Tag: اکتوبر فوتیدگی

  • جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    بدر منیر کراچی میں رکشہ چلاتے تھے۔ وہ صرف سنیما اور فلم کے دیوانے نہیں تھے، خود بھی اداکار بننا چاہتے تھے۔ یہ ان کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر ملنا آسان نہ تھا۔

    بدر منیر نے ایک روز رکشہ چھوڑ کر کار ڈرائیور بننے کی ٹھانی، لیکن یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ فلم اسٹار وحید مراد کے فلمی دفتر پہنچ گئے۔ وہاں‌ بدر منیر نے ڈرائیور کے طور پر ادارے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، لیکن اس وقت ڈرائیور کی ضرورت نہیں‌ تھی۔ بدر منیر کو دفتر میں چائے بنانے اور چھوٹے موٹے کام انجام دینے کے لیے رکھ لیا گیا۔

    1966ء کی بات ہے جب وحید مراد کی فلم ’ارمان‘ سُپر ہٹ ہوئی تو بدر منیر نے مالک کو اس کی کام یابی پر خوش دیکھ کر اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اور وحید مراد نے کچھ عرصے بعد انھیں فلم ’جہاں ہم وہاں تم‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دِلوا دیا۔

    اس فلم کے بعد دو تین برس تک بدر منیر نے مزید فلموں‌ میں‌ چھوٹے موٹے کردار نبھائے اور 1970ء میں ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ انھیں‌ پشتو فلموں‌ کے ہیرو کے طور پر بے مثال شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ انھوں نے اس سال پشتو فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ میں‌ مرکزی کردار نبھایا جو پاکستان میں اس زبان میں‌ بننے والی اوّلین فلم تھی۔

    بدر منیر نے ساڑھے چار سو سے زیادہ پشتو اور اردو فلموں میں کام کیا۔ وہ پشتو فلم کی معروف ہیروئنوں کے ساتھ پردے پر نظر آئے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ اگرچہ بدر منیر پشتو اداکار کی حیثیت سے مشہور ہیں‌ ہے، لیکن اردو فلموں کے شائقین نے بھی انھیں پسند کیا۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری سے نام و مقام بنایا اور ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار کو نہایت خوبی اور کمال سے نبھایا۔ آج نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔

    اس اداکارہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئیں۔

    نیّر سلطانہ نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کے کہنے پر قدم رکھا جن سے نیّر سلطانہ کی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں نیّر سلطانہ نے بڑے پردے پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت اور خوش قامت تھیں۔ وہ ایسی فن کار تھیں جنھیں فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا ان کی فن و ادب میں اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے پہلی ہی ملاقات میں بہت متاثر ہوئے تھے۔ بعد کے برسوں میں ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا کا انتخاب غلط نہ تھا۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • سندھ کے لوک گلوکار سہراب فقیر نے بیرونِ ملک بھی اپنی آواز کا جادو جگایا

    سندھ کے لوک گلوکار سہراب فقیر نے بیرونِ ملک بھی اپنی آواز کا جادو جگایا

    سندھ کے معروف لوک گلوکار سہراب فقیر نے 23 اکتوبر 2009ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ خاصے عرصے سے بیمار تھے جب کہ فالج نے ان سے وہ آواز بھی چھین لی تھی، جس نے ملک اور بیرونِ‌ ملک صوفیانہ کلام اور لوک گائیکی کے شائقین کو ان کا مداح بنایا تھا۔

    سہراب فقیر کا اصل نام سہراب خاصخیلی تھا۔ وہ 1934ء میں خیرپور میرس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہمل فقیر بھی اپنے وقت کے نام ور گائیک تھے۔ انہی سے سہراب فقیر نے گائیکی کی ابتدائی تربیت حاصل کی اور پھر پٹیالہ گھرانے کے معروف استاد خان صاحب کیتے خان کے شاگرد ہوگئے اور راگ کے ساتھ ساتھ طبلہ بجانا بھی سیکھا۔

    1974ء میں استاد منظور علی خان کے کہنے پر سہراب فقیر نے گائیکی کا آغاز کیا۔ وہ سچل سرمست، شاہ لطیف بھٹائی، سلطان باہو اور بابا بلھے شاہ کا کلام والہانہ انداز میں گاتے تھے جس نے انھیں مقبول لوک گلوکار بنا دیا۔

