Tag: اکتوبر وفیات

  • قاضی عبدالستّار: اردو افسانہ اور تاریخی ناول نگاری کا ایک بڑا نام

    قاضی عبدالستّار: اردو افسانہ اور تاریخی ناول نگاری کا ایک بڑا نام

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ قاضی عبدالستار نے ان بڑے ناموں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا اور افسانہ و تاریخی ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔

    معروف بھارتی ادیب قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں خوبی سے سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش کے علاقہ سیتا پور سے تھا۔ وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد قاضی عبدالستار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بطور ریسرچ اسکالر وابستہ ہوگئے۔ یہ 1954ء کی بات ہے۔ بعد ازاں قاضی عبدالستار اسی جامعہ کے شعبۂ اردو میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ قاضی عبدالستار کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا تھا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953ء میں بھارت میں شائع ہوا۔ جب کہ 1961ء میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962ء میں ’پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    قاضی عبدالستار چند ہفتوں سے بغرضِ‌ علاج دہلی کے سر گنگا رام اسپتال میں داخل تھے اور وہیں 29 اکتوبر 2018ء کو انتقال ہوا۔

  • خدیجہ گائیبووا، جس کی زندگی 15 منٹ کی مختصر عدالتی کارروائی کی ‘نذر’ ہوئی

    خدیجہ گائیبووا، جس کی زندگی 15 منٹ کی مختصر عدالتی کارروائی کی ‘نذر’ ہوئی

    یہ آذر بائیجان کی اُس موسیقی اور پیانو کی ماہر کا تذکرہ ہے جس سے 46 سال کی عمر میں اس کے جینے کا حق چھین لیا گیا تھا۔

    وہ متحدہ روس کی مشہور ریاست جارجیا میں دریا کے کنارے آباد خوب صورت شہر طفلیس (تلبیسی) میں پیدا ہوئی۔ 24 مئی 1893ء کو پیدا ہونے والی خدیجہ گائیبووا کے والد عثمان مفتی زادے مسلمان عالم تھے۔ 18 سال کی عمر میں خدیجہ گائیبووا کی شادی کردی گئی جس کے بعد وہ مسلمانوں‌ کے مقامی اسکول میں پڑھانے لگی۔

    گائیبووا نے 1901ء سے 1911ء کے عرصے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پیانو بجانے کی تربیت بھی حاصل کی اور آذربائیجان میں مشرقی اور لوک موسیقی کو نئے اور منفرد رجحانات کے ساتھ شائقین میں مقبول بنایا۔

    وہ اپنے وطن کی پہلی باقاعدہ اور ماہر پیانو نواز تھی جس نے پیانو پر ‘مغم’ (مقامی موسیقی) ادا کرکے مقبولیت حاصل کی پہلی آذربائیجانی موسیقار کی حیثیت سے پہچانی گئی۔ خدیجہ گائیبووا نے پیانو جیسے مشہور ساز کی ترویج اور موسیقی کے فروغ کے لیے بہت کام کیا۔ وہ فنِ موسیقی کے ریاستی ادارے کے بانیوں میں شامل تھی اور بعد میں آذربائیجان اسے مشرقی موسیقی کی تعلیم و فروغ کے شعبے کا سربراہ بنایا گیا۔ ان اداروں سے وابستگی کے دوران گائیبووا نے مقامی عورتوں کو پیانو اور آرٹ کی تعلیم دی اور باقاعدہ میوزک کلاسوں کا اہتمام کیا۔ وہ متحدہ روس اور خطّے میں عظیم سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا دور تھا۔

    اسی زمانے میں انقلابِ روس اور جوزف اسٹالن کی قیادت میں‌ خدیجہ گائیبووا بھی نئی سیاسی و سماجی تنظیم کی تشکیل کا آغاز دیکھ رہی تھی اور وہاں‌ ہر طرف بڑے پیمانے پر مخالفین کی گرفتاریوں اور جاسوسی کے الزام میں انھیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا تھا۔

