور حمید اختر نے بھی کوچۂ صحافت میں قدم رکھ دیا۔ جلد ہی وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ حمید اختر نے اپنی عملی صحافت کا آغاز لاہور میں‌ روزنامہ امروز سے کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ اسی سفر کے دوران انھوں نے کالم نگاری شروع کی اور یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔

    جن دنوں حمید اختر بمبئی میں مقیم تھے، وہاں فلمی دنیا اور ادبی مجلسوں‌ میں ان کی ملاقاتیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے بڑے اہلِ قلم اور ترقی پسند مصنّفین سے ہوئیں اور پھر ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آگئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں اور اہلِ‌ قلم پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی ترقی پسند نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہوئے اور دو سال تک قید میں‌ رہے۔ بعد میں حمید اختر کے قلم نے ’کال کوٹھڑی‘ تحریر کی جو ان کے ایامِ اسیری کی روداد ہے۔

    1970ء میں حمید اختر نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے خاکہ نگاری بھی کی اور یہ خاکے اُن ترقی پسند مصنّفین کے ہیں‌ جن کی رفاقت حمید اختر کو نصیب ہوئی۔ ان کے شخصی خاکوں کی یہ کتاب ‘احوالِ دوستاں’ کے نام سے شایع ہوئی۔ حمید اختر کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے، یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔”

    حمید اختر نے افسانہ نگاری بھی کی، لیکن صحافتی مصروفیات اور تنظیمی سرگرمیوں‌ کی وجہ سے اس طرف یکسوئی سے توجہ نہیں‌ دے سکے، انھوں نے چند فلمی اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ 2010ء میں‌ حمید اختر کو تمغائے حسنِ‌ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کی مقبول اداکارہ صبا حمید انہی کی بیٹی ہیں۔

  • بارش کے لیے منظوم دُعا کرنے والے امیر مینائی کا تذکرہ

    بارش کے لیے منظوم دُعا کرنے والے امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی نے متنوع موضوعات پر اپنے کلام اور اشعار کی رنگا رنگی کے سبب ہم عصروں میں امتیاز حاصل کیا۔ کیف و انبساط اور ندرت و خوش سلیقگی امیر مینائی کے فنِ شاعری کی خصوصیت ہے۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے اور زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے۔ ان کا نام امیر احمد تھا۔ سنہ 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔

    امیر مینائی کی شاعری عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے ایسے مضامین سے گندھی ہوئی ہے جو انھیں بطور شاعر جداگانہ حیثیت دیتے ہیں۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں اکتساب کیا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں امیر مینائی کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آلیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کرگئے۔

    وہ طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا سے متعلق اپنے تحقیقی مضمون میں رقم کیا ہے۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔

    امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی چہیتی بیوی دلرس بانو بیگم کا تذکرہ

    مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی چہیتی بیوی دلرس بانو بیگم کا تذکرہ

    دلرس بانو بیگم مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بیوی تھیں جو 1657ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ دلرس بانو بیگم نے مختصر زندگی پائی۔ انھیں ربیعہ درّانی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخین نے دلرس بانو بیگم کا سنہ پیدائش 1622ء لکھا ہے۔ مؤرخین کے مطابق وہ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی پہلی بیوی تھیں اور اسی لیے شاہی خاندان میں بھی ان کی اہمیت تھی اور بادشاہ بھی انھیں بہت چاہتے تھے۔ عالمگیر، ممتاز محل کی اولاد تھے جو اپنے شوہر کی محبوب اور چہیتی تھیں اور وفات کے بعد بادشاہ نے جس طرح ان کے لیے ایک عظیم الشّان یادگار اور نشانی تاج محل تعمیر کروایا تھا، اسی سے مشابہ مقبرہ دلرس بیگم کا ہے جسے اورنگزیب عالمگیر نے مرحوم کی یادگار کے طور پر تعمیر کروایا۔ دلرس بانو بیگم اورنگ آباد میں اس مقبرے میں آسودۂ خاک ہیں۔ اس عمارت کو لوگ بی بی کا مقبرہ کہتے ہیں۔

