Tag: اکتوبر وفات

  • ڈاکٹر فاطمہ شاہ:‌ بصارت سے محروم ایک قابل پاکستانی

    ڈاکٹر فاطمہ شاہ:‌ بصارت سے محروم ایک قابل پاکستانی

    فاطمہ شاہ نے آدھی زندگی تو دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر ایک روز وہ بصارت سے محروم ہوگئیں!

    پیدائشی طور پر اندھے پن کا شکار افراد کے مقابلے میں تن درست انسان کا اچانک بینائی سے محروم ہوجانا اس کے لیے کرب ناک حقیقت ہوتا ہے، لیکن ان میں سے بعض لوگ جلد ہی خود کو حالات سے لڑنے کے لیے تیّار کر لیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسروں کے لیے بھی عزم و ہمّت اور بہادری کی مثال بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ ایسی ہی نابینا خاتون تھیں جن کی معذوری کے بعد زندگی کسی معجزے سے کم نہیں۔

    ڈاکٹر فاطمہ شاہ 1914ء میں پنجاب کے علاوہ بھیرہ میں‌ پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا، اور وہ اپنے والدین کی 12 اولادوں‌ میں سے ایک تھیں۔ ان کے والد پروفیسر عبدالمجید قریشی علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ ریاضی کے چیئرمین تھے۔ فاطمہ شاہ کا تعلیمی سفر شان دار رہا، انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ہائی اسکول کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور دہلی کے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو اسکالر شپ مل گئی۔ فاطمہ شاہ نے ڈگری حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ کے ڈفرن اسپتال میں ہاؤس سرجن کی ملازمت شروع کی۔1937 میں ان کی شادی گورکھپور ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت جواد علی شاہ سے ہو گئی اور تب انھیں اپنی نوکری چھوڑنا پڑی۔ وہ دو بیٹیوں‌ کی ماں تھیں‌۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ تقسیمِ ہند کے دنوں‌ میں پاکستان آئی ہوئی تھیں اور بدقسمتی یہ ہوئی کہ حالات بگڑتے چلے گئے جس کے باعث وہ اپنے گھر واپس نہیں جاسکیں اور یہیں قیام کرنا پڑا۔

    فاطمہ شاہ نے پاکستان میں ڈاکٹر کی حیثیت سے سول اسپتال میں‌ نوکری کا آغاز کیا اور بعد میں جب وہ بینائی سے محروم ہوگئیں تو نابینا افراد کی مدد اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہیں۔ اس کے لیے وہ متعدد تنظیموں سے وابستہ ہوئیں، اور مختلف اداروں کی بنیاد رکھی۔

    ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان میں آزادی کے ابتدائی زمانہ ہی میں‌ ایک رضا کار کی حیثیت سے متحرک ہوگئی تھیں۔ 1947 کے بعد وہ مہاجر خواتین کی صحت اور آباد کاری کے سلسلے میں خدمات انجام دیتی رہیں اور آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کے بانی اراکین میں سے ایک تھیں۔ فاطمہ شاہ کو ان سماجی خدمات پر ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کے موقع پر ایم بی ای (برطانوی سلطنت کی رکن) کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ سول اسپتال، کراچی میں کافی عرصہ تک کام کرنے والی فاطمہ شاہ کی بینائی 1952 میں اچانک آنکھوں میں الرجی اور موتیا کے باعث متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ مکمل طور پر دونوں آنکھوں‌ کی روشنی سے محروم ہو گئیں۔ لیکن انھوں نے ایک باہمّت خاتون ہونے کا ثبوت دیا اور پھر ایک نئے عزم کے ساتھ میدانِ‌ عمل میں‌ اتریں۔

    ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے 1960 میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ کی بنیاد بھی رکھی جو ایک قومی سطح‌ کی تحریک ثابت ہوئی جس میں فاطمہ شاہ نے 25 سال تک بحیثیت صدر خدمات انجام دیں۔ وہ پہلی خاتون بھی تھیں‌ جو انٹرنیشنل فیڈریشن آف بلائنڈ کی صدر رہیں۔

    ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی کوششوں سے پاکستان میں حکومت نے یہ قانون ختم کیا کہ ذہنی صحت، ذہانت اور قابلیت کے باوجود جسمانی معذور لوگوں کو نوکری نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقۂ تعلیم متعارف کروانے کی تجویز دی اور اس کا آغاز کروایا۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان کی بصارت سے محروم پہلی رکن دستور ساز اسمبلی بھی تھیں۔ تحریکِ آزادی کی عظیم راہ نما بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو ایک کورس کرنے کے لیے امریکہ بھیجا تھا جہاں‌ انھوں نے بصارت سے محروم افراد کی عالمی تنظیم کے ساتھ بھی کام کیا اور وہیں سے واپس آنے کے بعد ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے حکومت کو معذور افراد کی نوکری سے متعلق شق ختم کرنے پر مجبور کیا تھا۔

    ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی زندگی کی کہانی ان کی کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے سے 1990 میں انگریزی زبان میں‌ شایع کیا گیا تھا، جب کہ اس کا اردو ترجمہ دھوپ چھاؤں کے نام سے کیا گیا۔ ڈاکٹر شاہ نے معذوری، اپنی مدد آپ اور سماجی تبدیلی کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔

    88 سال کی عمر میں ڈاکٹر فاطمہ شاہ طویل علالت کے بعد 12 اکتوبر 2002ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ وہ ڈیفنس کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    نابینا افراد کے حوالے سے خدمات انجام دینے پر فاطمہ شاہ کو کئی عالمی سطح‌ کے اعزازات سے نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان نے انھیں‌ تمغائے امتیاز دیا۔

  • ایڈگر ایلن پو: مختصر کہانیوں کو انفرادیت عطا کرنے والا ادیب

    ایڈگر ایلن پو: مختصر کہانیوں کو انفرادیت عطا کرنے والا ادیب

    ایڈگر ایلن پو نے انگریزی زبان و ادب میں جو شہرت اور نام و مقام پایا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس باکمال افسانہ نگار، شاعر اور نقّاد کی زندگی کا انجام بڑا درد ناک ہوا۔ ایک روز وہ گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

    امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کو مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ اس کی کہانیاں فنی تراش کا شاہکار اور کاملیت کا نمونہ ہیں۔ پو ایک عمدہ شاعر اور نقاد بھی تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ڈراؤنی اور دہشت انگیز کہانیاں‌ تھیں‌۔ اس نے جرم و سزا اور سنسنی خیز واقعات کو بھی کہانیوں میں سمویا جو بہت مقبول ہوئیں۔ وہ مختصر نویسی میں‌ کمال رکھتا تھا۔ 7 اکتوبر 1849ء کو اس امریکی ادیب کا انتقال ہوگیا۔ ایڈگر ایلن پو نے جو کہانیاں لکھیں ان سے کئی بڑے تخلیق کار متاثر ہوئے۔

    نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں‌ نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس نے مختصر کہانیوں کا ادبی اور فنی روپ نکھارا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی پو اپنے پیروں‌ پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اس کنبے کو چھوڑ دیا اور اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا اور حصولِ تعلیم‌ کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے جامعہ میں‌ یونیورسٹی آف ورجینیا میں‌ داخلہ لیا تاہم یہاں‌ تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ گھریلو ناچاقیوں اور بدمزگیوں کے علاوہ پو اپنے غصّے، عجیب و غریب عادات، بدمزاجی اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ایڈگر ایلن پو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی نے ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔

    اپنے ایسے ہی افسانوں اور مختصر کہانیوں کی بدولت ایڈگر ایلن پو مشہور بھی ہوا اور اپنے موضوعات میں تخلیقی قوّت اور خاص تکنیک کے سبب ناقدین سے داد بھی پائی۔