    سہراب فقیر نے متعدد ممالک میں اپنے فن کا جادو جگایا اور کئی اعزازات حاصل کیے جن میں سچل ایوارڈ، قلندر ایوارڈ، لطیف ایوارڈ اور ریڈیو خیرپور کے ایوارڈز سرفہرست ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اس فن میں خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    سہراب فقیر کو سائیں سچل سرمست کا کلام خصوصاً سنگ گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے آٹھ برس کی عمر سے صوفیوں کا کلام گانا شروع کیا تھا اور ساری زندگی اپنے اس محبوب مشغلے کو جاری رکھا۔ وہ اپنے فن پر اپنی گرفت اور مہارت کے لیے بھی مشہور تھے اور اور یہی وجہ تھی کہ ثقافتی طائفہ کے ساتھ انھیں ضرور بیرونِ ممالک بھیجا جاتا تھا۔ انھوں نے برطانیہ، بھارت، ناروے، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    سہراب فقیر سندھی، سرائیکی، پنجابی اور اردو زبانوں میں گاتے تھے۔ سندھی ثقافت کے روایتی رنگ ان کے ملبوس، گلے کی مالا، اجرک، پگڑی کی صورت جھلکتے تھے جب کہ صوفیانہ کلام اور لوک گائیکی کے لیے اسٹیج پر وہ اپنے ساتھیوں کے درمیان روایتی سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ نظر آتے جو خاص طور پر بیرونِ ممالک حاضرینِ محفل کے لیے باعثِ کشش بنتا تھا۔

  • ماضی کی معروف اداکارہ سلونی کی برسی

    ماضی کی معروف اداکارہ سلونی کی برسی

    27 نومبر 1964ء میں ‘غدار’ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی اور فلم کے ساتھ ہی سلونی کا انڈسٹری اور شائقینِ سنیما سے تعارف ہوا۔ 1970ء میں سلونی کے مداحوں کو اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ انھوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی، مگر ڈاکٹروں نے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا ہے۔

    اداکارہ سلونی کو اپنے دور کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار باری ملک سے محبّت ہوگئی تھی اور عشق میں ناکامی پر دلبرداشتہ ہوکر انھوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ باری ملک نے اس واقعے کے بعد سلونی سے شادی کرلی اور کاروبار کے سلسلے میں 25 برس متحدہ عرب امارات میں اپنی اہلیہ سلونی کے ساتھ گزارے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کی معروف اداکارہ سلونی نے 15 اکتوبر 2010ء کو یہ دنیا چھوڑ دی۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کی برسی ہے۔

    1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اداکارہ نے فلم نگری میں‌ خود کو سلونی کے نام سے متعارف کروایا۔ انھیں مشہور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم میں سائڈ رول کے لیے منتخب کیا تھا، لیکن اس فلم کی ریلیز سے قبل 1964ء میں اداکارہ سلونی کی ایک اور فلم ’’غدار‘‘ سنیما کے پردے پر سج گئی اور یوں یہی فلم اس اداکارہ کا شائقین سے پہلا تعارف ثابت ہوئی۔

    سلونی نے اپنے فلمی کیریئر میں 67 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 36 اردو اور 31 فلمیں تھیں۔ اداکارہ کی مقبول فلموں میں کھوٹا پیسا، عادل، باغی سردار، حاتم طائی، درندہ، چن مکھناں، دل دا جانی، لٹ دا مال، بالم، چھین لے آزادی سرفہرست ہیں۔

    فلم انڈسٹری کی سلونی نے کراچی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ یہاں اپنی ایک صاحبزادی کے ہاں مقیم تھیں اور علالت کے سبب ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔ ان کا جسدِ خاکی لاہور لے جایا گیا اور وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • گلوکار کشور کمار کا تذکرہ جنھیں کئی سال تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

    گلوکار کشور کمار کا تذکرہ جنھیں کئی سال تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

    کشور ایک ایسے گلوکار تھے جو اپنے عہد میں ایک خوب صورت آواز بن کے ابھرے اور امر ہو گئے۔

    بالی وڈ کے گانوں کو اپنی آواز دینے والے مقبول ترین گلوکار کشور کمار 13 اکتوبر 1987ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کشور کمار کے 70 اور 80 کی دہائی میں گائے گئے رومانوی گانے آج بھی ان کے مداحوں کی سماعتوں میں تازہ ہیں۔

    1946ء میں گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھنے والے کشور کمار نے اپنے کریئر میں سیکڑوں گیت گائے۔ تاہم ممبئی کی فلمی صنعت میں بطور گلوکار اپنا سفر شروع کرنے اور اس وقت کی مشہور اور مقبول ترین آوازوں کے درمیان جگہ بنانے کے لیے انھیں‌ بہت محنت کرنا پڑی اور اس نگری میں انھیں عظیم موسیقاروں نے مسترد کردیا تھا۔

    یہ بھی حققیت ہے کہ وہ کلاسیکی گائیکی سے ناواقف تھے، لیکن پھر ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جس میں انھوں نے کئی ایوارڈ اپنے نام کیے اور مقبولیت کی انتہا کو چھو لیا۔

