Tag: اکتوبر وفات

  • ایس ڈی برمن: موسیقی کی دنیا کا بڑا نام

    ایس ڈی برمن: موسیقی کی دنیا کا بڑا نام

    اگر ہندوستان کی فلمی صنعت کے چند باکمال اور بے مثال موسیقاروں کا نام لیا جائے تو ان میں نوشاد، او پی نیر، کھیم چند پرکاش، سی رام چندر، انیل بسواس، شنکر جے کشن، سلیل چودھری، لکشمی کانت پیارے لال اور ایس ڈی برمن اس فہرست میں ضرور شامل ہوں گے۔

    یہ تذکرہ ہے سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) کا جو ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام اور اپنے وقت کے عظیم سنگیت کار تھے۔ ایس ڈی برمن 1975ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ موسیقار ایس ڈی برمن کے فلمی گیتوں کو آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے اور خاص طور پر موسیقار اور اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے والے ایس ڈی برمن کے کمالِ‌ فن کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔

    موسیقار ایس ڈی برمن کی دھنوں میں مقبول ہونے والے کئی فلمی گیت ایسے تھے جن کو فلم کی کام یابی کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ ایس ڈی برمن کی وجہ سے کئی نغمہ نگاروں اور گلوکاروں‌ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ موسیقار ایس ڈی برمن کو بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون بھی کہا جاتا ہے۔

    ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ ایس ڈی برمن تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ ان کا فلمی دنیا میں سفر 1937ء میں بنگالی فلموں سے شروع ہوا اور مجموعی طور پر ایس ڈی برمن نے سو ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ وہ ایک ورسٹائل موسیقار مشہور تھے۔ ایس ڈی برمن نے موسیقی کے ساتھ گلوکاری بھی کی اور کئی بنگالی لوک گیت گائے۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، منّا ڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    ابتدائی تعلیمی درجات طے کرنے کے بعد ایس ڈی برمن نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر وہ کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کی سند لینے میں کام یاب ہوگئے، مگر موسیقی کے شوق نے ان کو آگے پڑھنے نہ دیا۔ ایس ڈی برمن ایم اے نہ کر سکے اور 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے موسیقی کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی لی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر کچھ عرصہ گلوکاری بھی کی اور آہستہ آہستہ ان کی موسیقی مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ یہ موسیقی بنگالی لوک دھنوں اور لائٹ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بڑا شان دار امتزاج تھی۔ ایس ڈی برمن کا ریکارڈ 1932ء میں پہلی مرتبہ ریلیز ہوا۔ اس کے بعد وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور کئی بنگالی گانے گائے۔ 1934 میں ایس ڈی برمن نے الہٰ آباد یونیورسٹی کی دعوت پر آل انڈیا میوزک کانفرنس میں شرکت کی جہاں انھوں نے بنگالی ٹھمری پیش کی۔ اس کانفرنس میں وجے لکشمی پنڈت اور کیرانہ گھرانے کے عبدالکریم خان بھی موجود تھے۔ اسی سال انھوں نے بنگال میوزک کانفرنس کلکتہ میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کا افتتاح رابندر ناتھ ٹیگور نے کیا تھا۔ یہاں بھی انھوں نے بنگالی ٹھمری گائی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔

    40ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا اور پھر ممبئی چلے گئے اور وہاں بھی بطور موسیقار کام شروع کیا۔ لیکن ان کی شہرت کا سفر 1947ء میں شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت مقبول ہوا ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں۔

    ایس ڈی برمن نے میرا داس گپتا سے شادی کی، اور ان کا بیٹا راہول دیو برمن (آر ڈی برمن) بھی موسیقار بنا اور اس دنیا میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔

  • حمید اختر: صحافی، ادیب اور ترقی پسند تحریک کا ایک بڑا نام

    حمید اختر: صحافی، ادیب اور ترقی پسند تحریک کا ایک بڑا نام

    خوب رُو، دراز قد حمید اختر کی آواز بھی خوب تھی۔ حمید اختر کو اپنی صلاحیتوں اور اپنی خوبیوں کا ادراک تھا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اداکاری اور صدا کاری کا شوق دل میں لیے قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے جو اس دور میں فلم اور شوبزنس کا مرکز تھا۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں‌ نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح‌ سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن پھر یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔ انھیں شہرت اور نام و مقام تو ملا مگر بطور اداکار نہیں‌ بلکہ وہ ایک صحافی، کالم نویس، ادیب اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    حمید اختر 2011ء میں کینسر کے مرض کے باعث 17 اکتوبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ متحدہ ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں حمید اختر نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوئے۔ اردو زبان کے مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ اردو کے مشہور مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء سے بھی اسکول کے زمانہ میں ہی دوستی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے یہ دوست اور خود حمید اختر بھی علم و فنون میں گہری دل چسپی لینے لگے اور پھر تخلیقی سفر میں خوب نام و مقام پایا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کے عروج کا تھا جب ساحر اور انشاء نے لکھنا شروع کیا اور حمید اختر بھی کوچۂ صحافت میں داخل ہوئے۔ جلد ہی حمید اختر انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ حمید اختر نے اپنی عملی صحافت کا آغاز لاہور میں‌ روزنامہ امروز سے کیا تھا۔ بعد میں وہ اس کے مدیر بنے۔ اسی زمانے میں انھوں نے کالم نگاری شروع کی یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔

    جن دنوں حمید اختر بمبئی میں مقیم تھے، وہاں فلمی دنیا اور ادبی مجلسوں‌ میں ان کی ملاقاتیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے بڑے اہلِ قلم اور ترقی پسند مصنّفین سے ہوئیں اور پھر ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آگئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں اور اہلِ‌ قلم پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی ترقی پسند نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہوئے اور دو سال تک قید میں‌ رہے۔ بعد میں حمید اختر کے قلم نے ’کال کوٹھڑی‘ تحریر کی جو ان کے ایامِ اسیری کی روداد ہے۔

    1970ء میں حمید اختر نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہو گیا۔ حمید اختر نے کالم نگاری کے ساتھ ادبی مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔ خاکہ نگاری بھی کی اور یہ خاکے اُن ترقی پسند مصنّفین کے ہیں‌ جن کی رفاقت حمید اختر کو نصیب ہوئی۔ ان کے شخصی خاکوں کی یہ کتاب ‘احوالِ دوستاں’ کے نام سے شایع ہوئی۔ حمید اختر کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے، یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔”

    حمید اختر نے افسانہ نگاری بھی کی، لیکن صحافتی مصروفیات اور تنظیمی سرگرمیوں‌ کی وجہ سے اس طرف یکسوئی نہ ہوئی، انھوں نے چند فلمی اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ 2010ء میں‌ انھیں تمغائے حسنِ‌ کارکردگی سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں کی معروف اداکارہ صبا حمید انہی کی بیٹی ہیں۔

  • زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں فائن آرٹ کی دنیا میں جو نام تجریدی مصوّری اور ماڈرن پینٹگ کے لیے مشہور ہوئے، زبیدہ آغا ان میں سے ایک تھیں۔ وہ پہلی پاکستانی مصوّر ہیں‌ جن کے فن پاروں‌ کی نمائش ہوئی تھی۔

    پاکستان نے اپنی اوّلین دہائی ہی میں فنِ مصوّری میں آرٹسٹوں کی کہکشاں دیکھی جس میں شامل نام عالمی سطح پر فنِ‌ مصوّری میں وطنِ عزیز کی پہچان بنے اور ملک کی آرٹ گیلریوں کے علاوہ بیرونِ ملک بھی ان کے فن پاروں‌ کی نمائش منعقد ہوئی۔ ان عالمی شہرت یافتہ فن کاروں میں زبیدہ آغا کے علاوہ صادقین، عبدالرحمٰن چغتائی، اسماعیل گل جی، استاد اللّٰہ بخش، اینا مولکا احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں زبیدہ آغا کو تجریدی آرٹ کی بانی اور ماڈرن پینٹنگ کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ 1997ء میں زبیدہ آغا آج ہی کے دن لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

    مصوّرہ زبیدہ آغا کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔ فنِ‌ مصوّری میں‌ ان کی انفرادیت اور مہارت کلرسٹ پینٹنگ تھی۔

    زبیدہ آغا نے لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کی اور اپنے شوق سے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور صرف 1944ء سے 1946ء تک ہی انھیں اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے تھے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں زبیدہ آغا ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کرچکی تھیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد انھیں پاکستانی فن کار کی حیثیت سے بیرون ملک اس فن کی مزید تعلیم اور تربیت کے علاوہ اپنے فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت مہارت سے منتقل کیا۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا اور وہ ماڈرن آرٹ کی بانی خاتون فن کار کہلائیں۔ ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے ہم وطن معاصرین ہی نہیں غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو خوب سراہا۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ وہ فنِ‌ مصوّری میں گہرے رنگوں کے بامعنی اور لائقِ توجہ استعمال کے سبب کلرسٹ پینٹر مشہور ہوئیں۔ یہ فن پارے دیکھنے والوں پر گہرا اثر قائم کرتے ہیں۔ 2006ء میں زبیدہ آغا کے فن کے اعتراف میں اور ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • دلدار پرویز بھٹی: انوکھا، پیارا اور سچّا انسان