    شہرت تو اس تخلیق کار کو بہت ملی، لیکن زندگی کے بعض صدمات ایسے ہیں جن کا ایڈگر ایلن پو کے دماغ پر شدید اثر پڑا اور اس کی ذہنی حالت بگڑتی چلی گئی، اس میں بیوی کی اچانک موت کے علاوہ کئی دوسرے مسائل نے اضافہ کیا اور پھر بچپن کی وہ تلخیاں اور محرومیاں بھی اس کے اعصاب پر توانا ہو کر سوار ہوگئیں، جن میں والدین سے دوری بھی شامل تھی جسے وہ فراموش کرچکا تھا۔ اس کے دماغ پر ان سب باتوں کے گہرے اور منفی اثرات پڑے اور کہتے ہیں کہ پو ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ شراب نوشی وہ مسئلہ تھا جس نے اسے دنیا سے الگ تھلگ اور لوگوں سے دور کر دیا تھا۔ وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور موت کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ ایک روز ایڈگر ایلن پو کو گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں‌ نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔

  • ریمبراں:‌ فنِ‌ مصوّری کا ایک مقبول نام

    ریمبراں:‌ فنِ‌ مصوّری کا ایک مقبول نام

    عظیم ولندیزی مصوّر ریمبراں (Rembrandt) کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے سیلف پورٹریٹ کی بات سب سے پہلے کی جاتی ہے، جن میں وہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار کو دکھاتا ہے۔ ریمبراں کو دنیا سے گزرے ساڑھے تین سو سال سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن اس کا کام جہانِ فن میں اب بھی زیرِ بحث رہتا ہے۔ ریمبراں کو ایک نابغہ تسلیم کیا گیا اور نقّادوں نے اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا ہے۔

    اس مصوّر نے اپنے فن و تخلیق کی بدولت اُس دور میں نام پایا جسے مؤرخین ڈچ فن و ثقافت اور اختراع و ایجاد کا سنہری زمانہ قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص فنونِ لطیفہ کے شعبے میں اور فنِ مصوّری میں نئے رجحانات کو فروغ حاصل ہو رہا تھا۔ ریمبراں جسے اکثر ریمبرانٹ بھی لکھا جاتا ہے، اسی عہد کا ایک مقبول فن کار ہے جس نے نقّاشی اور فنِ مصوّری میں بے مثال کام کیا۔ آج ریمبراں کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 4 اکتوبر 1669ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    کہتے ہیں‌ کہ ہالینڈ کے کسی مصوّر کو دنیا میں اتنی شہرت نہیں ملی جتنی ریمبراں کے حصّے میں آئی۔ اس کے پورٹریٹس نے کمالِ فن کے شاہکار کا درجہ پایا۔ مشہور ہے کہ ریمبرانٹ کئی گھنٹے روزانہ اپنا تصویری خاکہ بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔

    عالمی شہرت یافتہ ریمبراں کی ایک پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں آج بھی شائقین کی توجہ کا مرکز ہے۔ ریمبراں یا ریمبرانٹ کے چند دیگر فن پارے دنیا کی متعدد بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور دلدادگانِ فنِ مصوّری کے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ یہ تصاویر نو آموز آرٹسٹوں کو اس فن کی باریکیوں کو سیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    ریمبراں کی زندگی کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات دست یاب ہوسکی ہیں، ان کے مطابق وہ ایک اناج پیسنے والی چکّی کے مالک کا بیٹا تھا۔ یہ خاندان ہالینڈ میں بسا ہوا تھا۔ ریمبرانٹ نے 1609ء میں دنیا میں آنکھ کھولی۔ اس کا نام ریمبراں وان رائن رکھا گیا۔ اسے شروع ہی سے فنِ‌ نقّاشی اور اس کی مختلف شکلوں سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور مسلسل مشق کے ساتھ اس نے موقلم اور رنگوں سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار شروع کردیا ،مصوّری کی طرف مائل ہونے کے بعد ریمبراں نے آئل پینٹنگ اور اسکیچز بنائے اور اس فن میں مختلف تجربات بھی کیے۔

    ماہرین کے مطابق ریمبراں سولھویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے اور اس کے کئی فن پارے انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تخلیق کردہ ہیں۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے ریمبراں کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبراں کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں‌ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس مصوّر کے فن پارے زندہ و متحرک محسوس ہوتے ہیں اور یہ وہ خوبی ہے جو ریمبراں کو ڈچ فن و ثقافت کا ایک بڑا تخلیق کار ثابت کرتی ہیں۔

