Tag: اکتوبر برسی

  • عالمی شہرت یافتہ پہلوان محمد حسین انوکی کا تذکرہ

    عالمی شہرت یافتہ پہلوان محمد حسین انوکی کا تذکرہ

    ریسلنگ کی دنیا کے عالمی شہرت یافتہ انوکی پہلوان 79 برس کی عمر میں 2022ء میں یکم اکتوبر کو انتقال کرگئے تھے۔ پروفیشنل ریسلنگ اسٹار انوکی جاپان کے عظیم پہلوانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اکھاڑے میں پاکستانی پہلوانوں کا بھی سامنا کیا تھا۔

    60 کی دہائی میں انوکی جاپان میں پروفیشنل ریسلنگ کا بڑا نام بن کر ابھرے تھے۔ انھوں نے 1976 میں باکسنگ کی دنیا کے لیجنڈ محمد علی کے ساتھ مکسڈ مارشل آرٹس مقابلے میں حصّہ لیا تھا اور دنیا نے اپنے وقت کے ان دو عظیم کھلاڑیوں کے اس مقابلے کو ‘صدی کا سب سے بڑا مقابلہ’ قرار دیا تھا۔ یہ مقابلہ 15 راؤنڈز تک جاری رہا، لیکن اسے برابر قرار دے کر ختم کردیا گیا۔ اگرچہ شائقین کے لیے اپنے اختتام تک یہ مقابلہ اپنی نوعیت کا ایک ناقابلِ فہم مقابلہ تھا، تاہم اسے جدید مکسڈ مارشل آرٹس کی بنیاد ڈالنے والا مقابلہ قرار دیا جاتا ہے۔

    ’علی ورسز انوکی‘ نامی کتاب کے مصنّف جوش گراس اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ’1976 میں انوکی سے یہ میچ کھیل کر محمد علی اپنے مالی مسائل کا حل چاہتے تھے۔‘ دوسری طرف اس مقابلے کو اس لیے بھی بہت اہمیت دی جارہی تھی کہ عالمی جنگ اور پرل ہاربر کے بعد جاپانیوں کے جذبات امریکہ کے خلاف بھڑکے ہوئے تھے۔ انوکی کے لیے اس میچ کی اہمیت اس تناظر میں زیادہ تھی۔

    میچ کے لیے ایک روز قبل چند اصول طے کیے گئے، لیکن اس لڑائی کے دوران ’لو کک (low kicks)‘ مارنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ 15 راؤنڈز اور تقریباً ایک گھنٹے بعد مقابلہ برابر قرار دے دیا گیا اور جیت کسی کے نام نہ ہوسکی۔ اس لڑائی میں محمد علی کلے وہ لو کک برداشت کرتے رہے جو انوکی نے انھیں ماریں، لیکن یہ مقابلہ محمد علی کلے اور انوکی کو دوست بھی بنا گیا۔ 1998 میں انوکی نے اپنا آخری ریسلنگ میچ کھیلا تھا اور اس موقع پر محمد علی کلے ان کے اعزاز میں وہاں موجود تھے۔

    کتاب ‘علی ورسز انوکی‘ کے مصنف جوش گراس نے کہا: ’40 سال بعد یہ چیز واضح ہونا شروع ہوئی کہ بظاہر اس بور میچ کی ریسلنگ اور مکس مارشل آرٹ میں کیا اہمیت تھی۔‘

    کانجی انوکی نے 1943 میں جاپان کے یوکوہاما نامی شہر میں آنکھ کھولی۔ وہ متمول گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے برازیل میں 17 سال کی عمر میں اپنا پروفیشنل نام ’انٹونیو انوکی‘ رکھتے ہوئے پہلا ریسلنگ میچ کھیلا جہاں رکیڈوزان نامی ’جاپانی بابائے ریسلنگ‘ نے ان کی طاقت اور کھیل کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر ان کی راہ نمائی کی۔

    انوکی دسمبر 1976 میں پاکستان کے مشہور پہلوان، اکرم پہلوان سے مقابلے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ یہ مقابلہ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا اور اس میں انوکی نے اکرم پہلوان کو شکست دے دی تھی۔ جون 1979 میں انوکی نے اکرم پہلوان کے بھتیجے جھارا پہلوان سے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں مقابلہ کیا جس میں جھارا پہلوان نے انوکی کو شکست دی تھی۔