    کشور بنگالی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام ابہاس کمار گنگولی تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1929ء تھا۔ ان کے بڑے بھائی فلمی دنیا کے معروف اداکار اشوک کمار تھے جن کی بدولت انھیں سب پہلے 1946ء میں فلم شکاری میں گیت گانے کا موقع ملا۔

    پلے بیک سنگنگ کے علاوہ کشور کمار نے متعدد فلموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے جوہر بھی دکھائے، کئی فلموں میں موسیقی بھی دی، گلوکاری میں مخصوص انداز سے یوڈیلینگ کرنا ان کا منفرد انداز تھا۔

    ان کے گائے ہوئے گانوں پر اپنے وقت کے سپر اسٹارز نے پرفارمنس دی اور نام کمایا۔ کشور کمار کو مجموعی طور پر 27 بار فلم فیئر کے بہترین گلوکار ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا اور آٹھ مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔

    کلاسیکی موسیقی کی تربیت نہ ہونے کے باوجود انھوں نے سنہ 1981ء میں راگ شیورنجنی میں جس طرح ‘میرے نیناں ساون بھادوں…’ اور راگ یمن میں لطیف انداز میں ‘چُھو کر میرے من کو’ گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ان کی آواز میں یہ مقبول ترین گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے، ’میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا،‘ ’او ماجھی رے دریا کا دھارا،‘، ’بڑی سونی سونی ہے زندگی یہ زندگی۔‘

    اداکاری، گلوکاری اور ہدایت کاری کے علاوہ کشور کمار کو شاعری کا بھی شوق تھا۔ وہ ایک اچھے پینٹر اور آرٹسٹ بھی تھے۔

  • پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستان کے نام وَر فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا 1987ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ادیب اور مترجم بھی جس نے فلم نگری سے مکالمے لکھ کر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    انور کمال پاشا کا تعلق لاہور کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم محمد شجاع کا شمار اردو کے مشہور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کئی کہانیوں پر برصغیر کے باکمال ہدایت کاروں نے فلمیں بنائیں۔

    انور کمال پاشا کو اپنے والد کی وجہ سے شروع ہی سے اردو زبان و ادب کا بھی شوق رہا۔ انھوں نے مشہور ناول گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    وہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا میں آئے تھے اور یہاں فلم ’’شاہدہ‘‘ کے مکالمے لکھ کر انڈسٹری سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد بطور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنے والد کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ پر ’’دو آنسو‘‘ نامی فلم بنائی۔ یہ 1950ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب ثابت ہوئی۔

    بعد میں انور کمال پاشا نے غلام، قاتل، سرفروش، چن ماہی اور انار کلی جیسی فلمیں بنائیں جنھیں زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں دلبر، رات کی بات، انتقام، گمراہ، لیلیٰ مجنوں شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار کو ان کی فلم ’’وطن‘‘ کی کہانی کے لیے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1981ء میں انور کمال پاشا کو ان کی تیس سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد اس کا مقدر بنی۔ انھوں نے خود کشی کرلی تھی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح وہ اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے تھے۔

    1970ء کی دہائی میں گرو دت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق نے کی گرو دت پر ریسرچ شایع ہوئی تو اسے دنیا بھر میں‌ پہچان مل گئی۔ بعد کے برسوں میں گرودت کی فلمیں فرانس میں اور یورپ کے دیگر شہروں میں منعقدہ میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

    وہ ہندوستان کے نام وَر اور باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہوئے۔

    گرو دت بیس برس کی عمر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ بھی کی تھیں۔

    گرو دت کی بمبئی میں خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی تھی۔ دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے فن کار خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر بمبئی پہنچ گئے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار، آرٹسٹ غم زدہ تھا۔ وہ 39 سال کے تھے جب اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

    1951ء میں فلم نگری نے کئی خوب صورت اور یادگار فلمیں‌ ریلیز کی تھیں جن میں گرو دت کی فلم بازی بھی تھی جس نے اچھا خاصا بزنس کیا اور محض 25 برس کی عمر میں انھیں ایک باکمال ہدایت کار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ انھوں نے اپنی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا جو اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔

    1953ء میں گرو دت معروف سنگر گیتا دت سے شادی کرچکے تھے اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، لیکن وحیدہ رحمان کی وجہ سے اس کی خانگی زندگی میں گویا زہر گھل گیا۔

    گرو دت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ تب وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھ کر گرو دت سے دوری اختیار کر لی اور یوں گرو دت بالکل تنہا رہ گئے۔

    اسی زمانے میں‌ گرو دت نے ایک فلم بنائی جو ناکام ہوگئی جس کا ہدایت کار کو شدید صدمہ ہوا۔ کہتے ہیں اس فلم کی ناکامی نے انھیں‌ توڑ کر رکھ دیا۔