    دلدار پرویز بھٹی: انوکھا، پیارا اور سچّا انسان

    حاضر جواب، بذلہ سنج اور اپنے خوب صورت طرزِ‌ گفتگو سے لوگوں کے دل جیتنے والے دلدار پرویز بھٹی کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں کی میزبانی نے پاکستان بھر میں پہچان دی، وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ اس کی وجہ ان کا شائستہ انداز اور شستہ و معیاری مذاق تھا۔ آج دلدار پرویز بھٹی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    دلدار پرویز بھٹی نے اپنی عملی زندگی آغاز بطور استاد کیا۔ انگریزی ادبیات کے علاوہ وہ مصنّف اور کالم نگار بھی تھے، انھوں نے ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں اور لاہور ریڈیو اسٹیشن سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ دلدار پرویز بھٹی 30 نومبر 1948ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک دردمند اور حساس انسان تھے جو اپنے کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ انسانیت کی خدمت اور فلاحی کاموں میں‌ بھی مصروف رہے۔ 30 اکتوبر 1994ء کو دلدار پرویز بھٹی دماغ کی شریان پھٹنے کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ اس وقت وہ امریکا میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔ دوست احباب کی نظر میں‌ وہ انوکھے، پیارے اور سچّے انسان تھے۔

    دلدار پرویز بھٹی کا شمار ان آرٹسٹوں میں ہوتا ہے جنھوں نے پی ٹی وی پر مختصرعرصے میں اپنی منفرد میزبانی کے سبب عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ پُروقار انداز اور پروگرام کے دوران موقع کی مناسبت سے دلدار پرویز بھٹی اپنے دل چسپ اور شگفتہ جملوں سے اپنے مہمانوں اور ناظرین کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کردیتے۔ ان کا برجستہ مذاق ناظرین میں بہت مقبول ہوا۔ دلدار پرویز بھٹی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے، اور اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انہی کی تجویز پر پی ٹی وی نے پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کیا تھا اور "ٹاکرا” نامی اس پروگرام سے دلدار بھٹی نے اپنے فنی سفر کو بھی مہمیز دی۔ "میلہ”، "یادش بخیر”،” جواں فکر ” جیسے مقبول عام پروگرام بھی دلدار پرویز بھٹی کا کارنامہ ہیں۔ ان کا پی ٹی وی سے وابستگی کا سفر 1974ء سے شروع ہوا تھا جو 1994ء میں ان کی وفات تک جاری رہا۔

    دلدار پرویز بھٹی نے تین کتابیں بھی تحریر کیں جن کے نام دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر ہیں۔ ان کی تدفین وحدت کالونی لاہور کے قبرستان میں ہوئی۔ وہ اسی کالونی کے ایک سرکاری مکان میں وہ رہائش پذیر رہے تھے۔

  • تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالسّتار کا تذکرہ

    تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالسّتار کا تذکرہ

    1947ء میں جس وقت ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی، قاضی عبدالستار نے بھی لکھنا شروع کیا اور اپنے تخلیقی وفور اور انفرادیت کے سبب اردو ادب کے بڑے ناموں‌ کے درمیان پہچان بنانے میں کام یاب رہے۔

    یہ وہ دور تھا جب راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کی تحریریں نہ صرف بڑے ادبی پرچوں‌ میں شایع ہوتی تھیں‌ بلکہ قارئین کی بڑی تعداد ان کی مداح تھی۔ قاضی عبدالستار نے اسی دور میں‌ تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی ناول لکھے اور قارئین کی توجہ حاصل کی۔ معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں سمیٹنے والے قاضی عبدالستّار کو آج بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ انھوں نے غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا تھا۔

    اردو ادب میں انھیں ایک افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو اتر پردیش کے ایک شہر میں 1933ء میں پیدا ہوئے۔ قاضی صاحب نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ریسرچ اسکالر کے طور پر ناتا جوڑا اور بعد ازاں اسی کے شعبہ اردو میں تدریس سے منسلک ہوئے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت نے قاضی صاحب کو پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اپنے اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953 میں شائع ہوا۔جب کہ 1961 میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962 ’ پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا تھا۔

    پروفیسر قاضی عبدالستار 29 اکتوبر 2018ء کو دہلی میں وفات پاگئے تھے۔

  • جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی زبان کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے عہد کی ممتاز برطانوی شخصیات میں سے ایک تھا۔ انگلستان میں ادب، سیاست اور سماج میں چاسر نے اپنی لیاقت اور فن کی بدولت بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔ مؤرخین نے اس کا سنہ پیدائش 1340ء لکھا ہے۔ چاسر کا انتقال 25 اکتوبر 1400ء میں ہوا تھا۔ یہ تاریخِ‌ وفات جیفری چاسر کے مدفن پر نصب کتبہ پر پڑھی جاسکتی ہے۔ جیفری چاسر کو فادر آف انگلش پوئٹری بھی کہا جاتا ہے۔

