Tag: اکتوبر وفات

  • پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستان کے نام وَر فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا 1987ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ادیب اور مترجم بھی جس نے فلم نگری سے مکالمے لکھ کر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    انور کمال پاشا کا تعلق لاہور کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم محمد شجاع کا شمار اردو کے مشہور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کئی کہانیوں پر برصغیر کے باکمال ہدایت کاروں نے فلمیں بنائیں۔

    انور کمال پاشا کو اپنے والد کی وجہ سے شروع ہی سے اردو زبان و ادب کا بھی شوق رہا۔ انھوں نے مشہور ناول گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    وہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا میں آئے تھے اور یہاں فلم ’’شاہدہ‘‘ کے مکالمے لکھ کر انڈسٹری سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد بطور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنے والد کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ پر ’’دو آنسو‘‘ نامی فلم بنائی۔ یہ 1950ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب ثابت ہوئی۔

    بعد میں انور کمال پاشا نے غلام، قاتل، سرفروش، چن ماہی اور انار کلی جیسی فلمیں بنائیں جنھیں زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں دلبر، رات کی بات، انتقام، گمراہ، لیلیٰ مجنوں شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار کو ان کی فلم ’’وطن‘‘ کی کہانی کے لیے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1981ء میں انور کمال پاشا کو ان کی تیس سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان و ادب میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ انھیں تدوین و تالیف، تراجم، تنقید اور ان کے تحقیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    لسانیات اور اصطلاحات کے میدان میں ان کی وقیع و مستند کاوشوں نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ آج شان الحق حقّی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    شان الحق حقّی کے علم و ادب ذوق و شوق نے انھیں لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں میں وہ مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے، پاکستان میں محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیراللسان محقق تھے۔

    اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری بھی مرتّب کی تھی۔

    تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جس نے متنوع اور ہمہ گیر تخلیقی کام کیا۔

    1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے کا اہم کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری حقی صاحب تھے۔ انھوں نے کتابیں اور دیگر مواد جمع کرنے سے لے کر اسٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دل جمعی اور محنت سے سرانجام دیے۔ تاہم بعض اختلافات کی وجہ سے لغت کی تیّاری سے قبل ہی بورڈ کو خیرآباد کہہ دیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔

    ان کی تیارکردہ کتاب فرہنگِ تلفظ اپنی مثال آپ ہے۔ تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔

    بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں لکھنے کے ساتھ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے علمی مضامین الگ ہیں جب کہ کتابوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

    شان الحق حقی کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

    بعد میں وہ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو جگر کے عارضے کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

    شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع تھا۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • دلرس بانو بیگم کا تذکرہ جو ہندوستان کے دوسرے تاج محل میں مدفون ہیں

    دلرس بانو بیگم کا تذکرہ جو ہندوستان کے دوسرے تاج محل میں مدفون ہیں

    دلرس بانو بیگم نے مختصر زندگی پائی۔ وہ ہندوستان کے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تین بیویوں میں سے ایک تھیں۔ 1657ء میں آج ہی کے دن دلرس بانو بیگم وفات پاگئی تھیں۔

    مؤرخین نے دلرس بانو بیگم کا سنِ پیدائش 1622ء لکھا ہے۔ وہ ربیعہ الدّرانی کے نام سے بھی پکاری جاتی تھیں۔ اورنگزیب کی پہلی بیوی ہونے کے ناتے شاہی خاندان میں ان کی بڑی حیثیت اور اہمیت تھی۔

    اورنگزیب عالمگیر کی ماں ممتاز محل تھیں جن کی عظیم الشّان یادگار اور نشانی تاج محل دنیاک کے خوب صورت ترین مقابر اور عجائبِ روزگار عمارات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی شریکِ حیات دلرس بانو بیگم بھی اورنگ آباد میں ایسے ہی مقبرے میں آسودہ خاک ہوئیں جو تاج محل سے مماثلت رکھتا ہے۔ اسے بی بی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔

    مؤرخین نے دلرس بانو کو ایران کے مشہور صفوی خاندان کی شہزادی لکھا ہے۔ ان کی شادی 1637ء میں اورنگزیب سے ہوئی تھی اور ان کی پانچ اولادیں تھیں جن میں شہزادہ محمد اعظم کو اورنگزیب نے ولی عہد مقرر کیا تھا۔

    دلرس بیگم کی وفات اپنی پانچویں اولاد کی پیدائش کے ایک مہینے بعد زچگی کے دوران ہونے والی پیچیدگی کے سبب لاحق ہونے والے بخار کی وجہ سے ہوئی۔

