Tag: اکتوبر وفات

  • اکتارہ سے پھوٹنے والی ترنگ بھی سائیں‌ مرنا کے ساتھ ہی مَر گئی

    اکتارہ سے پھوٹنے والی ترنگ بھی سائیں‌ مرنا کے ساتھ ہی مَر گئی

    برصغیر پاک و ہند میں لوک موسیقی اور فن کاروں‌ کے بارے میں اب صرف کتابوں میں پڑھا جاسکتا ہے اور قدیم روایتی سازوں کو میوزیم میں ایک یادگار کے طور پر ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ سائیں مرنا کا نام بھی رفتگاں کے تذکرے میں اکتارہ کو بڑی نفاست اور مہارت سے حرکت دے کر سماں باندھ دینے کے لیے محفوظ ہے۔ وہ پاکستان میں لوک موسیقی اور ساز و انداز کی دنیا کے ایک باکمال تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    سائیں مرنا کو اکتارہ جیسے روایتی ساز نے ملک گیر شہرت عطا کی تھی۔ ان کا انتقال 27 اکتوبر 1961ء کو ہوا تھا۔ سائیں‌ مرنا کا اصل نام تاج الدّین تھا۔ وہ 1910ء میں امرتسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ مشہور ہے کہ سائیں‌ مرنا نے عشق میں ناکامی کے بعد اکتارہ کو غمِ‌ جاناں‌ اور تنہائی کا کرب مٹانے کے لیے اپنا لیا تھا۔ وہ فقط سازندے نہیں‌ تھے بلکہ اس ساز میں انھوں نے اختراعات بھی کیں اور اسے وچتر وینا کی طرح بجانے لگے۔ اکتارہ بجانے میں ان کو وہ کمال حاصل ہوا کہ سائیں‌ مرنا ملک بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1946ء میں سائیں‌ مرنا کو ریڈیو، لاہور پر پہلی مرتبہ اکتارہ بجانے کا موقع ملا تھا۔ انھیں‌ ریڈیو تک پہنچانے والے محمود نظامی تھے اور ان کی بدولت سائیں مرنا کا فن دنیا کے سامنے آیا۔ اس سے پہلے سائیں مرنا بس اسٹاپوں اور میلوں ٹھیلوں میں اکتارا بجا کر لوگوں‌ کو محظوظ کرتے تھے۔ سائیں‌ مرنا اکثر بزرگانِ دین کے مزارات خصوصاً حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر بھی اکتارا بجاتے نظر آتے تھے۔ اس موقع پر جمع ہونے والے لوگ انھیں‌ اپنی خوشی سے کچھ پیسے دے دیتے تھے اور یوں ان کا گزر بسر ہوتا تھا۔ وہ ایک باکمال اکتارا نواز تھے اور انھیں‌ واقعی سننے والا مسحور ہو کر رہ جاتا تھا۔

    کسی طرح وہ نظامی صاحب کی نظر میں‌ آئے اور انھوں نے سائیں مرنا کو لاہور میں ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ریڈیو کے سامعین لوک موسیقی کے پروگرام بہت شوق سے سنتے تھے اور جب سائیں مرنا نے اس ساز کو بجایا تو ہر کوئی جھوم اٹھا۔ ان کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل گئی۔ انہی دنوں ریڈیو پر آج کا آرٹسٹ کے نام سے نظامی صاحب نے موسیقی کا ایک پروگرام شروع کیا جس میں‌ گلوکار، موسیقار یا کسی لوک فن کار کو مدعو کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ سائیں مرنا کو بھی اس پروگرام کے لیے مدعو کیا گیا مگر وہ مقررہ دن ریڈیو اسٹیشن نہیں‌ پہنچے اور پروڈیوسر نے وقت دیکھا تو گھبرا گیا۔ اس نے نظامی صاحب کو جا کر بتایا تو وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیوں کہ سائیں مرنا کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں‌ تھا۔ انھیں‌ کہاں‌ سے پکڑ کر لایا جاتا اور پروگرام کیا جاتا۔ اس دن کسی اور فن کار کو بلوا کر پروگرام نشر کر دیا گیا۔ دو دن بعد سائیں مرنا لاہور ریڈیو اسٹیشن پہنچے تو اسٹیشن ڈائریکٹر نے انھیں‌ سخت باتیں‌ کہہ دیں۔