    جیفری چاسر جہاں اپنی متاثر کن شاعری کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا، وہیں اپنی قابلیت کی بنیاد پر شاہی دربار میں بھی جگہ بنائی۔ اس دور کی بعض کتابیں اور مختلف تذکروں سے جیفری چاسر کے بارے میں جو خاکہ بن سکا ہے وہ اسے ایک معمولی تاجر کا بیٹا ثابت کرتے ہیں۔ یہ 1349ء کی بات ہے جب برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیلی اور چاسر کا قریبی عزیز اس کا نوالہ بنا۔ اس کا فائدہ چاسر کے باپ کو پہنچا اور اسے ترکہ میں خاصی جائیداد یا پھر بڑی رقم مل گئی اور یوں یہ خاندان بیٹھے بٹھائے امیر ہوگیا، اسی دولت نے نوعمر چاسر کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ وہ ایک قابل اور ذہین لڑکا ثابت ہوا اور اپنے باپ کی طرح خرید و فروخت کے جھیملے میں‌‌ پڑ کر معمولی منافع حاصل کرنے کے بجائے سرکاری نوکری اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ایک روز شاہی دربار تک پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ اب چاسر درباری ملازم تھا۔ جیفری چاسر اپنی ذہانت اور لیاقت کے بل بوتے پر دربار میں نمایاں ہوتا گیا اور ترقی کرتے ہوئے شاہ ایڈورڈ سوم کے عہد کا ایک بااثر درباری بن گیا۔ دراصل وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اسے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، اطالوی اور لاطینی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ اسی قابلیت کی بناء پر چاسر کو دو مرتبہ اٹلی میں سفارت کار کے طور پر بھی بھیجا گیا۔ بعد میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہورِ زمانہ ‘سو سالہ جنگ’ لڑی گئی تو جیفری چاسر نے اس میں بحیثیت سپاہی بھی خدمات انجام دیں۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ سفارت کار کے طور پر اٹلی میں قیام کے دوران جیفری چاسر اُس زمانے کے مشہور اور اٹلی کے قومی شاعر کا درجہ رکھنے والے بوکیچیو سے ملا تھا۔ وہ اس شاعر کے افکار اور اس کی نظموں سے بہت متاثر ہوا۔ چاسر تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا اور انگلستان لوٹنے کے بعد اُس نے شاعری میں طبع آزمائی کی۔ اس کی نظموں کی خاص بات اپنے عہد سے مطابقت ہے۔ چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو نقادوں نے حقیقی معنوں میں چودھویں صدی عیسوی کے برطانیہ کی عکاس قرار دیا۔ چاسر کی یہ نظم ‘پکچر گیلری’ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بطور شاعر جیفری چاسر کی نظم کو وسعتِ بیان اور گہرائی کے اعتبار سے ایسی تخلیق مانا جاتا ہے کہ کوئی چودھویں صدی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ نظم ہی اس کے لیے کافی ہو گی۔ اس نظم میں چاسر نے انتیس کرداروں کے ساتھ اس دور کی نہایت پُراثر منظر کشی کی ہے اور یہ اس وقت کے لندن کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ جیفری چاسر کی اس نظم کی انفرادیت تمام نمایاں‌ شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد میں سے کم سے کم ایک اور مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی ہے جن کے ذریعے شاعر نے اپنے عہد کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز بھی ہے جو سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کی شاعری انگلستان میں بے حد مقبول ہوئی اور شاہی دربار میں بھی اسی بنیاد پر چاسر کی بڑی پذیرائی کی گئی۔ 1374ء میں انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے چاسر کو تاحیات وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔

    انگلستان کے اس مشہور شاعر نے صرف ایک درباری کی حیثیت سے داد و ستائش سمیٹتے ہوئے وقت نہیں گزارا بلکہ وہ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہا اور 1386ء میں اس دور کی پارلیمان کا رکن بنا۔ 1366ء میں شادی کرنے والے چاسر کو خدا نے چار بچّوں سے نوازا تھا۔

    جیفری چاسر کی تدفین لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں کی گئی جہاں کئی دوسرے معروف انگریز اہلِ قلم بھی آسودۂ خاک ہیں۔

  • عنایت اللہ دہلوی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    عنایت اللہ دہلوی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    عنایت اللہ دہلوی اردو زبان کے بلند پایہ مصنّف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں اردو زبان و ادب کے ایک محسن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو ڈیرہ دون میں وفات پائی۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    عنایت اللہ دہلوی کا سنہ پیدائش 1869ء ہے۔ ان کا تعلق دہلی کے محلہ قاضی واڑہ کے ایک مشہور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اردو زبان و ادب میں اپنے علم و فضل اور تخلیقات کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ ان کا نام مولوی ذکاء اللہ تھا جو اس دور کے ایک انشا پرداز، مؤرخ اور مترجم تھے۔ عنایت اللہ نے ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ اسکول اور عربک اسکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت میں تھے جب والد انھیں اپنے ساتھ الٰہ آباد لے گئے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو ان کے والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

    الٰہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل لیا۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور دہلی لوٹ آئے۔

    علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور ان کی راہ نمائی اور شفقت حاصل رہی جس نے انھیں پڑھنے اور لکھنے پر آمادہ کیے رکھا۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔

    1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے جہاں سر سید کے ماہنامہ تہذیبُ الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1897ء میں سر سید کی ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔

    1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ اس ملازمت کے طفیل متعدد شہروں میں تبادلہ اور وہاں قیام کا موقع ملا۔

    دار الترجمہ حیدرآباد(دکن) کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے دکن آ گئے اور ناظم دارُ الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس عہدے پر تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔

    عنایت اللہ دہلوی کی تصانیف اور تراجم پر مبنی کتب کی تعداد 57 ہے۔ ان کی کتابوں‌ میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی، خوابِ پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوتِ اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخِ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔

  • استاد اللہ بخش:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    استاد اللہ بخش:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    خداداد صلاحیتوں کے مالک اور فنِ مصوّری میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے اللہ بخش کو ‘بابائے فطرت’ کہا جاتا ہے۔ استاد اللہ بخش نے ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) میں اپنے فن و کمال کی بدولت بین الاقوامی سطح پر توجہ اور شہرت پائی۔ 1978ء میں آج ہی کے دن استاد اللہ بخش وفات پاگئے تھے۔

    استاد اللہ بخش کی فنِ مصوّری میں مہارت اور کمال اُن کی لگن، ریاضت اور مسلسل مشق کا نتیجہ تھا۔ انھوں نے کم عمری میں پینٹ اور برش کا استعمال سیکھ لیا تھا، لیکن فنِ‌ مصوّری کی بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی۔ وہ نوعمری میں تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کرنے لگے تھے۔ بعد میں استاد اللہ بخش نے بمبئی، کلکتہ میں مختلف ایسے اداروں سے وابستگی اختیار جو تشہیری پینٹنگ، سینری اور پورٹریٹ بنانے کا کام کرتے تھے۔ اس دوران ان کا رنگوں اور برش سے گہرا تعلق قائم ہوا اور وہ تجربہ کار پینٹر بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ لاہور لوٹے اور ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے لگے اور بعد میں ایک مصوّر کی حیثیت سے انھوں نے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنا شروع کیا اور یہی پینٹنگ دنیا بھر میں ان کی وجہِ‌ شہرت بنیں۔ استاد اللہ بخش نے پنجاب کی رومانی داستانوں کو اپنی تصاویر کا موضوع بنایا اور مشہوور کرداروں جن میں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں شامل ہیں، انھیں اپنے مصوّرانہ تخیل سے کینوس پر منتقل کرکے خوب داد پائی۔

    استاد اللہ بخش کا تعلق پنجاب کے شہر وزیر آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1895ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ شروع ہی سے استاد اللہ بخش کو گھر میں رنگ اور برش سے کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ وہ دیہات کے حسن اور قدرتی ماحول میں‌ پلے بڑھے تھے جس نے انھیں فطرت کا دلدادہ بنا دیا تھا۔ والد کا انتقال اس وقت ہوا جب اللہ بخش صرف سات برس کے تھے اور اب گھر چلانے کی ذمہ داری ان کی تھی۔ وہ اپنی بہنوں میں اکلوتے بھائی تھے۔ اللہ بخش نے انگریزی حروف تہجی لکھنا سیکھے اور ریلوے میں ہی ٹرین کے ڈبوں پر لکھنے اور روغن کرنے کا کام کرنے لگے۔ یوں روزی روٹی کا آسرا ہوگیا۔ اس دوران اللہ بخش نے تصویریں بنانا شروع کر دیں اور مسلسل مشق جاری رکھی۔ نقل کرتے ہوئے ان کا ہاتھ اتنا صاف ہوگیا کہ انھیں لاہور میں تھیٹر کے پردے بنانے کی آفر ہوئی جسے اللہ بخش نے قبول کرلیا اور بعد میں ان کو آغا حشر کے تھیٹر سے بھی وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    ایک بار بمبئی سے کچھ فن کار لاہور آئے اور وہاں استاد اللہ بخش کے بنائے ہوئے پردے دیکھے۔ انہی کے کہنے پر اللہ بخش نے قسمت آزمانے کے لیے بمبئی کا رخ کیا تھا۔ وہاں ابتداً ایک پینٹر کی دکان پر چہرے اور ہندو دیوتاؤں کی تصویریں بنانے کا کام کرنے لگے۔ یہ تصاویر شاید اس زمانے میں وہاں کے لیے لوگوں کے لیے نئی چیز تھی۔ ان کا خوب شہرہ ہوا۔ لوگ دھڑا دھڑ ان سے تصویر بنانے لگے اور کاروبار خوب چمکا۔ 1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ استاد اللہ بخش آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