    انوکی نے جاپانی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور پارلیمان کے ایوانِ بالا میں سنہ 1989 میں نشست بھی جیتی۔ انھوں نے ایک موقع پر عراق کے دورے میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ محمد حسین انوکی کی حیثیت سے دسمبر 2012 میں پھر پاکستان آئے اور اس مرتبہ ان کے ساتھ چند جاپانی پہلوان بھی تھے جنھوں نے لاہور اور پشاور میں کشتی لڑی۔ اپنے دورے میں انوکی لاہور میں اکرم پہلوان اور جھارا پہلوان کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے بھی گئے تھے۔

  • استاد رساؔ: وہ شاعر جن کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت گالیاں‌ رہتی تھیں!

    استاد رساؔ: وہ شاعر جن کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت گالیاں‌ رہتی تھیں!

    ہر شہر اور قریہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عام لوگوں سے مختلف اور یکتا شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور خصلتیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور وہ ان کے محبوب بن جاتے ہیں۔ استاد رساؔ بھی ایسے ہی لوگوں میں ایک تھے۔

    ان کی بنیادی شناخت تو شاعری تھی، لیکن شاعری کے سوا ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو وہ گالیاں تھیں جو پرانی دلّی میں آج بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ استاد رساؔ ایک قلندرانہ صفات کے حامل شاعر تھے، لیکن پرانی دلّی کے گلی کوچوں میں ان کا شہرہ شاعری سے زیادہ ان بلیغ گالیوں کی وجہ سے تھا جو ان کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت رہتی تھیں اور جنھیں سننے کے لیے لوگ ان سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ اردو شاعری کی پوری تاریخ میں شاید ہی ان جیسا کوئی دوسرا شاعر گزرا ہو جو شاعری اور گالیوں پر یکساں عبور رکھتا تھا۔

    ڈاکٹر اسلم پرویز کے بقول: "ان کی گفتگو میں گالیوں کی مقدار نمک میں آٹے کی برابر ہوتی تھی۔”

    جو کوئی ان کی گالیوں کا حال سنتا تو ان سے ملنے کا متمنی ہوتا تھا، لیکن وہ ہر ایرے غیرے کے سامنے گالیاں بکنا بھی کسرِ شان سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ایک مخصوص موڈ اور محفل کی ضرورت ہوتی تھی اور انھیں مشتعل کرنے والا خاص پس منظر بھی۔

    نہ جانے کب سے گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونے کی شعری حکایت جوں کی توں چلی آتی ہے۔ استاد رساؔ دہلوی کی گالیوں کی خوبی یہ تھی کہ کوئی انھیں سن کر بے مزہ نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض تو ایسے بھی تھے جو ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

    استاد رساؔ حضرت بیخود دہلوی کے نہایت سعادت مند شاگرد تھے، لیکن خود ان کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ عرفِ عام میں ’استاد‘ مشہور ہو گئے تھے۔

    استاد رساؔ کھرے دلّی والے تھے۔ وہ فصیل بند شہر کے لوگوں کو ہی اصلی دلّی والا مانتے تھے۔ دہلی کے باقی علاقوں میں رہنے والوں کو وہ ’غیر ملکی‘ تصور کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ انگریزوں نے جمنا کے اوپر پل بنا کر دلّی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ نہ یہ پُل ہوتا اور نہ باہر کے لوگ دلّی آتے۔ استاد رساؔ کا اپنا مکان حوض سوئیوالان میں تھا، لیکن وہ سب سے کم اسی علاقہ میں نظر آتے تھے۔سنا ہے انھیں فٹبال کھیلنے کا بھی شو ق تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک آزاد منش انسان تھے۔ بیوی بچوں کو بوجھ سمجھتے تھے، اس لیے یہ روگ بھی انھوں نے نہیں پالا تھا۔ ان کے مزاج اور چال ڈھال میں بلا کا بانکپن تھا۔ ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کے درمیان بیچ کا راستہ نہیں تھا۔ مخالفوں کا شجرۂ نسب انھیں منہ زبانی یاد رہتا تھا اور وقتِ ضرورت اس کے بیان میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔

    استاد رساؔ نے 8 اکتوبر 1976ء کو بہ عارضہ کینسر 76 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    (معصوم مراد آبادی کے مضمون سے چند پارے)

