Tag: اکتوبر برسی

  • ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ریمبرانٹ کو دنیا بھر میں‌ ہالینڈ کے سب سے زیادہ مشہور مصوّر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس کی موت کو ساڑھے تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج بھی ریمبرانٹ کا فن اور بالخصوص سیلف پورٹریٹ زیرِ‌ بحث رہتے ہیں۔

    مصوّری کے فن میں‌ اپنی شاہ کار تصاویر کی بدولت نام پانے والے ریمبرانٹ نے 4 اکتوبر 1669ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ فنونِ لطیفہ کے ماہرین اور مصوّری کے نقّاد ریمبرانٹ کو ایک نابغہ تسلیم کرتے ہیں اور اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں دنیا بھر میں ہالینڈ کے کسی اور مصوّر کی تخلیقات اتنی مشہور نہیں ہیں، جتنی کہ ریمبرانٹ کی ہیں۔ وہ اپنے پورٹریٹ بنانے کے لیے بھی مشہور ہے جنھیں اس مصوّر کے کمالِ فن کا شاہ کار مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریمبرانٹ روزانہ کئی گھنٹے اپنی تصویر بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔

    عالمی شہرت یافتہ ریمبرانٹ کی ایک مشہور پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے آج بھی ڈچ شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں موجود ہے۔ اس کی بنائی ہوئی چند دیگر تصاویر دنیا کی بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور شائقین کے ساتھ نوآموز فن کاروں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

    ریمبرانٹ کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان کے مطابق اس کے والد اناج پیسنے والی ایک چکّی کے مالک تھے۔ وہ ہالینڈ کے باسی تھے۔ ریمبرانٹ 1609ء میں پیدا ہوا اور ریمبرانٹ وان رائن کے نام سے زندگی کا سفر شروع کیا۔ اسے شروع ہی سے نقّاشی اور ایسے مختلف فنون سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا جو اسے مصوّری کی طرف لے گئے۔ ریمبرانٹ نے آئل پینٹنگز اور اسکیچز بھی بنائے اور اس میں مختلف تجربات کیے۔

    ماہرین کے مطابق وہ 16 ویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ جب اس نے اپنے ہاتھ میں برش تھاما تو انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تصویروں بنانا شروع کیں‌۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے اس کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبرانٹ کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں‌ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اس کی تصویریں زندہ و متحرک محسوس ہوتی ہیں اور اسی خوبی نے ریمبرانٹ کی شہرت برقرار رکھی ہے۔

    اس مصوّر کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ‌ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔

    فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں‌ جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی اور مؤثر انداز سے پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔

    ریمبرانٹ کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ شاید اسے بہت پسند تھا۔ اس مصوّر نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کر کے فنِ مصوّری میں اپنی مہارت کا اظہار اور مختلف تجربات کیے۔ یہ اس کے زرخیز ذہن اور اس فن میں اس کے جنون کی علامت بھی ہے۔

  • رضیہ بٹ کا تذکرہ جو اپنی کہانیوں میں‌ عورت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہیں

    رضیہ بٹ کا تذکرہ جو اپنی کہانیوں میں‌ عورت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہیں

    چند دہائیوں قبل ہر گھر میں‌ اخبار، مختلف ادبی جرائد اور بچّوں کے رسالے اور ڈائجسٹ وغیرہ بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ رضیہ بٹ اس وقت کی ایک مقبول رائٹر تھیں‌ جن کی رومانوی اور خانگی مسائل پر مبنی کہانیوں نے کثیرالاشاعت ڈائجسٹوں میں جگہ پائی اور انھیں زبردست پذیرائی ملی۔

    آج رضیہ بٹ کا یومِ وفات ہے۔ پاکستان کی اس معروف ناول نگار نے طویل علالت کے بعد 4 اکتوبر 2012ء کو دارِ‌ بقا کی جانب کوچ کیا۔ ان کی عمر 89 برس تھی۔

