Tag: اکتوبر فوتیدگی

  • یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصوّر احمد پرویز 1979ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں تجریدی مصوّر کے طور پر شہرت ملی۔

    احمد پرویز 7 جولائی 1926ء کو راولپنڈی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ سینٹ جوزف کالج اور گورڈن کالج راولپنڈی میں مکمل کیا۔ وہ ایک سیماب صفت انسان تھے جن کی زندگی والدین کی علیحدگی اور دوسرے عوامل کے سبب متاثر ہوئی تھی اور خود انھوں نے بھی تین شادیاں کیں جو ناکام رہیں۔ یوں احمد پرویز کی ذاتی زندگی بھی ذہنی دباؤ اور کرب میں گزری۔

    شراب نوشی نے انھیں اور ان کے اہلِ‌ خانہ کو مشکل سے دوچار کردیا تھا، وہ گھر اور آسائشوں سے دور ہوتے چلے گئے اور زندگی میں تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ بعد میں بھی دوسری شادیاں ایسے ہی حالات کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ تاہم انھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا اور دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1952ء میں احمد پرویز کے فن پاروں کی پہلی نمائش جامعہ پنجاب لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہلِ فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک وہ لندن میں قیام پذیر رہے اور 1966ء سے 1969ء تک امریکا کے شہر نیویارک میں وقت گزارا۔ اس دوران ان کا بڑے بڑے آرٹسٹوں اور آرٹ سے تعلق برقرار رہا۔ اس سے قبل بھی بیرونِ ملک رہتے ہوئے انھوں نے غیرملکی فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا تھا اور تجریدی مصوّری میں ایک علٰیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک کہلائے۔

    زندگی کے آخری دورمیں انھوں نے اپنے لیے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ اس پر انھوں نے لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ احمد پرویز کی مصوّری کی پہچان تیز اور شوخ رنگ تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اس باکمال مصوّر کو 1978ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

    رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

    رضیہ بٹ کی رومانوی اور گھریلو موضوعات پر مبنی کہانیاں اس زمانے میں بہت مقبول ہوئیں جب تقریباً ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔

    مصنّفہ کی کہانیوں کا مرکزی کردار بھی یہی عورت اور اس کی گھریلو زندگی تھی جسے انھوں نے اپنے ناولوں کے رومانوی کرداروں کے ذریعے بڑی خوبی سے پیش کیا۔

    رضیہ بٹ نے 1940ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند کے چشم دید واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے۔ ان کے ناولوں کی کُل تعداد 53 ہے۔

    ’بانو‘ وہ ناول تھا جو قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا اور اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس ناول کی ڈرامائی تشکیل کے بعد اسے ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔

    انھوں نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی جو انہی کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور رضیہ بٹ کے ناول انیلہ اور شبو پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے بھی ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔

    پاکستان کی یہ مشہور ناول نگار اور کہانی نویس 89 برس کی عمر میں 4 اکتوبر 2012ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رضیہ بٹ کی ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا زیادہ تر بچپن پشاور میں گزارا۔ چوں کہ انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا، تو مطالعے کا شوق بھی رہا جس نے انھیں بھی لکھنے لکھانے پر اکسایا۔ گھر کے ماحول اور مطالعے کے شوق نے انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع دیا اور اسکول کے زمانے میں ہی انھوں نے اردو کے مضمون میں اپنے معیاری مضامین اور تحریروں کی وجہ سے اساتذہ کی توجہ حاصل کرلی۔

    اساتذہ کی تعریفوں کے ساتھ ان کے والد کو بھی احساس ہوا کہ ان کی بیٹی زرخیز اور تخلیقی ذہن کی حامل ہے اور انھوں نے رضیہ بٹ کی بہت حوصلہ افزائی اور راہ نمائی۔ یوں ان کی اوّلین تحریر ایک ادبی جریدے تک پہنچی اور شائع ہوئی اور ان کا ادبی سفر شروع ہو گیا۔

    1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ انھوں نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی لکھے۔

    رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔

  • یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    استاد امراؤ بندو خان نے اپنے والد کی طرح موسیقی کے ابتدائی اسباق اور تربیت اپنے ماموں اُستاد چاند خان سے لی تھی۔ یہ اسباق کلاسیکی گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں کے تھے۔

    اس طرح استاد امراؤ بندو خان کو ان خوش نصیبوں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے جو گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں میں مہارت رکھتے تھے۔

    استاد امراؤ بندو خان کی پیدائش 1915ء کی تھی اور 4 اکتوبر 1979ء ان کا یومَ وفات ہے وہ برصغیر پاک و ہند کے نامور گائیک اور سارنگی نواز کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کے والد ہندوستان کے نام ور کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز استاد بندو خان تھے جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔

    امراؤ بندو خان بھی موسیقی اور آواز، راگ راگنیوں اور سازوں کے شیدائی نکلے۔ ان کی سارنگی نوازی میں اپنے والد کی جھلک نظر آتی تو گائیکی میں استاد چاند خان کی۔

    وہ آل انڈیا ریڈیو کے مُستند گائیک تھے، لیکن 1958ء میں پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں میوزک ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔

    استاد امراؤ بندو خان 1958ء سے لے کر اپنی وفات 1979ء تک ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور موسیقار، کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز وابستہ رہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 1981ء میں بعد از مرگ تمغا حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوکر اپنی مدھر آواز کا جادو جگانے والے مسعود رانا 2005ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اس عظیم گلوکار کا فنی سفر تین عشروں پر محیط ہے جس میں انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ایسے گیت جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور مسعود رانا کی آواز بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ء میں بننے والی فلم انقلاب سے ہوا۔ انھوں نے بہت جلد اردو اور پنجابی کے نام وَر گلوکاروں کے درمیان اپنی پہچان بنا لی اور انڈسٹری میں ان کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