    بطور مصوّر ریمبراں کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ‌ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔ فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں‌ جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی سے نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔

    ریمبراں کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ وہ کام تھا جو شاید ریمبراں کو بہت پسند تھا۔ اس نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری میں مختلف تجربات کیے ہیں۔

    قارئین، ریمبراں نے ایشیائی ثقافت اور بالخصوص ہندوستان کے مغل حکم رانوں‌ اور اس دور کی چند بااثر شخصیات کی تصاویر بھی بنائی ہیں۔ وہ دراصل مغل منی ایچر سے بہت متاثر ہوا تھا اور اس پر 1650ء کے لگ بھگ کام کیا۔ اس نے شاہ جہان، اکبر، جہانگیر اور دارا شکوہ کے اسکیچز بنائے ہیں، لیکن ریمبراں ہالینڈ سے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا، اور یہ تصاویر اس تک پہنچی تھیں۔ ریمبراں کے مغل اسکیچز کی تعداد 24 سے 25 ہے۔ تاہم یہ اس کا قابلِ‌‌ ذکر کام نہیں ہے۔

  • استاد رساؔ: وہ شاعر جن کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت گالیاں‌ رہتی تھیں!

    استاد رساؔ: وہ شاعر جن کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت گالیاں‌ رہتی تھیں!

    ہر شہر اور قریہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عام لوگوں سے مختلف اور یکتا شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور خصلتیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور وہ ان کے محبوب بن جاتے ہیں۔ استاد رساؔ بھی ایسے ہی لوگوں میں ایک تھے۔

    ان کی بنیادی شناخت تو شاعری تھی، لیکن شاعری کے سوا ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو وہ گالیاں تھیں جو پرانی دلّی میں آج بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ استاد رساؔ ایک قلندرانہ صفات کے حامل شاعر تھے، لیکن پرانی دلّی کے گلی کوچوں میں ان کا شہرہ شاعری سے زیادہ ان بلیغ گالیوں کی وجہ سے تھا جو ان کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت رہتی تھیں اور جنھیں سننے کے لیے لوگ ان سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ اردو شاعری کی پوری تاریخ میں شاید ہی ان جیسا کوئی دوسرا شاعر گزرا ہو جو شاعری اور گالیوں پر یکساں عبور رکھتا تھا۔

    ڈاکٹر اسلم پرویز کے بقول: "ان کی گفتگو میں گالیوں کی مقدار نمک میں آٹے کی برابر ہوتی تھی۔”

    جو کوئی ان کی گالیوں کا حال سنتا تو ان سے ملنے کا متمنی ہوتا تھا، لیکن وہ ہر ایرے غیرے کے سامنے گالیاں بکنا بھی کسرِ شان سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ایک مخصوص موڈ اور محفل کی ضرورت ہوتی تھی اور انھیں مشتعل کرنے والا خاص پس منظر بھی۔

    نہ جانے کب سے گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونے کی شعری حکایت جوں کی توں چلی آتی ہے۔ استاد رساؔ دہلوی کی گالیوں کی خوبی یہ تھی کہ کوئی انھیں سن کر بے مزہ نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض تو ایسے بھی تھے جو ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

    استاد رساؔ حضرت بیخود دہلوی کے نہایت سعادت مند شاگرد تھے، لیکن خود ان کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ عرفِ عام میں ’استاد‘ مشہور ہو گئے تھے۔

    استاد رساؔ کھرے دلّی والے تھے۔ وہ فصیل بند شہر کے لوگوں کو ہی اصلی دلّی والا مانتے تھے۔ دہلی کے باقی علاقوں میں رہنے والوں کو وہ ’غیر ملکی‘ تصور کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ انگریزوں نے جمنا کے اوپر پل بنا کر دلّی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ نہ یہ پُل ہوتا اور نہ باہر کے لوگ دلّی آتے۔ استاد رساؔ کا اپنا مکان حوض سوئیوالان میں تھا، لیکن وہ سب سے کم اسی علاقہ میں نظر آتے تھے۔سنا ہے انھیں فٹبال کھیلنے کا بھی شو ق تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک آزاد منش انسان تھے۔ بیوی بچوں کو بوجھ سمجھتے تھے، اس لیے یہ روگ بھی انھوں نے نہیں پالا تھا۔ ان کے مزاج اور چال ڈھال میں بلا کا بانکپن تھا۔ ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کے درمیان بیچ کا راستہ نہیں تھا۔ مخالفوں کا شجرۂ نسب انھیں منہ زبانی یاد رہتا تھا اور وقتِ ضرورت اس کے بیان میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔

    استاد رساؔ نے 8 اکتوبر 1976ء کو بہ عارضہ کینسر 76 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    (معصوم مراد آبادی کے مضمون سے چند پارے)

  • مجروح کی پٹائی

    مجروح کی پٹائی

    اردو کے ممتاز غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری نے کئی فلمی گیت بھی لکھے جو آج بھی مقبول ہیں۔ ان کی غزل کا یہ شعر زباں زدِ عام ہے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

    اسی طرح مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت اک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    خلیق انجم نے اردو کے اس ممتاز غزل گو شاعر کا جو شخصی خاکہ لکھا تھا، یہاں ہم اس سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مجروح کا پورا نام اسرار حسن خاں تھا۔ چوں کہ مجروح انجمن ترقّی اردو مہاراشٹر کے صدر تھے اس لیے میں جب بھی جاتا تو اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔

    ایک دفعہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری رگوں میں راجپوتی خون ہے، اسی لیے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجروح نسلاً راجپوت تھے۔

    مجروح کے والد محمد حسن خاں صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے، اس لیے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے۔ ان کے والد کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تو بری بھی نہیں تھی۔ ان کے والد نے انگریز دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے چنانچہ ان کو ایک مقامی مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پڑھی۔ درس نظامی کے مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے مجروح نے تعلیم ترک کر دی۔

    ہوا یہ کہ مجروح نے کسی لڑکے سے مذاق کیا۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی۔ بات بہت معمولی تھی لیکن مولوی صاحب نے کچھ پوچھے گچھے بغیر بید اٹھا کر مجروح کی پٹائی شروع کر دی۔ پہلے تو مجروح برداشت کرتے رہے، جب پٹائی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ سے بید پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے مولوی صاحب کی گردن۔

    ظاہر ہے کہ اس حرکت کے بعد وہ اسکول میں کیسے رہ سکتے تھے۔ انہیں نکال دیا گیا یا شاید وہ خود مدرسہ چھوڑ کر آ گئے۔ کچھ عرصے بیکار رہے اور پھر 1933ء میں لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔

    مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔

    ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔ مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے:

    "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔

  • پی ٹی وی کے ہر دل عزیز کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کا تذکرہ

    پی ٹی وی کے ہر دل عزیز کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کا تذکرہ

    پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں کی میزبانی اور اپنے منفرد انداز کی بدولت ملک بھر میں پہچان بنانے والوں میں دلدار پرویز بھٹی ہر دل عزیز بھی تھے۔ وہ اپنی حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور طرزِ گفتگو کے سبب لوگوں میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔

    دلدار پرویز بھٹی نے اپنی عملی زندگی آغاز بطوراستاد کیا تھا اور ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دینے کے بعد کے ساتھ لاہور کے ریڈیو اسٹیشن سے فنی سفر شروع کیا تھا۔

    ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا جہاں وہ 30 نومبر 1948 ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک دردمند اور حساس انسان تھے جو اپنے کام اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ دوسروں کی مدد اور تعاون کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ ایسے ہی انسانیت کی خدمت کے ایک کام کے دوران دلدار پرویز بھٹی نے دماغ کی شریان پھٹنے کے سبب دم توڑا تھا۔ وہ 30 اکتوبر 1994ء کو امریکا میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کررہے تھے جب اجل نے انھیں آن لیا۔