  • پی ٹی وی کے ہر دل عزیز کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کا تذکرہ

    پی ٹی وی کے ہر دل عزیز کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کا تذکرہ

    پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں کی میزبانی اور اپنے منفرد انداز کی بدولت ملک بھر میں پہچان بنانے والوں میں دلدار پرویز بھٹی ہر دل عزیز بھی تھے۔ وہ اپنی حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور طرزِ گفتگو کے سبب لوگوں میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔

    دلدار پرویز بھٹی نے اپنی عملی زندگی آغاز بطوراستاد کیا تھا اور ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دینے کے بعد کے ساتھ لاہور کے ریڈیو اسٹیشن سے فنی سفر شروع کیا تھا۔

    ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا جہاں وہ 30 نومبر 1948 ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک دردمند اور حساس انسان تھے جو اپنے کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ دوسروں کی مدد اور تعاون کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ ایسے ہی انسانیت کی خدمت کے ایک کام کے دوران دلدار پرویز بھٹی نے دماغ کی شریان پھٹنے کے سبب دم توڑا تھا۔ وہ 30 اکتوبر 1994ء کو امریکا میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کررہے تھے جب اجل نے انھیں آن لیا۔

    پی ٹی وی کے اس معروف کمپئر نے مختصرعرصے میں عوام کے دلوں میں گھر لیا تھا جس میں ان کی حاضر جوابی اور خوب صورت انداز کا بڑا دخل تھا، وہ تہذیب اور شائستگی کے ساتھ اپنے پروگرام کو اپنی دل چسپ باتوں اور مزاحیہ جملوں کی مدد سے مقبول بنانے کا گر جانتے تھے انھوں نے اپنے برجستہ و چست جملوں اور شائستہ مذاق سے لوگوں کو ہنسنے اور خوب مسکرانے کا موقع دیا۔ دلدار پرویز بھٹی تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے جنھیں بیک وقت اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہی کے مشورے پر پی ٹی وی نے پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کیا تھا اور "ٹاکرا” نامی اس پروگرام سے اپنے فنی سفر کو بھی مہمیز دی۔ "میلہ”، "یادش بخیر”،” جواں فکر ” جیسے مقبول عام پروگرام بھی دلدار پرویز بھٹی کا کارنامہ ہیں۔ ان کا پی ٹی وی سے وابستگی کا سفر 1974ء سے شروع ہوا تھا جو 1994ء میں ان کی وفات تک جاری رہا۔

    دلدار پرویز بھٹی نے تین کتابیں بھی تحریر کیں جن کے نام دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کو اردو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا

    یومِ‌ وفات:‌ ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کو اردو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری کی بدولت نام و مقام بنانے والی نیّر سلطانہ نے ہیروئن سے لے کر معاون اداکارہ تک ہر کردار نہایت عمدگی سے ادا کیا اور شہرت پائی۔ آج اس باکمال اداکارہ کا یومِ‌ وفات ہے۔

    27 اکتوبر 1992ء کو دنیا سے رخصت ہونے والی نیّر سلطانہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ویمن کالج علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے کراچی آگئیں۔

    یہاں ان کا فلم انڈسٹری میں تعارف اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کی بدولت ہوا، نیّر سلطانہ کی ان سے ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیشکش کی تو نیّر سلطانہ نے انکار نہ کیا اور یوں یہ ملاقات ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔

    خوب صورت اور خوش قامت نیّر سلطانہ کو فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا فن و ادب میں ان کی اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے متاثر ہوئے تھے۔ اور بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا نے ان کا انتخاب غلط نہ کیا تھا۔ 50 اور 60 کی دہائی میں‌ وہ ایک مقبول اداکارہ تھیں۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ نیّر سلطانہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا اور اسی بیماری کے ہاتھوں انھوں نے زندگی کی بازی ہاری تھی۔

  • شہرۂ آفاق کتاب “حیاتُ الحیوان” کے مصنّف علّامہ کمال الدّین دمیری کا تذکرہ

    شہرۂ آفاق کتاب “حیاتُ الحیوان” کے مصنّف علّامہ کمال الدّین دمیری کا تذکرہ

    علّامہ کمال الدّین دمیری کی شہرۂ آفاق تصنیف “حیاتُ الحیوان” علمی و تحقیقی کتابوں میں آج بھی سرِفہرست ہے۔ علم و فضل میں‌ ممتاز اس محقّق کو دنیا ماہرِ حیوانات کی حیثیت سے جانتی ہے۔

    دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جو مصر کے علاقے دمیرہ میں‌ 1349ء میں پیدا ہوئے تھے۔ مؤرخین اور محققین نے علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر جو معلومات اکٹھی کیں، ان کے مطابق علّامہ نے قاہرہ میں‌ تعلیم مکمل کی اور جامعہ ازہر میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    مشہور ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک پرہیز گار اور عالم فاضل تھے۔ انھیں‌ کسبِ علم و شوقِ تحقیق نے وہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکّہ میں بھی گزرا اور وہاں‌ بھی وہ درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    عّلامہ دمیری نے تحصیلِ علم کے لیے اپنے وقت کے باکمال اور نام وَر اساتذہ سے استفادہ کیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین طالبِ علم تھے جس نے غور و فکر اور مشاہدے کی پختہ عادت کے سبب ایک زبردست تصنیف یادگار چھوڑی جو جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی اس میں بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب علّامہ کی تحقیق و ریاضت بہترین نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل اور جامع کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کے بارے میں علّامہ دمیری نے علمی و تحقیقی مباحث چھیڑے ہیں۔

    اس جیّد عالم اور اپنے وقت کے عظیم محقق کی تاریخِ وفات 27 اکتوبر 1405ء ہے۔ قاہرہ میں انتقال کرنے والے علّامہ دمیری کو مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • علّامہ عبدالعزیز میمن کا تذکرہ جنھیں ہم نے فراموش کر دیا

    علّامہ عبدالعزیز میمن کا تذکرہ جنھیں ہم نے فراموش کر دیا

    عربی زبان و ادب میں یدِ طولیٰ رکھنے والے علّامہ عبدالعزیز میمن کا نام ایک ثقہ عالم اور استاد کے طور پر عالمی شہرت کا حامل رہا ہے۔

    بدقسمتی کہیے کہ آج پاکستان میں اس نادرِ روزگار شخصیت کے نام اور ان کے کام سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلِ زبان انھیں نہ صرف لغۃُ العربیہ کا امام مانتے رہے ہیں بلکہ یورپی مستشرقین ان کی علمی و تحقیقی بصیرت اور معیار کے معترف ہیں۔

    علّامہ صاحب کا سارا کام تحقیقی نوعیت کا ہے اور نہایت مستند، جامع اور معیاری ہے۔ اس بلند پایہ مصنّف اور عالم نے تمام عمر ستائش اور صلے سے بے نیاز رہ کر کام کیا۔

    پروفیسر علّامہ عبدالعزیز میمن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ پنجاب اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر رہے۔ وہ عربی لغت کی باریکیوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور ان کی عربی دانی کو اہلِ عرب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ عبد العزیز میمن نے 23 اکتوبر 1888ء کو راج کوٹ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ راج کوٹ اور جونا گڑھ سے شروع ہوا اور بعد میں وہ دہلی چلے گئے جہاں اپنے وقت کے جیّد علما اور ممتاز دینی شخصیات کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد سے بھی اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں انھوں نے جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔یہ علّامہ صاحب ہی تھے جن کی کوششوں سے قیامِ پاکستان کے بعد جامعہ کراچی میں شعبۂ عربی قائم ہوا۔ علمی گہرائی، تحقیق و تدقیق اور ذوقِ تالیف و تصنیف علّامہ صاحب کا خاصہ تھا، انھوں نے کئی مقالات سپردِ قلم کیے اور ان کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل متعدد کتابیں ان کی تحقیقی لگن، فکری بصیرت و تعلیمی شعور کا پتا دیتی ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے علّامہ عبد العزیز میمن کو ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    یہ عظیم استاد اور عربی داں 27 اکتوبر 1978ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • خدیجہ گائیبووا جسے صرف پندرہ منٹ میں‌ زندگی سے محروم کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا

    خدیجہ گائیبووا جسے صرف پندرہ منٹ میں‌ زندگی سے محروم کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا

    خدیجہ گائیبووا کے مقدمہ کی سماعت اور اس کا فیصلہ سنانے میں عدالت اپنے 15 منٹ صرف کیے اور اسے موت کی سزا سنا دی۔ فائرنگ اسکواڈ نے 27 اکتوبر 1938ء کو عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے خدیجہ گائیبووا کو ابدی نیند سلا دیا۔

    46 سال کی عمر میں‌ موت کی سزا پانے والی خدیجہ گائیبووا اس زمانے کے آذر بائیجان کی مشہور ماہرِ موسیقی اور پیانو نواز تھی۔ یہ وہ دور تھا جب روس ایک عظیم متحد ریاست تھا، خدیجہ نے جارجیا کے خوب صورت شہر طفلیس (تلبیسی) میں آنکھ کھولی۔ وہ 24 مئی 1893ء کو عثمان مفتی زادے جیسے مسلمان عالم کے گھر پیدا ہوئی تھی۔ والد نے 18 سال کی عمر میں خدیجہ گائیبووا کو بیاہ دیا تھا اور شادی کے بعد خدیجہ مسلمانوں‌ کے ایک مقامی اسکول میں تدریس سے منسلک ہوگئی۔

    خدیجہ نے 1901ء سے 1911ء کے عرصے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پیانو جیسے ساز کو بجانے کی تربیت بھی حاصل کی۔ پیانو اس دور میں ایک مقبول ساز تھا جسے آذربائیجان اور روس بھر میں لوک موسیقی اور تفریحِ طبع کے لیے پسند کیا جاتا تھا۔ خدیجہ نے پیانو پر دھنیں‌ بکھیرتے ہوئے خوب مہارت حاصل کی۔ اس نے مشرقی اور لوک موسیقی کو نئے اور منفرد رجحانات سے متعارف کروایا۔

    خدیجہ گائیبووا اپنے ملک کی پہلی باقاعدہ اور ماہر پیانو نواز تھی جو اس ساز پر ‘مغم’ (موسیقی کی مقامی صنف) چھیڑ کر مقبول ہوئی اور اسے آذربائیجان کی اوّلین باکمال موسیقار کہا جانے لگا۔ موسیقی اور پیانو کی ترویج و فروغ کے لیے خدیجہ نے بہت لگن سے کام کیا۔ وہ ملکی سطح پر فنِ موسیقی فروغ کے ادارے کی بانی کہلائی اور بعد میں اسے آذربائیجان میں مشرقی موسیقی کی تعلیم کے شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں خدیجہ گائیبووا نے لڑکیوں کو پیانو بجانا سکھایا اور انھیں‌ موسیقی اور آرٹ کی تعلیم دی۔ وہاں خدیجہ کی کوششوں سے باقاعدہ میوزک کلاسوں کا اہتمام کیا جانے لگا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب متحدہ روس اور اس خطّے میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔

    انقلابِ روس اور جوزف اسٹالن کی قیادت میں‌ نئی سیاسی و سماجی تنظیم کی تشکیل کا آغاز ہوا تو اپنے مخالفین کی گرفتاریوں اور جاسوسی یا غداری کے الزامات کے تحت انھیں‌ موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔

    خدیجہ گائیبووا ایک فن کار ہی نہیں‌ تھی بلکہ سماج اور سیاست سے متعلق اس کے افکار اور نظریات بھی اسے بے چین رکھتے تھے۔ وہ اپنے حلقۂ احباب اور شاگردوں میں‌ ان کا اظہار بھی کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 1933ء میں اسے انقلابی سرگرمیوں کے الزام تحت گرفتار کر لیا گیا۔ وہ تین ماہ تک نظر بند رہی اور اس عرصے میں خدیجہ پر جاسوسی کا الزام ثابت نہ ہوسکا تو اس کی رہائی کا پروانہ جاری کردیا گیا۔ رہائی کے اگلے ہی سال اسے لوک موسیقی کے ایک محقّق کی حیثیت سے ملازمت بھی مل گئی۔

