Tag: اکتوبر وفات

  • غلام اسحاق خان: ایوانِ صدر تک پہنچنے والے اصول پرست بیورو کریٹ کی کتھا

    غلام اسحاق خان: ایوانِ صدر تک پہنچنے والے اصول پرست بیورو کریٹ کی کتھا

    پاکستان کی سیاست اور ایوانِ‌ اقتدار کے مختلف ادوار میں غلام اسحاق خان کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ وہ بطور بیورو کریٹ ایک اصول پرست اور ایمان دار شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 27 اکتوبر 2006ء کو پشاور میں وفات پاگئے تھے۔

    غلام اسحاق خان نے نہ صرف اہم سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں اور وزیر سے ملک کے صدر کے منصب تک پہنچے، لیکن دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے بعد انھیں بھی اپنا منصب اور سیاست چھوڑنا پڑی تھی۔

    انھیں ایک دردمند اور حب الوطن سیاست دان بھی کہا جاتا ہے۔ غلام اسحاق خان 20 جنوری 1915ء کو بنّوں کے علاقے اسماعیل خیل میں پیدا ہوئے۔پشاور سے کیمسٹری اور بوٹنی کے مضامین میں گریجویشن کے بعد 1940ء میں انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔

    1955ء میں غلام اسحاق خان مغربی پاکستان کے سکریٹری آب پاشی مقرّر ہوئے اور 61ء میں واپڈا کے سربراہ بنے۔ اس کے بعد انھیں سیکرٹری خزانہ مقرر کردیا گیا۔ غلام اسحاق خان نے گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر بھی فرائض انجام دیے اور اس کے بعد سکریٹری جنرل دفاع کا قلم دان انھیں سونپ دیا گیا۔ اس حیثیت میں انھوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی بھی نگرانی کی۔ وہ پالیسی امور پر ضیا الحق کے دور میں‌ بھی نمایاں‌ رہے اور بعد میں ملک کے صدر بنے۔

    وہ اپنے طویل سیاسی کیریر میں جوڑ توڑ، سازشوں کے ساتھ اہم اور حساس امور پر مشاورت میں حکم رانوں کے قریب رہے، لیکن بے نظیر بھٹو اور ان کے بعد نواز شریف کی حکومت سے ان کی نہ نبھ سکی۔

    غلام اسحاق خان صدارت چھوڑنے کے بعد پشاور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے۔

  • معروف افسانہ نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا تذکرہ

    معروف افسانہ نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا تذکرہ

    اردو کی ممتاز افسانہ و ناول نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا آج یومِ وفات ہے۔

    وحیدہ نسیم 9 ستمبر 1927ء کو اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کرکے کراچی آبسیں۔ انھوں نے عثمانیہ گرلز کالج حیدرآباد دکن سے 1951ء میں ایم ایس سی کیا اور 1952ء میں پاکستان منتقل ہوگئیں۔ نباتیات ان کی مہارت کا مضمون تھا اور یہاں وہ اسی کی تدریس سے وابستہ تھیں۔ وہ 1987ء میں کراچی کے ایک کالج سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔

    اپنی ملازمت کے ساتھ انھوں نے یہاں اپنا تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں۔ وہ شاعرہ، ناول و افسانہ نگار اور محقّق بھی تھیں۔ انھوں نے جس دور میں اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ ترقی پسند ادب کے عروج کا زمانہ تھا۔ انھیں شاعرہ کی حیثیت سے مقبولیت ملی جب کہ ان کے افسانے بھی پسند کیے گئے۔

    وحیدہ نسیم متعدد کتابوں کی مصنف تھیں جن میں ’موجِ نسیم‘، ’نعت و سلام‘، ’مرثیہ کاکوری‘ (شاعری)۔ ’ناگ منی‘ ،’راج محل‘، ’رنگ محل‘ اور’دیپ‘ (افسانوی مجموعے) تھے۔ ان کی دیگر مشہور تصانیف میں ’اورنگ آباد: ’ملک عنبر سے اورنگ زیب تک‘، ’عورت اور اردو زبان(تحقیق)‘ اور ’شاہان ہے تاج‘ (تنقید) شامل ہیں۔ ’داستاں در داستاں‘، ’ساحل کی تمنا‘، ’غم دل کہا نہ جائے‘، ’شبو رانی‘، ’زخم حیات‘ بھی ان کی مشہور کتب ہیں۔