    ایک روز انھوں نے وافر مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی۔

  • شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان و ادب میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ انھیں تدوین و تالیف، تراجم، تنقید اور ان کے تحقیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    لسانیات اور اصطلاحات کے میدان میں ان کی وقیع و مستند کاوشوں نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ آج شان الحق حقّی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    شان الحق حقّی کے علم و ادب ذوق و شوق نے انھیں لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں میں وہ مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے، پاکستان میں محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیراللسان محقق تھے۔

    اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری بھی مرتّب کی تھی۔

    تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جس نے متنوع اور ہمہ گیر تخلیقی کام کیا۔

    1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے کا اہم کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری حقی صاحب تھے۔ انھوں نے کتابیں اور دیگر مواد جمع کرنے سے لے کر اسٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دل جمعی اور محنت سے سرانجام دیے۔ تاہم بعض اختلافات کی وجہ سے لغت کی تیّاری سے قبل ہی بورڈ کو خیرآباد کہہ دیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔

    ان کی تیارکردہ کتاب فرہنگِ تلفظ اپنی مثال آپ ہے۔ تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔

    بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں لکھنے کے ساتھ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے علمی مضامین الگ ہیں جب کہ کتابوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

    شان الحق حقی کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

    بعد میں وہ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو جگر کے عارضے کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

    شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع تھا۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • برصغیر کے نام وَر موسیقار استاد جھنڈے خان کا تذکرہ

    برصغیر کے نام وَر موسیقار استاد جھنڈے خان کا تذکرہ

    جھنڈے خان برصغیر کے استاد موسیقار تھے جن کی خوب صورت بندشیں اور مدھر دھنیں ان کی لازوال فنی اختراع ہیں۔ استاد جھنڈے خان 1952ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    جھنڈے خان کا اصل نام میاں غلام مصطفٰی تھا۔ وہ 1866ء میں جمّوں کے ایک گاؤں کوٹلی اوکھلاں میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کا شوق ایسا تھا کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کی خاطر انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا۔ بعد میں بمبئی سکونت اختیار کی جہاں اس زمانے میں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے باکمال فن کاروں چھجو خان، نذیر خان اور خادم حسین خان کی صحبت میں رہے اور ان سے اکتساب کیا۔ وہ ہندوستان میں تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور ان کے لیے دھنیں اختراع کرتے رہے۔

    ہندوستان میں ناطق فلمیں بننے لگیں تو جھنڈے خان نے تیس سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کا ایک فنی کرشمہ فلم ’’چتر لیکھا‘‘ کی تمام دھنیں ایک ہی راگ (بھیرویں) میں ترتیب دینا تھا۔ سُر ایک ہی تھے لیکن ان کے زیر و بم میں تنوع کے باعث محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ایک ہی راگ سماعت کررہا ہے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ آگئے تھے اور وہیں وفات پائی۔

    استاد جھنڈے خان کو رجحان ساز اور زبردست اختراع کار موسیقار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے دور میں فلمی موسیقی کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا۔

  • ممتاز ادیب، فکشن نگار اور نقّاد ڈاکٹر انیس ناگی کا تذکرہ جو تلخ گو مشہور تھے

    ممتاز ادیب، فکشن نگار اور نقّاد ڈاکٹر انیس ناگی کا تذکرہ جو تلخ گو مشہور تھے

    اردو ادب میں ڈاکٹر انیس ناگی فکشن نگار، نقّاد اور شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    ’زوال‘ اور ’دیوار کے پیچھے‘ ان کے اہم ناول شمار کیے جاتے ہیں۔ 10 ستمبر 1939ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے انیس ناگی کا خاندانی نام یعقوب علی تھا۔

    انیس ناگی نے ناولوں کے علاوہ شعری اور تنقیدی مضامین کے مجموعے، شعری اور نثری تراجم یادگار چھوڑے۔

    وہ ساٹھ کی دہائی میں ’نئی شاعری‘ کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا۔ انھوں نے تجربات کیے اور اس تحریک میں ان کے ساتھ افتخارجالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار و دیگر بھی شامل ہوگئے۔

    ڈاکٹر انیس ناگی کو اپنے ہم عصروں میں اس لیے امتیاز حاصل ہے کہ وہ تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ نظری اور فلسفیانہ اساس بھی فراہم کرتے رہے۔ انیس ناگی کا ایک اہم کام ان کے شعری تراجم ہیں۔

    کہتے ہیں کہ وہ لگی لپٹی رکھنے کے عادی نہ تھے۔ انھوں نے جو سچ جانا اور جیسا درست سمجھا، اسے بیان کرنے میں کسی کی ناراضی اور تعلق کو نقصان پہنچنے کی پروا نہ کی۔ ان کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ تلخ گوئی ان کا شیوہ ہے۔

    انھیں لاہور میں اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