    1933ء میں گائیبووا کو بھی مخبری اور انقلابی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور تین ماہ تک نظر بند رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔ جاسوسی کا ثبوت نہ ملنے پر الزامات خارج کردیے گئے اور اگلے ہی سال اسے لوک موسیقی کے محقّق کی حیثیت سے ملازمت بھی مل گئی۔

    اس زمانے میں روس میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں اور وہاں غیر ملکی موسیقاروں، شعر اور ادیبوں کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین اور فن کاروں کا آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ یہ لوگ روس کے اس زمانے کے میوزک "سیلون” میں جمع ہوتے تھے جن میں‌ ترکی کے فن کار اور آرٹ کے شائقین بھی شامل تھے۔ سوویت حکام کو جو اطلاعات ملیں ان کے مطابق ان میں سیاسی اور قیادت مخالف سرگرمیاں انجام دی جارہی ہیں۔ اس نے روس کے ترکی کی حکومت سے تعلقات کو مشکوک بنا دیا۔

    17 مارچ 1938ء کو گائیبووا کو جس پر مسلسل نظر رکھی جارہی تھی، ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا اور اس پر حکومت مخالف جماعت سے تعلقات رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ اس سے مسلسل پوچھ گچھ اور پانچ ماہ تک تفتیش جاری رہی جس میں‌ وہ بے قصور ثابت ہوئی، لیکن 19 اکتوبر 1938 کو پندرہ منٹ کی مختصر سماعت کے بعد عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی اور 27 اکتوبر کو فائرنگ اسکواڈ نے اسے زندگی کی قید سے آزاد کردیا۔

  • جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    بدر منیر کراچی میں رکشہ چلاتے تھے۔ وہ صرف سنیما اور فلم کے دیوانے نہیں تھے، خود بھی اداکار بننا چاہتے تھے۔ یہ ان کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر ملنا آسان نہ تھا۔

    بدر منیر نے ایک روز رکشہ چھوڑ کر کار ڈرائیور بننے کی ٹھانی، لیکن یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ فلم اسٹار وحید مراد کے فلمی دفتر پہنچ گئے۔ وہاں‌ بدر منیر نے ڈرائیور کے طور پر ادارے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، لیکن اس وقت ڈرائیور کی ضرورت نہیں‌ تھی۔ بدر منیر کو دفتر میں چائے بنانے اور چھوٹے موٹے کام انجام دینے کے لیے رکھ لیا گیا۔

    1966ء کی بات ہے جب وحید مراد کی فلم ’ارمان‘ سُپر ہٹ ہوئی تو بدر منیر نے مالک کو اس کی کام یابی پر خوش دیکھ کر اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اور وحید مراد نے کچھ عرصے بعد انھیں فلم ’جہاں ہم وہاں تم‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دِلوا دیا۔

    اس فلم کے بعد دو تین برس تک بدر منیر نے مزید فلموں‌ میں‌ چھوٹے موٹے کردار نبھائے اور 1970ء میں ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ انھیں‌ پشتو فلموں‌ کے ہیرو کے طور پر بے مثال شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ انھوں نے اس سال پشتو فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ میں‌ مرکزی کردار نبھایا جو پاکستان میں اس زبان میں‌ بننے والی اوّلین فلم تھی۔

    بدر منیر نے ساڑھے چار سو سے زیادہ پشتو اور اردو فلموں میں کام کیا۔ وہ پشتو فلم کی معروف ہیروئنوں کے ساتھ پردے پر نظر آئے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ اگرچہ بدر منیر پشتو اداکار کی حیثیت سے مشہور ہیں‌ ہے، لیکن اردو فلموں کے شائقین نے بھی انھیں پسند کیا۔

