Tag: اکتوبر وفات

  • نبَّاضِ دوراں حکیم محمد سعید کا تذکرہ

    نبَّاضِ دوراں حکیم محمد سعید کا تذکرہ

    یہ اُس مسیحا کا تذکرہ ہے جس نے وطنِ عزیز میں مستقبل کے معماروں کی کردار سازی کو اپنا فرض جانا، جس نے محسوس کیا کہ قوم کے نونہالوں کی ذہنی تربیت اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی راہ نمائی ضروری ہے اور اس مقصد کی تکیمل کے لیے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ مسیحا اور قوم کا درد رکھنے والے حکیم محمد سعید تھے۔

    1998ء میں آج ہی کے دن احسان فراموشی اور بدنصیبی کا آسیب اس شجرِ سایہ دار کو نگل گیا تھا۔ حکیم محمد سعید کے قتل کی خبر آن کی آن میں ہر طرف پھیل گئی۔ وہ صوبہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔

    پاکستان کے نام وَر طبیب اور ادویّہ سازی کے مستند اور مشہور ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    9 جنوری 1920ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر دلّی میں آنکھ کھولنے والے حکیم سعید طبِ مشرق سے وابستہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد نے 1906ء میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا تھا۔

    حکیم سعید نے ابتدائی تعلیم کے دوران عربی، فارسی، اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انھوں نے فارمیسی میں گریجویشن اور علم الادویّہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ء میں اپنا خاندانی کام سنبھالا اور ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

    1945ء میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ اسی برس ان کی شادی نعمت بیگم سے ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنے کنبے کے ساتھ کراچی چلے آئے اور یہاں ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔

    انھوں نے 1952ء میں انقرہ یونیورسٹی، ترکی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی اور وطن واپس آکر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں وہ مستعفی ہو گئے۔

    ان کے قائم کردہ ادارے کے زیرِ اہتمام 1985ء میں یونیورسٹی قائم کی گئی جس کے وہ پہلے چانسلر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے مدینۃُ الحکمت کی بنیاد رکھی۔ طبّ و حکمت کے ساتھ وہ ان تعلیمی اداروں کے معاملات دیکھتے ہوئے علم و ادب سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں طب و حکمت سے متعلق تعلیمی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لیا اور پروگراموں میں‌ شرکت کرتے رہے۔

    حکیم سعید اردو اور انگریزی کی دو سو کے قریب کتابوں کے مصنّف تھے جب کہ نونہال بچّوں کا وہ مقبول رسالہ تھا جس کے بانی حکیم سعید نے بلاشبہ دو نسلوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا، بلکہ ان کو غور و فکر کی عادت ڈالی، دین و دنیا کی تعلیم کا ذوق و شوق پروان چڑھایا، اخلاق و آدابِ معاشرت سکھائے اور اس رسالے نے ادبِ‌ اطفال کے ساتھ اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں 1966ء میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از مرگ ’نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔

  • یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اداکاری کا شوق ہوا تو قسمت آزمانے بمبئی کی فلم نگری کا رخ کیا جہاں انھیں کسی طرح ’آزادی کی راہ پر‘ نامی ایک فلم میں سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام ہوا اور حمید اختر نے ایک صحافی، ادیب، فلم ساز اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔

    آج حمید اختر کا یومِ وفات ہے۔ 2011ء میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔

    1924ء میں ضلع لدھیانہ میں پیدا ہونے والے حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ انھیں نوجوانی میں اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر ابن انشاء کی رفاقت بھی نصیب ہوئی اور یوں فکروفن اور علم و ادب سے تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ اسی ذوق و شوق اور ترقی پسند رجحانات نے حمید اختر کو انجمن ترقی پسند مصنفیں سے ناتا جوڑنے پر آمادہ کر لیا۔

    جن دنوں وہ بمبئی میں مقیم تھے، وہاں انھیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے ترقی پسندوں سے ملنے کا موقع ملا اور بعد میں ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی گرفتار ہوئے اور دو سال کے لیے زنداں میں رہنا پڑا۔

    ’کال کوٹھڑی‘ حمید اختر کے انہی ایامِ اسیری کی روداد ہے۔ 1970ء میں انھوں نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے خاکے بھی احوالِ دوستاں کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    ” ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔

  • احمد شاہ ابدالی: نادر شاہ کی فوج کا سپاہ سالار جس نے جدید افغانستان کی بنیاد رکھی

    احمد شاہ ابدالی: نادر شاہ کی فوج کا سپاہ سالار جس نے جدید افغانستان کی بنیاد رکھی

    1747ء میں فوج کے 25 سالہ کمانڈر، نادر شاہ کے عہد کی ممتاز شخصیت اور قبائلی سردار احمد خان ابدالی کو اتفاقِ رائے سے ریاست کا حکم ران منتخب ہوگئے۔ اس کے لیے قندھار میں افغان جرگہ منعقد کیا گیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کو درّانی سلطنت اور جدید افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی نادر شاہ کی فوج اور عمائدین میں بہت مقبول تھے۔ انھوں نے اپنی سلطنت کو منظّم کرتے ہوئے اسے افغانستان کا نام دیا جسے مؤرخین نے درّانی سلطنت بھی لکھا ہے۔ وہ 16 اکتوبر 1772ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا مقبرہ قندھار میں ہے۔

    اسی احمد شاہ ابدالی نے اس وقت کے ملتان شہر میں آنکھ کھولی تھی جو اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ کے والد خان زمان ایک فوجی مہم پر افغانستان سے ملتان آئے تھے، جہاں قیام کے دوران انھوں نے مقامی عورت سے شادی کی اور اسی خاتون کے بطن سے احمد شاہ ابدالی پیدا ہوئے۔ بعد میں احمد شاہ افغانستان چلے گئے اور فوج میں بھرتی ہوئے۔ انھوں نے ترّقی کرتے ہوئے افغان حکم ران نادر شاہ کی فوج کے سپہ سالار کا عہدہ حاصل کیا۔

    احمد شاہ نے اپنے دورِ حکومت میں زبردست کام یابیاں حاصل کیں‌ اور ان کا بڑا کارنامہ تمام افغان قبائل کو اکٹھا کرکے ایک ملک کی بنیاد رکھنا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی نے کئی جنگیں لڑیں‌ اور ان کی فوج کو کام یابی نصیب ہوئی جب کہ برصغیر میں ان کی سلطنت مغربی ایران سے لے کر ہندوستان کے شہر سرہند تک پھیل گئی۔ وہ شمال میں وسطی ایشیا کے آمو دریا سے لے کر جنوب میں بحرِ ہند کے ساحل تک حکم ران تھے۔

    نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے جس ذہانت اور لیاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے قبائل کو جس طرح یکجا کیا اسے تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ آج بھی انھیں‌ افغانستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور اکثریت انھیں پیار اور احترام سے احمد شاہ بابا کہتی ہے۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ احمد شاہ ابدالی کو سندھ سے لاکھوں کی آمدنی ہوتی تھی اور سندھ کے حکم ران اس افغان بادشاہ کے اطاعت گزار تھے۔

  • مسجدِ قرطبہ کی تعمیر و توسیع کے کام اور علم دوستی کے لیے مشہور حکم دوّم کا تذکرہ

    مسجدِ قرطبہ کی تعمیر و توسیع کے کام اور علم دوستی کے لیے مشہور حکم دوّم کا تذکرہ

    مشہور جامع مسجد، قرطبہ کی توسیع اور تزئین و آرائش حکم دوم مستنصر باللہ کے دور میں کی گئی تھی جو ایک اموی خلیفہ تھا۔ اس کے عہد میں اندلس میں تعمیر و توسیع کا بہت زیادہ کام ہوا جب کہ وہ ایک علم دوست حکم راں بھی مشہور ہے۔

    حکم دوم مستنصر باللہ نے مسجدِ قرطبہ کے توسیع کے کام میں وضو خانے، مسجد سے ملحق صدقہ خانہ، واعظین اور خادموں کی رہائش کا انتظام بھی کیا اور مسجد میں‌ قیمتی لکڑی کا ایک منبر بھی بنوایا تھا۔

    حکم دوّم کے عہد میں مدینۃُ الزہرا کی تعمیر مکمل ہوئی جس کا کام اس کے والد عبد الرحمٰن الناصر کے عہد میں شروع ہوا تھا۔ اس خلیفہ نے نارمان جنگ میں شکست کے بعد قرطبہ میں ایک بحری بیڑا بنانے کا حکم دیا تھا۔