    1940ء کے عشرے میں لکھنے کا آغاز کرنے والی رضیہ بٹ نے تقسیمِ ہند کے ان واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا جو آنکھوں دیکھے تھے۔ آزادی کے بعد پاکستانی سماج، یہاں خاندانوں میں‌ عورت اور اس کی خوشیاں، دکھ سکھ اور خانگی مسائل ان کی تحریروں میں نمایاں ہوئے اور وہ عورتوں‌ کی پسندیدہ رائٹر بنیں۔ رضیہ بٹ نے ناول بھی لکھے جن کی کُل تعداد 53 ہے۔

    ان کا ناول ’بانو‘ قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس ناول کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا۔

    رضیہ بٹ نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی تھی جو رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور بعد میں ناول انیلہ اور شبو کو بھی بڑے پردے کے لیے فلمایا گیا۔

    4 اکتوبر 2012ء کو وفات پانے والی رضیہ بٹ کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اس مقبول رائٹر کا خاندانی نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا بچپن پشاور میں گزرا۔ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولنے کے سبب وہ مطالعے کی عادی ہوگئی تھیں جس نے ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اُجاگر کیا۔ وہ اسکول کے زمانے میں اردو کی اچھی طالبہ رہیں۔ شستہ اردو اور اپنی تحریروں کی وجہ سے وہ اساتذہ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہیں اور ان کی حوصلہ افزائی اور مسلسل تعریفی کلمات نے رضیہ بٹ کے والد کو اپنی بیٹی پر توجہ دینے پر آمادہ کیا۔ انھیں احساس ہوا کہ رضیہ بٹ تخلیقی جوہر اور زرخیز ذہن کی مالک ہیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ رضیہ بٹ کی اوّلین تحریر ادبی جریدے میں‌ شائع ہوئی اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا آغاز ہوگیا۔

    1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ رضیہ بٹ نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی تحریر کیے۔

    رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے ناولوں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ان میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو نمایاں کرتے ہوئے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی کے ذریعے اصلاح کی کوشش اور راہ نمائی کرتی تھیں۔

  • نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مرگریٹ پیگی مارکوس کو اسرائیل کے فلسطین پر قبضے اور وہاں کے مسلمانوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے سے شدید تکلیف پہنچی تھی جب کہ وہ خود ایک یہودی جوڑے کی اولاد تھیں۔

    ان کی ہم دردیاں فلسطینیوں کے ساتھ تھیں۔ معصوم و نہتے مسلمانوں کی اپنے آبائی علاقوں اور گھروں سے بے دخلی اور یہودی بستیوں کی تعمیر نے انھیں از حد رنجیدہ و ملول کیا۔

    اسی زمانے میں انھیں اسلام سے لگاؤ پیدا ہوا اور ایک روز انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    انھوں نے 23 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولی۔ یہودی گھرانے کی اس لڑکی نے جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو مشہور نو مسلم مستشرق محمد اسد کی روڈ ٹو مکہ اور اسلام ایٹ کراس روڈز اور محمد مارما ڈیوک پکتھال کا کیا ہوا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کو مل گیا اور تب جیسے انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

    1961ء میں انھوں نے لاہور میں مولانا مودودی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ وہ اسلام کے حوالے سے دو درجن سے زائد کتب کی مصنفہ بھی تھیں۔

    انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    قبولَ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو اپنے گھر اور امریکا میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ امریکی شہریت ترک کرکے پاکستان منتقل ہوگئیں اور یہیں‌ زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ان کی کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

  • عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    ہندوستانی فلمی صنعت کو اپنی لافانی موسیقی سے مالا مال کرنے والے سچن دیو برمن پاک و ہند میں ایس ڈی برمن کے نام سے مشہور ہوئے دنیائے موسیقی کا یہ باکمال 31 اکتوبر 1975ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    فلمی نغمات کو اپنی بے مثال دھنوں سے لافانی بنا دینے والے ایس ڈی برمن نے نہ صرف کئی فلموں کو کام یاب بنایا بلکہ کئی شاعروں اور گلوکاروں کی مقبولیت کا سبب بھی انہی کی ترتیب دی ہوئی دھنیں بنیں۔