    اس ڈانٹ ڈپٹ نے سائیں کو آزردہ کردیا اور وہ بھی اب وہاں دوبارہ نہ آنے کا عہد کر کے پلٹ گئے۔ نظامی صاحب نے بعد میں انھیں‌ کسی طرح منا لیا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ ایک فقیر منش اور سیدھے سادے انسان تھے اور یہ سمجھنا ان کے لیے مشکل تھا کہ وقت مقررہ پر پروگرام کی ریکارڈنگ یا اس کا نشر ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے۔

    یہ لوک فن کار جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔ سائیں مرنا کے ساتھ ہی گویا یہ خوب صورت ساز اور اس کے وجود سے پھوٹنے والی ترنگ بھی ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئی۔

  • ابراہیم جلیس: ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا!

    ابراہیم جلیس: ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا!

    اردو کے ممتاز ادیب اور صحافی ابراہیم جلیس نے 26 اکتوبر 1977ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    پاکستان اور بھارت میں بھی ابراہیم جلیس کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی کالموں، افسانوں، ادبی مضامین کے ساتھ صحافت سے وابستگی کے سبب پہچانا جاتا تھا۔

    ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ وہ 11 اگست 1922ء کو بنگلور میں پیدا ہوئے لیکن تعلیم و تربیت گلبرگہ، حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کے بعد لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔

    1948ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، حریت اور مساوات شامل تھے۔ وہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے مدیر بنے اور جب 1977ء میں مارشل کے دوران پابندیاں عائد کی گئیں تو انھوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اسی زمانے میں دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کی موت ہوئی۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری کا سفر شروع ہوا تو پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ نے انھیں‌ اپنے شمارے میں جگہ دی۔ انھوں نے طنز و مزاح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے اہم اور معتبر اخبار اور رسائل میں ان کے کالم شایع ہوئے جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ کئی مضامین، سفر نامے، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی ان کے قلم سے نکلے اور یادگار ٹھہرے۔ فلمی دنیا اور ریڈیو کے لیے بھی اسکرپٹ اور ڈرامے لکھتے رہے۔

    ان کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس کے انشائیے بھی بہت پسند کیے گئے۔

    پاکستان کے اس نام ور قلم کار کے بارے میں معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کا یہ مضمون پڑھیے:‌ ابراہیم جلیس ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔

    وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کو اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔

    اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلد باز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بے باک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چلے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔

    ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم، اس کی وراثت ہے۔ کوئی نہ کوئی بے باک صحافی اس کو اٹھا لے گا اور ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔

  • مشہور شاعر استاد قمر جلالوی کا تذکرہ

    مشہور شاعر استاد قمر جلالوی کا تذکرہ

    قمر جلالوی اردو شاعری کی جملہ اصنافِ‌ سخن پر قدرت رکھتے تھے۔ انھیں اردو کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی معاش کے لیے مشقّت اور محنت کے ساتھ سخن گوئی میں تمام ہوئی۔ قمر جلالوی نے 24 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی۔

    اردو میں کلاسیکی رنگ میں‌ اپنی غزل گوئی کے لیے مشہور قمر جلالوی کا اصل نام محمد حسین عابدی تھا۔ 1884ء میں انھوں نے قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہو گیا تھا۔ کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور نوجوانی ہی میں‌ اصلاح دینے لگے تھے۔ ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد تقسیم کے بعد بھی پاکستان اور بھارت میں‌ موجود تھی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے ہجرت کرکے کراچی میں رہائش اختیار کی۔ وہ یہاں‌ ادبی حلقوں اور مشاعروں‌ میں اپنے ترنم اور کلاسیکی رنگ میں اپنی شاعری کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ انھیں ہر مشاعرے میں مدعو کیا جاتا تھا۔

    ضلع علی گڑھ میں ان کی بائیسکل کی دکان تھی اور یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا۔ کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے سائیکل کی دکان کر لی۔