    مؤرخین کہتے ہیں کہ حکم دوم کا عہد تعلیم و ثقافت کے عروج و ترّقی کا دور تھا۔ اس نے رعایا کی بہترین تعلیم کا انتظام کیا۔ اس سے پہلے یورپ میں تعلیم کا ایسا رواج نہیں تھا۔ مشہور ہے کہ اس نے مسلمان اور غیر مسلم علما کے لیے عطیات جاری کیے۔ مشہور ہسپانوی مؤرخ ریمون میننڈیز نے لکھا ہے: اندلس کی خلافت اس زمانے میں اپنے اوج کمال کو پہنچ گئی تھی، پورے اسپین میں امن قائم تھا۔

    حکم دوّم مستنصر باللہ اندلس کی اموی سلطنت کا نواں حکم ران تھا جس کی خلافت کا اعلان 928ء میں کیا گیا۔ وہ اپنی علم دوستی کے لیے مشہور تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے کتب خانے میں تقریباً چار لاکھ کتابیں تھیں جن میں مقامی مصنّفین کی ہر کتاب کے علاوہ لوگوں سے اس تک پہنچنے والی کتب ہی نہیں‌ مخلتف دوسرے ملکوں اور شہروں سے لائی گئی اہم اور نایاب کتابیں بھی شامل ہیں۔

    حکم دوم بن عبد الرحمٰن الناصر 915ء میں قرطبہ میں پیدا ہوا۔ والد کے بعد منصب سنبھالا تو "مستنصر باللہ” کا لقب اختیار کیا۔ لائق و پختہ سوچ کے ساتھ دردمند اور انتظامی امور میں‌ طاق تھا۔

    ایک روز طبیعت ناساز ہوئی اور علاج کے باوجود حکم دوّم کو افاقہ نہ ہوا۔ کہتے ہیں اس دوران خلیفہ کے حکم پر سو غلاموں کو آزاد کیا گیا اور رعایا کے قرضوں کو معاف کردیا گیا تھا، تاہم حالت بگڑتی رہی اور اس نے اپنے بیٹے کی بیعت کا حکم دے دیا۔ 16 اکتوبر 976ء کو یہ مسلمان حکم راں خالقِ‌ حقیقی کی طرف لوٹ گیا۔

  • ماضی کی معروف اداکارہ سلونی کی برسی

    ماضی کی معروف اداکارہ سلونی کی برسی

    27 نومبر 1964ء میں ‘غدار’ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی اور فلم کے ساتھ ہی سلونی کا انڈسٹری اور شائقینِ سنیما سے تعارف ہوا۔ 1970ء میں سلونی کے مداحوں کو اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ انھوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی، مگر ڈاکٹروں نے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا ہے۔

    اداکارہ سلونی کو اپنے دور کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار باری ملک سے محبّت ہوگئی تھی اور عشق میں ناکامی پر دلبرداشتہ ہوکر انھوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ باری ملک نے اس واقعے کے بعد سلونی سے شادی کرلی اور کاروبار کے سلسلے میں 25 برس متحدہ عرب امارات میں اپنی اہلیہ سلونی کے ساتھ گزارے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کی معروف اداکارہ سلونی نے 15 اکتوبر 2010ء کو یہ دنیا چھوڑ دی۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کی برسی ہے۔

    1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اداکارہ نے فلم نگری میں‌ خود کو سلونی کے نام سے متعارف کروایا۔ انھیں مشہور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم میں سائڈ رول کے لیے منتخب کیا تھا، لیکن اس فلم کی ریلیز سے قبل 1964ء میں اداکارہ سلونی کی ایک اور فلم ’’غدار‘‘ سنیما کے پردے پر سج گئی اور یوں یہی فلم اس اداکارہ کا شائقین سے پہلا تعارف ثابت ہوئی۔

    سلونی نے اپنے فلمی کیریئر میں 67 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 36 اردو اور 31 فلمیں تھیں۔ اداکارہ کی مقبول فلموں میں کھوٹا پیسا، عادل، باغی سردار، حاتم طائی، درندہ، چن مکھناں، دل دا جانی، لٹ دا مال، بالم، چھین لے آزادی سرفہرست ہیں۔