    ان کے لازوال گیت آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔ ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ وہ تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ انھوں نے 1937ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 100 ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ایس ڈی برمن ایک ورسٹائل موسیقار تھے۔ انھوں نے بنگالی لوک موسیقی میں کئی گیت بھی گائے۔ ان کی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، مناڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی حاصل کی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر گلوکار کی حیثیت سے کام کیا اور ان کا ریکارڈ 1932ء میں ریلیز ہوا۔ بعد کی دہائی میں وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور بنگالی گانے گائے۔

    40 ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے میوزک دیا اور مستقل طور پر ممبئی چلے گئے اور موسیقی پر توجہ دینے لگے لیکن حقیقی معنوں میں 1947ء میں ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت ہر زبان پر تھا، ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں-

    ایس ڈی برمن کے بیٹے آر ڈی برمن کو بھی دنیائے موسیقی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی- ایس ڈی برمن 69 برس کی عمر میں ممبئی میں چل بسے تھے۔

  • یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    1997ء میں آج ہی کے دن پاکستان کی معروف مصوّرہ زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔

    لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 1944ء سے 1946ء تک وہ اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں انھوں نے ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی دور کے فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنٰی بناتی تھی۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ 2006ء میں ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    خواجہ خورشید انور کی دھنوں نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ برصغیر کے اس عظیم موسیقار کی آج برسی ہے۔

    خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے۔ علم و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں انھوں نے ایم اے کیا اور بعد میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی، لیکن انگریز سرکار کے نوکر نہیں بلکہ قیدی بن گئے، کیوں کہ وہ اس زمانے میں انقلابی تنظیم سے وابستہ تھے۔

    بعد میں وہ موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار کے طور پر بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 30 اکتوبر 1984ء کو وفات پائی۔

    مہدی حسن کا ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کی آواز میں ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی گیت خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کی وجہ سے آج بھی اپنے اندر کشش رکھتے ہیں۔

    وہ 21 مارچ 1912 میں میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے استاد توکل حسین خان صاحب سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

    ان کے تخلیقی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں ریلیز ہوئی۔ انھوں نے اس فلم کے بعد لاہور میں مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔

    خواجہ خورشید انور ہدایت کار بھی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں انھوں نے فلم انتظار کے لیے بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔

  • علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    سید رئیس احمد جعفری اردو کے نام وَر صحافی، مؤرخ، ماہرِ اقبالیات، ناول نگار، مترجم اور سوانح نگار تھے۔ انھوں نے تین سو سے زائد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو علم و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    رئیس احمد جعفری 1914ء کو لکھیم پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ندوۃُ العلما، لکھنؤ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگے تھے۔

    1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد ان کی سوانح عمری سیرت محمد علی کے نام سے تحریر کی۔ 1934ء میں مولانا شوکت علی نے انھیں روزنامہ خلافت بمبئی کا مدیر مقرر کیا۔ مولانا شوکت علی کی وفات کے بعد وہ روزنامہ ہندوستان اور روزنامہ انقلاب، لاہور جیسے اخبارات کے مدیر رہے۔

    1949ء میں رئیس جعفری پاکستان چلے آئے اور یہاں بھی علم و ادب سے وابستگی برقرار رکھی۔ مطالعہ اور لکھنا ان اوّلین شوق تھا جب کہ صحافت ان کا پیشہ۔ وہ پاکستان آمد کے بعد کئی اخبارات اور جرائد کے مدیر اور نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    رئیس احمد جعفری کی تصانیف، تراجم اور تالیفات کی تعداد 300 سے زائد ہے جن میں اقبال اور عشق رسول، دیدو شنید، علی برادران، اوراق گم گشتہ، اقبال اور سیاست ملی، واجد علی شاہ اور ان کا عہد، تاریخِ تصوّف، تاریخ دولت فاطمیہ اور بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ دل کے آنسو (افسانے)، تاریخِ خوارج، تاریخِ تصوّف، شہاب الدین غوری، خون کی ہولی (ناول)، اسلام اور رواداری، اسلام اور عدل و احسان جیسی کتب ان کی علم و ادب اور تاریخ سے شغف اور استعداد کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے رئیس احمد جعفری کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    انھوں نے 27 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی اور سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    شہرہ آفاق اور شاہ کار کتابوں میں “حیاتُ الحیوان” آج بھی سرِ فہرست ہے جو علّامہ کمال الدّین دمیری کی تصنیف ہے۔ وہ مصری محدّث، محقّق اور عالم تھے جن کا آج یومَِ وفات ہے۔ تاریخ میں‌ علامہ کمال الدّین دمیری کا نام ماہرِ حیوانات کے طور پر محفوظ ہے۔

    دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جن کا وطن مصر تھا۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے ان کا سنِ‌ پیدائش 1349ء بتایا ہے۔ انھوں نے “دمیرہ” نامی علاقے میں آنکھ کھولی۔ علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر دست یاب معلومات کے مطابق انھوں نے ابتدائی اور اس دور کے مطابق تمام ضروری تعلیم قاہرہ سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ ازہر میں درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔

    وہ اپنے وقت کے ایک پرہیز گار اور عالم فاضل مشہور تھے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکہ میں بھی گزرا اور وہ وہاں‌ بھی درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    عّلامہ دمیری نے مختلف علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کی باکمال اور نام ور شخصیات سے استفادہ کیا۔

    ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف میں جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی نہیں بلکہ ان کی شرعی حلّت، ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی بحث کی گئی ہے جو ان کے علم کا ثبوت اور ان کی تحقیق و ریاضت نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کا ذِکر کیا گیا ہے۔

    تاریخی کتب میں اپنے وقت کے اس جیّد عالم کی وفات کی تاریخ 27 اکتوبر اور سن 1405ء تحریر ہے۔ ان کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • انگریزی زبان کے اوّلین شاعر جیفری چاسر کی مشہورِ زمانہ "پکچر گیلری” کا تذکرہ

    انگریزی زبان کے اوّلین شاعر جیفری چاسر کی مشہورِ زمانہ "پکچر گیلری” کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی کا اوّلین شاعر اور برطانیہ کی ممتاز ترین شخصیت کہا جاتا ہے جس نے انگریزی زبان میں‌ اپنی نظموں اور شاہی دربار میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر منفرد پہچان بنائی۔ چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کے بارے میں عام معلومات بھی بہت کم سامنے آسکی ہیں۔ تاہم اس کی شاعری کو نہایت پُراثر اور اسے اہم ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    اس کا سنِ پیدائش 1340ء بتایا جاتا ہے جب کہ وفات 1400ء میں ہوئی۔ اس کے کتبے پر تاریخِ وفات 25 اکتوبر درج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک معمولی تاجر کا بیٹا تھا، جس کے والد کو 1349ء میں پھیلنے والی طاعون کی وبا میں اپنے قریبی عزیز کی موت کے بعد اس کے جائیداد یا بڑی رقم ورثہ کے طور پر ملی جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

    جیفری چاسر نے اس زمانے میں شاہی ملازمت حاصل کرلی اور اپنی ذہانت اور لیاقت سے ترقی کرتے کرتے شاہ ایڈورڈ سوم کے دربار میں بڑا اثر رسوخ حاصل کرلیا۔ اسی زمانے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہور سو سالہ جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ میں چاسر نے سپاہی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔

    وہ ایک پڑھا لکھا شخص اور شاعر تھا۔ اسے فرانسیسی، اطالوی، لاطینی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور اس قابلیت کی بنا پر اسے دو دفعہ اٹلی میں سفیر کے طور پر بھیجا گیا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اسی دور میں وہ اٹلی کے اس دور کے قومی شاعر بوکیچیو سے ملا جس کی نظموں اور افکار نے چاسر کو متاثر کیا اور بعد میں اس نے بھی انگلستان لوٹ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ اس کی شاعری کی خاص بات اپنے زمانے سے مطابقت ہے۔

    چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو چودھویں صدی کے برطانیہ کی حقیقی معنوں میں عکاس کہا جاتا ہے۔ یہ نظم پکچر گیلری کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی تاریخ کا رسیا چودھویں صدی کے بارے جاننا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ ایک نظم ہی اس کے لیے کافی ہوگی۔ اس نظم کے انتیس کردار ہیں جو درحقیقت اس دور کے جیتے جاگتے لندن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ نظم اس لحاظ سے منفرد اور بے مثال ہے کہ اس میں شاعر نے ہر میدان، پیشے اور گروہ کا کم از کم ایک نمائندہ کردار بنا کر پیش کیا ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کو انگلستان میں بے پناہ مقبولیت اور شاہی دربار میں وہ حیثیت اور مرتبہ حاص ہوا جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ 1374ء میں اس وقت کے حکم ران ایڈورڈ سوم نے چاسر کے لیے زندگی بھر کے لیے وظیفہ مقرر کردیا۔

    جیفری چاسر نے سیاست کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا اور 1386ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ اسے وفات کے بعد لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا جہاں کئی نام ور ادیب مدفون ہیں۔

  • مشہور لوک فن کارہ زرینہ بلوچ کا تذکرہ جو جیجی کے نام سے معروف تھیں

    مشہور لوک فن کارہ زرینہ بلوچ کا تذکرہ جو جیجی کے نام سے معروف تھیں

    زرینہ بلوچ وادیِ مہران کی مشہور گلوکارہ، ادیب، سیاسی و سماجی کارکن اور دانش وَر تھیں جنھیں جیجی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کی حامل زرینہ بلوچ نے طویل علالت کے بعد 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پائی۔ ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی خوشی کی تقریبات اور تہواروں پر سنے جاتے ہیں۔

    زرینہ بلوچ دسمبر 1934ء کو حیدر آباد کے نواحی علاقے الٰہ داد گوٹھ میں پیدا ہوئیں۔ وہ سریلی آواز کی مالک تھیں۔ والد نے بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور زرینہ نے لوک گیت گانے اور گائیکی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا، بعد میں‌ ان کی آواز ریڈیو پاکستان کے ذریعے ملک بھر میں سنی گئی اور انھیں نام و پہچان ملی۔

    ہونہار زرینہ بلوچ کو نام وَر فن کار اُستاد جمن کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد اپنے فن کو مزید نکھارنے کا موقع ملا اور جب 1960ء میں ریڈیو پاکستان کے حیدر آباد اسٹیشن نے گلوکاری کا مقابلہ منعقد کیا تو زرینہ بلوچ بھی اس میں شریک ہوئیں۔ انھیں مقابلے کے 600 شرکا میں‌ سے اوّل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس مقابلے کے بعد ان کی شہرت اور گلوکاری کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا اور وہ پاکستان ٹیلی ویژن تک پہنچیں اور ان کی آواز ناظرین و سامعین تک پہنچی، انھوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔

    زرینہ بلوچ نے ادب بھی تخلیق کیا اور ان کی متعدد کہانیاں اور افسانے سندھی ادب کا خوب صورت حصّہ بنیں۔

    زرینہ بلوچ نے سندھی اور بلوچی زبانوں کے لوک گیتوں کو اپنی آواز دے کر گویا ایک نئی زندگی بخشی۔ انھوں‌ نے شیخ ایاز، استاد بخاری، تنویر عباسی، گل خان نصیر کے علاوہ فیض احمد فیض اور احمد فراز کی اُردو شاعری کو بھی اپنی سریلی آواز دی اور مقبولیت حاصل کی۔

    زرینہ بلوچ نے سندھ کے معروف سیاست داں اور عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو سے شادی کی تھی۔ وہ سیاسی اور سماجی شعور کی حامل ایسی فن کار تھیں جنھوں نے ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں بھی حصّہ لیا اور ضیا دور میں دو سال قید بھی کاٹی۔

    پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ زرینہ بلوچ نے فن و ادب کی خدمت پر شاہ لطیف ایوارڈ، سچل اور قلندر لعل شہباز ایوارڈ حاصل کیے تھے۔