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ کو اپنی پیاری زوجہ کی موت کا شدید دکھ ہوا جب کہ اس کا سب سے بڑا بیٹا محمد اعظم اپنی ماں کی ناگہانی موت کے صدمے کے سبب اعصابی توازن کھو بیٹھا تھا۔

  • ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

    ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

    فرانس کے سب سے معروف فلسفی اور ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کے بانی ژاک دریدا 2004ء میں آج ہی کے دن سرطان کے مرض کے سبب زندگی کی جنگ ہار گئے تھے۔ وہ 74 سال جیے اور دنیا بھر میں اپنے فلسفے اور نظریات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

    ان کے نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے تمام شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تاہم ان پر تنقید بھی کی گئی اور ان کے خیالات کو لایعنی اور بے معنیٰ بھی کہا گیا۔ اس کے باوجود دنیا انھیں علم و ادب، تنقید اور لسانیات کے ایک یگانہ روزگار اور دانش ور کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

    ان کے فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبیعیات کو متاثر کیا۔

    ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان میں 1930ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے فلسفے پر توریت کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ وہ 1952ء میں فرانس منتقل ہوگئے اور ہاورڈ اور سوربون میں تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع قرار دیا جاتا ہے۔

    انھیں کیمبرج نے 1992ء میں اعزازی ڈگری دی تھی۔ دریدا فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے مخالف رہے اور نیلسن منڈیلا کی حمایت میں بھی مہم چلائی۔

    2003ء میں دریدا کے نام ہی سے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس فلم کے دوران دریدا کی کتابوں سے بھری ہوئی دیواروں کے قریب سے گزرتے ہوئے کوفمین نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے یہ سب کتابیں پڑھی ہیں؟

    دریدا نے فوراً جواب دیا: نہیں، صرف ان میں سے چار پڑھی ہیں، لیکن میں نے انھیں انتہائی انتہائی غور سے پڑھا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے فکر و نظر کو مالا مال کیا۔ ان کے متنوع افکار کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر ان کے اسلوب کی تفہیم کی سعی کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

  • ممتاز ادیب، فکشن نگار اور نقّاد ڈاکٹر انیس ناگی کا تذکرہ جو تلخ گو مشہور تھے

    ممتاز ادیب، فکشن نگار اور نقّاد ڈاکٹر انیس ناگی کا تذکرہ جو تلخ گو مشہور تھے

    اردو ادب میں ڈاکٹر انیس ناگی فکشن نگار، نقّاد اور شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    ’زوال‘ اور ’دیوار کے پیچھے‘ ان کے اہم ناول شمار کیے جاتے ہیں۔ 10 ستمبر 1939ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے انیس ناگی کا خاندانی نام یعقوب علی تھا۔

    انیس ناگی نے ناولوں کے علاوہ شعری اور تنقیدی مضامین کے مجموعے، شعری اور نثری تراجم یادگار چھوڑے۔

    وہ ساٹھ کی دہائی میں ’نئی شاعری‘ کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا۔ انھوں نے تجربات کیے اور اس تحریک میں ان کے ساتھ افتخارجالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار و دیگر بھی شامل ہوگئے۔

    ڈاکٹر انیس ناگی کو اپنے ہم عصروں میں اس لیے امتیاز حاصل ہے کہ وہ تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ نظری اور فلسفیانہ اساس بھی فراہم کرتے رہے۔ انیس ناگی کا ایک اہم کام ان کے شعری تراجم ہیں۔

    کہتے ہیں کہ وہ لگی لپٹی رکھنے کے عادی نہ تھے۔ انھوں نے جو سچ جانا اور جیسا درست سمجھا، اسے بیان کرنے میں کسی کی ناراضی اور تعلق کو نقصان پہنچنے کی پروا نہ کی۔ ان کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ تلخ گوئی ان کا شیوہ ہے۔

    انھیں لاہور میں اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    اردو ادب کی کثیر الجہت شخصیت ڈاکٹر داؤد رہبر کی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تشریح اور تخلیق میں گزرا۔

    نثر کے علاوہ شاعری بھی ان کا حوالہ ہے لیکن اس کا ذکر کم کم ہوا ہے۔اردو زبان کے نام ور ادیب، مضمون نگار، ماہرِ موسیقی اور شاعر کا آج یومِ وفات ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے 5 اکتوبر 2013 کو داعئ اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ وہ امریکا میں سکونت پذیر تھے۔

