Tag: اکتوبر وفات

  • مشہور لوک فن کارہ زرینہ بلوچ کا تذکرہ جو جیجی کے نام سے معروف تھیں

    مشہور لوک فن کارہ زرینہ بلوچ کا تذکرہ جو جیجی کے نام سے معروف تھیں

    زرینہ بلوچ وادیِ مہران کی مشہور گلوکارہ، ادیب، سیاسی و سماجی کارکن اور دانش وَر تھیں جنھیں جیجی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کی حامل زرینہ بلوچ نے طویل علالت کے بعد 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پائی۔ ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی خوشی کی تقریبات اور تہواروں پر سنے جاتے ہیں۔

    زرینہ بلوچ دسمبر 1934ء کو حیدر آباد کے نواحی علاقے الٰہ داد گوٹھ میں پیدا ہوئیں۔ وہ سریلی آواز کی مالک تھیں۔ والد نے بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور زرینہ نے لوک گیت گانے اور گائیکی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا، بعد میں‌ ان کی آواز ریڈیو پاکستان کے ذریعے ملک بھر میں سنی گئی اور انھیں نام و پہچان ملی۔

    ہونہار زرینہ بلوچ کو نام وَر فن کار اُستاد جمن کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد اپنے فن کو مزید نکھارنے کا موقع ملا اور جب 1960ء میں ریڈیو پاکستان کے حیدر آباد اسٹیشن نے گلوکاری کا مقابلہ منعقد کیا تو زرینہ بلوچ بھی اس میں شریک ہوئیں۔ انھیں مقابلے کے 600 شرکا میں‌ سے اوّل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس مقابلے کے بعد ان کی شہرت اور گلوکاری کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا اور وہ پاکستان ٹیلی ویژن تک پہنچیں اور ان کی آواز ناظرین و سامعین تک پہنچی، انھوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔

    زرینہ بلوچ نے ادب بھی تخلیق کیا اور ان کی متعدد کہانیاں اور افسانے سندھی ادب کا خوب صورت حصّہ بنیں۔

    زرینہ بلوچ نے سندھی اور بلوچی زبانوں کے لوک گیتوں کو اپنی آواز دے کر گویا ایک نئی زندگی بخشی۔ انھوں‌ نے شیخ ایاز، استاد بخاری، تنویر عباسی، گل خان نصیر کے علاوہ فیض احمد فیض اور احمد فراز کی اُردو شاعری کو بھی اپنی سریلی آواز دی اور مقبولیت حاصل کی۔

    زرینہ بلوچ نے سندھ کے معروف سیاست داں اور عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو سے شادی کی تھی۔ وہ سیاسی اور سماجی شعور کی حامل ایسی فن کار تھیں جنھوں نے ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں بھی حصّہ لیا اور ضیا دور میں دو سال قید بھی کاٹی۔

    پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ زرینہ بلوچ نے فن و ادب کی خدمت پر شاہ لطیف ایوارڈ، سچل اور قلندر لعل شہباز ایوارڈ حاصل کیے تھے۔

  • سندھ کے لوک گلوکار سہراب فقیر نے بیرونِ ملک بھی اپنی آواز کا جادو جگایا

    سندھ کے لوک گلوکار سہراب فقیر نے بیرونِ ملک بھی اپنی آواز کا جادو جگایا

    سندھ کے معروف لوک گلوکار سہراب فقیر نے 23 اکتوبر 2009ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ خاصے عرصے سے بیمار تھے جب کہ فالج نے ان سے وہ آواز بھی چھین لی تھی، جس نے ملک اور بیرونِ‌ ملک صوفیانہ کلام اور لوک گائیکی کے شائقین کو ان کا مداح بنایا تھا۔

    سہراب فقیر کا اصل نام سہراب خاصخیلی تھا۔ وہ 1934ء میں خیرپور میرس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہمل فقیر بھی اپنے وقت کے نام ور گائیک تھے۔ انہی سے سہراب فقیر نے گائیکی کی ابتدائی تربیت حاصل کی اور پھر پٹیالہ گھرانے کے معروف استاد خان صاحب کیتے خان کے شاگرد ہوگئے اور راگ کے ساتھ ساتھ طبلہ بجانا بھی سیکھا۔