    دلرس بانو بیگم کے بارے میں تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ وہ ایران کے مشہور صفوی خاندان کی شہزادی تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر سے اُن کی شادی 1637ء میں ہوئی تھی۔ دلرس بانو بیگم کے بطن سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں سے ایک شہزادہ محمد اعظم تھے جن کے بارے میں بعض تذکروں میں ہے کہ اورنگزیب نے انھیں ولی عہد مقرر کیا تھا۔ لیکن وہ اورنگزیب کی وفات کے بعد محض چند ماہ اور برائے نام بادشاہ رہ سکے تھے۔ دلرس بانو بیگم کی وفات اپنی پانچویں اولاد کی پیدائش کے لگ بھگ ایک ماہ بعد زچگی کی کچھ پیچیدگیوں کے سبب لاحق ہونے والے بخار سے ہوئی۔

    کہتے ہیں‌ کہ محمد اعظم اپنی ماں کی ناگہانی موت کے صدمے سے اعصابی توازن کھو بیٹھا تھا۔

  • ژاک دریدا: ایک فلسفی اور دانش وَر

    ژاک دریدا: ایک فلسفی اور دانش وَر

    معروف فلسفی اور ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کا بانی ژاک دریدا کو فرانس میں سارتر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دریدا 2004ء میں آج ہی کے دن زندگی کی جنگ ہار گیا تھا۔

    دریدا کے فلسفے اور نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے ہر شعبہ کو متأثر کیا اور اسے عالمی سطح پر شہرت ملی مگر اس فلسفی نے جس دور میں‌ اپنے افکار اور خیالات کو بیان کیا، اس دور میں وہ صاحبِ علم شخصیات اور اہلِ قلم کی مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنا۔ دریدا کے خیالات کو لایعنی اور اس کے فلسفے کو بے معنی کہہ کر مسترد کیا گیا۔ لیکن بعد میں‌ دنیا نے اسے علم و ادب، تنقید اور لسانیات کا یگانہ روزگار اور دانش ور تسلیم کیا۔

    ژاک دریدا کینسر کے مرض میں مبتلا تھا اور 74 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    علم و ادب کی دنیا کے بعض ناقدوں اور خاص طور پر برطانوی یونیورسٹی کیمبرج کے اساتذہ اس کے بعض مباحث کو لایعنی کہہ کر مسترد کرتے رہے تھے، جس میں دریدا کا یہ فلسفہ کہ معنیٰ، متن سے ماورا ایسی تہ داری رکھتے ہیں جو تہذیبی اور تاریخی عمل سے نمو پاتی ہے، بھی شامل تھا۔ بعد میں دریدا کے اسی فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبعیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس فلسفی کے لسانیات اور ادبیات پر اثرات کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

    ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان کا فرد تھا اور اس نے 1930ء میں آنکھ کھولی تھی۔ الجزائر پر فرانس کا غلبہ تھا اور وہاں ایک عرصہ تک آزادی کی تحریک بھی چلتی رہی تھی۔ ژاک دریدا کے افکار اور اس کا فلسفہ اکثر تورات کے زیرِ‌ اثر نظر آتا ہے۔ ابتدائی تعلیم تو اس نے الجزائر میں مکمل کی تھی لیکن بعد میں فرانس منتقل ہوگیا اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہاورڈ اور سوربون میں فلسفہ پڑھانے لگا اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے افکار کو جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع سمجھا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ فرانس میں شہرت حاصل کرنے لگا اور اس کے افکار کو قبول کیا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمبرج ہی نے 1992ء میں دریدا کو اعزازی ڈگری دی۔ اس نے فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم بھی چلائی جب کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کا مخالف اور نیلسن منڈیلا کا بڑا حامی رہا۔

    2003ء میں دریدا کے نام ہی سے اس کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے فلسفے اور افکار کو فرانس میں در و قبول کی مشکل پیش آرہی تھی، اپنا آپ منوا چکا تھا اور اس کے فلسفے کو علم و ادب کے مختلف شعبہ میں اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے نئی نسل کو بھی متأثر کیا۔ اس کے متنوع افکار کی ہمہ گیری اور ان کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر اس کے اسلوب کی تفہیم کی کوشش کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ژاک دریدا کی ان تصانیف کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں‌ میں کیے گئے اور ان پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ Husserl’s geometry 1962 میں، Speech and phenomena 1973 میں اور اس کے بعد دو مشہور تصانیف Of Grammatology اور Writing and Difference کے عنوان سے سامنے آئیں۔