    داؤد رہبر 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اورینٹل کالج لاہور اور بعد ازاں کینیڈا، انقرہ اور امریکا کی جامعات سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ڈاکٹر محمد داؤد رہبر ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے۔ ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلد ہی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے ملک اور کلچر سے دور رہنے کے باوجود اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا تھا۔

    اکرام چغتائی نے اپنے تذکرے میں ان کے بارے میں لکھا، ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے۔‘‘

    ان کی تصانیف میں تسلیمات(مضامین)، باتیں کچھ سُریلی سی اور نسخہ ہائے وفا (موسیقی پر مضامین)، پراگندہ طبع لوگ (عام آدمی کی کہانیاں)، مشاعرے کا فاتح- نواب میرزا داغ دہلوی، کلچر کے روحانی عناصر اور شعری کلیات شامل ہیں۔

  • معروف شاعر اور افسانہ نگار اختر انصاری دہلوی کی برسی

    معروف شاعر اور افسانہ نگار اختر انصاری دہلوی کی برسی

    آج ترقّی پسند فکر کے اہم شاعر، افسانہ نگار اور نقّاد اختر انصاری دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 5 اکتوبر 1988ء کو انتقال کرگئے تھے

    ان کی شاعری، تنقید اور افسانے ان کی ترقی پسند فکر اور جدوجہد کا عکس ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے اختر انصاری دہلوی اپنی تخلیقات میں گہرے طنز اور شدّتِ جذبات کے اظہار کے لیے مشہور ہیں۔

    ’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ، ’نازو اور دوسرے افسانے‘، ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘، ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔

    اختر انصاری یکم اکتوبر 1909ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد ایوب انصاری تھا، لیکن ادب کی دنیا میں الگ نام سے پہچانے گئے۔ والد چوں کہ ترکِ سکونت کے بعد دہلی آگئے تھے، سو انھوں نے خود کو دہلوی کہلوانا پسند کیا۔ اختر نے اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔

    1947ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے۔ بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ ان کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    یادِ ماضی عذاب ہے یارب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

    شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
    جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں

    اختر انصاری دہلوی کی دو کتابیں ایک قدم اور سہی اور اردو افسانہ، بنیادی اور تشکیلی مسائل بعد از مرگ شائع ہوئیں۔

  • یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصوّر احمد پرویز 1979ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں تجریدی مصوّر کے طور پر شہرت ملی۔

    احمد پرویز 7 جولائی 1926ء کو راولپنڈی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ سینٹ جوزف کالج اور گورڈن کالج راولپنڈی میں مکمل کیا۔ وہ ایک سیماب صفت انسان تھے جن کی زندگی والدین کی علیحدگی اور دوسرے عوامل کے سبب متاثر ہوئی تھی اور خود انھوں نے بھی تین شادیاں کیں جو ناکام رہیں۔ یوں احمد پرویز کی ذاتی زندگی بھی ذہنی دباؤ اور کرب میں گزری۔

    شراب نوشی نے انھیں اور ان کے اہلِ‌ خانہ کو مشکل سے دوچار کردیا تھا، وہ گھر اور آسائشوں سے دور ہوتے چلے گئے اور زندگی میں تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ بعد میں بھی دوسری شادیاں ایسے ہی حالات کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ تاہم انھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا اور دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1952ء میں احمد پرویز کے فن پاروں کی پہلی نمائش جامعہ پنجاب لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہلِ فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک وہ لندن میں قیام پذیر رہے اور 1966ء سے 1969ء تک امریکا کے شہر نیویارک میں وقت گزارا۔ اس دوران ان کا بڑے بڑے آرٹسٹوں اور آرٹ سے تعلق برقرار رہا۔ اس سے قبل بھی بیرونِ ملک رہتے ہوئے انھوں نے غیرملکی فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا تھا اور تجریدی مصوّری میں ایک علٰیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک کہلائے۔

    زندگی کے آخری دورمیں انھوں نے اپنے لیے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ اس پر انھوں نے لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ احمد پرویز کی مصوّری کی پہچان تیز اور شوخ رنگ تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اس باکمال مصوّر کو 1978ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • سلویا بیچ: ایک چھوٹی سی دکان کی مالک جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی

    سلویا بیچ: ایک چھوٹی سی دکان کی مالک جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی

    سلویا بیچ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی جب اس کا خاندان امریکا سے پیرس منتقل ہوا۔ وہ زندگی کو اپنے انداز سے گزارنے اور کچھ کر دکھانے کی آرزو مند تھی۔