    1974ء میں استاد منظور علی خان کے کہنے پر سہراب فقیر نے گائیکی کا آغاز کیا۔ وہ سچل سرمست، شاہ لطیف بھٹائی، سلطان باہو اور بابا بلھے شاہ کا کلام والہانہ انداز میں گاتے تھے جس نے انھیں مقبول لوک گلوکار بنا دیا۔

    سہراب فقیر نے متعدد ممالک میں اپنے فن کا جادو جگایا اور کئی اعزازات حاصل کیے جن میں سچل ایوارڈ، قلندر ایوارڈ، لطیف ایوارڈ اور ریڈیو خیرپور کے ایوارڈز سرفہرست ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اس فن میں خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    سہراب فقیر کو سائیں سچل سرمست کا کلام خصوصاً سنگ گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے آٹھ برس کی عمر سے صوفیوں کا کلام گانا شروع کیا تھا اور ساری زندگی اپنے اس محبوب مشغلے کو جاری رکھا۔ وہ اپنے فن پر اپنی گرفت اور مہارت کے لیے بھی مشہور تھے اور اور یہی وجہ تھی کہ ثقافتی طائفہ کے ساتھ انھیں ضرور بیرونِ ممالک بھیجا جاتا تھا۔ انھوں نے برطانیہ، بھارت، ناروے، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    سہراب فقیر سندھی، سرائیکی، پنجابی اور اردو زبانوں میں گاتے تھے۔ سندھی ثقافت کے روایتی رنگ ان کے ملبوس، گلے کی مالا، اجرک، پگڑی کی صورت جھلکتے تھے جب کہ صوفیانہ کلام اور لوک گائیکی کے لیے اسٹیج پر وہ اپنے ساتھیوں کے درمیان روایتی سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ نظر آتے جو خاص طور پر بیرونِ ممالک حاضرینِ محفل کے لیے باعثِ کشش بنتا تھا۔

  • کنگ آف رومانس یش چوپڑا کا تذکرہ

    کنگ آف رومانس یش چوپڑا کا تذکرہ

    یش چوپڑا بالی وڈ میں ’کنگ آف رومانس‘ مشہور تھے۔ اس معروف ہدایت کار نے شائقینِ سنیما کو زندگی سے بھرپور فلمیں دیں اور اپنے فن اور صلاحیتوں سے انڈسٹری میں نام کمایا۔ یش چوپڑا آج ہی کے دن 2012ء میں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    یش چوپڑا ڈینگی بخار میں مبتلا تھے اور اسپتال میں زیرِ علاج تھے، لیکن وائرس نے ان کی زندگی بچانے کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔

    یش چوپڑا کا فلمی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ جس میں انھوں نے شائقین کو ’’دیوار‘‘، ’’چاندنی‘‘، ’’سلسلہ‘‘ اور ’’ڈر‘‘ جیسی مقبول فلمیں دیں۔

    وہ 1932ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے آئی ایس جوہر اور اپنے بڑے بھائی بی آر چوپڑا کے اسسٹنٹ کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ’دھول کا پھول‘ 1959ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یش چوپڑا نے 1973ء میں اپنی فلم کمپنی ’یش راج‘ فلمز بنائی جس کے بعد انھوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ بالی وڈ کی کام یاب ترین فلمیں ’دیوار‘، ’کبھی کبھی‘ اور ’ترشول‘ بنائیں۔

    ’سلسلہ‘، ’مشعل‘، ’چاندنی‘ اور ’لمحے‘ ان کی وہ کام یاب ترین فلمیں تھیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ منفرد اور رجحان ساز فلمیں ہیں۔

    یش چوپڑا کو 6 نیشنل فلم ایوارڈ اور 11 فلم فیئر دیے گئے جن میں بہترین ہدایت کار کے 4 ایوارڈ انھوں نے اپنے نام کیے تھے۔ بھارتی حکومت نے یش چوپڑا کو دادا صاحب پھالکے اور پدم بھوشن اعزازات سے نوازا تھا۔

    بالی وڈ کے اس ہدایت کی رومانوی فلموں کی خاصیت ان کے منفرد گیت، موسیقی اور رقص ہے۔ ہدایت کار نے اپنی فلموں میں سماجی مسائل کو بھی اجاگر کیا۔

  • ماہر موسیقار اور گلوکار استاد مبارک علی خان کی برسی

    ماہر موسیقار اور گلوکار استاد مبارک علی خان کی برسی

    استاد مبارک علی خان پاکستان کے نام وَر موسیقار اور گلوکار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 21 اکتوبر 1957ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    مبارک علی خان کا گھرانا موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور تھا۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ وہ استاد علی بخش خان کے فرزند اور استاد برکت علی خان اور استاد بڑے غلام علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔

    مبارک علی خان نے 1938ء میں فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی، لیکن سفر کے آغاز پر انھوں نے گلوکار ہی نہیں بلکہ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کو آزماتے ہوئے بطور ہیرو بھی کام کیا تھا۔ یہ مہارانی اور سوہنی کمہارن نامی فلمیں تھیں جو انڈسٹری میں ان کا تعارف ثابت ہوئیں۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد مبارک علی خان کو فلم دو آنسو اور شالیمار کی موسیقی بھی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ وہ موسیقی میں اپنے والد استاد علی بخش خان، بڑے بھائی استاد بڑے غلام علی خان اور استاد سردار خان دہلی والے کے شاگرد رہے۔

    استاد مبارک علی خان نے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد سیکڑوں لوگوں کو موسیقی کی تعلیم دی اور فن کاروں کو موسیقی اور گائیکی کی تربیت دی۔ انھوں نے کلاسیکل، دھرپد، خیال، دادرا، ٹھمری، غزل اور گیت میں اپنے فن کو منوایا۔

    استاد مبارک علی خان لاہورمیں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فاروق احمد لغاری: سیاسی سرگرمی سے اختیارات کی گرماگرمی تک

    فاروق احمد لغاری: سیاسی سرگرمی سے اختیارات کی گرماگرمی تک

    سول سروس سے ملکی سطح کی سیاست میں‌ قدم رکھنے والے سردار فاروق احمد لغاری کا نام پاکستان کے اہم اور بڑے سیاست دانوں‌ میں‌ شامل ہے۔ مختلف پارٹی عہدے اور وزارتیں سنبھالنے والے فاروق لغاری صدرِ پاکستان بھی رہے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 2010ء میں فاروق لغاری وفات پاگئے تھے۔

    سردار فاروق احمد لغاری کا تعلق ایک جاگیر دار بلوچ گھرانے سے تھا۔ انھوں نے 1940ء میں ڈیرہ غازی میں آنکھ کھولی اور لاہور سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرونِ ملک پڑھنے چلے گئے اور بعد سول سروس کا حصّہ بنے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان میں فرائض انجام دیے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انھوں نے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ راہ نماؤں میں‌ ان کا شمار ہوا۔ وہ پنجاب اسمبلی کے علاوہ کئی مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

    1993ء میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت سے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت تک فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کے سرکردہ راہ نما سمجھے جاتے تھے، لیکن صدر بننے کے بعد پیپلز پارٹی سے دوریاں بڑھ گئیں اور وہ سیاسی میدان میں اس جماعت کے سخت مخالف کے طور پر سامنے آئے۔

    اسی دور میں صدر لغاری نے اپنے صوابیدی اختیارات سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کردیا۔ صدر لغاری کی جانب سے حکومت پر کرپشن اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگائے گئے تھے۔

    پی پی پی سے وابستگی کے زمانے میں وہ بے نظیر بھٹو کے قریبی رفقا میں‌ شمار ہوتے تھے اور پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکرٹری خزانہ اور مرکزی سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ فاروق لغاری ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سینیٹ کے رکن بھی رہے اور پھر وفاقی وزارت میں پیداوار کا قلم دان بھی سنبھالا۔

    1988ء میں فاروق لغاری وفاقی کابینہ میں بجلی کے وزیر بنے۔ 1990ء میں پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر اور بعد میں مختصر عرصے کے لیے بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت میں وزیرِ خزانہ بھی رہے۔

    سیاسی مفادات، مجبوریوں اور ایوانِ اقتدار کی معرکہ آرائیوں میں جب پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد میاں نواز شریف وزیرِ اعظم منتخب ہوئے اور صدر کے صوابیدی اختیارات کو ختم کیا تو صدر اور وزیراعظم میں ٹھن گئی اور ایک تنازع کی وجہ سے فاروق لغاری کو مستعفی ہونا پڑا۔

    فاروق احمد لغاری نے صدارت کے بعد سیاست کے میدان میں ملّت نامی پارٹی قائم کرکے اپنا سیاسی سفر شروع کیا، لیکن ان کی پارٹی کو پذیرائی نہ ملی تو اسے مسلم لیگ ق میں ضم کر دیا۔