    1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں، جب کہ ماقبل 1928ء میں ممبئی میں ایک تصویری نمائش میں ان کی ایک تصویر کو اوّل انعام دیا گیا تھا۔ استاد اللہ بخش کا کام فنِ‌ مصوری میں‌ عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث آیا۔

    استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے استاد اللہ بخش کو ’تمغائے حسنِ کارکردگی‘ سے نوازا تھا۔

  • احمد شاہ بابا کا تذکرہ جنھیں سب سے عظیم افغان کہا جاتا ہے

    احمد شاہ بابا کا تذکرہ جنھیں سب سے عظیم افغان کہا جاتا ہے

    احمد شاہ ابدالی کی عمر 25 برس تھی جب انھیں شاہِ افغانستان منتخب کرلیا گیا۔ وہ فوجی کمانڈر اور قبائلی سردار تھے جنھیں 1747ء میں قندھار میں ایک افغان جرگے نے ریاست کا سربراہ منتخب کیا تھا۔

    احمد شاہ ابدالی ایک پُرکشش شخصیت کے مالک ہی نہیں‌ تھے بلکہ باصلاحیت، دور اندیش اور ایک ایسے جنگجو اور منتظم تھے جس نے بادشاہ بننے سے پہلے بھی متعدد جنگیں‌ لڑی تھیں۔ ان کی خوش اخلاقی اور شائستگی کے سبب وہ اپنے ساتھیوں اور اشرافیہ میں خاصے مقبول تھے اور بعد میں افغانستان کے عوام سے بھی انھیں بڑی عزّت اور احترام ملا۔ انھوں نے تمام افغان قبائل کو اکٹھا کرکے ایک افغان ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ احمد شاہ، افغانوں کے ایک اہم ابدالی قبیلے کے فرد تھے جن کی سلطنت بعد میں درّانی سلطنت مشہور ہوئی۔ بدالی 1722 میں ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔

    جرمنی کے ایک مشہور مفکّر اور مؤرخ فریڈرک اینگلز نے 1857ء میں اپنی کتاب جنگِ افغانستان میں اس ملک کا جغرافیہ، حالات اور واقعات رقم کیے ہیں‌ جس میں وہ لکھتا ہے: "افغانستان، فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش کے سلسلے اور بحرِ ہند کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطۂ پنجاب کا ایک حصّہ بھی شامل ہے۔ اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔”

    احمد شاہ ابدالی نے کئی جنگیں لڑیں اور ان کی فتوحات نے سلطنت کو وسعت دی اور اس کا دائرہ مغربی ایران سے لے کر ہندوستان کے شہر سرہند تک پھیل گیا۔ ان کی حکم رانی شمال میں وسطی ایشیا کے آمو دریا سے لے کر جنوب میں بحرِ ہند کے ساحل تک تھی۔

    یہ احمد شاہ ابدالی ہی تھے جنھوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک نئی پہچان اور آزاد ملک دیا۔ یوں تو افغانستان کی تاریخ کئی سو صدی پرانی ہے، جس میں یہ خطّہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا رہا۔ سولھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک یہ ریاست کئی حصّوں میں منقسم تھی جسے احمد شاہ کے دور میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک ملک کے طور پر ابھرنے کا موقع ملا اور یہی وجہ ہے کہ احمد شاہ بابائے افغان کہلائے۔ عام طور پر لوگ انھیں احمد شاہ بابا بھی کہتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ اس ملک پر ایرانی، یونانی اور منگولوں کے بعد جب انگریزوں اور روسیوں نے قبضہ کرنا چاہا تو انھیں سخت مزاحمت اور شدید لڑائی کا سامنا کرنا پڑا اور افغانوں نے کبھی غیرملکی تسلط کو قبول نہیں‌ کیا۔

    احمد شاہ ابدالی کا دورِ حکومت 25 برسوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے ایران نادر شاہ کے زیرِ نگیں علاقوں پر درّانی سلطنت قائم کی۔ نادر شاہ کو قتل کردیا گیا تھا اور احمد شاہ ابدالی جو نادر شاہ کی فوج میں کمانڈر تھے، افغانستان کے بادشاہ منتخب ہوگئے۔ احمد شاہ ابدالی کی موت کے بعد ان کی اولاد نے اقتدار سنبھالا تھا۔