    فلم انڈسٹری کی سلونی نے کراچی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ یہاں اپنی ایک صاحبزادی کے ہاں مقیم تھیں اور علالت کے سبب ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔ ان کا جسدِ خاکی لاہور لے جایا گیا اور وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    کہتے‌ ہیں ماتا ہری نے ایک زمانے میں یورپ کے دارالحکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔ کیا وزیر، مشیر، امرا و صنعت کار اور جنرل سبھی اس کے دیوانے تھے۔ وہ رقص میں بے بدل اور اپنے زمانے کی سلیبرٹی تھی۔

    حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا۔ وہ نیم عریاں رقص کے لیے مشہور تھی۔ اس نے سبھی کو اپنی اداؤں سے مار رکھا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ رقص کی ماہر اور بے باک ماتا ہری کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران جاسوسہ اور ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا اور یہی اس کی موت کی وجہ بنا۔

    گرفتاری اور ‘الزامات’ ثابت ہونے کے بعد 15 اکتوبر 1917ء کو اس کی موت کی سزا پر عمل کرتے ہوئے شوٹ کردیا گیا۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    وہ نیدر لینڈز میں کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل مارگریٹ زیلے کا سنِ پیدائش 1876ء ہے جو ماتا ہری کے نام سے معروف ہے۔ یہ انڈونیشیائی زبان سے آیا ہوا نام تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ اس کی یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور وہ رشتہ ختم کرکے فرانس چلی گئی۔

    وہ ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اسے بیاہ دیا، لیکن 26 سال کی ماتا ہری یہ تعلق توڑ کر پیرس پہنچ گئی۔ وہاں پیٹ بھرنے کے لیے اس نے اپنے حسن اور اداؤں کا سہارا لیا اور ایک کلب میں رقص کرنے لگی۔ جلد ہی اس کے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کا یورپ بھر میں چرچا ہونے لگا۔ اور بعد کے برسوں میں‌ وہ باکمال رقاصہ کہلائی۔ لیکن چند سال بعد اس کی کشش نجانے کیوں ماند پڑ گئی۔ اس دوران اس کے مال و آسائش میں بھی کمی آئی اور وہ مقروض ہوگئی۔ اپنی زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    ایک جرمن سفارت کار نے اس کو فرانس کے راز جرمن حکومت کو فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اب بھی اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔

    یہ سلسلہ شروع ہوا تو ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا سوچا اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کردیا۔ فرانسیسی حکام کو کسی وقت اس پر شبہ ہو چکا تھا کہ وہ جرمنوں کے لیے کام کررہی ہے۔ تاہم اسے متعدد مشن دیے گئے اور ساتھ ہی اس کی نگرانی بھی کی جانے لگی اور ایک دن اسے گرفتار کرلیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات:‌ نظامُ الملک طوسی کو قابل ترین ایشیائی منتظم کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات:‌ نظامُ الملک طوسی کو قابل ترین ایشیائی منتظم کہا جاتا ہے

    دنیا کے مختلف خطّوں میں اسلامی دورِ حکم رانی اور سلطنتوں کے عروج و زوال اور تاریخ کا ادنیٰ طالبِ علم بھی یہ جانتا ہے کہ ہارون الرّشید کا دور برامکہ کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے اور بالکل اسی طرح سلجوقیوں کا دور نظامُ الملک طوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔

    سلجوقی حکومت میں نظامُ الملک کو اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے جس نے رفاہی، اصلاحی، تعمیری اور فوجی انتظام سے متعلق اہم ترین کارنامے انجام دیے۔

    نظامُ الملک طوسی کا پورا نام ابوعلی حسن ابن علی بن اسحاق تھا جو سلجوق خاندان کے سب سے مشہور بادشاہ ملک شاہ سلجوق کا وزیرِ اعلیٰ اور معتمد خاص تھا۔

    آج اسی نظام الملک طوسی کا یومِ وفات ہے۔ اس باصلاحیت وزیر کے بارے میں ممتاز مؤرخ فلپ کے ہیٹی نے کہا کہ ’’یہ اسلام کی سیاسی تاریخ کا ایک ہیرا ہے۔‘‘ ایک اور تاریخ داں امیر علی نے طوسی کو یحییٰ برمکی کے بعد دوسرا قابل ترین ایشیائی منتظم قرار دیا۔

