Tag: اکتوبر وفات

  • نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مرگریٹ پیگی مارکوس کو اسرائیل کے فلسطین پر قبضے اور وہاں کے مسلمانوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے سے شدید تکلیف پہنچی تھی جب کہ وہ خود ایک یہودی جوڑے کی اولاد تھیں۔

    ان کی ہم دردیاں فلسطینیوں کے ساتھ تھیں۔ معصوم و نہتے مسلمانوں کی اپنے آبائی علاقوں اور گھروں سے بے دخلی اور یہودی بستیوں کی تعمیر نے انھیں از حد رنجیدہ و ملول کیا۔

    اسی زمانے میں انھیں اسلام سے لگاؤ پیدا ہوا اور ایک روز انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    انھوں نے 23 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولی۔ یہودی گھرانے کی اس لڑکی نے جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو مشہور نو مسلم مستشرق محمد اسد کی روڈ ٹو مکہ اور اسلام ایٹ کراس روڈز اور محمد مارما ڈیوک پکتھال کا کیا ہوا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کو مل گیا اور تب جیسے انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

    1961ء میں انھوں نے لاہور میں مولانا مودودی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ وہ اسلام کے حوالے سے دو درجن سے زائد کتب کی مصنفہ بھی تھیں۔

    انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    قبولَ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو اپنے گھر اور امریکا میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ امریکی شہریت ترک کرکے پاکستان منتقل ہوگئیں اور یہیں‌ زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ان کی کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

  • عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    ہندوستانی فلمی صنعت کو اپنی لافانی موسیقی سے مالا مال کرنے والے سچن دیو برمن پاک و ہند میں ایس ڈی برمن کے نام سے مشہور ہوئے دنیائے موسیقی کا یہ باکمال 31 اکتوبر 1975ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    فلمی نغمات کو اپنی بے مثال دھنوں سے لافانی بنا دینے والے ایس ڈی برمن نے نہ صرف کئی فلموں کو کام یاب بنایا بلکہ کئی شاعروں اور گلوکاروں کی مقبولیت کا سبب بھی انہی کی ترتیب دی ہوئی دھنیں بنیں۔

    ان کے لازوال گیت آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔ ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ وہ تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ انھوں نے 1937ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 100 ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ایس ڈی برمن ایک ورسٹائل موسیقار تھے۔ انھوں نے بنگالی لوک موسیقی میں کئی گیت بھی گائے۔ ان کی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، مناڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی حاصل کی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر گلوکار کی حیثیت سے کام کیا اور ان کا ریکارڈ 1932ء میں ریلیز ہوا۔ بعد کی دہائی میں وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور بنگالی گانے گائے۔

    40 ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے میوزک دیا اور مستقل طور پر ممبئی چلے گئے اور موسیقی پر توجہ دینے لگے لیکن حقیقی معنوں میں 1947ء میں ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت ہر زبان پر تھا، ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں-

    ایس ڈی برمن کے بیٹے آر ڈی برمن کو بھی دنیائے موسیقی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی- ایس ڈی برمن 69 برس کی عمر میں ممبئی میں چل بسے تھے۔

  • یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    1997ء میں آج ہی کے دن پاکستان کی معروف مصوّرہ زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔

    لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 1944ء سے 1946ء تک وہ اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں انھوں نے ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی دور کے فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنٰی بناتی تھی۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ 2006ء میں ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے درمیان قاضی عبدالستار نے جہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا وہیں اپنی انفرادیت کو بھی منوایا۔

    قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    اردو کے مشہور افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش سے تھا جہاں وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ریسرچ اسکالر کے طور پر ناتا جوڑا اور بعد ازاں اسی کے شعبہ اردو میں تدریس سے منسلک ہوئے۔

    انھیں ہندوستان میں ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953 میں شائع ہوا۔جب کہ 1961 میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962 ’ پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    29 اکتوبر 2018ء کو پروفیسر قاضی عبدالستار نے دہلی میں وفات پائی۔