    قمر جلالوی کو سلاستِ کلام نے اپنے دور کا مقبول شاعر بنا دیا تھا۔ طویل بحروں میں‌ بھی انھوں نے روایتی مضامین کو نہایت خوبی سے نبھایا ہے، ان کی شاعری میں دہلی اور لکھنؤ، دونوں دبستانِ شاعری کی چاشنی ملتی ہے۔ استاد قمر جلالوی کے شعری مجموعے اوجِ قمر، رشکِ قمر، غمِ جاوداں اور عقیدتِ جاوداں کے نام سے شایع ہوئے۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی ایک مشہور غزل اور چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
    بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

    آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں
    عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

    گلستاں کو جب بھی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
    پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

    ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
    وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

    اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے مرا ذوق نظر آزما لیجیے
    آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر یا تو نظریں نہیں یا نظارہ نہیں

    جانے کس کی لگن کس کے دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
    ہم نے آواز پر تم کو آواز دی پھر بھی کہتے ہو ہم نے پکارا نہیں

    اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
    جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

    کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
    نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

    دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
    ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

  • حکیم شمسُ اللہ قادری:‌ ایک گوہرِ‌ نایاب کا تذکرہ

    حکیم شمسُ اللہ قادری:‌ ایک گوہرِ‌ نایاب کا تذکرہ

    حکیم شمسُ اللہ قادری نے کئی نایاب اور اہم موضوعات پر کتابیں‌ یادگار چھوڑی ہیں جو انھیں ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے ممتاز کرتی ہیں۔ وہ ایک ذہین، نہایت قابل اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے جنھوں نے تصنیف و تالیف کے ساتھ اپنے ذوق و شوق کی بدولت علمی میدان میں ایک الگ پہچان بنائی۔

    تاریخ و ادب پر حکیم شمس اللہ قادری کے تحریر کردہ کئی مضامین اور مقالے ان مضامین میں بالخصوص طلبہ کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ قادری صاحب کے مقالے ’اردوئے قدیم‘ کو ان کی زبردست تحقیقی کاوش اور ایک کارنامہ کہا جاتا ہے۔ حکیم شمس اللہ قادری نے ایک سہ ماہی رسالہ ’تاریخ‘ بھی جاری کیا تھا جو اس میدان میں ان کی ازحد دل چسپی اور اس موضوع سے ان کے گہرے لگاؤ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے اور ان کے کام میں تحقیقی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا سلیمان ندوی، مولانا عبدالحق اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی جیسی شخصیات انھیں واثقہ مانتی تھیں اور مختلف موضوعات پر ان سے مشورہ اور استفادہ کیا کرتی تھیں۔

    حکیم سید محمد شمس اللہ قادری نے 5 نومبر 1885ء کو ہندوستان کی ایک مرفّہ الحال ریاست حیدر آباد دکن میں‌ آنکھ کھولی جس کے حکم راں بھی اردو زبان اور علم و ادب سے محبّت کرنے والے تھے۔ حکیم صاحب اس ریاست کے ایک علاقے لال باغ میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ذوق و شوق کی بدولت علم و ادب سے متعلق سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے اور طباعت و اشاعت کے کاموں سے تاعمر واسطہ رکھا۔

    حکیم شمسُ اللہ قادری کو ‘دکنیات’ کا پہلا محقّق بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سنہ 1913ء تک ادارہ فرانسیسی ہندی تاریخ اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی برطانیہ و آئرلینڈ کے اعزازی ممبر بھی رہے۔ 1925ء میں انھوں نے سہ ماہی رسالہ تاریخ شایع کیا تھا۔ ان کی کتاب اردوئے قدیم کو اردو زبان کی تاریخ کی ابتدائی و بنیادی کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے سیکڑوں علمی، تاریخی، تحقیقی اور ادبی مقالہ جات مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوئے۔ ہندوستان میں اسلامی ادوار پر ان کی متعدد تحقیقی کتب کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔

    حکیم شمسُ اللہ قادری نے عربوں کے ہندی تعلقات کو باریک بینی سے اجاگر کیا اور ہندوستان میں اسلامی زوال کے اسباب کو واضح کرنے کی بھرپور سعی کی۔ اردو زبان میں سب سے پہلے تاریخی ادوار کی عمدگی سے تشریح اور تحقیقی انداز سے پیش کرنے کی وجہ سے انھیں ’شمسُ المؤرخین‘ کا خطاب دیا گیا۔

    اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے محقق اور محتاط تاریخ دان تھے۔ وہ متعدد زبانوں‌ کا علم رکھتے تھے۔ اردو کے علاوہ ان کے مقالات عربی، ہندی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمن زبانوں زبانوں میں بھی شائع ہوئے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں سے عرب و فارس کے تاجروں کی آمد، ان راستوں پر انھوں نے گہرائی سے تحقیق کی جب کہ سمندری راستوں سے سری لنکا، انڈونیشیا، مالدیپ، چین اور افریقہ کے روابط پر بھی اپنی تحقیق کو کتابی شکل میں پیش کیا اور یہ اہم اور معلوماتی کام ہے۔

    شمس اللہ قادری نے کئی نایاب اور فراموش کردہ کتب پر مضامین و مقالے اپنے سہ ماہی رسالے تاریخ میں شایع کیے۔ حیدرآباد دکن کے نظام میر عثمان علی خان کے فرمان پر ان کا بہت سا کام سرکاری سطح پر کتابی شکل میں شایع کروایا گیا جب کہ 1930ء میں ان کی ادبی و علمی خدمات کے عوض خطیر رقم سے بھی نوازے گئے اور ڈیڑھ سو روپے ماہانہ وظیفہ تاحیات پایا۔ بلاشبہ اس گوہرِ‌ نایاب کی خوب خوب قدر دکن میں ہوئی اور ان کا کام بھی شایع ہوتا رہا۔

    22 اکتوبر 1953ء کو حکیم شمس اللہ قادری نے وفات پائی تھی۔ ان کی کتابوں میں‌ تاریخ مشاہیرِ ہند، جواہرُ العجائب، سکہ جاتِ اودھ، النقود الاسلامیہ، ملیبار، ملیبار سے عربوں کے تعلقات، مسکوکاتِ قدیمہ، پرتگیزان مالابار، قاموس الاعلام اور تاریخ دکن شامل ہیں۔

  • گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    ستّر کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں گرو دَت کا چرچا تو خوب ہوا، لیکن جو شہرت انھیں‌ موت کے بعد نصیب ہوئی، وہ زندگی میں ان کا مقدر نہیں بن سکی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح گرو دَت کی موت کی خبر سامنے آئی۔ انھوں نے خود کشی کر لی تھی۔

    خود کُشی سے ایک روز قبل وہ رات گئے تک معروف مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے، لیکن اس رات خود کُشی کے طریقے بھی زیرِ بحث آئے تھے۔ ابرار علوی کی زبانی معلوم ہوا کہ گرو دت نے اس روز کہا تھا کہ زیادہ مقدار میں نیند کی گولیاں پانی میں‌ گھول کر پی جائيں تو خود کُشی کی کوشش میں کام یابی ہوسکتی ہے۔ اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے انھوں نے یہی طریقہ اپنایا۔ گرو دت اپنے بیڈ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

    فلم انڈسٹری میں‌ گرو دت کو ایک باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز اور بہترین اداکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہونے والے گرو دت کا بچپن کلکتہ میں‌ گزرا۔ وہ بیس برس کے تھے جب فلم نگری میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنا سفر شروع کیا۔ انھیں اس آغاز پر گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی تھی۔ گرو دَت کی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ تھی لیکن اس سے پہلے بھی وہ تین فلموں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ کے لیے اپنی صلاحیتوں‌ کو آزما چکے تھے۔

    گرو دت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے سے آگے کی فلمیں بناتے تھے۔ اس کی ایک مثال مسٹر اینڈ مسز 55 ہے جس میں نظر آنے ولے کردار ہمیں آج کی شہری زندگی میں‌ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ گرو دت کی فلم ‘پیاسا’ کو ٹائم ميگزین نے دنیا کی 100 بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

    1970ء میں گرو دَت کی فلموں کا خوب چرچا ہوا اور 1980ء میں ان کا نام ایک فرانسیسی محقّق کے ریسرچ پیپر میں شامل ہوا جس نے گرو دت کو عالمی سطح پر پہچان دی۔ ان کی فلمیں فرانسں اور یورپ کے متعدد شہروں میں منعقد ہونے والے فلمی میلوں میں زیرِ نمائش رہیں۔