    اس زمانے میں متحدہ روس میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ وہاں بیرونِ ممالک سے موسیقار، ادیب اور شاعر ہی نہیں دانش وروں اور باشعور لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ یہ لوگ روس کے اس زمانے کے میوزک "سیلون” میں جمع ہوتے تھے جن میں‌ ترکی کے فن کار اور آرٹ کے شائقین بھی شامل تھے۔ سوویت حکام کو یہ اطلاع ملتی رہتی تھی کہ علم و فنون کے فروغ کی آڑ میں‌ کچھ لوگ سیاسی اور قیادت مخالف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بالخصوص ترکی سے آنے والے فن کاروں کا نام سامنے آیا جس کے بعد روسی حکام کے ترکی کی حکومت سے تعلقات میں کچھ بگاڑ آیا۔ روسی جاسوس خدیجہ گائیبووا کی نگرانی کررہے تھے۔ 17 مارچ 1938ء کو گائیبووا کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور اس پر حکومت مخالف جماعت سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کردیا گیا۔ پانچ ماہ تک پوچھ گچھ اور تفتیش جاری رہی جس میں‌ خدیجہ بے قصور ثابت ہوگئی، لیکن اسے رہائی نصیب نہ ہوسکی اور غیرمنصفانہ طریقے سے کارروائی کو بڑھا کر عدالت کے ذریعے خدیجہ سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔

  • اکتارہ سے پھوٹنے والی ترنگ بھی سائیں‌ مرنا کے ساتھ ہی مَر گئی

    اکتارہ سے پھوٹنے والی ترنگ بھی سائیں‌ مرنا کے ساتھ ہی مَر گئی

    برصغیر پاک و ہند میں لوک موسیقی اور فن کاروں‌ کے بارے میں اب صرف کتابوں میں پڑھا جاسکتا ہے اور قدیم روایتی سازوں کو میوزیم میں ایک یادگار کے طور پر ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ سائیں مرنا کا نام بھی رفتگاں کے تذکرے میں اکتارہ کو بڑی نفاست اور مہارت سے حرکت دے کر سماں باندھ دینے کے لیے محفوظ ہے۔ وہ پاکستان میں لوک موسیقی اور ساز و انداز کی دنیا کے ایک باکمال تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    سائیں مرنا کو اکتارہ جیسے روایتی ساز نے ملک گیر شہرت عطا کی تھی۔ ان کا انتقال 27 اکتوبر 1961ء کو ہوا تھا۔ سائیں‌ مرنا کا اصل نام تاج الدّین تھا۔ وہ 1910ء میں امرتسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ مشہور ہے کہ سائیں‌ مرنا نے عشق میں ناکامی کے بعد اکتارہ کو غمِ‌ جاناں‌ اور تنہائی کا کرب مٹانے کے لیے اپنا لیا تھا۔ وہ فقط سازندے نہیں‌ تھے بلکہ اس ساز میں انھوں نے اختراعات بھی کیں اور اسے وچتر وینا کی طرح بجانے لگے۔ اکتارہ بجانے میں ان کو وہ کمال حاصل ہوا کہ سائیں‌ مرنا ملک بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1946ء میں سائیں‌ مرنا کو ریڈیو، لاہور پر پہلی مرتبہ اکتارہ بجانے کا موقع ملا تھا۔ انھیں‌ ریڈیو تک پہنچانے والے محمود نظامی تھے اور ان کی بدولت سائیں مرنا کا فن دنیا کے سامنے آیا۔ اس سے پہلے سائیں مرنا بس اسٹاپوں اور میلوں ٹھیلوں میں اکتارا بجا کر لوگوں‌ کو محظوظ کرتے تھے۔ سائیں‌ مرنا اکثر بزرگانِ دین کے مزارات خصوصاً حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر بھی اکتارا بجاتے نظر آتے تھے۔ اس موقع پر جمع ہونے والے لوگ انھیں‌ اپنی خوشی سے کچھ پیسے دے دیتے تھے اور یوں ان کا گزر بسر ہوتا تھا۔ وہ ایک باکمال اکتارا نواز تھے اور انھیں‌ واقعی سننے والا مسحور ہو کر رہ جاتا تھا۔