    نظام الملک طوسی 10 اپریل 1018ء کو طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس نے سلجوقی حکومت میں لگ بھگ بیس سال مکمل اختیارات کے ساتھ منظّم و مؤثر انداز میں انتظامات سنبھالے اور زندگی کے بیش تر شعبوں خصوصاً درس و تدریس کے حوالے سے لا تعداد خدمات انجام دیں۔ سلجوقی نظم و نسق اور مستحکم حکومت کے پسِ پردہ نظامُ الملک طوسی کی ذہانت، صلاحیت اور مہارت تھی جس نے مملکت کو استحکام اور خوش حال کیا۔ نظام الملک طوسی بغداد کے سفر کے دوران صحرائے سینا سے گزرتے ہوئے 1092ء کو ایک قاتلانہ حملے میں دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ طوسی تعلیم کا رسیا اور عالموں، فاضلوں، ادبا و شعرا کا قدر دان تھا۔ دربار میں ملک بھر کے مشاہیر، دانش ور اسی کے سبب اکٹھا تھے۔ اسی کے دور میں‌ 1066ء میں اسلامی دنیا کی پہلی عظیم نظامیہ یونی ورسٹی نیشا پور میں قائم کی گئی۔

    نظام الملک طوسی نے مشہور شاعر، ماہرِ ارضیات و جغرافیہ عمر خیاّم کے تعاون سے ’’جلالی کیلنڈر‘‘ کا اجرا بھی کیا تھا۔ طوسی نے حکومت کے انتظامی امور، رموزِ مملکت اور سیاست پر اہم ترین کتاب ’’سیاست نامہ‘‘ تحریر کی جو اس کے ذاتی تجربات، علم اور مشاہدات پر مشتمل تھی۔

    نظام الملک کا ایک اور بڑا کارنامہ ملک بھر میں خصوصاً سیاسی، انتظامی، حکومتی اور افواج میں جاسوسی و مخبری کے نظام کو رائج کرکے اسے جدید اور عصری خطوط پر آراستہ کرنا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ طوسی نے ساری عمر خدمتِ اسلام اور فروغِ تعلیم میں گزاری۔

  • معروف محقّق، ماہرِ لسانیات و آثارِ قدیمہ ابوالجلال ندوی کی برسی

    معروف محقّق، ماہرِ لسانیات و آثارِ قدیمہ ابوالجلال ندوی کی برسی

    ابوالجلال ندوی مشہور محقّق، نقّاد، معلّم اور ماہرِ لسانیات تھے جنھوں نے موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والی قدیم مہروں کی تشریح و توضیح پر تنقیدی اور وقیع کام کیا۔ وہ 14 اکتوبر 1984ء کو وفات پاگئے تھے۔

    دارُ العلوم ندوۃُ العلما سے فراغت پانے والے ابوالجلال ہندوستانی نژاد پاکستانی تھے۔ وہ سید سلیمان ندوی کی نگرانی میں دارُ المصنّفین میں کام کرنے والوں میں شامل تھے، جہاں انھیں علمی و تحقیقی ماحول میں ادبی و لسانیات سے گہرا شغف ہوگیا اور بعد ازاں ان کی تحقیق اور علمی مواد رسائل کی بدولت عام ہوا۔

    ابو الجلال ندوی کی زندگی کو دو ادوار میں منتقسم کیا جائے تو ایک طرف وہ ہندوستان میں رہ کر اعلام القرآن اور قدیم تہذیبوں بالخصوص یمنی تہذیب کے کتبات وغیرہ پر کام کرتے رہے اور بعد میں پاکستان آکر ہڑپہ اور موئن جو دڑو جیسی تہذیبوں پر کام کیا۔

    وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ قدیم زبانیں عبرانی اور سنسکرت بھی جانتے تھے جس سے انھوں نے اپنے تحقیقی کام میں بہت مدد لی اور قدیم تاریخ اور مخطوطات کو سمجھا۔