    احمد شاہ ابدالی کا ذکر تاریخ میں مرہٹوں سے پانی پت میں مشہور جنگ کے سبب بھی محفوظ رہے گا۔ پانی پت کی جنگ میں ہندو مرہٹہ کو شکست دے کر احمد شاہ ابدالی نہ صرف ان کا زور توڑنے میں کام یاب ہوئے بلکہ اُن کی اس کام یابی سے ہندوستان کا مغل خاندان بھی محفوظ ہوگیا جن کے لیے مرہٹہ بڑا خطرہ تھے۔

    انیسویں صدی کے اوائل میں دنیا نے جمہوریت اور مختلف نظام ہائے مملکت دیکھے اور اسی عرصہ میں سیاست دانوں نے درّانی سلطنت کے لیے باقاعدہ لفظ افغانستان استعمال کرنا شروع کیا۔ آج افغانستان ایک زمین بند ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین جب کہ شمال کی طرف ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان موجود ہیں اور یہ بھارت کا بھی ہم سایہ ہے۔

    احمد شاہ بابا کا مقبرہ افغانستان کے مشہور شہر قندھار میں واقع ہے۔ مقامی اور غیرملکی مؤرخین نے بھی ان کے دورِ‌ حکومت اور بطور بادشاہ کارناموں کو سراہا ہے۔ ایک ہندوستانی مؤرخ گنڈا سنگھ کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب ’احمد شاہ ابدالی درانی: جدید افغانستان کے معمار‘ میں لکھا ہے ’احمد شاہ ابدالی نے اپنی پوری زندگی ملک کی بہتری کے لیے وقف کر دی تھی اور وہ آج بھی افغان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اتنا ہی نہیں جنوبی اور سینٹرل ایشیا کے مسلمانوں کی بڑی تعداد ان کا نام ادب سے لیتی ہے۔ ‘

    احمد شاہ ابدالی 1773ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

  • ماتا ہری: نیم عریاں رقص سے شہرت پانے والی ‘ڈبل ایجنٹ’

    ماتا ہری: نیم عریاں رقص سے شہرت پانے والی ‘ڈبل ایجنٹ’

    ماتا ہری کو ایک صدی پہلے آج ہی کے دن فائرنگ اسکواڈ نے عدالت کے حکم پر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ماتا ہری کو یورپ کے کئی ممالک میں نہایت اثر و رسوخ کی حامل ایسی عورت کہا جاتا ہے جس نے وہاں کی حکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔

    جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور ‘ہنی ٹریپ’ جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد بہت شہرت ملی۔ 15 اکتوبر 1917 کی ایک صبح سلیٹی رنگ کی فوجی گاڑی میں ماتا ہری کو پیرس کی مرکزی جیل سے نکال کر اُس مقام پر پہنچایا گیا جہاں اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جانا تھا۔ 41 سالہ ولندیزی خاتون ماتا ہری نے ایک لمبا کوٹ اور اپنے سَر پر چوڑا ہیٹ پہن رکھا تھا۔

    ماتا ہری شعلہ جوالہ اور رقص میں بے بدل تھی جس کے چاہنے والوں میں مختلف ممالک کے وزیر، صنعت کار اور فوجی جنرل تک شامل تھے۔ لیکن پھر پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور ماتا ہری کو ایک جاسوسہ کے طور پر وہ کام کرنا پڑا جس نے اسے موت کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ اُس زمانے میں حکومتیں بھاری معاوضے اور مراعات کا لالچ دے کر جاسوسی کے لیے ایسی شخصیات کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں جو دشمن ملک کے مقتدر حلقوں میں مقبول ہوں اور اثر و رسوخ کی حامل بھی۔

    ماتا ہری ایک بے باک عورت تھی جو رقص میں‌ مہارت رکھتی تھی اور اپنے دور میں سلیبرٹی بن چکی تھی۔ حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا اور اس کے نیم عریاں رقص نے فرانس میں اسے سیاست دانوں اور اشرافیہ کے قریب کردیا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران وہ جاسوسی کرنے پر مجبور کردی گئی اور اسے ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا۔ گرفتاری کے بعد مقدمہ کا سامنا کرنے والی ماتا ہری پر ‘الزامات’ ثابت ہوگئے اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے سزا پر عمل درآمد کرنے والے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    ماتا ہری کا اصل نام مارگریٹ زیلے تھا جو نیدر لینڈ کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل زیلے کا سنہ پیدائش 1876ء ہے جس نے ماتا ہری کے نام سے شہرت پائی۔ اس نے یہ نام انڈونیشیا میں قیام کے دوران اپنایا تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ ماتا ہری کی شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور رشتہ ختم ہونے کے بعد وہ فرانس چلی گئی تھی اور پھر پیرس میں بطورِ رقاصہ وہ سب کو اپنی اداؤں سے زیر کرنے میں‌ کام یاب ہوگئی۔