    کسی طرح وہ نظامی صاحب کی نظر میں‌ آئے اور انھوں نے سائیں مرنا کو لاہور میں ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ریڈیو کے سامعین لوک موسیقی کے پروگرام بہت شوق سے سنتے تھے اور جب سائیں مرنا نے اس ساز کو بجایا تو ہر کوئی جھوم اٹھا۔ ان کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل گئی۔ انہی دنوں ریڈیو پر آج کا آرٹسٹ کے نام سے نظامی صاحب نے موسیقی کا ایک پروگرام شروع کیا جس میں‌ گلوکار، موسیقار یا کسی لوک فن کار کو مدعو کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ سائیں مرنا کو بھی اس پروگرام کے لیے مدعو کیا گیا مگر وہ مقررہ دن ریڈیو اسٹیشن نہیں‌ پہنچے اور پروڈیوسر نے وقت دیکھا تو گھبرا گیا۔ اس نے نظامی صاحب کو جا کر بتایا تو وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیوں کہ سائیں مرنا کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں‌ تھا۔ انھیں‌ کہاں‌ سے پکڑ کر لایا جاتا اور پروگرام کیا جاتا۔ اس دن کسی اور فن کار کو بلوا کر پروگرام نشر کر دیا گیا۔ دو دن بعد سائیں مرنا لاہور ریڈیو اسٹیشن پہنچے تو اسٹیشن ڈائریکٹر نے انھیں‌ سخت باتیں‌ کہہ دیں۔

    اس ڈانٹ ڈپٹ نے سائیں کو آزردہ کردیا اور وہ بھی اب وہاں دوبارہ نہ آنے کا عہد کر کے پلٹ گئے۔ نظامی صاحب نے بعد میں انھیں‌ کسی طرح منا لیا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ ایک فقیر منش اور سیدھے سادے انسان تھے اور یہ سمجھنا ان کے لیے مشکل تھا کہ وقت مقررہ پر پروگرام کی ریکارڈنگ یا اس کا نشر ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے۔

    یہ لوک فن کار جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔ سائیں مرنا کے ساتھ ہی گویا یہ خوب صورت ساز اور اس کے وجود سے پھوٹنے والی ترنگ بھی ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئی۔

  • گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    ستّر کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں گرو دَت کا چرچا تو خوب ہوا، لیکن جو شہرت انھیں‌ موت کے بعد نصیب ہوئی، وہ زندگی میں ان کا مقدر نہیں بن سکی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح گرو دَت کی موت کی خبر سامنے آئی۔ انھوں نے خود کشی کر لی تھی۔

    خود کُشی سے ایک روز قبل وہ رات گئے تک معروف مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے، لیکن اس رات خود کُشی کے طریقے بھی زیرِ بحث آئے تھے۔ ابرار علوی کی زبانی معلوم ہوا کہ گرو دت نے اس روز کہا تھا کہ زیادہ مقدار میں نیند کی گولیاں پانی میں‌ گھول کر پی جائيں تو خود کُشی کی کوشش میں کام یابی ہوسکتی ہے۔ اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے انھوں نے یہی طریقہ اپنایا۔ گرو دت اپنے بیڈ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

    فلم انڈسٹری میں‌ گرو دت کو ایک باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز اور بہترین اداکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہونے والے گرو دت کا بچپن کلکتہ میں‌ گزرا۔ وہ بیس برس کے تھے جب فلم نگری میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنا سفر شروع کیا۔ انھیں اس آغاز پر گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی تھی۔ گرو دَت کی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ تھی لیکن اس سے پہلے بھی وہ تین فلموں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ کے لیے اپنی صلاحیتوں‌ کو آزما چکے تھے۔

    گرو دت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے سے آگے کی فلمیں بناتے تھے۔ اس کی ایک مثال مسٹر اینڈ مسز 55 ہے جس میں نظر آنے ولے کردار ہمیں آج کی شہری زندگی میں‌ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ گرو دت کی فلم ‘پیاسا’ کو ٹائم ميگزین نے دنیا کی 100 بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

    1970ء میں گرو دَت کی فلموں کا خوب چرچا ہوا اور 1980ء میں ان کا نام ایک فرانسیسی محقّق کے ریسرچ پیپر میں شامل ہوا جس نے گرو دت کو عالمی سطح پر پہچان دی۔ ان کی فلمیں فرانسں اور یورپ کے متعدد شہروں میں منعقد ہونے والے فلمی میلوں میں زیرِ نمائش رہیں۔