    پی ٹی وی کے اس معروف کمپئر نے مختصرعرصے میں عوام کے دلوں میں گھر لیا تھا جس میں ان کی حاضر جوابی اور خوب صورت انداز کا بڑا دخل تھا، وہ تہذیب اور شائستگی کے ساتھ اپنے پروگرام کو اپنی دل چسپ باتوں اور مزاحیہ جملوں کی مدد سے مقبول بنانے کا گر جانتے تھے انھوں نے اپنے برجستہ و چست جملوں اور شائستہ مذاق سے لوگوں کو ہنسنے اور خوب مسکرانے کا موقع دیا۔ دلدار پرویز بھٹی تعلیم یافتہ اور قابل شخص تھے جنھیں بیک وقت اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہی کے مشورے پر پی ٹی وی نے پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کیا تھا اور "ٹاکرا” نامی اس پروگرام سے اپنے فنی سفر کو بھی مہمیز دی۔ "میلہ”، "یادش بخیر”،” جواں فکر ” جیسے مقبول عام پروگرام بھی دلدار پرویز بھٹی کا کارنامہ ہیں۔ ان کا پی ٹی وی سے وابستگی کا سفر 1974ء سے شروع ہوا تھا جو 1994ء میں ان کی وفات تک جاری رہا۔

    دلدار پرویز بھٹی نے تین کتابیں بھی تحریر کیں جن کے نام دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کو اردو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا

    یومِ‌ وفات:‌ ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کو اردو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری کی بدولت نام و مقام بنانے والی نیّر سلطانہ نے ہیروئن سے لے کر معاون اداکارہ تک ہر کردار نہایت عمدگی سے ادا کیا اور شہرت پائی۔ آج اس باکمال اداکارہ کا یومِ‌ وفات ہے۔

    27 اکتوبر 1992ء کو دنیا سے رخصت ہونے والی نیّر سلطانہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ویمن کالج علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے کراچی آگئیں۔

    یہاں ان کا فلم انڈسٹری میں تعارف اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کی بدولت ہوا، نیّر سلطانہ کی ان سے ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیشکش کی تو نیّر سلطانہ نے انکار نہ کیا اور یوں یہ ملاقات ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔

    خوب صورت اور خوش قامت نیّر سلطانہ کو فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا فن و ادب میں ان کی اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے متاثر ہوئے تھے۔ اور بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا نے ان کا انتخاب غلط نہ کیا تھا۔ 50 اور 60 کی دہائی میں‌ وہ ایک مقبول اداکارہ تھیں۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ نیّر سلطانہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا اور اسی بیماری کے ہاتھوں انھوں نے زندگی کی بازی ہاری تھی۔

  • شہرۂ آفاق کتاب “حیاتُ الحیوان” کے مصنّف علّامہ کمال الدّین دمیری کا تذکرہ

    شہرۂ آفاق کتاب “حیاتُ الحیوان” کے مصنّف علّامہ کمال الدّین دمیری کا تذکرہ

    علّامہ کمال الدّین دمیری کی شہرۂ آفاق تصنیف “حیاتُ الحیوان” علمی و تحقیقی کتابوں میں آج بھی سرِفہرست ہے۔ علم و فضل میں‌ ممتاز اس محقّق کو دنیا ماہرِ حیوانات کی حیثیت سے جانتی ہے۔

    دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جو مصر کے علاقے دمیرہ میں‌ 1349ء میں پیدا ہوئے تھے۔ مؤرخین اور محققین نے علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر جو معلومات اکٹھی کیں، ان کے مطابق علّامہ نے قاہرہ میں‌ تعلیم مکمل کی اور جامعہ ازہر میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    مشہور ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک پرہیز گار اور عالم فاضل تھے۔ انھیں‌ کسبِ علم و شوقِ تحقیق نے وہ مقام و مرتبہ عطا کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکّہ میں بھی گزرا اور وہاں‌ بھی وہ درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    عّلامہ دمیری نے تحصیلِ علم کے لیے اپنے وقت کے باکمال اور نام وَر اساتذہ سے استفادہ کیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین طالبِ علم تھے جس نے غور و فکر اور مشاہدے کی پختہ عادت کے سبب ایک زبردست تصنیف یادگار چھوڑی جو جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی اس میں بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب علّامہ کی تحقیق و ریاضت بہترین نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل اور جامع کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کے بارے میں علّامہ دمیری نے علمی و تحقیقی مباحث چھیڑے ہیں۔