    ابو الجلال ندوی 1894ء میں اعظم گڑھ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے اور اپنے والد سے حاصل کی، اور پھر دار العلوم ندوۃُ العلما لکھنؤ میں داخل ہوگئے۔ فراغت کے بعد شبلی نیشنل کالج میں مدرس ہوئے۔ 1923ء میں سید سلیمان ندوی نے انھیں دارُ المصنّفین میں کام کرنے کا موقع دیا۔

    1927ء میں ابو الجلال ندوی نے سید سلطان بہمنی اور نذیر احمد شاکر کے ساتھ مل کر مدراس سے روزنامہ مسلمان جاری کیا جو اب بھی جاری ہے اور تمل ناڈو کا واحد اردو اخبار ہے جس نے کتابت کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

    لسانیات اور دوسرے تحقیقی موضوعات پر ان کے مضامین معارف اور دیگر جرائد میں شائع ہوئے اور علمی و ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ لسانیات، علم الاشتقاق اور تقابلِ ادیان ان کا خاص موضوع تھا۔

    وادیٔ سندھ خصوصاً موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والی قدیم مہروں کی تشریح و توضیح کے علاوہ قدیم رسم الخط پر ان کے متعدد مقالات بھی شائع ہوئے جو ایک اہم کام تھا۔

    ابو الجلال ندوی کراچی میں ملیر، سعود آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • تحریکِ پاکستان کے نام وَر راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا تذکرہ

    تحریکِ پاکستان کے نام وَر راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا تذکرہ

    تحریکِ پاکستان کے نام ور راہ نما راجا امیر احمد خان المعروف راجا صاحب محمود آباد 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجا صاحب کا شمار قائدِ اعظم کے رفیق اور تحریکِ‌ پاکستان کے ان عظیم راہ نماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے آزادی کے لیے عملی میدان میں نہ صرف اپنی تمام استعداد اور صلاحیتوں کو استعمال کیا بلکہ اپنی دولت بھی بے دریغ تحریکی کاموں پر خرچ کی۔

    وہ 5 نومبر 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ راجا صاحب کوئی عام ہندوستانی نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق یو پی کے ایک حکم ران گھرانے سے تھا۔ ان کے والد مہا راجا سر محمد علی خان یو پی کی مشہور ریاست محمود آباد کے والی تھے۔ اسی گھرانے میں راجا صاحب نے آنکھ کھولی اور خاندانی ماحول پھر روپے پیسے کی فراوانی دیکھی، ان کی تعلیم و تربیت بڑے اچھے پیمانے پر ہوئی۔ انھوں نے اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔

    23 مارچ 1931ء کو ان کے والد کی وفات کے بعد راجا امیر احمد خان محمود آباد کے والی بن گئے اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے قومی مسائل کے حل کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال حصہ لینے لگے۔

    اس زمانے میں مسلم لیگ کو جب کبھی مالی امداد کی ضرورت پڑی راجا صاحب نے سب سے پہلے بڑھ کر اس ضرورت کو پورا کیا۔ انھوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست کی ساری آمدنی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے وقف کردی تھی۔

    1947ء میں جب پاکستان بنا تو راجا صاحب پاکستان چلے آئے۔ انھیں یہاں متعدد مرتبہ وزارت اور سفارتی عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن راجا صاحب نے ہمیشہ اس سے گریز کیا۔ وہ ایسے پُرخلوص، درویش صفت اور جاہ و منصب سے بے نیاز انسان تھے جس کی زندگی کا واحد مقصد تحریک اور آزادی رہا۔

    بعد میں راجا صاحب انگلستان چلے گئے جہاں وہ اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ تھے۔ انھوں نے لندن میں انتقال کیا اور مشہد میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا یومِ وفات

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا یومِ وفات

    آج قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا یومِ وفات ہے۔ وہ اپنے کلام کی رنگا رنگی اور تنوع کے سبب شعروسخن کی دنیا میں ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے اپنے کلام میں عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے مضامین کو نہایت کیف و انبساط اور ندرت و خوش سلیقگی سے برتا اور اپنے کمالِ فن کا لوہا منوایا۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے جو زبان و بیان پر ان کے عبور کا مظہر ہے۔ ان کا نام امیر احمد تھا، سن 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔

    امیر مینائی نے شروع گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں فیض اٹھایا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔

    پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں ان کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آلیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کرگئے۔

    وہ طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔

    امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