    مسعود رانا کو پاکستان فلم انڈسٹری کا مکمل اور ورسٹائل گلوکار کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے فلم ساز ضرور اپنی فلم کے لیے ان سے رابطہ کرتے تھے۔

    مسعود رانا نے اپنے فنی کیریئر میں 700 سے زائد گانے ریکارڈ کرائے اور ساتھی گلوکاروں کے ساتھ ان کے دو گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے بڑے اور نام ور گلوکاروں کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگایا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ مسعود رانا نے چند پاکستانی فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    ان کے مشہور اردو گانوں میں فلم آئینہ کا گانا ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ فلم بدنام کا گانا ’کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے‘ فلم چاند اور چاندنی کا گانا ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ اور دیگر مقبول گانے شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔

    مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا کو ان کی اسی خوبی نے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔

  • میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    ہندوستان میں حلقہ اربابِ ذوق کا قیام اور ترقّی پسند تحریک کے شور میں کئی نام سامنے آئے جنھوں نے گلستانِ ادب کو نئی فکر، نظریے کے ساتھ اپنے منفرد اسلوب، اندازِ بیان، جدید لب و لہجے اور نئے آہنگ کے ساتھ ایسی تخلیقات سے سجایا جس میں عصری شعور کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ یوں کہیے کہ ادب میں یک رنگی کا دور گیا اور انسان کو اس کی کلیّت کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کا آغاز ہوا۔

    اسی زمانے میں ادب میں صنفِ‌ سخن کی بات کی جائے تو شعرا نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مرّوجہ تصوّر کو بھی تبدیل کردیا۔ شعری موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیئت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور آزاد نظم کو مقبولیت ملی۔ آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میرا جی “ کا بھی ہے جو فن و ادب میں تو یگانہ و ممتاز شخصیات میں شمار ہوئے، لیکن اپنی عادات اور اوصاف میں بدنام ہوئے۔ ان سے اکثر ادیب و شاعر بھی کتراتے اور میل جول میں‌ محتاط رہتے۔ تاہم انھیں اپنی رسوائی عزیز رہی اور وہ بدنامی اور لعن طعن سے بے نیاز اپنی ڈگر پر قائم رہے۔

    جدید نظم نگاری اور اردو شاعری میں بڑا نام و مقام پیدا کرنے والے میرا جی کی زندگی کا سفر 38 برس پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنی کج روی، بلا نوشی اور بے اعتدالیوں سے زندگی کو بہت مختصر کر لیا تھا۔ خود کو تماشا بنا کر رسوائیوں کو سینے سے لگائے ان کی عمرِ عزیز کے چند برس لاہور میں، تین چار سال دہلی میں اور آخری تین چار برس بمبئی میں خواری اور بدحالی کے عالم میں گزرے۔

    میرا جی 3 نومبر 1949ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کی ذہنی و جسمانی حالت اور کیفیت کو دیکھتے ہوئے انھیں جنسی اور نفسیاتی مریض بھی کہا گیا اور ان کی اس حالت کا ذکر ان کے ہم عصروں نے کیا ہے۔ میرا جی کی بد قماشیوں اور بدکاریوں کی داستانیں منٹو، اخلاق احمد، قیوم نظر، سلیم احمد نے تو بیان کی ہی ہیں، خود میرا جی نے خود کو سچّا، کھرا اور بے باک ثابت کرتے ہوئے اپنی قبیح عادات اور زندگی کے ناپسندیدہ پہلوؤں پر لکھا ہے۔

    میرا جی کے فنی سفر کی بات کریں تو انھوں نے ابتدائی دور میں‌ سامری کا تخلص اپنایا، لیکن بعد میں میرا جی کے نام سے شہرت پائی۔‌

    میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔‌ وہ 1913ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا مستند اور مضبوط حوالہ ان کی نظم گوئی ہے۔ کم عمری ہی میں‌ شاعری کا آغاز کرنے والے میرا جی نے نظم کے میدان میں متعدد تجربات بھی کیے اور اس صنفِ سخن کو منفرد انداز اور نئے موضوعات دیے۔

    ان کے والد ریلوے میں‌ انجینئر تھے جن کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا جہاں وہ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ اسی نسبت سے انھوں‌ نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا۔ وہ ترقی پسند تحریک کا زمانہ تھا اور ادب میں نئے تجربات کیے جارہے تھے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق میں دل چسپی لینا شروع کی اور 1937ء میں رسالہ ادبی دنیا کے نائب مدیر بنے۔ 1941ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی۔ چند سال دلّی میں گزارے اور پھر بمبئی چلے گئے جہاں ایک ادبی رسالہ “خیال” جاری کیا۔

    میرا جی کو باغی اور روایت شکن شاعر بھی کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے اردو نظم گوئی میں موضوع اور تکنیک کے حوالے ہم عصروں سے الگ راستہ اختیار کیا۔ ان کے متعدد مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں گیتوں‌ کی کتاب کے علاوہ مشرق و مغرب کے نغمے، میرا جی کی نظمیں اور نگار خانہ سرِفہرست ہیں۔

    معروف ادیب اور محقق جمیل جالبی نے میرا جی کا کلام اکٹھا کر کے کلیات شایع کروائی تھی۔

    میرا جی نے غیر ملکی ادب کے اردو تراجم کے ساتھ ان تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے کئی اسکرپٹ اور مضامین تحریر کیے، کالم لکھے اور ترجمہ نگاری کے فن میں بھی نام کمایا۔