    اس جیّد عالم اور اپنے وقت کے عظیم محقق کی تاریخِ وفات 27 اکتوبر 1405ء ہے۔ قاہرہ میں انتقال کرنے والے علّامہ دمیری کو مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • علّامہ عبدالعزیز میمن کا تذکرہ جنھیں ہم نے فراموش کر دیا

    علّامہ عبدالعزیز میمن کا تذکرہ جنھیں ہم نے فراموش کر دیا

    عربی زبان و ادب میں یدِ طولیٰ رکھنے والے علّامہ عبدالعزیز میمن کا نام ایک ثقہ عالم اور استاد کے طور پر عالمی شہرت کا حامل رہا ہے۔

    بدقسمتی کہیے کہ آج پاکستان میں اس نادرِ روزگار شخصیت کے نام اور ان کے کام سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلِ زبان انھیں نہ صرف لغۃُ العربیہ کا امام مانتے رہے ہیں بلکہ یورپی مستشرقین ان کی علمی و تحقیقی بصیرت اور معیار کے معترف ہیں۔

    علّامہ صاحب کا سارا کام تحقیقی نوعیت کا ہے اور نہایت مستند، جامع اور معیاری ہے۔ اس بلند پایہ مصنّف اور عالم نے تمام عمر ستائش اور صلے سے بے نیاز رہ کر کام کیا۔

    پروفیسر علّامہ عبدالعزیز میمن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ پنجاب اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر رہے۔ وہ عربی لغت کی باریکیوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور ان کی عربی دانی کو اہلِ عرب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ عبد العزیز میمن نے 23 اکتوبر 1888ء کو راج کوٹ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ راج کوٹ اور جونا گڑھ سے شروع ہوا اور بعد میں وہ دہلی چلے گئے جہاں اپنے وقت کے جیّد علما اور ممتاز دینی شخصیات کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد سے بھی اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں انھوں نے جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔یہ علّامہ صاحب ہی تھے جن کی کوششوں سے قیامِ پاکستان کے بعد جامعہ کراچی میں شعبۂ عربی قائم ہوا۔ علمی گہرائی، تحقیق و تدقیق اور ذوقِ تالیف و تصنیف علّامہ صاحب کا خاصہ تھا، انھوں نے کئی مقالات سپردِ قلم کیے اور ان کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل متعدد کتابیں ان کی تحقیقی لگن، فکری بصیرت و تعلیمی شعور کا پتا دیتی ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے علّامہ عبد العزیز میمن کو ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    یہ عظیم استاد اور عربی داں 27 اکتوبر 1978ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • خدیجہ گائیبووا جسے صرف پندرہ منٹ میں‌ زندگی سے محروم کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا

    خدیجہ گائیبووا جسے صرف پندرہ منٹ میں‌ زندگی سے محروم کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا

    خدیجہ گائیبووا کے مقدمہ کی سماعت اور اس کا فیصلہ سنانے میں عدالت اپنے 15 منٹ صرف کیے اور اسے موت کی سزا سنا دی۔ فائرنگ اسکواڈ نے 27 اکتوبر 1938ء کو عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے خدیجہ گائیبووا کو ابدی نیند سلا دیا۔

    46 سال کی عمر میں‌ موت کی سزا پانے والی خدیجہ گائیبووا اس زمانے کے آذر بائیجان کی مشہور ماہرِ موسیقی اور پیانو نواز تھی۔ یہ وہ دور تھا جب روس ایک عظیم متحد ریاست تھا، خدیجہ نے جارجیا کے خوب صورت شہر طفلیس (تلبیسی) میں آنکھ کھولی۔ وہ 24 مئی 1893ء کو عثمان مفتی زادے جیسے مسلمان عالم کے گھر پیدا ہوئی تھی۔ والد نے 18 سال کی عمر میں خدیجہ گائیبووا کو بیاہ دیا تھا اور شادی کے بعد خدیجہ مسلمانوں‌ کے ایک مقامی اسکول میں تدریس سے منسلک ہوگئی۔