  • پروفیسر علّامہ عبد العزیز میمن بحیثیت عربی مصنّف و محقّق

    پروفیسر علّامہ عبد العزیز میمن بحیثیت عربی مصنّف و محقّق

    پروفیسر علّامہ عبد العزیز میمن عربی زبان و ادب کے نام وَر عالم اور استاد تھے۔ ان کی عربی دانی کو اہلِ عرب بھی تسلیم کرتے تھے۔

    وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ پنجاب اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر رہے۔ موصوف عربی لغت کی باریکیوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اس میں انھیں استاد مانا جاتا ہے۔

    علّامہ عبد العزیز میمن 23 اکتوبر 1888ء کو راج کوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے راج کوٹ اور جونا گڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد میں دہلی چلے گئے جہاں اپنے وقت کے جیّد علما اور ممتاز دینی شخصیات کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد سے اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد علّامہ صاحب کی کوششوں سے کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ عربی قائم ہوا۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے جو ان کی تحقیق اور زبان و ادب سے گہرے شغف اور زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے علّامہ عبد العزیز میمن کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ انھوں نے 27 اکتوبر، 1978ء کو کراچی میں وفات پائی۔

  • یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    1997ء میں آج ہی کے دن پاکستان کی معروف مصوّرہ زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔

    لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 1944ء سے 1946ء تک وہ اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں انھوں نے ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی دور کے فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنٰی بناتی تھی۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ 2006ء میں ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    خواجہ خورشید انور کی دھنوں نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ برصغیر کے اس عظیم موسیقار کی آج برسی ہے۔

    خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے۔ علم و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں انھوں نے ایم اے کیا اور بعد میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی، لیکن انگریز سرکار کے نوکر نہیں بلکہ قیدی بن گئے، کیوں کہ وہ اس زمانے میں انقلابی تنظیم سے وابستہ تھے۔

    بعد میں وہ موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار کے طور پر بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 30 اکتوبر 1984ء کو وفات پائی۔

    مہدی حسن کا ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کی آواز میں ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی گیت خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کی وجہ سے آج بھی اپنے اندر کشش رکھتے ہیں۔

    وہ 21 مارچ 1912 میں میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے استاد توکل حسین خان صاحب سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

    ان کے تخلیقی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں ریلیز ہوئی۔ انھوں نے اس فلم کے بعد لاہور میں مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔

    خواجہ خورشید انور ہدایت کار بھی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں انھوں نے فلم انتظار کے لیے بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔

  • پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری میں ڈانسنگ ہیرو کے طور پر بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اسماعیل شاہ نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بلوچستان کے پسماندہ علاقے پشین سے تعلق رکھنے والے اسماعیل شاہ نہ صرف سنیما کے شائقین میں مقبول تھے بلکہ فلم سازوں کی اوّلین ترجیح تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ رقص میں ان کی مہارت تھی۔ وہ ایک باصلاحیت فن کار تھے۔ اس دور میں پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور اداکار اور مقبول ترین ہیرو بھی متاثر کن ڈانسر نہیں تھے جب کہ اسماعیل شاہ کی صورت میں‌ ہدایت کاروں کو ایک نوجوان اور ایکشن فلموں‌ کے لیے موزوں چہرہ ہی نہیں‌ بہترین ڈانسر بھی مل گیا۔ وہ فلم انڈسٹری کے ڈانسنگ ہیرو مشہور ہوئے۔

    اپنی شان دار اداکاری اور معیاری ڈانس کی بدولت شہرت کا زینہ طے کرنے والے اسماعیل شاہ فلم ’’ناچے ناگن‘‘ سے گویا راتوں رات شائقین میں مقبول ہوگئے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد انڈسٹری میں‌ ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ فلم ناچے ناگن 1989ء میں منظرِ عام پر آئی اور ملک بھر میں اسے پزیرائی ملی۔ تاہم اسماعیل شاہ کی پہلی فلم ’’باغی قیدی‘‘ تھی۔