  • ریمبراں:‌ فنِ‌ مصوّری کا ایک مقبول نام

    ریمبراں:‌ فنِ‌ مصوّری کا ایک مقبول نام

    عظیم ولندیزی مصوّر ریمبراں (Rembrandt) کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے سیلف پورٹریٹ کی بات سب سے پہلے کی جاتی ہے، جن میں وہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار کو دکھاتا ہے۔ ریمبراں کو دنیا سے گزرے ساڑھے تین سو سال سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن اس کا کام جہانِ فن میں اب بھی زیرِ بحث رہتا ہے۔ ریمبراں کو ایک نابغہ تسلیم کیا گیا اور نقّادوں نے اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا ہے۔

    اس مصوّر نے اپنے فن و تخلیق کی بدولت اُس دور میں نام پایا جسے مؤرخین ڈچ فن و ثقافت اور اختراع و ایجاد کا سنہری زمانہ قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص فنونِ لطیفہ کے شعبے میں اور فنِ مصوّری میں نئے رجحانات کو فروغ حاصل ہو رہا تھا۔ ریمبراں جسے اکثر ریمبرانٹ بھی لکھا جاتا ہے، اسی عہد کا ایک مقبول فن کار ہے جس نے نقّاشی اور فنِ مصوّری میں بے مثال کام کیا۔ آج ریمبراں کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 4 اکتوبر 1669ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    کہتے ہیں‌ کہ ہالینڈ کے کسی مصوّر کو دنیا میں اتنی شہرت نہیں ملی جتنی ریمبراں کے حصّے میں آئی۔ اس کے پورٹریٹس نے کمالِ فن کے شاہکار کا درجہ پایا۔ مشہور ہے کہ ریمبرانٹ کئی گھنٹے روزانہ اپنا تصویری خاکہ بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔

    عالمی شہرت یافتہ ریمبراں کی ایک پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں آج بھی شائقین کی توجہ کا مرکز ہے۔ ریمبراں یا ریمبرانٹ کے چند دیگر فن پارے دنیا کی متعدد بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور دلدادگانِ فنِ مصوّری کے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ یہ تصاویر نو آموز آرٹسٹوں کو اس فن کی باریکیوں کو سیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    ریمبراں کی زندگی کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات دست یاب ہوسکی ہیں، ان کے مطابق وہ ایک اناج پیسنے والی چکّی کے مالک کا بیٹا تھا۔ یہ خاندان ہالینڈ میں بسا ہوا تھا۔ ریمبرانٹ نے 1609ء میں دنیا میں آنکھ کھولی۔ اس کا نام ریمبراں وان رائن رکھا گیا۔ اسے شروع ہی سے فنِ‌ نقّاشی اور اس کی مختلف شکلوں سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور مسلسل مشق کے ساتھ اس نے موقلم اور رنگوں سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار شروع کردیا ،مصوّری کی طرف مائل ہونے کے بعد ریمبراں نے آئل پینٹنگ اور اسکیچز بنائے اور اس فن میں مختلف تجربات بھی کیے۔

    ماہرین کے مطابق ریمبراں سولھویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے اور اس کے کئی فن پارے انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تخلیق کردہ ہیں۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے ریمبراں کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبراں کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں‌ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس مصوّر کے فن پارے زندہ و متحرک محسوس ہوتے ہیں اور یہ وہ خوبی ہے جو ریمبراں کو ڈچ فن و ثقافت کا ایک بڑا تخلیق کار ثابت کرتی ہیں۔

    بطور مصوّر ریمبراں کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ‌ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔ فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں‌ جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی سے نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔

    ریمبراں کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ وہ کام تھا جو شاید ریمبراں کو بہت پسند تھا۔ اس نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری میں مختلف تجربات کیے ہیں۔

    قارئین، ریمبراں نے ایشیائی ثقافت اور بالخصوص ہندوستان کے مغل حکم رانوں‌ اور اس دور کی چند بااثر شخصیات کی تصاویر بھی بنائی ہیں۔ وہ دراصل مغل منی ایچر سے بہت متاثر ہوا تھا اور اس پر 1650ء کے لگ بھگ کام کیا۔ اس نے شاہ جہان، اکبر، جہانگیر اور دارا شکوہ کے اسکیچز بنائے ہیں، لیکن ریمبراں ہالینڈ سے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا، اور یہ تصاویر اس تک پہنچی تھیں۔ ریمبراں کے مغل اسکیچز کی تعداد 24 سے 25 ہے۔ تاہم یہ اس کا قابلِ‌‌ ذکر کام نہیں ہے۔