  • اردو کے قادرُِ الکلام شاعر صبا اکبر آبادی کی برسی

    اردو کے قادرُِ الکلام شاعر صبا اکبر آبادی کی برسی

    آج اردو کے قادرُالکلام شاعر صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1991ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے ایک ناول بھی لکھا جب کہ فارسی ادب سے تراجم بھی ان کا ادبی کارنامہ ہیں۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے صبا اکبر آبادی نے ایک برس تک محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    صبا اکبر آبادی نے 1920ء میں اپنا شعری سفر شروع کیا تھا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کے شاگرد رہے۔ 1930ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے اور پاکستان میں جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ انھوں نے غزل، رباعی، نظم، مرثیہ جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔

    صبا اکبر آبادی کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ وہ 14 اگست 1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1928ء میں ادبی ماہ نامہ ’’آزاد‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

    صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراقِ گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغِ بہار، خوں ناب، حرزِ جاں، ثبات اور دستِ دعا شامل ہیں۔ مرثیہ نگاری بھی صبا اکبر آبادی کا ایک مستند حوالہ ہے اور ان کے لکھے ہوئے مرثیوں‌ کے مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاسِ الم شائع ہوئے۔

    انھوں نے فارسی ادب سے عمر خیام، غالب، حافظ اور امیر خسرو کا کلام منتخب کر کے اردو میں‌ منظوم ترجمہ کیا۔ صبا اکبر آبادی نے ایک ناول بھی لکھا جو ’’زندہ لاش‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

    یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
    کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

    اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
    عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں

    اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
    رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

    سونا تھا جتنا عہدِ جوانی میں سو لیے
    اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے

  • پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری میں ڈانسنگ ہیرو کے طور پر بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اسماعیل شاہ نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بلوچستان کے پسماندہ علاقے پشین سے تعلق رکھنے والے اسماعیل شاہ نہ صرف سنیما کے شائقین میں مقبول تھے بلکہ فلم سازوں کی اوّلین ترجیح تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ رقص میں ان کی مہارت تھی۔ وہ ایک باصلاحیت فن کار تھے۔ اس دور میں پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور اداکار اور مقبول ترین ہیرو بھی متاثر کن ڈانسر نہیں تھے جب کہ اسماعیل شاہ کی صورت میں‌ ہدایت کاروں کو ایک نوجوان اور ایکشن فلموں‌ کے لیے موزوں چہرہ ہی نہیں‌ بہترین ڈانسر بھی مل گیا۔ وہ فلم انڈسٹری کے ڈانسنگ ہیرو مشہور ہوئے۔

    اپنی شان دار اداکاری اور معیاری ڈانس کی بدولت شہرت کا زینہ طے کرنے والے اسماعیل شاہ فلم ’’ناچے ناگن‘‘ سے گویا راتوں رات شائقین میں مقبول ہوگئے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد انڈسٹری میں‌ ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ فلم ناچے ناگن 1989ء میں منظرِ عام پر آئی اور ملک بھر میں اسے پزیرائی ملی۔ تاہم اسماعیل شاہ کی پہلی فلم ’’باغی قیدی‘‘ تھی۔

    فلم اسٹار اسماعیل شاہ نے مجموعی طور پر 70 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں‌ میں بننے والی فلمیں‌ شامل ہیں۔

    وہ 1962ء میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے کیا۔ کوئٹہ ریڈیو اور پھر کوئٹہ ٹی وی سے وابستہ ہوئے۔ اسماعیل شاہ کو‌ بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ یہی شوق اور ان کی لگن 1975ء میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن کے کوئٹہ مرکز تک لے گئی اور بلوچی ڈراموں سے ان کے کیریئر کا آغاز ہوا۔ اسماعیل شاہ نے اردو زبان کے مشہور ڈرامہ ’’ریگ بان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ میں بھی کردار نبھائے اور ناظرین نے انھیں پسند کیا۔

    لو اِن نیپال، لیڈی اسمگلر، باغی قیدی، جوشیلا دشمن، منیلا کے جانباز، کرائے کے قاتل اور وطن کے رکھوالے اسماعیل شاہ کی مشہور اور کام یاب فلمیں‌ ہیں۔