    فلم اسٹار اسماعیل شاہ نے مجموعی طور پر 70 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں‌ میں بننے والی فلمیں‌ شامل ہیں۔

    وہ 1962ء میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے کیا۔ کوئٹہ ریڈیو اور پھر کوئٹہ ٹی وی سے وابستہ ہوئے۔ اسماعیل شاہ کو‌ بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ یہی شوق اور ان کی لگن 1975ء میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن کے کوئٹہ مرکز تک لے گئی اور بلوچی ڈراموں سے ان کے کیریئر کا آغاز ہوا۔ اسماعیل شاہ نے اردو زبان کے مشہور ڈرامہ ’’ریگ بان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ میں بھی کردار نبھائے اور ناظرین نے انھیں پسند کیا۔

    لو اِن نیپال، لیڈی اسمگلر، باغی قیدی، جوشیلا دشمن، منیلا کے جانباز، کرائے کے قاتل اور وطن کے رکھوالے اسماعیل شاہ کی مشہور اور کام یاب فلمیں‌ ہیں۔

  • مغل بادشاہ نور الدّین جہانگیر اور زنجیرِ عدل

    مغل بادشاہ نور الدّین جہانگیر اور زنجیرِ عدل

    نورالدین جہانگیر اپنے والد شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر کی وفات کے بعد 1605ء میں تخت نشین ہوئے۔

    شہنشاہ اکبر بے اولاد تھے۔ انھیں بزرگ شیخ سلیم چشتی نے دعا دی کہ اللہ تمہاری اولاد کی آرزو پوری کرے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ 1569ء میں پیدا ہونے والے بچّے کا نام انہی بزرگ کے نام پر سلیم رکھا گیا تھا جو بعد میں نورالدّین جہانگیر کا لقب اختیار کرکے تخت پر بیٹھا۔

    شہزادہ سلیم ذہین تھا، جلد ہی امور سلطنت میں بھی دل چسپی لینے لگا، مؤرخین کے مطابق اس کی چھٹی شادی تخت نشینی کے بعد مہرالنساء بیگم (نورجہاں) سے ہوئی۔

    شہزادہ سلیم نے تخت نشینی کا کئی روز تک جشن منایا، قیدیوں کو رہا کیا، اپنے نام کا سکہ جاری کیا، مخالفین سے نرمی برتی، سلطنت میں جو فوری اصلاحات نافذ کیں ان میں محاصل منسوخ کرنا، سڑکیں، مساجد، کنویں اور سرائیں تعمیر کروانا، شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کی فروخت اور استعمال پر پابندی، وراثت کے قوانین پر سختی سے عمل کا حکم جاری کیا۔ مجرموں کے ناک کان کاٹنے کی سزائیں منسوخ کر دیں۔

    جہانگیر کو کسی بڑے بحران کا سامنا نہ تھا، لیکن اسے تخت نشین ہوئے چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ اس کے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی، جسے اس نے فرو کیا اور کئی مہمات اور بغاوتوں یا سازشوں سے نمٹتا رہا۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے محل کے باہر زنجیرِ عدل اسی بادشاہ کے حکم پر لٹکائی گئی تھی اور مشہور کتاب تزک جہانگیری بھی اسی کی یادگار ہے۔

    1627ء میں آج ہی کے دن جہانگیر کا انتقال ہوگیا تھا۔ دریائے راوی کے کنارے باغ دلکشا لاہور اور موجودہ شاہدرہ میں اس کی تدفین کی گئی۔

  • علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    سید رئیس احمد جعفری اردو کے نام وَر صحافی، مؤرخ، ماہرِ اقبالیات، ناول نگار، مترجم اور سوانح نگار تھے۔ انھوں نے تین سو سے زائد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو علم و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    رئیس احمد جعفری 1914ء کو لکھیم پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ندوۃُ العلما، لکھنؤ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگے تھے۔