    وحیدہ نسیم نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو زبان کی اس ادیب اور شاعرہ کی ایک کہانی پر ناگ منی نامی فلم بھی بنائی گئی تھی۔

  • یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    شہرہ آفاق اور شاہ کار کتابوں میں “حیاتُ الحیوان” آج بھی سرِ فہرست ہے جو علّامہ کمال الدّین دمیری کی تصنیف ہے۔ وہ مصری محدّث، محقّق اور عالم تھے جن کا آج یومَِ وفات ہے۔ تاریخ میں‌ علامہ کمال الدّین دمیری کا نام ماہرِ حیوانات کے طور پر محفوظ ہے۔

    دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جن کا وطن مصر تھا۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے ان کا سنِ‌ پیدائش 1349ء بتایا ہے۔ انھوں نے “دمیرہ” نامی علاقے میں آنکھ کھولی۔ علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر دست یاب معلومات کے مطابق انھوں نے ابتدائی اور اس دور کے مطابق تمام ضروری تعلیم قاہرہ سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ ازہر میں درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔

    وہ اپنے وقت کے ایک پرہیز گار اور عالم فاضل مشہور تھے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکہ میں بھی گزرا اور وہ وہاں‌ بھی درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    عّلامہ دمیری نے مختلف علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کی باکمال اور نام ور شخصیات سے استفادہ کیا۔

    ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف میں جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی نہیں بلکہ ان کی شرعی حلّت، ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی بحث کی گئی ہے جو ان کے علم کا ثبوت اور ان کی تحقیق و ریاضت نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کا ذِکر کیا گیا ہے۔

    تاریخی کتب میں اپنے وقت کے اس جیّد عالم کی وفات کی تاریخ 27 اکتوبر اور سن 1405ء تحریر ہے۔ ان کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    اردو ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کے سبب پہچان بنانے والے ممتاز مفتی کو ان کے سفر ناموں کی بدولت بے پناہ مقبولیت ملی۔ وہ اپنی ڈراما نگاری اور خاکہ نویسی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانوں کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔ ’علی پور کا ایلی‘ ممتاز مفتی کا ایک ضخیم ناول ہے جسے بہت سراہا گیا اور قارئین میں بے حد مقبول ہوا۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا ناول ’’الکھ نگری‘‘ بھی قارئین میں بہت مقبول ہوا جب کہ سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی۔ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔
    انھوں نے انشائیے بھی لکھے اور ’غبارے ‘ کے نام سے ان کے انشائیوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری سے نام و مقام بنایا اور ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار کو نہایت خوبی اور کمال سے نبھایا۔ آج نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔

    اس اداکارہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئیں۔

    نیّر سلطانہ نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کے کہنے پر قدم رکھا جن سے نیّر سلطانہ کی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں نیّر سلطانہ نے بڑے پردے پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت اور خوش قامت تھیں۔ وہ ایسی فن کار تھیں جنھیں فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا ان کی فن و ادب میں اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے پہلی ہی ملاقات میں بہت متاثر ہوئے تھے۔ بعد کے برسوں میں ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا کا انتخاب غلط نہ تھا۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • مشہور نعت گو شاعر اعجاز رحمانی کا تذکرہ

    مشہور نعت گو شاعر اعجاز رحمانی کا تذکرہ

    معروف نعت گو شاعر اعجاز رحمانی غزل اور نظم جیسی اصنافِ سخن پر بھی یکساں عبور رکھتے تھے۔ انھیں نعت خواں کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ 83 برس کی عمر میں 2019ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اعجاز رحمانی 12 فروری 1936ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے، پرائمری اور دینی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کرنے کے بعد آپ 1954ء میں پاکستان آگئے تھے۔

    انھوں نے نعت خوانی بھی کی اور ساتھ ہی اپنا تخلیقی سفر جاری رکھتے ہوئے کئی نعتیں بھی کہیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ ملک کے مشہور نعت خوانوں نے ان کا کلام پڑھا۔ اعجاز رحمانی کے نعتیہ اور غزلیہ مجموعے ’اعجازِ مصطفٰی‘،’پہلی کرن آخری روشنی‘تھے جب کہ ’غبار انا‘، ’لہو کا آبشار‘، ’لمحوں کی زنجیر‘ کے نام سے ان کی شاعری شایع ہوئی۔ ’چراغِ مدحت‘، ’جذبوں کی زبان‘ اور ’خوشبو کا سفر‘ ان کی وہ کتابیں ہیں جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

  • نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی برسی

    نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی برسی

    26 اکتوبر 1977ء کو اردو کے نام ور ادیب، کالم نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ابراہیم جلیس 1922ء میں بنگلور میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ حیدرآباد دکن میں ہوئی تھی۔

    1942ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور تقریباً اسی زمانے میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے ہی ہوا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، انجام، جنگ، حریت اور مساوات شامل تھے۔ انھوں نے ایک ہفت روزہ بھی عوامی عدالت کے نام سے جاری کیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے روزنامہ مساوات کے مدیر بھی رہے جو مارشل لاء کے زمانے میں زیرِ عتاب آگیا۔

    ابراہیم جلیس ایک بہت اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے سنجیدہ و فکاہیہ مضامین تحریر کیے اور کالم لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کا طنز و مزاح اور فکاہیے بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

    ابراہیم جلیس کو حکومتِ پاکستان نے بعدازمرگ تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ شاہ جہان کی اپنی محبوب ملکہ سے بے پناہ محبّت اور شہرہ آفاق عمارت تاج محل کی تعمیر جہاں اس دور کی ایک یادگار اور عجوبہ ہے، وہیں ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کی وہ نظم بھی پاک و ہند میں‌ مشہور ہے، جس کے ہر شعر میں محبّت کی اس یادگار سے نفرت اور بیزاری جھلک رہی ہے۔

    آج اسی ساحر لدھیانوی کی برسی ہے۔ اس مشہور شاعر کی نظمیں اثرانگیز اور دلوں میں اتر جانے والی ہیں۔ ان کے باغیانہ افکار نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور محبت کے رنگ بہم ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ دراصل ان کے جذبات اور احساسات کا وہ مجموعہ تھا جس میں دردمندی، محرومی، بیزاری، غصہ، نفرت، محبت، کیف و مستی، انا، ضد، شکوے شکایات سبھی کچھ تھا۔ وہ اپنے زمانے میں نوجوانوں میں مقبول اور ہر طبقے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوں سے ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں، ان کی شاعری اپنے عشقیہ مزاج کے باوجود ایک گہرے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔

    ساحر لدھیانوی 25 اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

    ہندوستان کی فلمی شاعری کے معیار کو بلند کرنے اور فلمی نغموں میں ادبی حسن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ انھیں بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    ساحر مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1939ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ لیکن آگے نہ پڑھ سکے اور کالج سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ اشتراکی نظریے سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ناکام عشق کے احساس غم نے ان کی شاعری کو چمکا دیا اور ان کے لفظوں میں ایک نئی تاثیر ڈال دی۔

    شاعری تو اسکول کے زمانے ہی میں‌ شروع کردی تھی، لیکن بعد میں لاہور کی ادبی فضا اور صحبتوں نے ان کی ادبی شخصیت اور شاعری کو بھی چمکایا۔ وہ کئی ادبی پرچوں کے مدیر رہے اور فلم انڈسٹری کے لیے لازوال گیت تخلیق کیے۔ 1950ء میں ساحر نے بمبئی میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی اور اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔

    وہ ایک رومان پرور شاعر تھے جن کے عشق کی داستانیں سبھی کی زبان پر تھیں اور عشق میں‌ ناکامی نے انھیں‌ سخت مایوس اور تلخ بنا دیا تھا۔ انھوں نے تاج محل کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

    تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

    بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
    ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
    اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
    میری محبوب پسِ پردہ تشہیر وفا
    تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
    مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
    اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

    ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
    کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
    لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
    کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
    یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
    مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
    سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
    جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
    میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

    جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
    ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
    آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
    یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
    یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

  • پروفیسر آرنلڈ کی مشہور کتاب پریچنگ آف اسلام کے مترجم عنایتُ اللہ دہلوی کا تذکرہ

    پروفیسر آرنلڈ کی مشہور کتاب پریچنگ آف اسلام کے مترجم عنایتُ اللہ دہلوی کا تذکرہ

    عنایت اللہ دہلوی اردو زبان کے معروف مصنّف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں اردو کا بہترین مترجم مانا جاتا ہے۔

    عنایت اللہ دہلوی کا سنِ پیدائش 1869ء ہے۔ وہ دہلی کے محلہ قاضی واڑہ میں مشہور مترجم، انشا پرداز و مؤرخ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ اسکول اور عربک اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ تیسری جماعت میں تھے جب والد انھیں اپنے ساتھ الٰہ آباد لے گئے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو ان کے والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

    الٰہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل لیا۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور دہلی لوٹ آئے۔

    علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور ان کی راہ نمائی اور شفقت حاصل رہی جس نے انھیں پڑھنے اور لکھنے پر آمادہ کیے رکھا۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔

    1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے جہاں سر سید کے ماہنامہ تہذیبُ الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1897ء میں سر سید کی ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔

    1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ اس ملازمت کے طفیل متعدد شہروں میں تبادلہ اور وہاں قیام کا موقع ملا۔

    دار الترجمہ حیدرآباد(دکن) کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے دکن آ گئے اور ناظم دارُ الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس عہدے پر تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔

    اردو کے اس محسن کی تصانیف و تراجم کی تعداد 57 کے قریب ہے۔ ان میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی، خوابِ پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوتِ اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخِ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔

    عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو برطانوی ہند کے شہر ڈیرہ دون میں انتقال کیا۔

  • انگریزی زبان کے اوّلین شاعر جیفری چاسر کی مشہورِ زمانہ "پکچر گیلری” کا تذکرہ

    انگریزی زبان کے اوّلین شاعر جیفری چاسر کی مشہورِ زمانہ "پکچر گیلری” کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی کا اوّلین شاعر اور برطانیہ کی ممتاز ترین شخصیت کہا جاتا ہے جس نے انگریزی زبان میں‌ اپنی نظموں اور شاہی دربار میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر منفرد پہچان بنائی۔ چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کے بارے میں عام معلومات بھی بہت کم سامنے آسکی ہیں۔ تاہم اس کی شاعری کو نہایت پُراثر اور اسے اہم ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    اس کا سنِ پیدائش 1340ء بتایا جاتا ہے جب کہ وفات 1400ء میں ہوئی۔ اس کے کتبے پر تاریخِ وفات 25 اکتوبر درج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک معمولی تاجر کا بیٹا تھا، جس کے والد کو 1349ء میں پھیلنے والی طاعون کی وبا میں اپنے قریبی عزیز کی موت کے بعد اس کے جائیداد یا بڑی رقم ورثہ کے طور پر ملی جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

    جیفری چاسر نے اس زمانے میں شاہی ملازمت حاصل کرلی اور اپنی ذہانت اور لیاقت سے ترقی کرتے کرتے شاہ ایڈورڈ سوم کے دربار میں بڑا اثر رسوخ حاصل کرلیا۔ اسی زمانے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہور سو سالہ جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ میں چاسر نے سپاہی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔

    وہ ایک پڑھا لکھا شخص اور شاعر تھا۔ اسے فرانسیسی، اطالوی، لاطینی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور اس قابلیت کی بنا پر اسے دو دفعہ اٹلی میں سفیر کے طور پر بھیجا گیا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اسی دور میں وہ اٹلی کے اس دور کے قومی شاعر بوکیچیو سے ملا جس کی نظموں اور افکار نے چاسر کو متاثر کیا اور بعد میں اس نے بھی انگلستان لوٹ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ اس کی شاعری کی خاص بات اپنے زمانے سے مطابقت ہے۔

    چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو چودھویں صدی کے برطانیہ کی حقیقی معنوں میں عکاس کہا جاتا ہے۔ یہ نظم پکچر گیلری کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی تاریخ کا رسیا چودھویں صدی کے بارے جاننا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ ایک نظم ہی اس کے لیے کافی ہوگی۔ اس نظم کے انتیس کردار ہیں جو درحقیقت اس دور کے جیتے جاگتے لندن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ نظم اس لحاظ سے منفرد اور بے مثال ہے کہ اس میں شاعر نے ہر میدان، پیشے اور گروہ کا کم از کم ایک نمائندہ کردار بنا کر پیش کیا ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کو انگلستان میں بے پناہ مقبولیت اور شاہی دربار میں وہ حیثیت اور مرتبہ حاص ہوا جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ 1374ء میں اس وقت کے حکم ران ایڈورڈ سوم نے چاسر کے لیے زندگی بھر کے لیے وظیفہ مقرر کردیا۔

    جیفری چاسر نے سیاست کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا اور 1386ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ اسے وفات کے بعد لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا جہاں کئی نام ور ادیب مدفون ہیں۔