    گرو دت کی الم ناک موت کی اطلاع پاکر اپنے وقت کے نام ور فن کار اور فلمی شخصیات جن میں دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس، مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان بھی شامل ہیں، اپنی مصروفیات ترک کر کے ممبئی (بمبئی) پہنچے تھے۔ ہر چھوٹا بڑا فن کار اور فلم نگری سے وابستہ آرٹسٹ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شریک اور غم زدہ تھا۔ گرو دَت 39 سال کے تھے جب انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔

    1951ء میں گرو دت کی فلم بازی ریلیز ہوئی تھی جس نے زبردست بزنس کیا اور یوں 25 برس کی عمر میں ان کے فن و کمال کو سبھی نے تسلیم کیا۔ وہ اپنی فلموں میں‌ اداکاری بھی کرتے رہے اور خود کو اس میدان میں منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اس سے اگلے سال گرو دت نے فلم جال کے لیے ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی جیسی فلمیں‌ بنائیں۔ گرو دت نے اداکارہ وحیدہ رحمان کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کرایا تھا اور ان سے تعلق اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی میں‌ ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ وحیدہ رحمان ان کی فلمی زندگی میں خوش گوار اضافہ تھی، لیکن اسی لڑکی نے فلم ساز کی خانگی زندگی میں وہ طوفان برپا کیا جس میں‌ گرو دت اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    1953ء میں گرو دت نے معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کی تھی۔ اس جوڑے کے یہاں‌ دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی، لیکن وحیدہ رحمان سے گرو دت کے عشق نے ان کی بیوی کو بدظن کر دیا اور وہ بچّوں کو لے الگ رہنے لگی۔ یہ عشق کسی سے چھپا نہ رہ سکا اور اہلیہ سے تلخی اور اس کا گھر چھوڑ دینا اب ایک افسانہ بن گیا تھا۔ وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھا گرو دَت سے دور جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب گرو دَت تنہا رہ گئے تھے۔

    اسی عرصہ میں‌ ان کی ایک فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی اور ہدایت کار کی حیثیت سے گرو دت کو اس کا بڑا قلق ہوا۔ بیوی بچّوں اور پھر وحیدہ کا ان سے دور ہوجانا جہاں ان کی ذہنی حالت پر اثرانداز ہوا تھا، وہیں فلم کی ناکامی نے بھی گرو دَت کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور ان سارے جھمیلوں سے نجات پانے کے لیے گرو دت نے نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

  • ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو کی کہانیاں فنی تراش اور تکمیل کا نمونہ ہیں۔ اس امریکی ادیب کو مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ پو ایک عمدہ شاعر اور تنقید نگار بھی تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ڈراؤنی اور دہشت انگیز کہانیاں‌ تھیں‌۔ اس نے جرم و سزا اور سنسنی خیز واقعات کو بھی کہانیوں میں سمویا جو بہت مقبول ہوئیں۔ وہ مختصر نویسی میں‌ کمال رکھتا تھا۔ 7 اکتوبر 1849ء کو ایلن پو ابدی نیند سوگیا۔

    نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں‌ نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس نے مختصر افسانہ کا ادبی اور فنی روپ نکھارا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی پو اپنے پیروں‌ پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اس کنبے کو چھوڑ دیا اور اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا اور حصولِ تعلیم‌ کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے جامعہ میں‌ یونیورسٹی آف ورجینیا میں‌ داخلہ لیا تاہم یہاں‌ تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ گھریلو ناچاقیوں اور بدمزگیوں کے علاوہ پو اپنے غصّے، عجیب و غریب عادات، بدمزاجی اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ایڈگر ایلن پو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی نے ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔

    اپنے ایسے ہی افسانوں اور مختصر کہانیوں کی بدولت وہ مشہور بھی ہوا اور اپنے موضوعات میں زبردست قوّتِ تخلیق اور خاص تکنیک کے سبب ناقدین سے داد بھی پائی۔

    ایڈگر ایلن پو کو شہرت تو بہت ملی، لیکن بیوی کی اچانک موت اور دوسرے مسائل کے علاوہ بچپن میں‌ والدین سے دوری جیسے معاملات نے اس کے دماغ پر اثرات مرتب کیے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ شراب نوشی وہ مسئلہ تھا جس نے اسے لوگوں اور بیرونی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا اور وہ ڈپریشن کی وجہ سے‌ موت کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ وہ ایک گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔

    پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں‌ نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔

  • ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ‘دا نائٹ واچ‘ کے خالق ریمبرانٹ کا تذکرہ

    ریمبرانٹ کو دنیا بھر میں‌ ہالینڈ کے سب سے زیادہ مشہور مصوّر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس کی موت کو ساڑھے تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج بھی ریمبرانٹ کا فن اور بالخصوص سیلف پورٹریٹ زیرِ‌ بحث رہتے ہیں۔

    مصوّری کے فن میں‌ اپنی شاہ کار تصاویر کی بدولت نام پانے والے ریمبرانٹ نے 4 اکتوبر 1669ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ فنونِ لطیفہ کے ماہرین اور مصوّری کے نقّاد ریمبرانٹ کو ایک نابغہ تسلیم کرتے ہیں اور اسے متاثر کن حد تک جدّت پسند مصوّر کہا جاتا ہے۔

    کہتے ہیں دنیا بھر میں ہالینڈ کے کسی اور مصوّر کی تخلیقات اتنی مشہور نہیں ہیں، جتنی کہ ریمبرانٹ کی ہیں۔ وہ اپنے پورٹریٹ بنانے کے لیے بھی مشہور ہے جنھیں اس مصوّر کے کمالِ فن کا شاہ کار مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریمبرانٹ روزانہ کئی گھنٹے اپنی تصویر بنانے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔

    عالمی شہرت یافتہ ریمبرانٹ کی ایک مشہور پینٹنگ ‘دا نائٹ واچ‘ کے نام سے آج بھی ڈچ شہر ایمسٹرڈم کے ‘رائکس میوزیم‘ میں موجود ہے۔ اس کی بنائی ہوئی چند دیگر تصاویر دنیا کی بڑی آرٹ گیلریز کی زینت ہیں اور شائقین کے ساتھ نوآموز فن کاروں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

    ریمبرانٹ کے ابتدائی حالات اور اس کے خاندان کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان کے مطابق اس کے والد اناج پیسنے والی ایک چکّی کے مالک تھے۔ وہ ہالینڈ کے باسی تھے۔ ریمبرانٹ 1609ء میں پیدا ہوا اور ریمبرانٹ وان رائن کے نام سے زندگی کا سفر شروع کیا۔ اسے شروع ہی سے نقّاشی اور ایسے مختلف فنون سے لگاؤ پیدا ہو گیا تھا جو اسے مصوّری کی طرف لے گئے۔ ریمبرانٹ نے آئل پینٹنگز اور اسکیچز بھی بنائے اور اس میں مختلف تجربات کیے۔

    ماہرین کے مطابق وہ 16 ویں صدی کے اطالوی مصوّروں سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ جب اس نے اپنے ہاتھ میں برش تھاما تو انہی مصوّروں کے زیرِ اثر تصویروں بنانا شروع کیں‌۔ تاہم اس کے فن کی خاص بات مختلف تخلیقی تجربات ہیں جس سے اس کے جنون اور وفورِ شوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس نے ریمبرانٹ کے فن کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ نقّادوں کے مطابق وہ ایک ایسا اختراع پسند تھا جس نے تکنیکی طور پر اپنے فن پاروں کو جدّت اور انفرادیت سے سجایا اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین صدیوں‌ سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اس کی تصویریں زندہ و متحرک محسوس ہوتی ہیں اور اسی خوبی نے ریمبرانٹ کی شہرت برقرار رکھی ہے۔

    اس مصوّر کی انفرادیت اور اس کی تصاویر کا قابلِ‌ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے پینٹنگز کے ذریعے داستان گوئی اور قدیم و تاریخی واقعات کو خوب صورتی سے کینوس پر اتارا۔

    فنِ مصوّری کے ماہر اس بات کو ریمبرانٹ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں کہ اس کی پینٹنگز میں‌ جسمانی حرکات و سکنات کو نہایت فن کارانہ چابک دستی اور مؤثر انداز سے پیش کیا گیا ہے، اور یہ کردار بولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فن پاروں میں روشنی اور مختلف رنگوں کا وہ متنوع تأثر ملتا ہے جسے مصوّر کی اختراع پسندی نے بے مثال بنا دیا ہے۔