    1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد ان کی سوانح عمری سیرت محمد علی کے نام سے تحریر کی۔ 1934ء میں مولانا شوکت علی نے انھیں روزنامہ خلافت بمبئی کا مدیر مقرر کیا۔ مولانا شوکت علی کی وفات کے بعد وہ روزنامہ ہندوستان اور روزنامہ انقلاب، لاہور جیسے اخبارات کے مدیر رہے۔

    1949ء میں رئیس جعفری پاکستان چلے آئے اور یہاں بھی علم و ادب سے وابستگی برقرار رکھی۔ مطالعہ اور لکھنا ان اوّلین شوق تھا جب کہ صحافت ان کا پیشہ۔ وہ پاکستان آمد کے بعد کئی اخبارات اور جرائد کے مدیر اور نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    رئیس احمد جعفری کی تصانیف، تراجم اور تالیفات کی تعداد 300 سے زائد ہے جن میں اقبال اور عشق رسول، دیدو شنید، علی برادران، اوراق گم گشتہ، اقبال اور سیاست ملی، واجد علی شاہ اور ان کا عہد، تاریخِ تصوّف، تاریخ دولت فاطمیہ اور بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ دل کے آنسو (افسانے)، تاریخِ خوارج، تاریخِ تصوّف، شہاب الدین غوری، خون کی ہولی (ناول)، اسلام اور رواداری، اسلام اور عدل و احسان جیسی کتب ان کی علم و ادب اور تاریخ سے شغف اور استعداد کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے رئیس احمد جعفری کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    انھوں نے 27 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی اور سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • غلام اسحاق خان: ایوانِ صدر تک پہنچنے والے اصول پرست بیورو کریٹ کی کتھا

    غلام اسحاق خان: ایوانِ صدر تک پہنچنے والے اصول پرست بیورو کریٹ کی کتھا

    پاکستان کی سیاست اور ایوانِ‌ اقتدار کے مختلف ادوار میں غلام اسحاق خان کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ وہ بطور بیورو کریٹ ایک اصول پرست اور ایمان دار شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 27 اکتوبر 2006ء کو پشاور میں وفات پاگئے تھے۔

    غلام اسحاق خان نے نہ صرف اہم سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں اور وزیر سے ملک کے صدر کے منصب تک پہنچے، لیکن دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے بعد انھیں بھی اپنا منصب اور سیاست چھوڑنا پڑی تھی۔

    انھیں ایک دردمند اور حب الوطن سیاست دان بھی کہا جاتا ہے۔ غلام اسحاق خان 20 جنوری 1915ء کو بنّوں کے علاقے اسماعیل خیل میں پیدا ہوئے۔پشاور سے کیمسٹری اور بوٹنی کے مضامین میں گریجویشن کے بعد 1940ء میں انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔

    1955ء میں غلام اسحاق خان مغربی پاکستان کے سکریٹری آب پاشی مقرّر ہوئے اور 61ء میں واپڈا کے سربراہ بنے۔ اس کے بعد انھیں سیکرٹری خزانہ مقرر کردیا گیا۔ غلام اسحاق خان نے گورنر اسٹیٹ بینک کے طور پر بھی فرائض انجام دیے اور اس کے بعد سکریٹری جنرل دفاع کا قلم دان انھیں سونپ دیا گیا۔ اس حیثیت میں انھوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی بھی نگرانی کی۔ وہ پالیسی امور پر ضیا الحق کے دور میں‌ بھی نمایاں‌ رہے اور بعد میں ملک کے صدر بنے۔

    وہ اپنے طویل سیاسی کیریر میں جوڑ توڑ، سازشوں کے ساتھ اہم اور حساس امور پر مشاورت میں حکم رانوں کے قریب رہے، لیکن بے نظیر بھٹو اور ان کے بعد نواز شریف کی حکومت سے ان کی نہ نبھ سکی۔

    غلام اسحاق خان صدارت چھوڑنے کے بعد پشاور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے۔