    سردار فاروق لغاری نے 1970ء میں بنکاک اور پھر 1974ء میں تہران میں منعقدہ ایشین گیمز میں شوٹنگ کے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔ انھوں نے پسٹل ایونٹ میں حصّہ لیا تھا۔

    وہ ڈیرہ غازی خان میں چوٹی زیریں کے مقام پر آسودہ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: ‘آنگن ٹیڑھا’ کے ‘اکبر’ نے سلیم ناصر کو لازوال شہرت عطا کی

    یومِ‌ وفات: ‘آنگن ٹیڑھا’ کے ‘اکبر’ نے سلیم ناصر کو لازوال شہرت عطا کی

    ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری کی بدولت ناظرین میں مقبول ہونے والے سلیم ناصر 19 اکتوبر 1989ء کو دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سلیم ناصر نے 15 نومبر 1944ء کو بھارت کے شہر ناگپور میں آنکھ کھولی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئے۔

    سلیم ناصر نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور مرکز کے ایک ڈرامے ’’لیمپ پوسٹ‘‘ سے کیا تھا۔ کراچی میں مستقل رہائش کے بعد انھوں نے چھوٹی اسکرین پر مختلف کردار نبھائے جن میں ان کے سنجیدہ اور مزاحیہ انداز کو ناظرین نے بے حد پسند کیا۔ انھوں نے اپنے وقت کے مقبول ڈراموں دستک، نشان حیدر، آخری چٹان، یانصیب کلینک، بندش اور ان کہی میں کام کیا جب کہ انور مقصود کا تحریر کردہ آنگن ٹیڑھا وہ ڈرامہ تھا جس نے انھیں امر کردیا۔ اس میں انھوں نے اکبر کا کردار نبھایا تھا جس کے مزاحیہ مکالمے اور سلیم ناصر کا مخصوص انداز بے انتہا پسند کیا گیا۔

    سلیم ناصر نے فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انھیں حسن کارکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    تھامس ایلوا ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنس دان کا سنِ پیدائش 1847ء ہے جو زندگی کی 84 بہاریں دیکھنے کے بعد 1931ء آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    آج کی طرح ایڈیسن کے زمانے میں نہ تو خبر رسانی کے ذرایع ایسے تھے کہ کسی کارنامے کی سیکنڈوں میں دنیا کو خبر ہوجائے اور نہ ہی مستند معلومات کا حصول سہل تھا۔ کوئی خبر، اطلاع، اعلان یا کسی بھی واقعے کے بارے میں‌ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے۔ اس طرح مبالغہ آرائی، جھوٹ یا غلط فہمی بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایسا ہی کچھ ایڈیسن کے ساتھ بھی ہوا اور اس کی ایجادات، سائنسی تھیوری یا اکثر کارناموں پر اسے حاسدین کی مخالفت کے ساتھ لعن طعن بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس پر الزام لگا کہ وہ دوسروں کی سائنسی نظریات اور ان کی تحقیق و تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ اس نے ہمفرے ڈیوی کے خیالات اور آئیڈیا پر کام کر کے ایک تجربہ کیا اور بلب ایجاد کرلیا۔ تاہم اسے اوّلین برقی قمقمے کا موجد مانا جاتا ہے۔

    تھامس ایڈیسن ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس خاندان کے آمدنی کے ذرائع محدود تھے جس میں تھامس اور اس کے 8 بہن بھائیوں کی پرورش مشکل تھی۔ اس کے باوجود اس کی والدہ نے جو ایک اسکول میں استانی تھیں، اپنے بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔

    یہ عجیب بات ہے، مگر اس زمانے کے اکثر سائنس داں اور اہم اشیا اور قابلِ ذکر ایجادات کے لیے مشہور شخصیات کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا شکار رہی ہیں۔ ایڈیسن کو بھی 8 برس کی عمر میں تیز بخار ہوا جس سے ان کے دونوں کانوں کی سماعت متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ کچھ بھی سننے کے قابل نہیں رہا۔ ایڈیسن کو بچپن سے سائنسی تجربات کا بہت شوق تھا۔

    وہ بارہ سال کا ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام کرنے لگا۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا کیبن بنا لیا، اور بعد میں اسی جگہ کو ایک لیبارٹری میں تبدیل کرکے برقی کام شروع کردیا۔ اس نے اپنی ذہانت اور شوق و لگن سے کچھ ایسے تجربات کیے جنھوں نے اسے موجد بنا دیا۔