    مارگریٹ زیلے ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اس کی شادی کر دی لیکن 26 سال کی عمر میں‌ ماتا ہری رشتہ ختم کرکے واپس پیرس پہنچ گئی۔ وہ رقص کی ماہر تھی اور وہاں ایک کلب میں نیم عریاں رقص کا مظاہرہ کرنے لگی۔ جلد ہی ماتا ہری اپنے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کی بدولت یورپ بھر میں مشہور ہوگئی۔ اس نے خوب دولت کمائی، لیکن چند سال بعد نجانے کیوں اس کی کشش ماند پڑ گئی۔ ماتا ہری جو مال و دولت اور آسائش کی عادی ہوچکی تھی، لیکن اب اس کے چاہنے والے اس سے دور ہورہے تھے اور وہ مقروض ہوتی چلی گئی۔ زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    فرانس کے مقتدر حلقوں میں ماتا ہری کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک جرمن سفارت کار نے رابطہ کیا اور ماتا ہری کو پرکشش معاوضے پر فرانسیسی حکومت کے اہم راز اسے دینے پر آمادہ کر لیا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اپنی اداؤں اور تمام حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    ابتدائی کام یابیوں نے ماتا ہری کو حوصلہ دیا اور تب اس رقاص جاسوسہ نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان کے سامنے فرانس کی محب وطن اور خیر خواہ بن گئی اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کر دیا۔ دوسری طرف فرانسیسی حکام کو پہلے ہی اس پر شبہ تھا اور پھر یہ حقیقیت زیادہ دیر چھپ نہ سکی کہ وہ ڈبل ایجنٹ ہے اور جرمنی کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ فرانس کی جانب سے اسے آزمانے کے لیے متعدد خفیہ مشن سونپے گئے اور ساتھ ہی اس کی کڑی نگرانی بھی کی جانے لگی۔ ایک دن ماتا ہری کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔

    یہ وہ کہانی ہے جو اس وقت فرانس کی حکومت اور گزشتہ ایک صدی کے دوران جنگوں اور اتحادی افواج کی تاریخ پر مبنی کتب میں رقم کی جاتی رہی ہے، لیکن چند سال پہلے کچھ حقائق کی بنیاد پر کہا گیا کہ ماتا ہری ڈبل ایجنٹ تھی جسے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اس زمانے کے اخبار مرچ مسالہ لگا کر اپنی رپورٹو‌ں میں بتاتے رہے کہ ماتا ہری اتحادی فوج کے افسروں کو لبھا کر ان سے راز اگلواتی اور جرمن فوج کے حوالے کر دیتی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے۔ لیکن ایک صدی بعد فرانسیسی وزارتِ دفاع نے کچھ ایسی دستاویزات جاری کی تھیں جن سے دنیا کی تاریخ کی اس مشہور جاسوسہ کے بارے میں نئے انکشافات ہوئے۔ ان میں ماتا ہری سے تفتیش کی دستاویزات بھی شامل ہیں جو اب نیدرلینڈز میں ماتا ہری کے آبائی شہر کے ایک میوزیم میں محفوظ ہیں۔ بی بی سی پر اس حوالے سے شایع شدہ ایک مضمون کے مطابق گذشتہ برسوں میں کئی تاریخ دان اس جاسوسہ کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ماتا ہری کو اس لیے قربان کر دیا گیا کہ فرانسیسی حکومت کو جنگ میں پے در پے ناکامیوں کا جواز پیدا کرنا تھا۔ اس حوالے سے ایک خط کا بھی ذکر کیا جاتا ہے لیکن حقائق وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں اور چوںکہ یہ جاسوسی اور اتحادی افواج سے متعلق سرگرمیوں اور خفیہ مشن کا معاملہ تھا تو ماتا ہری کی گرفتاری کے بعد کچھ حقائق اور اہم باتیں پوشیدہ ہی رکھی گئیں اور ان کا تحریری یا زبانی کسی کو علم نہیں ہوسکا۔

    ماتا ہری کو پیرس کے مشرقی مضافات میں واقع شیتو دے ونسین میں فائرنگ اسکواڈ نے گولیاں ماری تھیں‌۔ وہ 12 سپاہی تھے جنھوں نے سزائے موت پر عمل درآمد کیا۔ ماتا ہری کی لاش کسی نے وصول نہیں کی اور اسے پیرس کے ایک میڈیکل کالج کو دے دیا گیا جہاں نے انسان کا پوسٹ مارٹم کرنا سیکھا۔ ماتا ہری کا سَر میوزیم آف اناٹومی میں محفوظ کر دیا گیا تھا لیکن بیس سال قبل وہ چوری ہو گیا۔