    خدیجہ نے 1901ء سے 1911ء کے عرصے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پیانو جیسے ساز کو بجانے کی تربیت بھی حاصل کی۔ پیانو اس دور میں ایک مقبول ساز تھا جسے آذربائیجان اور روس بھر میں لوک موسیقی اور تفریحِ طبع کے لیے پسند کیا جاتا تھا۔ خدیجہ نے پیانو پر دھنیں‌ بکھیرتے ہوئے خوب مہارت حاصل کی۔ اس نے مشرقی اور لوک موسیقی کو نئے اور منفرد رجحانات سے متعارف کروایا۔

    خدیجہ گائیبووا اپنے ملک کی پہلی باقاعدہ اور ماہر پیانو نواز تھی جو اس ساز پر ‘مغم’ (موسیقی کی مقامی صنف) چھیڑ کر مقبول ہوئی اور اسے آذربائیجان کی اوّلین باکمال موسیقار کہا جانے لگا۔ موسیقی اور پیانو کی ترویج و فروغ کے لیے خدیجہ نے بہت لگن سے کام کیا۔ وہ ملکی سطح پر فنِ موسیقی فروغ کے ادارے کی بانی کہلائی اور بعد میں اسے آذربائیجان میں مشرقی موسیقی کی تعلیم کے شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں خدیجہ گائیبووا نے لڑکیوں کو پیانو بجانا سکھایا اور انھیں‌ موسیقی اور آرٹ کی تعلیم دی۔ وہاں خدیجہ کی کوششوں سے باقاعدہ میوزک کلاسوں کا اہتمام کیا جانے لگا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب متحدہ روس اور اس خطّے میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔

    انقلابِ روس اور جوزف اسٹالن کی قیادت میں‌ نئی سیاسی و سماجی تنظیم کی تشکیل کا آغاز ہوا تو اپنے مخالفین کی گرفتاریوں اور جاسوسی یا غداری کے الزامات کے تحت انھیں‌ موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔

    خدیجہ گائیبووا ایک فن کار ہی نہیں‌ تھی بلکہ سماج اور سیاست سے متعلق اس کے افکار اور نظریات بھی اسے بے چین رکھتے تھے۔ وہ اپنے حلقۂ احباب اور شاگردوں میں‌ ان کا اظہار بھی کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 1933ء میں اسے انقلابی سرگرمیوں کے الزام تحت گرفتار کر لیا گیا۔ وہ تین ماہ تک نظر بند رہی اور اس عرصے میں خدیجہ پر جاسوسی کا الزام ثابت نہ ہوسکا تو اس کی رہائی کا پروانہ جاری کردیا گیا۔ رہائی کے اگلے ہی سال اسے لوک موسیقی کے ایک محقّق کی حیثیت سے ملازمت بھی مل گئی۔

    اس زمانے میں متحدہ روس میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ وہاں بیرونِ ممالک سے موسیقار، ادیب اور شاعر ہی نہیں دانش وروں اور باشعور لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ یہ لوگ روس کے اس زمانے کے میوزک "سیلون” میں جمع ہوتے تھے جن میں‌ ترکی کے فن کار اور آرٹ کے شائقین بھی شامل تھے۔ سوویت حکام کو یہ اطلاع ملتی رہتی تھی کہ علم و فنون کے فروغ کی آڑ میں‌ کچھ لوگ سیاسی اور قیادت مخالف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بالخصوص ترکی سے آنے والے فن کاروں کا نام سامنے آیا جس کے بعد روسی حکام کے ترکی کی حکومت سے تعلقات میں کچھ بگاڑ آیا۔ روسی جاسوس خدیجہ گائیبووا کی نگرانی کررہے تھے۔ 17 مارچ 1938ء کو گائیبووا کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور اس پر حکومت مخالف جماعت سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کردیا گیا۔ پانچ ماہ تک پوچھ گچھ اور تفتیش جاری رہی جس میں‌ خدیجہ بے قصور ثابت ہوگئی، لیکن اسے رہائی نصیب نہ ہوسکی اور غیرمنصفانہ طریقے سے کارروائی کو بڑھا کر عدالت کے ذریعے خدیجہ سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