    ایڈیسن نے آٹومیٹک ٹیلگراف کے لیے ٹرانسمیٹر ریسور ایجاد کیا اور اس اثنا میں چند مزید چھوٹی ایجادات کیں جن سے اسے خاصی آمدنی ہوئی۔ بعد میں وہ ایک ذاتی تجربہ گاہ بنا کر سائنسی تجربات اور ایجادات میں‌ مصروف ہوگیا جن میں فونو گراف (جس نے آگے چل کر گرامو فون کی شکل اختیار کی) بلب، میگا فون، سنیما مشین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    اس امریکی موجد کو 1915ء میں نوبل پرائز بھی ملا۔ بچپن سے تنگی اور عسرت دیکھنے کے علاوہ بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود ایڈیسن نے ہمّت نہ ہاری اور آج اس کا شمار انیسویں صدی کے بہترین موجد کے طور پر کیا جاتا ہے۔

  • بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    استاد اللہ بخش کو بابائے فطرت اور ثقافتی مصوّر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر کی زندگی کے اوراق 1978ء میں آج ہی کے دن بے رنگ ہوگئے تھے۔

    استاد اللہ بخش کو ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) کا ماہر جانا جاتا ہے۔ وہ انتہائی باصلاحیت تھے اور فنِ مصوّری میں مہارت و کمال ان کی توجہ، دل چسپی اور ریاضت و مشق کا نتیجہ تھا۔ البتہ مصوّری میں بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی تھی۔

    ابتدائی عمر میں انھوں نے تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کیا تھا اور بعد میں بمبئی، کلکتہ میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے اور پینٹنگ اور سینری بنانے کا کام کرتے رہے۔ اس طرح انھوں نے رنگوں اور برش کو سمجھا اور تجربہ حاصل کیا۔ لاہور لوٹنے پر ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا اور پھر ایک مصوّر کی حیثیت سے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنے کا وہ سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔

    انھوں نے پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو اپنے مصوّرانہ تخیل سے چار چاند لگا دیے۔

    استاد اللہ بخش وزیر آباد میں 1895ء میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد اللہ بخش کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے اور ریل گاڑیوں پر رنگ کیا کرتے تھے، اور اس طرح وہ شروع ہی سے رنگ اور برش سے واقف تھے۔ وہ قدرتی مناظر اور دیہات کے سادہ اور روایتی ماحول میں‌ پلے بڑھے جس کی کشش نے انھیں فن کار بنا دیا۔

    وہ آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

    1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ 1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں اور 1928ء میں ممبئی میں ہونے والی تصویری نمائش میں ان کے ایک شاہ کار کو اوّل انعام دیا گیا۔ لوگ ان کے فن پاروں سے بہت متاثرہوئے اور ان کا کام مشہور مصوّروں میں زیرِ بحث آیا۔

    استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

    استاد اللہ بخش کو حکومت پاکستان کی طرف سے ’تمغہ حسن کارکردگی‘ سے نوازا گیا تھا۔

  • چارلس ببیج کا پہلا میکانی کمپیوٹر جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا

    چارلس ببیج کا پہلا میکانی کمپیوٹر جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا

    چارلس ببیج (Charles Babbage) کو فادر آف کمپیوٹر تصوّر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک موجد اور میکانی مہندس ہی نہیں‌ ریاضی دان اور فلسفی بھی مشہور تھا۔

    26 دسمبر 1791ء لندن کے ایک قصبے میں‌ آنکھ کھولنے والے چارلس ببیج 18 اکتوبر 1871ء کو وفات پا گیا تھا۔ چارلس ببیج نے ڈیجیٹل پروگرام ایبل کمپیوٹر(programmable computer) كا تصوّر پیش کرکے شہرت حاصل کی۔ اس نے پہلا میکانی کمپیوٹر ایجاد کیا تھا جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا۔

    ماہرین کے مطابق جدید کمپیوٹر کا تصوّر دراصل اسی سائنس دان اور موجد کے اینالیٹکل انجن کے مطابق ہے۔