    گرو دت کی الم ناک موت کی اطلاع پاکر اپنے وقت کے نام ور فن کار اور فلمی شخصیات جن میں دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس، مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان بھی شامل ہیں، اپنی مصروفیات ترک کر کے ممبئی (بمبئی) پہنچے تھے۔ ہر چھوٹا بڑا فن کار اور فلم نگری سے وابستہ آرٹسٹ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شریک اور غم زدہ تھا۔ گرو دَت 39 سال کے تھے جب انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔

    1951ء میں گرو دت کی فلم بازی ریلیز ہوئی تھی جس نے زبردست بزنس کیا اور یوں 25 برس کی عمر میں ان کے فن و کمال کو سبھی نے تسلیم کیا۔ وہ اپنی فلموں میں‌ اداکاری بھی کرتے رہے اور خود کو اس میدان میں منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اس سے اگلے سال گرو دت نے فلم جال کے لیے ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی جیسی فلمیں‌ بنائیں۔ گرو دت نے اداکارہ وحیدہ رحمان کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کرایا تھا اور ان سے تعلق اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی میں‌ ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ وحیدہ رحمان ان کی فلمی زندگی میں خوش گوار اضافہ تھی، لیکن اسی لڑکی نے فلم ساز کی خانگی زندگی میں وہ طوفان برپا کیا جس میں‌ گرو دت اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    1953ء میں گرو دت نے معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کی تھی۔ اس جوڑے کے یہاں‌ دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی، لیکن وحیدہ رحمان سے گرو دت کے عشق نے ان کی بیوی کو بدظن کر دیا اور وہ بچّوں کو لے الگ رہنے لگی۔ یہ عشق کسی سے چھپا نہ رہ سکا اور اہلیہ سے تلخی اور اس کا گھر چھوڑ دینا اب ایک افسانہ بن گیا تھا۔ وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھا گرو دَت سے دور جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب گرو دَت تنہا رہ گئے تھے۔

    اسی عرصہ میں‌ ان کی ایک فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی اور ہدایت کار کی حیثیت سے گرو دت کو اس کا بڑا قلق ہوا۔ بیوی بچّوں اور پھر وحیدہ کا ان سے دور ہوجانا جہاں ان کی ذہنی حالت پر اثرانداز ہوا تھا، وہیں فلم کی ناکامی نے بھی گرو دَت کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور ان سارے جھمیلوں سے نجات پانے کے لیے گرو دت نے نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

  • ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو کی کہانیاں فنی تراش اور تکمیل کا نمونہ ہیں۔ اس امریکی ادیب کو مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ پو ایک عمدہ شاعر اور تنقید نگار بھی تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ڈراؤنی اور دہشت انگیز کہانیاں‌ تھیں‌۔ اس نے جرم و سزا اور سنسنی خیز واقعات کو بھی کہانیوں میں سمویا جو بہت مقبول ہوئیں۔ وہ مختصر نویسی میں‌ کمال رکھتا تھا۔ 7 اکتوبر 1849ء کو ایلن پو ابدی نیند سوگیا۔

    نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں‌ نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس نے مختصر افسانہ کا ادبی اور فنی روپ نکھارا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی پو اپنے پیروں‌ پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اس کنبے کو چھوڑ دیا اور اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا اور حصولِ تعلیم‌ کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے جامعہ میں‌ یونیورسٹی آف ورجینیا میں‌ داخلہ لیا تاہم یہاں‌ تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ گھریلو ناچاقیوں اور بدمزگیوں کے علاوہ پو اپنے غصّے، عجیب و غریب عادات، بدمزاجی اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ایڈگر ایلن پو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی نے ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔

    اپنے ایسے ہی افسانوں اور مختصر کہانیوں کی بدولت وہ مشہور بھی ہوا اور اپنے موضوعات میں زبردست قوّتِ تخلیق اور خاص تکنیک کے سبب ناقدین سے داد بھی پائی۔

    ایڈگر ایلن پو کو شہرت تو بہت ملی، لیکن بیوی کی اچانک موت اور دوسرے مسائل کے علاوہ بچپن میں‌ والدین سے دوری جیسے معاملات نے اس کے دماغ پر اثرات مرتب کیے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ شراب نوشی وہ مسئلہ تھا جس نے اسے لوگوں اور بیرونی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا اور وہ ڈپریشن کی وجہ سے‌ موت کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ وہ ایک گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔

    پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں‌ نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