  • ندھ کے معروف محقّق، مؤرخ اور مصنّف تاج محمد صحرائی

    ندھ کے معروف محقّق، مؤرخ اور مصنّف تاج محمد صحرائی

    تاج صحرائی سندھی زبان کے معروف ادیب تھے۔ انھوں نے سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کئی کتب اور مقالات تحریر کیے اور قدیم آثار اور جغرافیہ کے حوالے سے ایک محقّق، مؤرخ اور ادیب کی حیثیت سے پہچان بنائی۔

    تاج محمد صحرائی کا اصل نام تاج محمد میمن تھا جو 14 ستمبر 1921ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور کئی اخبارات سے وابستہ رہے جن میں ستارہ سندھ، جمہور اور آواز کے نام شامل ہیں۔ بعد ازاں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ تاج محمد صحرائی مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے اور علمی اور ادبی سرگرمیاں انجام دیں۔

    29 اکتوبر 2002ء کو وفات پانے والے تاج صحرائی کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    تاج صحرائی 1921ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔ والد کی ملازمت کے سلسلے میں انھیں دادو میں رہنا پڑا جہاں بعد میں بی اے اور بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ وہ پہلے پرائمری استاد بنے اور بعد میں ہائی اسکول دادو میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔

    ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب لیک منچھر بہت مشہور ہوئی۔ تاریخ اور سندھ کے جغرافیے اور قدیم آثار پر ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جب کہ ان کی چند تصانیف میں تصویر درد، سر سارنگ، سندھو تہذیب، قلندر لعل سیہوانی اور مختلف مضامین کا مجموعہ شامل ہیں۔

  • مغل بادشاہ نور الدّین جہانگیر اور زنجیرِ عدل

    مغل بادشاہ نور الدّین جہانگیر اور زنجیرِ عدل

    نورالدین جہانگیر اپنے والد شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر کی وفات کے بعد 1605ء میں تخت نشین ہوئے۔

    شہنشاہ اکبر بے اولاد تھے۔ انھیں بزرگ شیخ سلیم چشتی نے دعا دی کہ اللہ تمہاری اولاد کی آرزو پوری کرے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ 1569ء میں پیدا ہونے والے بچّے کا نام انہی بزرگ کے نام پر سلیم رکھا گیا تھا جو بعد میں نورالدّین جہانگیر کا لقب اختیار کرکے تخت پر بیٹھا۔

    شہزادہ سلیم ذہین تھا، جلد ہی امور سلطنت میں بھی دل چسپی لینے لگا، مؤرخین کے مطابق اس کی چھٹی شادی تخت نشینی کے بعد مہرالنساء بیگم (نورجہاں) سے ہوئی۔

    شہزادہ سلیم نے تخت نشینی کا کئی روز تک جشن منایا، قیدیوں کو رہا کیا، اپنے نام کا سکہ جاری کیا، مخالفین سے نرمی برتی، سلطنت میں جو فوری اصلاحات نافذ کیں ان میں محاصل منسوخ کرنا، سڑکیں، مساجد، کنویں اور سرائیں تعمیر کروانا، شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کی فروخت اور استعمال پر پابندی، وراثت کے قوانین پر سختی سے عمل کا حکم جاری کیا۔ مجرموں کے ناک کان کاٹنے کی سزائیں منسوخ کر دیں۔

    جہانگیر کو کسی بڑے بحران کا سامنا نہ تھا، لیکن اسے تخت نشین ہوئے چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ اس کے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی، جسے اس نے فرو کیا اور کئی مہمات اور بغاوتوں یا سازشوں سے نمٹتا رہا۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے محل کے باہر زنجیرِ عدل اسی بادشاہ کے حکم پر لٹکائی گئی تھی اور مشہور کتاب تزک جہانگیری بھی اسی کی یادگار ہے۔

    1627ء میں آج ہی کے دن جہانگیر کا انتقال ہوگیا تھا۔ دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشا لاہور اور موجودہ شاہدرہ میں اس کی تدفین کی گئی۔

  • ماہرِ اقتصادیات ممتاز حسن کا تذکرہ جو علوم و فنون کی سرپرست رہے

    ماہرِ اقتصادیات ممتاز حسن کا تذکرہ جو علوم و فنون کی سرپرست رہے

    ممتاز حسن ایک محقّق اور مضمون نگار اور نقّاد تھے جن کی وجہِ شہرت تاریخ اور آثارِ قدیمہ میں ان کی دل چسپی اور اس حوالے سے عملی کاوشیں ہیں‌۔ آج ممتاز حسن کی برسی ہے۔