    ریمبرانٹ کے سیلف پورٹریٹ کسی بھی دوسرے مصوّر کے مقابلے بہت زیادہ ہیں اور یہ شاید اسے بہت پسند تھا۔ اس مصوّر نے خود کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کر کے فنِ مصوّری میں اپنی مہارت کا اظہار اور مختلف تجربات کیے۔ یہ اس کے زرخیز ذہن اور اس فن میں اس کے جنون کی علامت بھی ہے۔

  • رضیہ بٹ کا تذکرہ جو اپنی کہانیوں میں‌ عورت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہیں

    رضیہ بٹ کا تذکرہ جو اپنی کہانیوں میں‌ عورت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہیں

    چند دہائیوں قبل ہر گھر میں‌ اخبار، مختلف ادبی جرائد اور بچّوں کے رسالے اور ڈائجسٹ وغیرہ بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ رضیہ بٹ اس وقت کی ایک مقبول رائٹر تھیں‌ جن کی رومانوی اور خانگی مسائل پر مبنی کہانیوں نے کثیرالاشاعت ڈائجسٹوں میں جگہ پائی اور انھیں زبردست پذیرائی ملی۔

    آج رضیہ بٹ کا یومِ وفات ہے۔ پاکستان کی اس معروف ناول نگار نے طویل علالت کے بعد 4 اکتوبر 2012ء کو دارِ‌ بقا کی جانب کوچ کیا۔ ان کی عمر 89 برس تھی۔

    1940ء کے عشرے میں لکھنے کا آغاز کرنے والی رضیہ بٹ نے تقسیمِ ہند کے ان واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا جو آنکھوں دیکھے تھے۔ آزادی کے بعد پاکستانی سماج، یہاں خاندانوں میں‌ عورت اور اس کی خوشیاں، دکھ سکھ اور خانگی مسائل ان کی تحریروں میں نمایاں ہوئے اور وہ عورتوں‌ کی پسندیدہ رائٹر بنیں۔ رضیہ بٹ نے ناول بھی لکھے جن کی کُل تعداد 53 ہے۔

    ان کا ناول ’بانو‘ قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس ناول کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا۔

    رضیہ بٹ نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی تھی جو رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور بعد میں ناول انیلہ اور شبو کو بھی بڑے پردے کے لیے فلمایا گیا۔

    4 اکتوبر 2012ء کو وفات پانے والی رضیہ بٹ کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اس مقبول رائٹر کا خاندانی نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا بچپن پشاور میں گزرا۔ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولنے کے سبب وہ مطالعے کی عادی ہوگئی تھیں جس نے ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اُجاگر کیا۔ وہ اسکول کے زمانے میں اردو کی اچھی طالبہ رہیں۔ شستہ اردو اور اپنی تحریروں کی وجہ سے وہ اساتذہ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہیں اور ان کی حوصلہ افزائی اور مسلسل تعریفی کلمات نے رضیہ بٹ کے والد کو اپنی بیٹی پر توجہ دینے پر آمادہ کیا۔ انھیں احساس ہوا کہ رضیہ بٹ تخلیقی جوہر اور زرخیز ذہن کی مالک ہیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ رضیہ بٹ کی اوّلین تحریر ادبی جریدے میں‌ شائع ہوئی اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا آغاز ہوگیا۔

    1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ رضیہ بٹ نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی تحریر کیے۔

    رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے ناولوں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ان میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو نمایاں کرتے ہوئے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی کے ذریعے اصلاح کی کوشش اور راہ نمائی کرتی تھیں۔

  • اردو غزل اور ولی دکنی

    اردو غزل اور ولی دکنی

    اردو میں میں ولی دکنی کو غزل کا اوّلین شاعر تسلیم کیا گیا ہے جنھوں نے شاعری میں‌ فارسی غلبہ یا ایرانی تقلید کے برعکس اپنے کلام سے مقبولیت حاصل کی۔ وہ ریختہ کے اوّلین شاعر کہلائے۔ آج ولی دکنی کا یومِ وفات ہے۔