    1919ء میں سلویا نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس نے اسے پیرس کی ایک مشہور شخصیت بنا دیا اور بعد کے برسوں میں اس نے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔

    سلویا بیچ 1887ء میں پیدا ہوئی۔ پیرس میں قیام کے دوران 1919ء میں سلویا بیچ نے کتب فروش کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کون جانتا تھاکہ ایک دکان کی مالک دنیا بھر میں ادب کی دلدادہ، کتاب دوست اور فنونِ لطیفہ کی شایق کے طور پر اتنی مشہور ہوجائے گی اور دور دور سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور نام ور ادیب و شاعر اس کتاب گھر کا رخ کریں گے۔

    اس دکان کا نام شیکسپیئر اینڈ کمپنی تھا جس نے بعد میں سلویا بیچ کو ایک مستند اور مستحکم ناشر کے طور پر بھی شہرت دی۔ اس بک شاپ میں انگریزی ادب اور دیگر موضوعات پر کتابیں رکھی گئی تھیں جو جلد ہی مطالعے کے شوقین افراد کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

    شہر اور مختلف قصبات سے کتابوں کے عام خریداروں کے ساتھ ساتھ اب یہاں مختلف شاعراورادیب بھی آنے لگے تھے۔ سلویا بیچ خود بھی مطالعے کی شوقین اور علم دوست لڑکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ قلم کار اس سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اکثر ان سے کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو کرتی اور مختلف علمی و ادبی نوعیت کے مباحث اسے سیکھنے اور جاننے کا موقع فراہم کرتے تھے۔

    سال بھر میں اس نے اپنے اسی ذوق و شوق کے سبب پیرس کے اہلِ قلم کی توجہ حاصل کرلی اور اس کی دکان پر ایک قسم کی ادبی نشستوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دکان میں گنجائش کم تھی اور رش کی وجہ سے کام اور علمی اور ادبی گفتگو کا تسلسل برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ تب اس نے قریب ہی ایک کشادہ دکان کرائے پر حاصل کرلی۔

    1921ء میں محنت اور لگن کی بدولت سلویا کا یہ نیا کتاب گھر علم و فنون کا مرکز اور اس وقت کے نابغوں کی بیٹھک بن گیا۔ وہاں نام وَر ادیب، شاعر اور صحافی جمع ہونے لگے۔ اکثر ایسا ہونے لگا کہ ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق مباحث کے دوران رات گہری ہو جاتی، اور قلم کار اس دکان ہی میں لمبی تان کر سو رہتے۔

    سلویا بیچ کی دکان پر ارنسٹ ہیمنگوے، ایزرا پاؤنڈ، گرٹروڈ اسٹین، مینا لوئے اور مین رے جیسی قدآور شخصیات آتی اور محفل بپا کرتی تھیں۔ انہی احباب کے مشورے سے سلویا بیچ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کردیا جس سے مالی فائدہ ہی نہیں اسے خوب شہرت بھی ملی۔ مشہور رائٹر جوئس کا وہ ناول بھی سلویا بیچ نے شایع کیا جو متنازع بنا اور امریکا، برطانیہ میں اس کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس ناول کا نام یولیسس تھا۔

    اسی طرح عالمی شہرت یافتہ لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کی تین کہانیوں اور دس نظموں پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے کے تحت شایع ہوئی۔ تاہم 1941ء میں فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد یہ بک شاپ بند کر دی گئی۔

    کئی برس بعد ایک اور علم دوست جارج وہٹمین نے پیرس میں اِسی طرز کی ایک دکان کھولی اور اسے علم و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کے لیے دن رات محنت کی اور کام یاب رہا۔ وہ دراصل سلویا بیچ کا بڑا مداح تھا۔ جارج وہٹمین نے بھی اپنے اس کتاب گھر کو ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کا نام دیا اور اس موقع پر اعلان کیا کہ یہ سلویا بیچ سے ان کی عقیدت کے اظہار کی ایک شکل ہے۔

    1962ء میں آج ہی کے دن وفات پانے والی سلویا بیچ نے زندگی کی 75 بہاریں دیکھیں۔

  • عبدالسّلام ندوی: انشا و ادب میں ممتاز ایک اسلامی مفکّر اور عالم فاضل شخصیت

    عبدالسّلام ندوی: انشا و ادب میں ممتاز ایک اسلامی مفکّر اور عالم فاضل شخصیت

    ان کی طبیعت شاعرانہ اور تخیل پرست تھی، ہلکے پھلکے مضامین کو وہ ادبی حسن و لطافت سے پورا کر دیتے تھے، قلم اتنا پختہ اور منجھا ہوا تھا کہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔

    یہ عبدالسّلام ندوی کا تذکرہ ہے جو دارُ العلوم ندوۃُ العلما، لکھنؤ کے فارغ التحصیل اور اوّلین فاضل شخصیات میں سے ایک تھے۔

    ہندوستان میں انشا و ادب میں ممتاز اس مصنّف، شاعر اور مؤرخ کا شمار اپنے وقت کی بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت اور اسلامی مفکّر علاّمہ شبلی نعمانی کے چہیتے شاگردوں میں ہوتا تھا۔

    عبد السلام ندوی پہلے مصنّف ہیں جنھوں نے باقاعدہ تصنیف کا کام سیکھا، انھوں نے طلبائے ندوہ میں سب سے پہلے مضمون نویسی پر انعام پایا، سب سے پہلے اپنے استاد علامہ شبلی کا طرزِ تحریر اختیار کیا اور سب سے زیادہ کام یاب رہے۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت کا آبائی علاقہ اعظم گڑھ کا موضع علاءُ الدّین پٹی تھا جہاں 16 فروری 1883ء کو شیخ دین محمد کے گھر آنکھ کھولی۔ والد فارسی، ہندی اور قدیم ہندوانہ طریقہ حساب کے بڑے ماہر تھے، اسلامیات اور دینیات کے بھی عالم تھے، شرحِ جامی تک عربی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق متوسط درجے کے زمین دار، کاشت کار اور تاجر خاندان سے تھا۔

    عبدُ السّلام ندوی نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد عربی کی تعلیم کے لیے کان پور، آگرہ اور غازی پور کا سفر کیا۔ اور 1906ء میں دارُ العلوم ندوۃُ العلما میں درجہ پنجم میں داخلہ لے لیا۔ 1910ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد وہیں عربی ادب میں استاد مقرر ہو گئے۔

    عبد السلام ندوی کو شعر وادب کا ذوق اور لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ دارُ العلوم میں علّامہ شبلی نعمانی نے ان کی اس صلاحیت کو بھانپ لیا تھا اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے ان کی بہترین تربیت کی تھی۔ ان کا پہلا مضمون اسی زمانے میں علّامہ شبلی کی نظر سے گزرا اور انھوں نے اسے "الندوی” رسالہ میں تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کردیا۔

    یہ عبدالسّلام ندوی کی بڑی حوصلہ افزائی تھی اور شبلی جیسے استاد اور عالم فاضل کی تعریف اور توجہ ان کے نزدیک بڑی عزّت اور انعام کی بات تھی۔ یوں ان کا تصنیف و تالیف میں شوق بڑھا۔ بعد کو "الندوہ” کے معاون مدیر اور پھر مدیر بنائے گئے۔ علّامہ شبلی نے جب سیرتُ النّبی کی تالیف کا کام شروع کیا تو مولانا عبد السّلام کو اپنا معاون بنایا تھا۔

    1912ء میں وہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ "الہلال” کلکتہ سے وابستہ ہو گئے اور ڈیڑھ دو سال تک الہلال میں کام کیا۔ 1914ء میں الہلال کی بندش اور اسی سن میں علامہ شبلی کی وفات کے بعد انھوں‌ نے اپنے مرحوم استاد کے خوابوں کی تکمیل کے لیے دارُ المصنّفین شبلی اکیڈمی جاکر وہاں سید سلیمان ندوی اور مسعود علی ندوی کے ساتھ اس کی تعمیر و ترقی میں حصّہ لیا۔ ان کا شمار اس کے مؤسسین اور بانیان میں ہوتا ہے۔

    مولانا عبدُ السّلام کو کئی جہتوں کے سبب اس دور میں اہمیت حاصل رہی ہے اور ان کے کام کو لائقِ تحسین جانا گیا ہے۔

    مولانا عبدُ السّلام ندوی نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین لکھے جب کہ ان کی مستقل تصنیفات ایک درجن سے زائد ہیں جن میں اسوۂ صحابہ اور اسوۂ صحابیات 1922ء، حکمائے اسلام (دو جلدیں) 1956ء، اقبال کامل 1929ء، امام رازی 1953ء، اسلامی قانون فوجداری 1950ء، شعر العرب و دیگر شامل ہیں۔

    ان کا انتقال 1955ء میں آج ہی کے دن ہوا تھا۔ عبدالسّلام ندوی اپنے استاد علّامہ شبلی مرحوم کے سرہانے مدفون ہیں۔