    چارلس کی زندگی کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہو گاکہ وہ لندن کے ایک بینک کار اور امیر آدمی کا بیٹا تھا جس کی ابتدائی تعلیم اعلیٰ‌ درجے کے اسکولوں میں ہوئی۔ وہ تقریباً آٹھ سال کا تھا جب ایک خطرناک بخار کی وجہ سے اس کی تدریس کا عمل متاثر ہوا۔ اسے گھر پر پڑھنے کا مشورہ دیا گیا۔ اسی عرصے میں اس کا وقت ایک بڑی لائبریری میں گزرا جہاں اس کی توجہ اور دل چسپی ریاضی کے مضمون میں بڑھ گئی۔ وہ ایک زبردست ریاضی دان تو بن گیا، لیکن سند یافتہ نہیں تھا۔ 1814ء میں اس نے بغیر امتحان کے ایک اعزازی ڈگری حاصل کرلی۔

    ببیج کی محنت اور اپنے مضمون میں‌ غور و فکر کا سلسلہ جاری رہا اور ایک وقت آیا جب وہ مصنوع و ایجاد کے قابل ہوگیا۔ اس نے جس وقت ریاضی اور اعداد و شمار کے جدولوں كی تیّاری کا کام شروع کیا تو اس کے لیے معاوضے پر لوگوں کو رکھنا پڑا۔ لیکن ان جدولوں کی جانچ پڑتال پر کئی گھنٹے لگ جاتے اور تب بھی انسانی غلطیاں ختم کرنا آسان نہیں‌ ہوتا تھا، وہ جدول بنانے كے کام سے اکتا گیا اور ایک ایسی مشین بنانے کے بارے میں سوچنے لگا جو غلطی کے بغیر جدولوں كا حساب كرلے۔

    1822ء میں اس سائنس دان نے ڈفرینشل انجن تیّار کر لیا جو قابلِ اعتماد جدول بنا سکتا تھا۔ 1842ء میں اس نے اینالیٹکل انجن کا خیال پیش کیا، جو فی منٹ 60 اضافے کی اوسط رفتار سے ریاضی کے کسی بھی مسئلے کے لیے حساب کے افعال کو مکمل طور پر خود کار طریقے سے انجام دے سکے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس مشین کا قابلِ عمل نمونہ تیار نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم اس کے ان مفروضوں اور تصوّرات کو اہم مانا جاتا ہے۔

  • علم و ادب میں‌ ممتاز اور کثیرُالتّصانیف ڈاکٹر وحید قریشی کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    علم و ادب میں‌ ممتاز اور کثیرُالتّصانیف ڈاکٹر وحید قریشی کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    ڈاکٹر وحید قریشی پاکستان کے نام وَر ادیب، شاعر، نقّاد، محقّق، معلم اور ماہر لسانیات تھے جنھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ وہ 17 اکتوبر 2009ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ڈاکٹر وحید قریشی کا تعلق میانوالی سے تھا۔ وہ 14 فروری 1925ء کو پیدا ہوئے۔ پنجاب کے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں سے تحصیلِ علم کے بعد جامعہ تک پہنچے اور فارسی اور تاریخ میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ انھوں نے بطور ریسرچ اسکالر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں میں فارسی میں پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی اسناد حاصل کیں۔ انھوں نے طویل عرصے تک اسلامیہ کالج لاہور اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

    علمی استعداد، قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں نے انھیں اپنے ہم عصروں میں مختلف حیثیتوں میں‌ نمایاں کیا اور کئی تعلیمی اداروں کے علاوہ اقبال اکادمی پاکستان، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، بزم اقبال اور مغربی پاکستان اردو اکیڈمی سے وابستہ رہے۔

    ڈاکٹر وحید قریشی کی تصانیف کی فہرست طویل ہے جس میں شبلی کی حیاتِ معاشقہ، میر حسن اور ان کا زمانہ، مطالعہ حالی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، تنقیدی مطالعے، نذر غالب، اقبال اور پاکستانی قومیت، اساسیات اقبال، قائداعظم اور تحریک پاکستان، مقالات تحقیق، جدیدیت کی تلاش میں، مطالعہ ادبیات فارسی، اردو نثر کے میلانات، پاکستان کے تعلیمی مسائل اور شعری مجموعے شامل ہیں۔

    ان کی مرتب اور مدون کردہ کتابوں میں‌ اردو کا بہترین انشائی ادب، ارمغانِ ایران، ارمغانِ لاہور، 1965ء کے بہترین مقالے، توضیحی کتابیات ابلاغیات و دیگر شامل ہیں۔

    حکومت پاکستان نے ڈاکٹر وحید قریشی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