    ولی کو میر تقی میر سے پہلے اردو غزل میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو بعد میں اور آج تک میر کو حاصل ہے۔ ولی نے شعری اظہار کو نہ صرف یہ کہ ایک نئی زبان دی بلکہ ایک نیا شعری اظہار بھی دیا جو ہر طرح کے تصنع سے آزاد تھا۔

    ولی نے ہندوستان کے شعرا کو اردو غزل میں اظہار کا نیا سانچہ دیا اور شاعری کو فارسی کے اثر سے آزاد کیا۔ انھوں نے اردو غزل کی تعمیر و ترقی اور مقبولیت کی وہ روایت قائم کی جس میں شعرا فارسی شعری روایت کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ولی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔ تاہم اہلِ دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد دکن تھا اور اسی خیال کو تقویت حاصل ہے۔ ولی کے اشعار سے ان کا دکنی ہونا ثابت ہے۔

    وہ قطب شاہی عہد میں 1667ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد حصولِ علم کے لیے احمد آباد آگئے۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ احمد آباد میں گزرا۔

    اردو غزل کو عام کرنے کا سہرا ان کے سر ہی جاتا ہے۔ انھوں نے مثنوی، قصیدہ گوئی اور ر باعی کی صورت میں بھی شاعری کی۔ ان کے ہم عصر شعرائے کرام میں کسی اور شاعر کو اتنی مقبولیت نصیب نہ ہوئی۔ ولی کا کلام نہ صرف ہندوستان بلکہ یورپ کی کئی لائبریریوں کی زینت بنا۔ ناقدین کے مطابق ولی دکنی کے ہاں فلسفہ کی گہرائی اور علمی مضامین اور اخلاقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ان کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔

    ولی کے حالاتِ زندگی کی طرح ان کی تاریخِ وفات میں بھی اختلاف ہے تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی 31 اکتوبر 1708ء کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔

  • جیمز بانڈ اسٹار سَر شان کونری کا تذکرہ

    جیمز بانڈ اسٹار سَر شان کونری کا تذکرہ

    جیمز بانڈ کے کردار نے سَر شان کونری کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس مشہورِ زمانہ جاسوس کے روپ میں انھوں نے بڑی اسکرین پر سات فلموں میں اداکاری کی۔

    انھیں ملکہ برطانیہ نے 2000ء میں "سَر” کے خطاب سے نوازا۔ شان کونری 90 سال کی عمر میں پچھلے سال وفات پا گئے تھے۔

    اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس اداکار کا کریئر دہائیوں پر محیط ہے۔ انھیں بہترین اداکار مانا جاتا ہے اور متعدد فلمی ایوارڈز حاصل کرنے والے شان کونری نے ایک آسکر، دو بافٹا ایوارڈّز اور تین گولڈن گلوبز بھی اپنے نام کیے۔

    انھیں 1988ء میں فلم دی انٹچ ایبلز میں ایک آئرش پولیس افسر کا کردار نبھانے پر بہترین معاون ادکار کا ایوارڈ ملا تھا۔ سر شان کونری کی دیگر فلموں میں دی ہنٹ فار ریڈ اکتوبر، انڈیانا جونز اور لاسٹ کروسیڈ اور دی راک شامل ہیں۔

    شان کونری 1930ء کو اسکاٹش شہر ایڈنبرا کی نواحی بستی فاؤنٹین برج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور نوعمری میں‌ رنگ ریزی، دودھ فروشی اور لائف گارڈ جیسے معمولی کام اور نوکریاں کیں۔

    نوجوانی میں انھیں اداکار بننے کا شوق ہوا اور اس میں کام یاب بھی ہوگئے۔ تاہم وہ برطانوی اور امریکی فلمی صنعت تک محدود رہے اور بہترین اداکاری سے پہچان بنائی۔

    شان کونری کو فلمی افق پر شہرت سن 1962ء کی فلم ڈاکٹر نو سے ملی۔ اس کے بعد وہ جیمز بانڈ سیریز کی فلموں میں نظر آئے اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    وہ زندہ شخصیات میں اسکاٹ لینڈ کا سب سے معتبر اور مقبول فرد قرار پائے تھے۔ انھیں امریکن فلم انسٹیٹیوٹ کا ‘لائف ٹائم اچیومنٹ‘ اعزاز بھی دیا گیا تھا۔