    وہ ایک سول سرونٹ اور پاکستان کے ماہرِ اقتصادیات کے طور پر شہرت بھی رکھتے تھے۔ ممتاز حسن آج ہی کے دن 1974ء میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے کئی ذمہ داریاں نبھانے والے ممتاز حسن مطالعہ کے عادی اور علم و ادب کے رسیا تھے۔ انھوں نے چند کتابیں‌ بھی مرتب کیں اور متعدد مصنّفین کو ان کی علمی اور تحقیقی کاوش میں‌ مدد دی۔

    ممتاز حسن 6 اگست 1907ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ممتاز حسن نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جو سول جج تھے اور علامہ اقبال کے قریبی دوست اور ہم جماعت تھے۔ والد کے تبادلوں کے باعث تعلیم مختلف شہروں میں حاصل کی اور 1927ء میں ایف سی کالج (لاہور) سے بی اے (آنرز) کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ انھوں نے ادیب فاضل کے امتحان میں بھی کام یابی حاصل کی۔

    ان کا انتخاب انڈین آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے لیے ہوگیا تو انھوں نے 1930ء میں انڈر سیکریٹری کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کردیا۔ جب 1946ء میں انتخابات کے بعد ہندوستان کی حکومت میں نوابزادہ لیاقت علی خان( وزیرِ خزانہ) کے سیکریٹری مقرر ہوئے اور ان کے پاکستان کے وزیر اعظم بننے تک یہ رفاقت قائم رہی۔

    1952ء میں ممتاز حسن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر بنے اور اس کے بعد مختلف اداروں میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔

    ممتاز حسن کی کوششوں ہی سے نیشنل بینک آف پاکستان کی لائبریری قائم ہوئی جو ملک کی چند اچھی لائبریریوں میں شمار کی جاتی ہے۔ انہی کی کوششوں سے بھنبھور کے کھنڈرات میں وہ مقام بھی دریافت ہوا جس کے بارے میں‌ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں محمد بن قاسم کی فوج اتری تھی۔

  • علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    سید رئیس احمد جعفری اردو کے نام وَر صحافی، مؤرخ، ماہرِ اقبالیات، ناول نگار، مترجم اور سوانح نگار تھے۔ انھوں نے تین سو سے زائد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو علم و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    رئیس احمد جعفری 1914ء کو لکھیم پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ندوۃُ العلما، لکھنؤ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگے تھے۔

    1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد ان کی سوانح عمری سیرت محمد علی کے نام سے تحریر کی۔ 1934ء میں مولانا شوکت علی نے انھیں روزنامہ خلافت بمبئی کا مدیر مقرر کیا۔ مولانا شوکت علی کی وفات کے بعد وہ روزنامہ ہندوستان اور روزنامہ انقلاب، لاہور جیسے اخبارات کے مدیر رہے۔

    1949ء میں رئیس جعفری پاکستان چلے آئے اور یہاں بھی علم و ادب سے وابستگی برقرار رکھی۔ مطالعہ اور لکھنا ان اوّلین شوق تھا جب کہ صحافت ان کا پیشہ۔ وہ پاکستان آمد کے بعد کئی اخبارات اور جرائد کے مدیر اور نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    رئیس احمد جعفری کی تصانیف، تراجم اور تالیفات کی تعداد 300 سے زائد ہے جن میں اقبال اور عشق رسول، دیدو شنید، علی برادران، اوراق گم گشتہ، اقبال اور سیاست ملی، واجد علی شاہ اور ان کا عہد، تاریخِ تصوّف، تاریخ دولت فاطمیہ اور بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ دل کے آنسو (افسانے)، تاریخِ خوارج، تاریخِ تصوّف، شہاب الدین غوری، خون کی ہولی (ناول)، اسلام اور رواداری، اسلام اور عدل و احسان جیسی کتب ان کی علم و ادب اور تاریخ سے شغف اور استعداد کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے رئیس احمد جعفری کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    انھوں نے 27 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی اور سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